چراغ روشن ہیں
عقیل عباس جعفری نے عصمت چغتائی کے لکھے ہوئے شخصی خاکے جمع کرکے شایع کیے ہیں،
عقیل عباس جعفری نے عصمت چغتائی کے لکھے ہوئے شخصی خاکے جمع کرکے شایع کیے ہیں، اپنی کتاب کا عنوان''چراغ روشن ہیں'' رکھا ہے جوکرشن چندر پر لکھے گئے خاکے کا عنوان ہے۔
عقیل حرف آغاز میں لکھتے ہیں کہ ''انھوں نے جوخاکے اس کتاب میں شامل کیے ہیں وہ عصمت کے شاہکارخاکے ہیں۔ان میں سے بیشتر خاکے مختلف شخصیات کے انتقال کے بعد لکھے گئے ہیں۔ ان خاکوں پران شخصیات کا ردعمل ظاہر ہے کہ معلوم نہیں ہوسکتا تھا لیکن جن شخصیات پر ان کی زندگی میں خاکے لکھے گئے ہیں جیسے خواجہ احمد عباس اور مجاز وغیرہ تو ان پر بھی ان کا ردعمل معلوم نہیں ہوسکا۔''
زاہدہ حنا اپنے اظہاریے ''خاکوں سے جھانکتی دنیا'' میں لکھتی ہیں ''یہ خاکے کہنے کو انسانوں کے ہیں لیکن اسی تانے بانے میں ہمیں ترقی پسند تحریک کا خاکہ بھی نظر آتا ہے،اس کا عروج وزوال۔ سب لکھنے والے جب ایک خاندان کے تھے،آدرش وادی تھے۔'' عشرت آفریں کہتی ہیں ''عصمت چغتائی نڈر اوربے باک انسان تھیں۔ان کے پاس چھپانے کوکچھ تھا ہی نہیں۔'' لیکن ان کا سچ انسانیت کی فلاح کے لیے تھا، انسان کی دل آزادی کے لیے نہیں۔''یہ سچ ہے مگر یہ بھی تو ہے کہ ہر بات ظاہر کرنے کی نہیں ہوتی۔عصمت نے اپنے خاکوں میں بے باکی کا ہی نہیں ، بے حجابی کا بھی ثبوت دیا ہے۔ یہ بھی ہے کہ محض شخصیتوں کے معاملے میں انھوں نے ان کے اوصاف حمیدہ بیان کرنے کے لیے وہ الفاظ استعمال کیے ہیں جن سے اوصاف رزیلہ کا ذکرکیا جاتا ہے۔ یہ انداز تحریر بہت خوب سہی مگر پڑھنے والے کو ایک آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔
عقیل جعفری کے مرتب کردہ مجموعہ میں پہلا خاکہ ''دوزخی'' ہے۔ یہ عصمت کے بھائی عظیم بیگ چغتائی کا مشہورخاکہ ہے۔ زاہدہ حنا کہتی ہیں ''ہم دوزخی کو ایک ادب پارہ سمجھ کر پڑھتے ہیں،کچھ اس پر تھوتھوکرتے ہیں لیکن کون جانے عصمت نے اسے لکھتے ہوئے چھپ کر کتنے آنسوبہائے ہوں گے۔'' عصمت تو چھپ کرکوئی کام نہیں کرتی تھیں مگر یہ حقیقت ہے کہ اسے پڑھنے والے بہت اسے پڑھ کرروئے تھے۔
عصمت چغتائی نے بنے بھائی، سید سجاد ظہیر کا خاکہ ''خوابوں کا شہزادہ'' بڑی محبت اورعقیدت سے لکھا ہے۔ پہلے ہی جملے سے اس کا اظہار ہوجاتا ہے۔ ''بنے بھائی کے نام سے موت کا رشتہ جوڑتے ہوئے وہم آتا ہے۔ اتنے دھیمے اورسہل انسان کا موت سے کیا واسطہ۔ انھیں دیکھ کر تو ہمیشہ زندگی کی لو اونچی ہوجاتی تھی۔'' لکھتی ہیں ''بنے بھائی ایک مکمل انسان تھے۔ان کی خامیاں بڑی پیاری تھیں اورکسی کے دل پر زخم نہیں چھوڑ گئیں۔ مجھے نہیں معلوم وہ خامیاں کیا تھیں۔''
عصمت نے منٹوکے خاکے کا عنوان ''میرا دوست' میرا دشمن'' رکھا ہے۔ لکھتی ہیں ''میں اور منٹو اگر پانچ منٹ کے ارادے سے بھی ملتے تو پانچ گھنٹے کا پروگرام ہوجاتا۔ منٹو سے بحث کرکے ایسا معلوم ہوتا جیسے ذہنی قوتوں پردھار رکھی جارہی ہے، جالاصاف ہو رہا ہے۔ دماغ میں جھاڑودی جارہی ہے اور بعض وقت بحثیں اتنی طویل ہوجاتیں کہ ایسا معلوم ہوتا بہت سے کچے سوت کی پونیاں الجھ گئی ہیں اورواقعی سوچنے اورسمجھنے کی قوت پرجھاڑو پھرگئی ہے۔''
میرا جی کے بارے میں عصمت لکھتی ہیں ''پتہ نہیں کیوں جب میں بھی 'میراجی' کو پڑھتی ہوں، مجھے قبرستان میں سوکھے ہوئے پتوں کے ڈھیریاد آجاتے ہیں جن پر اوس کی نمی سے کائی جم گئی ہے اوردھیمی دھیمی سڑاندھ اٹھ رہی ہے۔ یہ سوکھے پتے آہستہ آہستہ کھاد بن جائیں گے اور نئے پودے لہلہا اٹھیں گے۔''
کرشن چندرکا خاکہ عصمت چغتائی نے ایک خاص جذبے سے لکھا ہے۔ لکھتی ہیں ''میں کرشن کو ایک پیارے دوست، ایک حساس انسان کی طرح جانتی پہچانتی ہوں۔ وہ انسان پہلے تھے، ادیب بعد میں ہوئے۔'' سلمیٰ صدیقی سے شادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں ''میں نے سلمیٰ اورکرشن کی آنکھوں میں شادی سے کہیں زیادہ مقدس جذبہ دیکھا تھا، زیادہ پائیدار پرخلوص، ایک دوسرے کے لیے دیوانگی کی حدوں کو چھوتا ہوا عشق'' پھر شادی کے بارے میں اپنا فلسفہ بیان کرتے ہوئے عصمت لکھتی ہیں ''شادی صرف مذہب کے ٹھیکیداروں کے دو بولوں کا نام نہیں بلکہ دوستی اور ایک دوسرے میں کچھ پالینا ہی شادی ہے۔''
مجازکا خاکہ عصمت نے ان کی زندگی میں لکھا تھا۔''عشق مجازی'' کے عنوان سے لکھتی ہیں ''میں مجاز کو بہت کم جانتی ہوں۔ میرا مطلب ہے میں اصل مجاز سے زیادہ انھیں ان کی شاعری میں ڈھونڈ کر پاتی رہی ہوں۔ بات یہ ہے کہ پہلے میری ملاقات ان کی شاعری سے ہوئی اورپھر جب میں خود شاعر سے ملی تو میں نے انھیں وہی سمجھا جو اشعار نے بتایا تھا۔''
ایک خاکہ ''باچھو'' کے عنوان سے خواجہ احمد عباس کا ہے۔ عصمت چغتائی لکھتی ہیں ''میں نے عباس کو دیکھا ہے، دور سے بھی، پاس سے بھی۔ نفرت بھی کی ہے اور سنگ مر مر کا بت بناکر طاق میں بٹھانے کی کوشش بھی کی ہے اور جب خاک کا پتلا اوندھے منہ گرا ہے تو اسے مٹا کر خاک کرنے کو بھی جی چاہا ہے مگر جب خاک کے ذرے آنکھوں میں پہاڑ بن کرکھٹکنے لگے ہیں تو جھنجھلاہٹ بھی آئی ہے۔ میں نے اس کے قہقہے سنے ہیں اور آنسو بھی دیکھے ہیں۔
ان شخصی خاکوں کے علاوہ عقیل جعفری نے اس کتاب میں عصمت چغتائی کے لکھے ہوئے کچھ ''خاکہ نما افسانے'' بھی شامل کیے ہیں۔ان میں دوفلمی شخصیتوں، میناکماری اور دلیپ کمار کے علامتی خاکے ہیں، ایک بچھو پھوپھی کا خاکہ ہے ایک چابڑے کا ہے۔ ایک اپنے باورچی محبوب کا اور ایک اپنی انا ''ٹیکو'' کا، جو ان کی رضاعی ماں تھی اور اپنے پہلوٹھی کے بچے کو چھوڑکر غریبی کا مقابلہ کرنے کے لیے عصمت کو دودھ پلانے آگئی تھی۔ ٹیکو عصمت کو دودھ پلاتی رہی اور اس کا بچہ اپنی ماں کے دودھ کو ترستا ہوا، ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر مرگیا۔
عصمت چغتائی لکھتی ہیں ''میں نے کتنی کہانیاں لکھیں، ہنستی، کھل کھلاتی، روتی، بسورتی اورکاٹتی، بھنبھوڑتی۔ انھیں لکھتے وقت ہنسی بھی ہوں اورروئی بھی۔ اپنا خون بھی کھولا ہے مگر ٹیکو ماں کا ذکر لکھتے وقت جو کرب اورجو جھلاہٹ محسوس کررہی ہوں، اسے لکھتے ہوئے میرا قلم دم چھوڑ دیتا ہے۔ چاہتی ہوں کہ وہ ٹیسوں کے بگولے جو میرے دماغ میں اٹھ رہے ہیں، انھیں بانٹ کر ذرا اس بوجھ کو ہلکا کردوں جو ہمیشہ ٹیکوکے تصور سے میرا دم گھوٹنے لگتا ہے، مگر نہیں یہ میرے امکان میں نہیں۔''
باورچی محبوب کا خاکہ بھی خوب ہے۔ لکھتی ہیں ''محبوب کھانا پکانے کے معاملے میں بالکل ایک من موجی فنکارکی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کا فن نہایت جدید اورکچھ تجریدی آرٹ کے اسکول سے تعلق رکھتا تھا۔ جیسے جدید پینٹنگ کو دیکھ کر آپ یہ نہیں بتاسکتے کہ یہ عورتیں کھڑی ہیں یا گنے کا کھیت ہے۔ بالکل اسی طرح محبوب کے پکائے ہوئے کھانوں کو چکھ کرآپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ قورمہ ہے، قلیہ ہے یا کھڑے مسالے کا گوشت ہے۔ جہاں تک مسالوں کا تعلق ہے وہ کھڑے بیٹھے مسالے کا سالن پکانے کی بجائے کچھ اچھلتے،کودتے مسالوں کے کھانے پکاتے تھے۔''
محبوب باورچی کا انجام کیا ہوا یہ ایک اورکہانی ہے۔ بالکل افسانے کی طرح۔
''چراغ روشن ہیں'' کے آخرمیں عصمت چغتائی کے ذاتی خاکے ہیں ہم لوگ، زندگی اور میری دوست۔ یہ کمال کے خاکے ہیں۔ عصمت نے اپنی پوری زندگی کی تصویرکھینچ دی ہے۔ انھوں نے اپنی لائف اسٹوری نہیں لکھی ''میری دوست'' میں وہ اس کا اعتراف کرتی ہیں۔ لکھتی ہیں۔ ''کتنی عجیب بات ہے میں نے اتنا کچھ کوڑا کرکٹ لکھا لیکن ایک ہستی کے بارے میں کبھی ڈھنگ سے نہیں لکھا حالانکہ میں انھیں کتنے سال سے جانتی ہوں۔ ہم دونوں اکثر ساتھ ہی رہے ہیں۔ بچپن میں بھی اوراسکول اورکالج میں بھی ایک دوسرے سے پیچھا نہ چھوٹا۔ جہاں بھی وہ گئیں، میرا جانا بھی قدرت کی طرف سے لازمی ہوگیا اورجہاں بھی میں گئی انھوں نے میرا ساتھ نہ چھوڑا۔''میرا ان کا کوئی میل نہیں پھر بھی قسمت نے مجھے ان کے سرمنڈھ دیا ہے۔ ہم دونوں ہی بے بس ہیں کیونکہ وہ بھی میری ہم دم وہم راز ہیں اوران کا نام بھی عصمت چغتائی ہے۔''