12 اگست کی یاد میں
قیوم خان نے وہ سب کچھ سیاست میں داخل کر دیا تھا جو پاکستان کی سیاست کا طرہ امتیاز ہے
پاکستان کی تاریخ میں ویسے تو اور بھی بہت سارے تاریک دن گزرے ہیں لیکن 12 اگست 1948ء کی تاریخ کچھ زیادہ ہی دکھی کر دینے والی ہے کیونکہ اس تاریک تاریخ کو بھابڑہ کے مقام پر کربلا برپا کی گئی بلکہ پاکستان میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی ابتدا بھی اس تاریخ میں پہلی بار ہوئی تھی، اس دن نہ صرف بھابڑہ چارسدہ میں سیکڑوں افراد کا خون ہوا تھا بلکہ پاکستان میں جمہوریت، انصاف اور سیاست کا بھی خون ہوا تھا۔ ساتھ ہی پاکستان میں ناجائز اور غیر جمہوری روایات کی بھی ابتداء ہوئی تھی ۔
قیوم خان نے وہ سب کچھ سیاست میں داخل کر دیا تھا جو پاکستان کی سیاست کا طرہ امتیاز ہے اور سیاست کو ''سیاہ ست'' بناتا ہے ۔ اس واقعے کے عوامل کی ابتداء اس دن سے ہوئی ہے جب صوبے کی اکثریتی حکومت کو ختم کر کے اقلیت کی حکومت قائم کی گئی، پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں باچا خان نے قائداعظم کو یقین دلایا کہ جو ہو چکا سو ہو چکا' اب یہ ہمارا ملک ہے اور اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ہم اپنی طرف سے تعاون دلاتے ہیں، اجلاس کے بعد قائداعظم نے باچا خان کو اپنے گھر پر چائے کی دعوت دی، اس موقع پر بھی دونوں لیڈروں نے باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا، باچا خان نے قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کو صوبے کے دورے میں اپنے مرکز سردریاب آنے کی دعوت دی۔
دونوں نے اس دعوت کو قبول کر لیا، اس کی خبر جب قیوم خان اور گورنر جارج کنگھم کو ہوئی تو ان کو خطرہ محسوس ہوا کہ اگر دونوں لیڈروں میں اس طرح تعاون کی فضاء قائم ہوئی تو 27 کے مقابل سولہ ممبروں پر ٹکی ہوئی اقلیتی حکومت بھی باقی نہیں رہے گی، چنانچہ ایک باقاعدہ سازش تیار کی گئی کہ دونوں کا یہ ملاپ ہر گز نہ ہونے پائے، اس سردریاب میں قائداعظم کے استقبال کی تیاریاں زور و شور سے چل رہی تھیں اور ادھرسازش تیار ہورہی تھی۔ قائداعظم جب پشاور ایئر پورٹ پر اترے تو یہ دونوں استقبال کے لیے موجود تھے، حکومت نے انھیں بتایا کہ آپ سر دریاب جا رہے ہیں لیکن ہمیں پکی اطلاعات ملی ہیں کہ وہاں آپ کو قتل کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اگر آپ کو خدانخواستہ قتل کیا گیا تو پاکستان کا کیا بنے گا؟
قائداعظم ان کے جھانسے میں آگئے، ان کو معلوم ہی نہ تھا کہ ایک تو وہ خدائی خدمت گار ہیں جو عدم تشدد کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں ، آج تک نہ انھوں نے کوئی خونریزی کی ہے اور نہ ہی کریں گے دوسرے یہ کہ پشتون کتنا ہی برا کیوں نہ ہو جائے ،گھر آئے مہمان کو نقصان نہیں پہنچاتے، خصوصاً اپنے گھر اور اپنی جگہ میں تو یہ ایک بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے تو پشتون روایات کے علمبردار خدائی خدمت گار ایسا کیسے کریںگے یاکر سکتے ہیں؟ بہرحال قائداعظم نے باچا خان کو پشاور بلوایا، سردریاب نہ آنے کی معذرت کی اور کہا کہ میں صرف اس صورت میں آپ کی دعوت قبول کر سکتا ہوں کہ آپ مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں۔ باچا خان نے کہا کہ ہماری پارٹی ایک جمہوری پارٹی ہے۔ میں آپ کی اس پیش کش کو اپنی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے سامنے رکھ دوں گا، پھر وہ جو چاہیں فیصلہ کریں لیکن اس میں وقت لگے گا۔
قائداعظم نے کہا کہ کوئی فکر نہیں، آپ مجھے نام دیں، میں سرکاری طور پر ممبران کو بلوالوں گا، ایسا ہی کیا گیا، مرکزی کمیٹی کے سارے ممبران صبح سات بجے پہنچ گئے۔ باچا خان نے ان کے سامنے قائداعظم کی تجویز رکھ دی۔ کمیٹی نے متفقہ طور پر اس پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم ملک میں اور اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے جو جمہوریت کے لیے ضرورت ہوتا ہے، اس فیصلے کو تحریری شکل میں گورنر ہاؤس پہنچا دیا گیا، اس دن کننگھم پارک میں قائداعظم کا جلسہ ہونا تھا ۔ادھر شرپسندوں نے خصوصی انتظامات کر رکھے تھے کہ قائداعظم کی تقریر کے دوران ہلڑ بازی کرتے ہوئے یہ نعرے لگائیں کہ ہم تمہیں نہیں مانتے، باچا خان زندہ باد، یہ لوگ چار جانب کھڑے کیے گئے تھے، جب قائداعظم نے تقریر شروع کی تو حسب پروگرام یہی نعرے سنائی دیے، آخر قائداعظم کو اپنی تقریر اس بات پر ختم کرنا پڑی کہ میں نے تو ان لوگوں سے تعاون کی بہت کوشش کی لیکن یہ لوگ تعاون نہیں کر رہے ہیں۔
قائداعظم تو کراچی چلے گئے اور دشمن جیسا چاہتا تھا ویسا ہی ہو گیا۔ تعاون کی فضاء قائم ہونے کے بجائے بات دشمنی تک پہنچ گئی۔ باچا خان کو بنوں جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا اور منٹگمری(ساہیوال) جیل بھیج دیا گیا، اسی دن ولی خان کو بھی اپنے گھر سے گرفتار کر لیا گیا، دس مہینے تک خدائی خدمت گار اس انتظار میں رہے کہ باچا خان کو چھوڑ دیا جائے گا کیوں کہ اس سے پہلے انگریزی دور میں اکثر ہوتا رہتا تھا کہ ان کو گرفتار کر لیا جاتا' وہ بھی کسی جلسے یا جلوس کو ناکام بنانے کے لیے اور حالات نارمل ہوتے ہی رہا کر دیا جاتا تھا لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا، حکومت کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ باچا خان فقیر ایپی سے ملنے جارہا تھا اور بغاوت کی تیاریاں کر رہا تھا اور اس پر غداری کا مقدمہ چلا کر پھانسی دے دی جائے گی۔
خدائی خدمت گاروں کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا چنانچہ بھابڑہ کے مقام پر ایک احتجاجی جلسہ منعقد ہونا قرار پایا، حکومت کو موقع مل گیا ورنہ کیا تھا اگر جلسہ ہو بھی جاتا تو زیادہ سے زیادہ مذمت کی قرار دادیں منظور کی جاتیں یا باچا خان کی رہائی کا مطالبہ ہو جاتا ویسے بھی خدائی خدمت گاروں کی ساری لیڈر شپ جیلوں میں بند تھی، لیکن کئی دن پہلے سے چارسدہ کو چاروں طرف سے سیل کر دیا گیا تھا اور کسی پر ذرا بھی خدائی خدمت گار کا شبہ ہوتا اسے گرفتار کر لیا جاتا تھا، مقررہ دن مختلف راستوں سے پیدل آکر پھر بھی کافی تعداد میں خدائی خدمت گار پہنچ گئے۔
سالار امین جان جس کی صدارت میں یہ جلسہ ہونا تھا، اسے کئی دن پہلے ہی گرفتاری سے بچانے کے لیے روپوش کرایا گیا تھا لیکن جلسے کی نوبت ہی نہیں آئی لوگ جمع ہی ہو رہے تھے کہ مسجد کی چھت کا اسلحہ گرجنے لگا، بغیر کسی تنبہہ اور وارننگ کے فائر کھول دیا گیا۔ عام اندازے کے مطابق 670 لوگ مارے گئے لیکن تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی ، پھر ظلم پر ظلم یہ کہ زخمیوں کو کسی بھی اسپتال میں لینے سے انکار کر دیا گیا اور یوں کئی دن تک زخمی ہونے والے مرتے رہے، اس واقعے کو ظلم سے مماثلت ہے کہ ایک جائز اور منتخب حکومت کو اکثریت کے باوجود ختم کر دیا گیا اور چند ممبران پر مشتمل اقلیتی اور ناجائز حکومت نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا۔