’’ گجرات کا اسدی‘‘
’آج صبح سویرے وہ اس شہر میں موسمی پرندے کے مانند وارد ہوا تھا
ISLAMABAD:
'آج صبح سویرے وہ اس شہر میں موسمی پرندے کے مانند وارد ہوا تھا ، اس نے ہاتھ اٹھا کردو انگلیوں سے ہولے ہولے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا، ایک بار،دوبار، تین بار۔اس کا بیٹا حیرانی سے اونچے مکانوںکو دیکھ رہا تھا۔ کسی نے اوپرکی منزل کی کھڑکی کھولی۔ ' کون ہے؟' ایک لڑکی نے پوچھا۔ 'ماموںجاں!'اجنبیت اورمانوسیت کاملا جلا احساس جولمبی جلاوطنی کے بعدگھرآنے والوں کو ہوتا ہے۔ اس نے سراٹھاکردیکھا۔ زینے کے اوپراس کی بہن چوکھٹ کا سہارا لیے کھڑی تھی۔'
یہ عبداللہ حسین کی کہانی''دھوپ''کے مرکزی کردار 'آفتاب' کی ایک طویل عرصے بعداپنے آبائی شہر،اپنے آبائی گھر واپسی کی منظر کشی ہے۔ یہ کہانی ان کہانیوں میں سے ہے،جو ان کے شہرہ آفاق ناول'اداس نسلیں' کی اشاعت سے بھی پہلے ادبی جریدے 'سویرا' میں شایع ہوئی تھی۔ میںجب بھی ان کی یہ کہانی پڑھتا ہوں، میرے ذہن میں اندرون گجرات شہر ان کی گلی اوراس سے متصل مسلم بازار کی گہما گہمی گھوم جاتے ہیں ۔
ان کے ناول 'باگھ' کے مرکزی کردار'اسدکریم (اسدی)کی کہانی پڑھ کر بھی یہی تاثر ابھرتا ہوتا ہے کہ آپ اسدی، جس میں عبداللہ حسین کے بچپن اورجوانی کے مشاہدات کی جھلک بڑی نمایاں ہے،کے ساتھ گجرات اوراس کے آس پاس پھر رہے ہیں۔عبداللہ حسین برسوں پہلے گجرات چھوڑ کر انگلستان چلے گئے تھے ،لیکن گجرات اوراس کی گلیاںان کی یادوں سے محو نہیں ہوسکی تھیں۔ زندگی کے آخری برسوں میں بھی، جب وہ ڈی ایچ اے لاہورمیں رہ رہے تھے، وہ باقاعدگی سے گجرات جاتے تھے،اوراس کی گلیوں میں بے تابانہ پھرتے نظر آتے تھے ۔ان کا قیام اپنے بچپن کے دوست فخرزمان کے آبائی گھر میں ہوتا تھا، جوعبداللہ حسین کے آبائی محلہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔
چند دن پہلے برادر مکرم زاہد مسعود نے ڈاکٹر شاہین مفتی کے تنقیدی مضامین پرمشتمل کتاب'بک شیلف' پڑھنے کے لیے دی۔ میں نے عرض کی کہ محمد حسن عسکری اورسلیم احمد کی تخلیقی تنقید پڑھنے کے بعد کسی اور کی تنقید پڑھنا میرے لیے ہمیشہ بڑا مشکل ثابت ہوا ہے۔کہنے لگے، لیکن یہ تنقیدی مضامین پڑھنا مشکل نہیں ہو گاکہ بڑے ڈوب کر لکھے گئے ہیں، خاص طورپر 'گجرات کااسدی' جو عبداللہ حسین کے بارے میں ہے۔میں نے کتاب رکھ تو لی، لیکن پڑھنے کی نوبت پھر بھی نہ آ سکی۔آج جب میںیہ سطورلکھ رہاہوں، تب بھی کوئی ارادہ نہیں تھا ، لیکن لکھنے کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ کھڑی کھلی ہونے کے باوجود یکایک کمرے میں گھپ اندھیراچھا گیا۔باہردیکھاساون کی کالی گھٹائیں امڈتی چلی آ رہی تھیں ۔پھردیکھتے ہی دیکھتے ایسی زوروں کی جھڑی لگی کہ ذہن میں جس کالم کا تانا بانا بنا تھا، وہ بکھر گیا۔
میں نے سیاسی کالم لکھنے کا ارادہ ترک کردیا اور 'بک شیلف' کی ورق گردانی کرنے لگا، جو اس وقت اتفاق سے سامنے ہی پڑی تھی۔ڈاکٹر شاہین مفتی کا نام میرے لیے اجنبی نہیں، لیکن ان کے تنقیدی مضامین پڑھنے کااتفاق نہیں ہوا تھا۔'گجرات کا اسدی' میرے ذہن میں زاہد مسعود کے کہے الفاظ گونجے ۔ میں نے دیکھا تو ڈاکٹر شاہین مفتی کا پہلا تنقیدی مضمون وہی تھا۔ عبداللہ حسین پران کی زندگی میں بھی لکھا گیا،اوران کی موت کے بعد بھی بہت کچھ لکھا جا رہا ہے،لیکن یہ کہنا غلط نہیںہوگاکہ ' گجرات کا اسدی' میںجوکچھ لکھاگیاہے ، وہ اوریجنل بھی ہے اوراسے بجا طورپرعبداللہ حسین کوبطورایک فردکے اوربطورایک کہانی کار کے،ازسرنو دریافت کی عمل بھی کہا جا سکتا ہے ۔
عبداللہ حسین کی جذباتی زندگی کے گجراتی پہلوپر ڈاکٹر شاہین مفتی نے جس تخلیقی پیرائے میں لکھا ہے ،اس کے بعداس موضوع پرمزیدکچھ لکھنے کی گنجایش بہت کم رہ گئی ہے۔ گجرات میںان کی گلی،ان کے مکان اوران کی 'پر اسرارموجودگی' کی ایسی طلسماتی تصویرانھوں نے کھینچی ہے کہ بجائے خودکہانی معلوم ہوتی ہے ۔لکھتی ہیں،آج ہی میں شہر کی اس پرانی گلی سے گزری ہوں۔گلی کا منظر بدل چکا ہے۔آج عافیت کوش مکانوں کا یہ چھوٹاسااحاطہ پرانے کپڑوں،رنگ برنگے جوتوںاورمنافقت کے بوجھ تلے دبے ہوئے خریداروںکے ساتھ ایک بازاری قسم کی شناسائی پیداکر رہاہے ۔لیکن کبھی یہاں سویاں بٹنے والے چھوٹی چھوٹی دستی مشینوں سے میدے اورسوجی کے لچھے نکال کر سکھایاکرتے تھے۔کوئی رنگسازبدرنگے ڈوپٹوں میںلہریے ڈالتانظرآتا تھا۔ ایک کم آباد سی قریبی مسجد کے پچھواڑے سے بچوںکے اموختے کی اٹھتی ہوئی بھنبھناہٹ بڑی پر اسرارلگتی تھی۔
اس مخصوص احاطے میں، جہاں غریب باپ اور سوتیلی ماںکے جبر سے تھکی ہوئی سنڈریلاآج اپنے پیروںکے لیے جوتے اور چھوٹے بھائی کا تن ڈھانپنے کے لیے گرم کپڑے ڈھونڈتی پھرتی ہے،کبھی ایک راشن ڈپو ہواکرتا تھا۔چینی،چاول اور لال رنگ کے آٹے کی قسط وارعنایت پرخلق خدا 'صدر ایوب زندہ باد' کے نعرے لگاتی راشن وصول کرنے والوں کی قطاردبی آوازمیں بولتی اورمیزان کے قریب ڈرڈرکرکھسکتی جاتی تھی۔اس سے ذرا ہٹ کرسیمنٹ کے قدرے بڑے ہوئے کشادہ تھڑے کے کسی کنارے پرچند من چلے ململ کی قمیصیںپہنے تاش کی پھڑسجاتے اوران سے ذرافاصلے پر ایک شخص دھوتی پرآدھے بازووں والی بشرٹ پہنے آرام کرسی پربیٹھانظرآ تاتھا۔اس کے سامنے ہمیشہ میزپوش سے ڈھکاایک گول میز ہوتا تھا۔
اس شخص کی نشست کچھ ایسی تھی کہ اس کاصرف آدھا چہرہ گلی سے گزرنے والوں کو نظر آتا تھا۔لٹکی ہوئی مونچھوں کے نیچے دبے ہوئے پائپ، نیم مستطیل سنہری فریم والے شخص کے استخوانی ہاتھ اخبار کو اس قدرسختی سے پکڑے ہوتے کہ کاغذکو پھڑ پھڑانے کی بھی اجازت نہ تھی۔کبھی کبھی یہی شخص لمبی دھاریوں والے نائٹ سوٹ اور ہوائی چپلوں سمیت ایک مکان کے لمبوترے لکڑی کے دروازے سے اچانک نمودار ہوکرگلی میں غائب ہو جاتا تھا اوراس کے پیچھے اوپرکی طر ف جاتی سیڑھیاںاس طرح نظر آتیں،جیسے کوئی آسمان سے اتر رہا ہے۔
ایک دومرتبہ میں نے ا س طویل القامت شخص کو چیسٹریابرساتی میں بھی دیکھا ہے۔اس کے باریک بال اس کی سنہری گردن سے چپکے ہوئے تھے،جیسے کنگھی کے عمل سے گزرے انھیں صدیاں بیت گئی ہوں ۔اپنی ہی گلی میںاجنبیت کامستقل رول اداکرنے والا یہ شخص برف کی ڈلی کی طرح پگھل کرکبھی اپنے اردگرد کے منظر نامے کاحصہ نہ بن سکا،لیکن اس کا آدھا چہرہ میری یاد کے البم میں آج بھی موجود ہے۔1971ء میں ایک باراسی گلی سے گزرتے ہوئے میری ایک سہیلی نے کہا، تمہیں معلوم ہے،یہ عبداللہ حسین کی گلی ہے، وہی 'اداس نسلیں' والا عبداللہ حسین، جس کی شکل برنارڈ شاہ سے ملتی ہے پھر وہ زورسے ہنسی۔گلی ختم ہو چکی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ 'نعیم' کے روشن پورکی رینگتی گلیوں اور بھونکتے کتوں کی آوازوں میں کہیں نہ کہیں میرے شہر کی کہانی چھپی ہے۔'
عبداللہ حسین بہت سال پہلے زمیندارکالج سے بی ایس سی کرکے گجرات سے نکلے اورمختلف سیمنٹ فیکٹریوں میں قریب قریب پندرہ سال کی مشقت کرنے کے بعد بسلسلہ روزگار ہی انگلستان سدھار گئے اورپھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ کچھ عرصہ بعد خاندانی جائیدادکی تقسیم کے لیے چند ہفتوں کے لیے گجرات واپس آئے اوردوبارہ چلے گئے ۔اس وقت ان کی عمرچھتیس برس تھی۔ حیرت انگیز طور پریہ وہی عمر ہے، جوان کی کہانی'دھوپ' کے مرکزی کردار 'آفتاب' کی ہے، اوریہ وہی زمانہ ہے ،جب وہ ایک لمبے عرصے کے بعدکچھ دنوں کے لیے اپنے آبائی شہر لوٹتاہے، جہاں کسی پرانی گلی کے ایک خستہ مکان کے زینے کے اوپراس کی بیوہ بہن چوکھٹ کا سہارا لیے کھڑی ہے۔
'یوں محسوس ہوتا ہے کہ گلی کی اونچی نیچی سرخ اینٹوں سے گزرکرآفتاب اوراس کا نوسالہ بیٹا وہی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں، جن کے باہرفضا میں معلق لکڑی کا لمبوترادروازہ موجود ہے،جوآج بھی شاہین مفتی کی یاد میں محفوظ ہے اورباہر بقول عبداللہ حسین بارش شراٹے سے ہو رہی تھی اوردن گھٹتاجارہا تھا۔آفتاب کے اندرکوئی شے بڑی نازک مگر قدیم اور زوردارٹوٹ کرآزاد ہو چکی تھی اورلہوکی گردش تیز ہو رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے یہ سطورلکھنا شروع کی تھیں تو باہرساون کی جھڑی لگی تھی، جواب تھم چکی ہے، مگر'گجرات کا اسدی' پڑھ کرجو جھڑی دل کے اندر لگی ہے، وہ اب بھی چھما چھم برس رہی ہے کہ زندگی کے ابتدائی سہانے زمانے عبداللہ حسین اور شاہین مفتی کی انھی گلیوں میں بیتے ہیں ۔اشفاق احمد کہتے تھے کہ کبھی کبھی بارش باہر تو رک جاتی ہے ، لیکن اندر ہوتی رہتی ہے ۔ایک بہت پرانے گانے کے بول یاد آ رہے ہیں،
لگی آج ساون کی پھر وہ جھڑی ہے
دبی آگ سینے میں پھر جل پڑی ہے
'آج صبح سویرے وہ اس شہر میں موسمی پرندے کے مانند وارد ہوا تھا ، اس نے ہاتھ اٹھا کردو انگلیوں سے ہولے ہولے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا، ایک بار،دوبار، تین بار۔اس کا بیٹا حیرانی سے اونچے مکانوںکو دیکھ رہا تھا۔ کسی نے اوپرکی منزل کی کھڑکی کھولی۔ ' کون ہے؟' ایک لڑکی نے پوچھا۔ 'ماموںجاں!'اجنبیت اورمانوسیت کاملا جلا احساس جولمبی جلاوطنی کے بعدگھرآنے والوں کو ہوتا ہے۔ اس نے سراٹھاکردیکھا۔ زینے کے اوپراس کی بہن چوکھٹ کا سہارا لیے کھڑی تھی۔'
یہ عبداللہ حسین کی کہانی''دھوپ''کے مرکزی کردار 'آفتاب' کی ایک طویل عرصے بعداپنے آبائی شہر،اپنے آبائی گھر واپسی کی منظر کشی ہے۔ یہ کہانی ان کہانیوں میں سے ہے،جو ان کے شہرہ آفاق ناول'اداس نسلیں' کی اشاعت سے بھی پہلے ادبی جریدے 'سویرا' میں شایع ہوئی تھی۔ میںجب بھی ان کی یہ کہانی پڑھتا ہوں، میرے ذہن میں اندرون گجرات شہر ان کی گلی اوراس سے متصل مسلم بازار کی گہما گہمی گھوم جاتے ہیں ۔
ان کے ناول 'باگھ' کے مرکزی کردار'اسدکریم (اسدی)کی کہانی پڑھ کر بھی یہی تاثر ابھرتا ہوتا ہے کہ آپ اسدی، جس میں عبداللہ حسین کے بچپن اورجوانی کے مشاہدات کی جھلک بڑی نمایاں ہے،کے ساتھ گجرات اوراس کے آس پاس پھر رہے ہیں۔عبداللہ حسین برسوں پہلے گجرات چھوڑ کر انگلستان چلے گئے تھے ،لیکن گجرات اوراس کی گلیاںان کی یادوں سے محو نہیں ہوسکی تھیں۔ زندگی کے آخری برسوں میں بھی، جب وہ ڈی ایچ اے لاہورمیں رہ رہے تھے، وہ باقاعدگی سے گجرات جاتے تھے،اوراس کی گلیوں میں بے تابانہ پھرتے نظر آتے تھے ۔ان کا قیام اپنے بچپن کے دوست فخرزمان کے آبائی گھر میں ہوتا تھا، جوعبداللہ حسین کے آبائی محلہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔
چند دن پہلے برادر مکرم زاہد مسعود نے ڈاکٹر شاہین مفتی کے تنقیدی مضامین پرمشتمل کتاب'بک شیلف' پڑھنے کے لیے دی۔ میں نے عرض کی کہ محمد حسن عسکری اورسلیم احمد کی تخلیقی تنقید پڑھنے کے بعد کسی اور کی تنقید پڑھنا میرے لیے ہمیشہ بڑا مشکل ثابت ہوا ہے۔کہنے لگے، لیکن یہ تنقیدی مضامین پڑھنا مشکل نہیں ہو گاکہ بڑے ڈوب کر لکھے گئے ہیں، خاص طورپر 'گجرات کااسدی' جو عبداللہ حسین کے بارے میں ہے۔میں نے کتاب رکھ تو لی، لیکن پڑھنے کی نوبت پھر بھی نہ آ سکی۔آج جب میںیہ سطورلکھ رہاہوں، تب بھی کوئی ارادہ نہیں تھا ، لیکن لکھنے کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ کھڑی کھلی ہونے کے باوجود یکایک کمرے میں گھپ اندھیراچھا گیا۔باہردیکھاساون کی کالی گھٹائیں امڈتی چلی آ رہی تھیں ۔پھردیکھتے ہی دیکھتے ایسی زوروں کی جھڑی لگی کہ ذہن میں جس کالم کا تانا بانا بنا تھا، وہ بکھر گیا۔
میں نے سیاسی کالم لکھنے کا ارادہ ترک کردیا اور 'بک شیلف' کی ورق گردانی کرنے لگا، جو اس وقت اتفاق سے سامنے ہی پڑی تھی۔ڈاکٹر شاہین مفتی کا نام میرے لیے اجنبی نہیں، لیکن ان کے تنقیدی مضامین پڑھنے کااتفاق نہیں ہوا تھا۔'گجرات کا اسدی' میرے ذہن میں زاہد مسعود کے کہے الفاظ گونجے ۔ میں نے دیکھا تو ڈاکٹر شاہین مفتی کا پہلا تنقیدی مضمون وہی تھا۔ عبداللہ حسین پران کی زندگی میں بھی لکھا گیا،اوران کی موت کے بعد بھی بہت کچھ لکھا جا رہا ہے،لیکن یہ کہنا غلط نہیںہوگاکہ ' گجرات کا اسدی' میںجوکچھ لکھاگیاہے ، وہ اوریجنل بھی ہے اوراسے بجا طورپرعبداللہ حسین کوبطورایک فردکے اوربطورایک کہانی کار کے،ازسرنو دریافت کی عمل بھی کہا جا سکتا ہے ۔
عبداللہ حسین کی جذباتی زندگی کے گجراتی پہلوپر ڈاکٹر شاہین مفتی نے جس تخلیقی پیرائے میں لکھا ہے ،اس کے بعداس موضوع پرمزیدکچھ لکھنے کی گنجایش بہت کم رہ گئی ہے۔ گجرات میںان کی گلی،ان کے مکان اوران کی 'پر اسرارموجودگی' کی ایسی طلسماتی تصویرانھوں نے کھینچی ہے کہ بجائے خودکہانی معلوم ہوتی ہے ۔لکھتی ہیں،آج ہی میں شہر کی اس پرانی گلی سے گزری ہوں۔گلی کا منظر بدل چکا ہے۔آج عافیت کوش مکانوں کا یہ چھوٹاسااحاطہ پرانے کپڑوں،رنگ برنگے جوتوںاورمنافقت کے بوجھ تلے دبے ہوئے خریداروںکے ساتھ ایک بازاری قسم کی شناسائی پیداکر رہاہے ۔لیکن کبھی یہاں سویاں بٹنے والے چھوٹی چھوٹی دستی مشینوں سے میدے اورسوجی کے لچھے نکال کر سکھایاکرتے تھے۔کوئی رنگسازبدرنگے ڈوپٹوں میںلہریے ڈالتانظرآتا تھا۔ ایک کم آباد سی قریبی مسجد کے پچھواڑے سے بچوںکے اموختے کی اٹھتی ہوئی بھنبھناہٹ بڑی پر اسرارلگتی تھی۔
اس مخصوص احاطے میں، جہاں غریب باپ اور سوتیلی ماںکے جبر سے تھکی ہوئی سنڈریلاآج اپنے پیروںکے لیے جوتے اور چھوٹے بھائی کا تن ڈھانپنے کے لیے گرم کپڑے ڈھونڈتی پھرتی ہے،کبھی ایک راشن ڈپو ہواکرتا تھا۔چینی،چاول اور لال رنگ کے آٹے کی قسط وارعنایت پرخلق خدا 'صدر ایوب زندہ باد' کے نعرے لگاتی راشن وصول کرنے والوں کی قطاردبی آوازمیں بولتی اورمیزان کے قریب ڈرڈرکرکھسکتی جاتی تھی۔اس سے ذرا ہٹ کرسیمنٹ کے قدرے بڑے ہوئے کشادہ تھڑے کے کسی کنارے پرچند من چلے ململ کی قمیصیںپہنے تاش کی پھڑسجاتے اوران سے ذرافاصلے پر ایک شخص دھوتی پرآدھے بازووں والی بشرٹ پہنے آرام کرسی پربیٹھانظرآ تاتھا۔اس کے سامنے ہمیشہ میزپوش سے ڈھکاایک گول میز ہوتا تھا۔
اس شخص کی نشست کچھ ایسی تھی کہ اس کاصرف آدھا چہرہ گلی سے گزرنے والوں کو نظر آتا تھا۔لٹکی ہوئی مونچھوں کے نیچے دبے ہوئے پائپ، نیم مستطیل سنہری فریم والے شخص کے استخوانی ہاتھ اخبار کو اس قدرسختی سے پکڑے ہوتے کہ کاغذکو پھڑ پھڑانے کی بھی اجازت نہ تھی۔کبھی کبھی یہی شخص لمبی دھاریوں والے نائٹ سوٹ اور ہوائی چپلوں سمیت ایک مکان کے لمبوترے لکڑی کے دروازے سے اچانک نمودار ہوکرگلی میں غائب ہو جاتا تھا اوراس کے پیچھے اوپرکی طر ف جاتی سیڑھیاںاس طرح نظر آتیں،جیسے کوئی آسمان سے اتر رہا ہے۔
ایک دومرتبہ میں نے ا س طویل القامت شخص کو چیسٹریابرساتی میں بھی دیکھا ہے۔اس کے باریک بال اس کی سنہری گردن سے چپکے ہوئے تھے،جیسے کنگھی کے عمل سے گزرے انھیں صدیاں بیت گئی ہوں ۔اپنی ہی گلی میںاجنبیت کامستقل رول اداکرنے والا یہ شخص برف کی ڈلی کی طرح پگھل کرکبھی اپنے اردگرد کے منظر نامے کاحصہ نہ بن سکا،لیکن اس کا آدھا چہرہ میری یاد کے البم میں آج بھی موجود ہے۔1971ء میں ایک باراسی گلی سے گزرتے ہوئے میری ایک سہیلی نے کہا، تمہیں معلوم ہے،یہ عبداللہ حسین کی گلی ہے، وہی 'اداس نسلیں' والا عبداللہ حسین، جس کی شکل برنارڈ شاہ سے ملتی ہے پھر وہ زورسے ہنسی۔گلی ختم ہو چکی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ 'نعیم' کے روشن پورکی رینگتی گلیوں اور بھونکتے کتوں کی آوازوں میں کہیں نہ کہیں میرے شہر کی کہانی چھپی ہے۔'
عبداللہ حسین بہت سال پہلے زمیندارکالج سے بی ایس سی کرکے گجرات سے نکلے اورمختلف سیمنٹ فیکٹریوں میں قریب قریب پندرہ سال کی مشقت کرنے کے بعد بسلسلہ روزگار ہی انگلستان سدھار گئے اورپھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ کچھ عرصہ بعد خاندانی جائیدادکی تقسیم کے لیے چند ہفتوں کے لیے گجرات واپس آئے اوردوبارہ چلے گئے ۔اس وقت ان کی عمرچھتیس برس تھی۔ حیرت انگیز طور پریہ وہی عمر ہے، جوان کی کہانی'دھوپ' کے مرکزی کردار 'آفتاب' کی ہے، اوریہ وہی زمانہ ہے ،جب وہ ایک لمبے عرصے کے بعدکچھ دنوں کے لیے اپنے آبائی شہر لوٹتاہے، جہاں کسی پرانی گلی کے ایک خستہ مکان کے زینے کے اوپراس کی بیوہ بہن چوکھٹ کا سہارا لیے کھڑی ہے۔
'یوں محسوس ہوتا ہے کہ گلی کی اونچی نیچی سرخ اینٹوں سے گزرکرآفتاب اوراس کا نوسالہ بیٹا وہی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں، جن کے باہرفضا میں معلق لکڑی کا لمبوترادروازہ موجود ہے،جوآج بھی شاہین مفتی کی یاد میں محفوظ ہے اورباہر بقول عبداللہ حسین بارش شراٹے سے ہو رہی تھی اوردن گھٹتاجارہا تھا۔آفتاب کے اندرکوئی شے بڑی نازک مگر قدیم اور زوردارٹوٹ کرآزاد ہو چکی تھی اورلہوکی گردش تیز ہو رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے یہ سطورلکھنا شروع کی تھیں تو باہرساون کی جھڑی لگی تھی، جواب تھم چکی ہے، مگر'گجرات کا اسدی' پڑھ کرجو جھڑی دل کے اندر لگی ہے، وہ اب بھی چھما چھم برس رہی ہے کہ زندگی کے ابتدائی سہانے زمانے عبداللہ حسین اور شاہین مفتی کی انھی گلیوں میں بیتے ہیں ۔اشفاق احمد کہتے تھے کہ کبھی کبھی بارش باہر تو رک جاتی ہے ، لیکن اندر ہوتی رہتی ہے ۔ایک بہت پرانے گانے کے بول یاد آ رہے ہیں،
لگی آج ساون کی پھر وہ جھڑی ہے
دبی آگ سینے میں پھر جل پڑی ہے