پش اپس سے توبہ

ہمارے حکمرانوں کی طرح قومی کرکٹ ٹیم کو بھی لندن راس آ گیا ہے۔

ayazkhan@express.com.pk

ہمارے حکمرانوں کی طرح قومی کرکٹ ٹیم کو بھی لندن راس آ گیا ہے۔ لندن کے لارڈز اسٹیڈیم میں پہلا ٹیسٹ میچ جیتنے والی ٹیم مانچسٹر اور برمنگھم میں کھیلے جانے والے دونوں ٹیسٹ میچ ہار گئی تھی۔ سیریز کا چوتھا اور آخری میچ پھر لندن میں تھا مگر اس بار مقام اوول گراؤنڈ تھا جس میں ایک بار مرحوم فضل محمود بھی ہیرو قرار پائے تھے۔ پاکستان نے یہ ٹیسٹ 10وکٹوں سے جیت کر سیریز برابر کر دی۔ یونس خان کی ڈبل سنچری اور دوسری اننگز میں یاسر شاہ کی 5وکٹوں نے اس جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اسد شفیق کی سنچری بھی نہیں بھولنی چاہیے۔

یونس خان نے اس ڈبل سنچری کے ساتھ گریٹ بیٹسمین جاوید میانداد کا ملک کی طرف سے سب سے زیادہ 6ڈبل سنچریاں بنانے کا ریکارڈ بھی برابر کر دیا۔ یونس خان نے 32 ٹیسٹ سنچریاں بنا کر آسٹریلیا کے سابق کپتان سٹیو وا کا ریکارڈ بھی برابر کر دیا ہے اور سب سے زیادہ ٹیسٹ سنچریاں بنانے والے بیٹسمینوں کی فہرست میں 8ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ اس فہرست میںسچن ٹنڈولکر 51سنچریوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں، ان کی ون ڈے میں 49 سنچریاں شامل کر لی جائیں تو انھوں نے سنچریوں کی سنچری بنانے کا منفرد اعزاز بھی حاصل کر رکھا ہے۔

لارڈز اور اوول کے درمیان دو اور ٹیسٹ میچ بھی تھے۔ وہ دونوں ٹیسٹ ہم بھاری مارجن سے ہار گئے تھے۔ اصولاً ہمیں تیسرا ٹیسٹ ضرور بچا لینا چاہیے تھا مگر ٹیم ایک بار دباؤ میں آ گئی تو پھر نکل ہی نہیں سکی۔ دوسرے ٹیسٹ میں تو 100 رنز سے زاید کی لیڈ لے کر بھی ہماری ٹیم ہار گئی تھی۔ خیر ہار جیت کھیل کا حصہ ہے قومی ٹیم جسے ہوم گراؤنڈز پر انٹر نیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع میسر نہیں اس کا انگلینڈ کی ہوم گراؤنڈز پر سیریز برابر کرنا بھی بڑی بات ہے۔ ہماری ٹیم دونوں ٹیسٹ لندن میں جیتی مگر لارڈز اور اوول کی جیت کے بعد ایک فرق نمایاں محسوس کیا گیا۔

لارڈز میں جیتنے کے بعد کھلاڑی میدان کے ایک کونے میں جمع ہوئے۔ یونس خان نے انسٹرکٹر کا رول سنبھالا اور پھر پوری دنیا نے پاکستان ٹیم کو جیت کا جشن ایک منفرد انداز میں مناتے ہوئے دیکھا۔ کھلاڑیوں نے پش اپس لگائے، فوجیوں کی طرح مارچ کیا اور سلیوٹ کرتے بھی دیکھے گئے۔ لارڈز کے میدان اور دنیا کے مختلف ٹی وی چینلز کے سامنے بیٹھے ہوئے کروڑوں تماشائیوں نے یہ منظر بڑی دلچسپی سے دیکھا۔ یہ جیت کے جشن کا ایک منفرد انداز تھا۔ ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کے انداز سے لطف اندوز ہونے والے شائقین خوش تھے کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے بھی کچھ ایسا کیا ہے جس سے وہ محظوظ ہو سکیں۔ اگلے دو ٹیسٹ ہم ہار گئے مگر پش اپس کا سلسلہ رکا نہیں۔ سہیل خان نے ایجبسٹن ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 5وکٹیں لینے کے بعد یہ اندازاپنایا۔ اظہر علی نے بھی اسی ٹیسٹ میں سنچری بنانے کے بعد پش اپس کا زبردست مظاہرہ کیا۔ پش اپس، فوجی مارچ اور سلیوٹ کا یہ کلچر کچھ لوگوں کو البتہ ناگوار گزرا تھا۔

پہلا ٹیسٹ قومی ٹیم جیت گئی تو آرمی چیف راحیل شریف نے کپتان مصباح الحق کو ٹیلی فون پر مبارکباد بھی دے ڈالی۔ پش اپس، مارچ، سلیوٹ اور پھر آرمی چیف کا فون۔ ان ایکشنز سے روایتی اور سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ بحث کا ایک رخ یہ تھا کہ قومی کرکٹ ٹیم پر بھی فوج نے قبضہ کر لیا ہے۔ بعض جمہوریت پسندوں کو جمہوریت بھی خطرے میں لگنے لگی۔ دوسری طرف کے لوگ یہ تاثر دینے میں مصروف ہو گئے کہ اس جیت میں فوج کا کردار ہے۔ اس موضوع پر اتنا کچھ کہا گیا کہ حقائق پراپیگنڈہ کے پیچھے چھپ گئے۔


مجھے یاد ہے لارڈز ٹیسٹ کی جیت کے بعد نجم سیٹھی بھی اپنے کھلاڑیوں کی ان ''حرکتوں'' پر کافی دکھی دکھائی دے رہے تھے۔ انھیں آرمی چیف کے فون پر بھی خاصی تشویش تھی۔ اوول ٹیسٹ میں جیت کے بعد پاکستانی کھلاڑی جب گراؤنڈ میں چکر لگا رہے تھے تو وہاں موجود ایک پاکستانی شائق نے کتبہ اٹھا رکھا تھا جس پر پش اپس کے مطالبے پر مبنی تحریر درج تھی۔کھلاڑیوں نے قریب سے گذرتے ہوئے اس مطالبے کو دیکھا، مسکرائے اور گذر گئے۔کھلاڑی ایک بار پھر میدان کے ایک کونے میں جمع ہوئے۔

غالباً ان کے مابین اس ایشو پر گفتگو بھی ہوئی مگر اس بار انھوں نے کوئی ایسی ''حرکت'' نہیں کی جس سے جمہوریت خطرے میں پڑتی یا ان کے ''بڑوں'' کو اس سے کوئی تکلیف پہنچتی۔ غالب امکان یہی ہے کہ کرکٹرز کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے جمہوریت کو کسی قسم کا خطرہ درپیش ہو۔ کھلاڑیوں نے اچھے بچوں کی طرح سر جھکا دیا اور خلاف جمہوریت ''حرکت'' نہ کر کے ملک و قوم کی عظیم خدمت کی۔ ان کا یہ کارنامہ مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ ان کے ''بڑوں''نے بھی اپنے ''بڑوں'' کو فخر سے بتایا ہو گا کہ دیکھیں ہم جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ہر وہ کام کر رہے ہیں جو آپ کے اطمینان قلب کا باعث ہے۔ کرکٹر جب یہ ''حرکتیں'' کر رہے تھے تو انھیں احساس تک نہیں ہوا ہو گا کہ وہ جمہوریت کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن رہے ہیں۔ اب وہ یہ ''حرکتیں'' کرنے سے باز رہے ہیں تو ایک بار پھر بے خبر ہوں گے کہ انھوں نے کتنا بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے۔

کرکٹرز کی ان ''حرکتوں'' کی تعریف اور ان پر تنقید کرنے والوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ اصل معاملہ کیا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے کھلاڑیوں کے فٹنس مسائل رہے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کھلاڑی کاکول اکیڈمی میں بھجوائے گئے۔ وہاں فوجی ٹرینر نے ان کی فٹنس کو بہتر بنایا اور انھیں پی سی بی کے حوالے کر دیا۔ کاکول اکیڈمی سے واپس آنے سے پہلے کپتان مصبا ح الحق سے ایک ''غلطی'' ہو گئی۔ انھوں نے اپنے ٹرینر سے وعدہ کر لیا کہ وہ اگر میدان میں اچھی پرفارمنس دکھائیں گے تو پش اپس لگائیں گے۔

مصباح نے پہلے ٹیسٹ میں سنچری بنانے کے بعد پہلی بار یہ ''حرکت'' کر ڈالی اور پھر یوں لگا کہ اب یہ ہمارے کھلاڑیوں کے لیے روایت بن جائے گی لیکن ٹیسٹ سیریز کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ قومی ٹیم نے دوبارہ یہ ''حرکت'' کرنے سے توبہ کر لی ہے۔ اس سے البتہ جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں بچے اور بڑے اکثر یہ حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ابھی کل ہی وزیرکھیل سندھ نے 50پش اپس لگا کر پنجاب حکومت کو چیلنج کیا ہے۔ سیکریٹری کھیل پنجاب نے ان کا یہ چیلنج قبول بھی کر لیا ہے۔ عابد شیر علی اور طلال چوہدری بھی میدان میں آ گئے ہیں۔ امید ہے اس سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ جمہوری پش اپس ہیں۔

فوجی ٹرینر نے اپنا کام کر دیا۔ آپ نے دیکھا 4ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں ہمارا کوئی ایک کھلاڑی بھی ان فٹ نہیں ہوا۔ ٹرینر کا اتنا ہی کام تھا۔ وہ کھلاڑیوں کو کرکٹ کے داؤ پیچ نہیں سکھا سکتا تھا۔ ٹیم کی ہار جیت میں ان کی صلاحیتوں کا عمل دخل ہے البتہ فٹنس لیول بہتر ہوا ہے تو اس کا پورا کریڈٹ فوجی ٹرینر کو جاتا ہے۔ سیریز برابر کرنے پر مصباح الیون مبارکباد کی مستحق ہے۔ کھلاڑیوں نے ثابت کیا ہے کہ لندن صرف پاکستانی سیاستدانوں اور ان کے بچوں کو ہی نہیں ہمارے کھلاڑیوں کو بھی راس آتا ہے۔
Load Next Story