بابا کی تربیت آج بھی ہمارے کام آرہی ہے

معروف قوال، ابو محمد امریکا بھارت اور دیگر ممالک سمیت عرب ممالک...


Iqbal Khursheed July 23, 2012
معروف قوال کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹوں میں بھی گائیکی کا شوق منتقل ہوا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

گائیکی کے چوکھے رنگ سُروں کی ندی میں تیرتے ہوں، منچ جادوئی آواز کے حامل کلاکار نے سنبھال رکھا ہو، ایسے میں اہل محفل کی توجہ بھٹک جائے، اِس کا امکان ہی نہیں کہ ایسے سمپورن لمحے شاذ شاذ ہی میسر آتے ہیں!

اپنے فن پر بے پناہ گرفت اُن کی شناخت، اُن کا حوالہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اگر آج قوالی کا موضوع زیر بحث آئے، تو کلاسیکی گائیکی کے اسرار و رموز سے کماحقہ واقف، ابو محمد کا ذکر ہونا یقینی ہے، جو ''فرید ایاز ابو محمد قوال اینڈ برادرز'' کے پرچم تلے، اپنے بڑے بھائی ممتاز گائیک، فرید ایاز کے ہم راہ دنیا بھر میں اپنے فن کا جادو جگا چکے ہیں۔

پارٹی میں اُن کے چھوٹے بھائی غلام اکرم اور علی اکبر بھی شامل ہیں۔ اُن کے غیرملکی دوروں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زاید ہے۔ ہندوستان تو کثرت سے جانا ہوتا ہے۔ متعدد یورپی ممالک میں پرفارم کر چکے ہیں۔ امریکا کے کئی شہروں میں فن کا مظاہرہ کیا۔ عرب ممالک میں بھی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑے۔ گذشتہ تین برس سے مراکش باقاعدگی سے جانا ہورہا ہے۔

ابو محمد کے نزدیک قوال کے لیے کلاسیکی موسیقی کی جان کاری سودمند ہے۔ اُنھیں گائیکی کی مختلف اصناف مثلاً دھرپت، خیال، ترانہ، ٹھمری اور دادرا پر عبور حاصل ہے۔ پاکستان کی علاقائی زبانوں کے علاوہ وہ ہندی اور پوربی پر بھی گرفت رکھتے ہیں۔ فارسی اور عربی کی بھی شدبُد ہے۔ سامعین کو دیکھتے ہوئے، حسب ضرورت دیگر زبانوں کے ٹکڑے بھی بہ خوبی برت لیتے ہیں۔

اِس منفرد کلاکار کا تعارف اُن کے اجداد کے ذکر کی بنا ادھورا معلوم ہوتا ہے۔ اُن کا تعلق ساڑھے سات سو سالہ قدیم ''قوال بچوں کا گھرانا، دہلی'' سے ہے۔ اِس سلسلے کا آغاز صامت بن ابراہیم سے ہوا، جو حضرت نظام الدین اولیا کے مرید، امیر خسروؒ کے شاگرد تھے۔ اب سے دو سو برس قبل اِس گھرانے میں میرقطب بخش نامی ایک صاحب گزرے، جنھیں بہادر شاہ ظفر سے میر تان رس خاں کا خطاب ملا۔ ابو محمد کے دادا، عبدالعظیم خان کے بھائی عبدالکریم خان کو ہندوستان میں ''بابائے قوالی'' کہا جاتا تھا۔ اُن کے والد، منشی رضی الدین احمد منظور کو بہ طور قوال، کلاسیکی گائیک اور محقق برصغیر میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ وہ نظام آف حیدرآباد کے دربار سے بھی منسلک رہے۔

ابتداً منشی رضی الدین اپنی پارٹی چلاتے رہے، بعد میں ''بڑوں'' کے اصرار پر اُنھوں نے ''منظور احمد نیازی قوال پارٹی'' کی سربراہی سنبھال لی۔ 56ء میں وہ پاکستان آگئے۔ چند برس تو یہ پارٹی کام یابی سے چلتی رہی، لیکن پھر وقت نے اِسے تقسیم کر دیا۔

ابو محمد کی کہانی کا باقاعدہ آغاز 13 ستمبر 1962 کو ہوتا ہے، جب اُنھوں نے شومارکیٹ، کراچی میں آنکھ کھولی۔ گھر میں ہر طرف سُر بکھرے پڑے تھے، یہی موضوع تھا، یہی اوڑھنا بچھونا۔ والد، باپ کی حیثیت سے تو شفیق تھے، لیکن استاد کی حیثیت سے بہت سخت۔ ریاض کا طریق کچھ یوں تھا کہ منشی صاحب اُنھیں من چاہا وقت چُننے کی چھوٹ دے دیتے، اپنی سہولت سے جس وقت کا ابو محمد تعین کرتے، اُس کی منشی صاحب خود بھی پابندی کرتے، اُن سے بھی پابندی کرواتے۔ اور اگر کبھی غفلت کا مظاہرہ ہوتا، تو ڈنڈے سے خوب دُرگت بنتی۔ ''آج ہم بابا کو دعائیں دیتے ہیں۔ اُن کی سختی نے ہمیں اِس مقام پر پہنچا دیا، اُن کی تربیت آج بھی ہمارے کام آرہی ہے۔''

تین بہنوں، چار بھائیوں میں پانچویں ابو محمد شرارتی تو تھے، لیکن انھیں اپنی ذمے داریوں کا بھی احساس تھا۔ کھیلوں میں کرکٹ دل چسپی کا محور رہا۔ گوکہ خاندان کو معاشی مسائل درپیش تھے، لیکن والدین نے اُن کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ بڑے بھائی نے دو مضامین میں ماسٹرز کیا، اُن کی گنتی بھی اچھے طلبا میں ہوتی تھی۔ 76ء میں سائنس سے میٹرک کرنے کے بعد وہ آرٹس کی جانب آ گئے۔ 82ء میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔

اُنھیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں والدہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ''اُنھیں خواہش تھی کہ میری اولاد پڑھ لکھ کر اپنا نام پیدا کرے، جب کہ بابا کہا کرتے تھے کہ تعلیمی سلسلہ تو جاری رہے گا، مگر یہ کام (فن گائیکی) سیکھیں گے، تب ہی مستقبل میں اپنی شناخت بنا پائیں گے۔ آج میں بابا کی بات سے سو فی صد متفق ہوں، اِسی فن کی وجہ سے ہمیں یہ مقام ملا۔''
ابو محمد کے مطابق ''اعتماد'' بڑی چیز ہے کہ اسٹیج پر پرفارم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ بتاتے ہیں، والد کی تربیت نے اُن میں اعتماد پیدا کیا، دھیرے دھیرے وہ علاقے میں ہونے والی محافل میں پرفارم کرنے لگے۔ یاد ہے، پہلی بار معین نیازی کا مشہور آئٹم ''مدینے بلانا مجھے یا محمد'' پیش کیا تھا، اُس وقت عمر گیارہ برس تھی۔ تھوڑی پختگی آئی، تو بچوں کے ایک ٹولے کی سربراہی کرنے لگے۔ 74ء میں بڑے بھائی نے اپنی پارٹی ''فرید الدین ایاز بی اے'' کی بنیاد رکھی۔ شروع میں وہ پیچھے بیٹھ کر تالیاں بجایا کرتے تھے، لیکن پھر حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ وہ پارٹی کا حصہ بن گئے۔ سبب اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں،

''ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ پارٹی وہ بنائے، جس کے ساتھ اُس کے چار بھائی ہوں۔ دیگر لوگ تو آپ کے ساتھ تب ہی آئیں گے ناں، جب آپ کے پاس کام ہو۔ بھائی نے اکیلے پارٹی بنائی تھی۔ تو چند ماہ بعد لوگوں نے انھیں دھوکا دینا شروع کر دیا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ شام میں محفل تھی، اور اُن کے پاس نہ تو ڈھولک والا تھا، نہ ہی باجے والا۔ اُس روز بابا نے طے کیا کہ آیندہ ہر محفل میں ابومحمد باجے پر بیٹھے گا، اور علی اکبر طبلہ بجائے گا۔'' باجا سنبھالنے کے بعد پہلی محفل کراچی کے علاقے شیرشاہ میں پڑھی۔ اُس وقت لوگ کم سن قوال کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ اِسے نہ تو بجانا آتا ہے، نہ ہی بولنا جانتا ہے، لیکن اب پیچھے ہٹنے کا امکان نہیں تھا۔ پھر منشی صاحب جیسے استاد کی سرپرستی حاصل تھی، جو اُن کی تربیت پر یومیہ گھنٹوں صَرف کرتے تھے۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ فن میں نکھار آتا گیا۔

ابتدائی ایام خاصے کٹھن تھے۔ یاد ہے، برسات میں ٹین کی چھت ٹپکا کرتی تھی، وسائل کی قلت نے محدود کردیا تھا۔ قبولیت کے مراحل بھی طویل اور تلخ ثابت ہوئے، لیکن خوش ہیں کہ محنت رائیگاں نہیں گئی۔ ابو محمد کے مطابق آج فن قوالی سے بہ آسانی اتنی آمدن ہوجاتی ہے کہ اُنھیں کسی شے کی کمی محسوس نہیں ہوتی، اور اس کے لیے وہ اپنے رب کے ممنون ہیں۔ شناخت کے سفر کا باقاعدہ آغاز 76-77 میں ہوا، جب اُنھوں نے ربیع الاول کے تعلق سے پی ٹی وی کے لیے ایک طویل پروگرام ریکارڈ کروایا، جسے بہت پسند کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا، جب اُن کے فن نے ملک گیر توجہ حاصل کی۔ ریڈیو سے بھی اُن ہی برسوں میں تعلق قائم ہوا، جہاں ایک پروگرام کے 325 روپے ملا کرتے۔ ٹی وی کے ایک پروگرام سے بارہ سو روپے مل جاتے۔

کیا جدوجہد کے سفر میں ایسا موقع بھی آیا، جب مسائل کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے اِس فن سے دل اُوب گیا ہو؟ اِس سوال کا جواب وہ اثبات میں دیتے ہیں۔ اُن کے بہ قول، یہ اس زمانے کا ذکر ہے، جب معاشی مسائل نے پوری طرح گھیر رکھا تھا، اِسی باعث ''لائن'' تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ 83ء میں پارٹی نے ہندوستان کا رخ کیا، وہ اُن کا پہلا غیرملکی دورہ تھا۔ ہندوستان میں جہاں روایتی قوالی پیش کی، وہیں ممبئی کی مخصوص زبان میں فلمی طرز کی قوالوں کا ایک البم بھی (جنھیں وہ کسی طور قوالیاں نہیں مانتے) ریکارڈ کروایا۔ اِس کام کا اچھا معاوضہ ملا۔ والد صاحب کو اس ''کارنامے'' کا علم نہیں تھا۔ جب وہ ہندوستان سے لوٹے، اور یہ بات والد کی اطلاع میں آئی، تو خاصی ڈانٹ پڑی۔ ''اُنھوں نے ہمیں سمجھایا کہ یہ وقت ہمت سے گزار لو، آنے والا وقت تمھارا ہوگا۔ اور ایسا ہی ہوا!''

یوں تو تمام بزرگان دین کے مزارات پر اظہار عقیدت کر چکے ہیں، لیکن حضرت نظام الدین اولیا سے روحانی وابستگی ہے، اِس لیے ان کے دربار میں قوالی پیش کرتے سمے مسرت کا احساس گہرا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق کمرشل بنیادوں پر ہونے والی محفل قوالی اور محفل سماع میں بہت فرق ہے۔ ''محفل قوالی کا مقصد حاضرین کو معیاری تفریح فراہم کرنا ہوتا ہے، جب کہ محفل سماع کے اپنے آداب ہیں، اِس کے دوران خانقاہی طریق کی پیروی ضروری ہے۔''

یہ عام مشاہدہ ہے کہ قوال پارٹی ایک موقعے پر آکر بدلتے حالات اور اختلافات کے باعث بکھر جاتی ہے، تاہم ابو محمد کو یقین ہے کہ ''فرید ایاز، ابو محمد قوال اینڈ برادرز'' کے معاملے میں ایسا موقع نہیں آئے گا کہ فرید ایاز حقیقی معنوں میں بڑے بھائی کا کردار نبھا رہے ہیں۔ ''میرے بھائی بھی میرے استاد ہی ہیں۔ والد صاحب کہا کرتے تھے، جس کسی سے تمھیں کچھ ملے، وہ تمھارا استاد ہے۔ میری اصل تعلیم تو والد ہی نے کی، لیکن اُنھوں نے میرے ہاتھ پر اپنے شاگرد اور میرے بہنوئی، نظام الدین قوال سے بھی گنڈا بندھوایا!''

اُنھیں قوالی کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ ''اگر قوال برادری نے اپنے فن سے انصاف کیا، تو یہ ہر صورت باقی رہے گا!'' وہ حقیقی قوال کو صوفی ازم کا علم بردار تصور کرتے ہیں۔

کبھی کبھار ''سولو'' بھی پرفارم کرتے ہیں۔ ''علیحدہ پرفارم کرنے کا شوق نہیں ہے، نہ ہی ضرورت ہے، لیکن اپنے دوست، وقار علی کے کہنے پر کبھی کبھی 'سولو' بھی پرفارم کرتا ہوں!'' کلاسیکی موسیقی کے تعلق سے کہتے ہیں،''قوالی اور کلاسیکی موسیقی لازم و ملزوم ہیں، ایک دوسرے کی بنیاد ہیں۔ ساڑھے سات سو قبل جب قوالی وجود میں آئی، اُس وقت قوالی کے آئٹمز وہی تھے، جنھیں آج کلاسیکی گائیکی کے آئٹمز کہا جاتا ہے۔'' اس خیال سے متفق نہیں کہ گھرانے اپنا فن نہیں سکھاتے۔ ''اگر کوئی خواہش مند رابطہ کرتا ہے، تو اس کی راہ نمائی کی جاتی ہے۔''

خوش گوار لمحات کھوجتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن کے والد اعزازات سے بے پروا ایک درویش صفت آدمی تھے، تاہم ایک بیٹے کی حیثیت سے اُن کے دل میں یہ خواہش تھی کہ والد کو اُن کا حقیقی مقام ملنا چاہیے۔ اِس ضمن چاروں بھائیوں نے جو تھوڑی بہت کوشش کی، وہ نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ جب منشی صاحب کو، دیر ہی سے سہی، صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا، تب وہ مسرت کے گہرے تجربے سے گزرے۔ جب فرید ایاز صاحب کو صدارتی ایوارڈ ملا، تب بھی ابو محمد نے بہت خوشی محسوس کی۔

عام طور سے وہ شلوار کرتے میں نظر آتے ہیں۔ دال چاول پسندیدہ ڈش ہے۔ فن قوالی کے میدان میں وہ صابری برادرز کے کام کو سراہتے ہیں۔ ''نصرت فتح علی خان بھی پسند ہیں، لیکن قوالی کا جو انگ صابری برادرز کا تھا، وہ منفرد تھا!'' عزیز میاں کی طرز گائیکی کو قوالی کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں پاتے۔ ہم عصروں میں شیر علی مہر علی قوال کی ''دھنوں'' کو سراہتے ہیں، ''بیراں والے قوال'' کا کام بھی پسند آیا۔ مہدی حسن کے بھی مداح ہیں۔ فلموں میں ''میرے محبوب'' اور ''سُرسنگم'' اچھی لگیں۔ وجینتی مالا اور محمد علی کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ سراج اورنگ آبادی اور شاہ نیاز احمد کا کلام پسند ہے۔ 90ء میں شادی ہوئی۔

دا نے تین بیٹوں، دو بیٹیوں سے نوازا۔ بیٹوں میں بھی گائیکی کا شوق منتقل ہوا۔ کہنا ہے، گھرانے کی نئی نسل کو ماضی کے برعکس خاصی سہولیات میسر ہیں، زمین تیار ہے، تاہم اُنھیں اپنے طرز زندگی کا خود چنائو کرنا ہے۔ اُن کے مطابق پاکستان میں کبھی کلاسیکی گائیکی کی سرپرستی نہیں کی گئی، لیکن جو لوگ اِس فن سے محبت کرتے ہیں، اُنھیں کسی سرپرستی کی ضرورت نہیں، اور وہ کل کی طرح آج بھی کام کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں