منزل مقصود
اسی لیے جس کو ملنا ہے مل جائے ورنہ ہم ہوئے پردیسی۔
لگتا ہے سفراورہم لازم وملزوم ہوگئے ہیں ، کچھ دنوں تک اگرکہیں کا قصد نہ کیا جائے تو بے چینی سی ہونے لگتی ہے کہ کہیں کوئی کمی سی ہے حالانکہ ہم تو روز ایک سفرکرتے ہیں مگر وہ انگریزی والا سفر ہے۔ ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ کہاں کا قصدکیا جائے کہ اچانک فیصل آباد والی ''خالہ'' کا فون آگیا کہ وہ جرمنی جارہی ہیں۔
اسی لیے جس کو ملنا ہے مل جائے ورنہ ہم ہوئے پردیسی۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اورہم لگے تیاری کرنے کہ اب کون منع کرے گا ہمارے شریک سفر ہمارے بہن بہنوئی یسریٰ اور حذیفہ ٹھہرے اب وقت کم اور مقابلہ سخت تھا۔ مرحلہ یہ پیش آیا کہ ٹرین کے ٹکٹ نایاب ہوگئے لگتا تھا ہماری محبت میں ساری خلقت پنجاب کا رخ کر رہی ہے ڈائیو سے بہن بہنوئی جانے سے انکاری ،کیونکہ ان کی اولاد حذیفہ عمر کی 9 دس بہاریں گزارنے کے باوجود ٹرین میں نہیں بیٹھے تھے، اسی لیے لازم تھا کہ ٹرین میں ہی سفر کیا جائے ۔ خیر بڑی منت ترلوں کے بعد بکنگ کلرک خاتون جوکہ شکل سے ہی آدم بیزار لگ رہی تھیں اور بداخلاقی کے انتہائی درجوں پر تھیں نے بتایا کہ فرید ایکسپریس میں برتھ مل سکتی ہیں جو پاک پتن جا رہی ہے ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ اس سے چلے جائیں اور ساہی وال اترکر فیصل آباد چلے جائیں دو ڈھائی گھنٹے کا راستہ ہے وہاں سے ہم نے مرتے کیا نہ کرتے اسی مشورے پر عمل کیا اور فرید ٹرین کو رونق بخشی۔
اب ہماری سواری بمعہ ہم سفروں کے چلی سو چلی ایسے کہ جہاں دل چاہتا رک جاتی، کسی نے ہاتھ دیا وہاں سے لوگوں کو بٹھا لیا، کہیں رک گئی تو چلنے کو دل نہ چاہے، یااللہ کیا مصیبت ہے ادھر یہ حال ادھر ہم بے حال بہنوئی سے کہا جناب رات ہو رہی ہے برتھ پرجا کر سو جائیں انھوں نے کہا میں گھومنے آیا ہوں، سونے نہیں ۔ اب اتنی جرأت ہماری نہ ہوسکی کہ سوال در سوال کرتے کہ جناب عالی یہ کون سی جگہ ہے گھومنے کی بلکہ ٹرین میں تو چلنے کی بھی جگہ نہیں توگھومیں گے کہاں؟
ہمیں لگا شاید بہنوئی گھوم گئے ہیں مگر زبان سے کچھ نہ کہا ایسا نہ ہو ہمیں ہی گھمادیں بڑی مشکلوں سے صبح ہوئی لگتا تھا مہینوں سے اس ٹرین میں بیٹھے ہوئے ہیں ،کھانا خراب پانی ختم اب بیٹھے تھے ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تصورجاناں کیے ہوئے ،ہمارے تو پیش نظر یہ تھا کہ اس ٹرین سے ساہی وال آئے گا تصور ساہی وال کرتے کرتے بریکنگ نیوز ملی کہ اس ٹرین کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ، یعنی ساہی وال نہیں ہے یہ صراط مستقیم پر چلتی ہوئی سیدھی پاک پتن تشریف لے جائے گی پھر وہاں سے ساہی وال خیر جب یہ سنا تو پھر سوچا کہ ہم خود نہیں آئے بلوائے گئے ہیں کہ زیارتیں تو نصیب والوں کو ملتی ہیں اسی لیے ہم پاک پتن کی طرف رواں دواں ہوگئے کہ یہی قسمت میں لکھا تھا۔
خانیوال کے بعد جوگردوغبار کے طوفان اٹھے اس نے تو ہماری صورتوں کو ہی بدل دیا۔ حذیفہ کہنے لگے یسریٰ باجی! آپ اتنی موٹی ہیں یا لگ رہی ہیں؟ یسریٰ نے انھیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور کہا یہ پانچ دس کلو مٹی کی موتی تہہ ہٹے گی تو پتا چلے گا۔ ادھر ایک خاتون نے ہم سے فرمایا کہ'' باجی! آپ کا میک اپ جگہ جگہ سے بد رنگ ہو رہا ہے ہم تو ویسے ہی باجی کا لفظ سن کر طیش میں تھے کہ وہ خود آنٹی لگ رہی تھیں یہ سن کر تو ہمارے غیظ وغضب میں اضافہ ہوگیا ہم نے تڑخ کر کہا' ہمیں ضرورت نہیں میک اپ کی قدرتی حسن ہی کافی ہے۔
خیر بڑی مشکلوں سے پاک پتن آگیا ادھر ہم محو حیرت تھے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی اس علاقے کا برا حال ہے تو صدیوں پہلے جب بابا فرید الدین گنج شکر نے یہاں قدم رنجہ فرمایا ہوگا تو کیا حالات ہوں گے مگر پنجاب کے اس دور افتادہ شہر جو دوسرے شہروں سے الگ تھلگ ہے مگر ایک صاحب کرامت کے قدموں نے مٹی سے سونا بنادیا۔ آج سالانہ عرس پر ہزاروں لوگوں کی آمد سے یہاں کے رہنے والوں کے روزگار چل رہے ہیں صدیوں سے یہ جگہ عوام اور خواص کے لیے من کی مرادیں مانگنے کا وسیلہ بنی ہوئی ہیں۔ آج لوگ بادشاہوں، شہنشاہوں کو نہیں جانتے مگر بابا فرید الدین گنج شکر کا نام سب کی زبان پر جاری ہے کیونکہ انھوں نے چشتیہ سلسلے کی خدمات کے ذریعے یہاں کے رہنے والوں کے دلوں میں قرآن اور اسلام کی خوشبو پھیلادی۔ آپ کی تبلیغ کے ذریعے پنجاب کے 16 راجپوتوں کے قبیلے اسلام میں داخل ہوگئے ۔
اس کے ذریعے ان لوگوں کے رہن سہن تعلیم و تربیت مرجع اخلاق میں بہت گہرا اثر پڑا، آپ کابل کے بادشاہ فرخ شاہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کابل کی جنگ کے بعد آپ کے جد اعلیٰ لاہور تشریف لائے پھر قصور کو اپنا مسکن بنایا آپ کے دادا قاضی شعیب فاروق نے اپنے 3 صاحبزادوں کے ہمراہ اپنا مرکز نگاہ بنایا آپ کا سلسلہ نسب حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا ہے آپ شروع ہی سے اپنی زندگی اسلام کی راہ میں وقف کرچکے تھے جب آپ کو حکم ملا کہ پاک پتن جاکر دین کی ترویج کے لیے کام کرو، تو بغیر کسی چوں چرا کے آپ نے رخت سفر باندھ لیا اور اپنی دینی سرگرمیوں کا مرکز بنالیا۔ یہاں آپ نے فریدیہ جماعت خانہ کی بنیاد رکھی اور اس جماعت کے ذریعے چشتیہ سلسلے کو آگے بڑھایا۔
آپ نے اپنے جماعت خانہ کے ذریعے سیرت، شریعت، طریقت کی ترویج کا کام شروع کیا۔ مگر افسوس کی بات یہ دیکھی کہ مسلمان ہوتے ہوئے ہم نے اللہ رسول اور صوفیائے کرام کی تعلیمات کو بھلادیا۔ آج ہم ان صوفیا کرام کو گلہائے عقیدت تو پیش کرتے ہیں مگر جو زائرین کا حشر کیا جاتا ہے وہ الگ ایک کہانی ہے مانگنے والوں کا ایک جم غفیر ہے جو لوگوں کو سکون سے دعا اور فاتحہ بھی کرنے نہیں دیتے خیر ہم نے فاتحہ پڑھی اور فوراً ساہی وال کی جانب چل دیے کہ 7 بجے کے بعد پاک پتن سے کوئی سواری نہیں ملتی چونکہ ہمارے ایک یونیورسٹی فیلو سلیم انصاری ایڈووکیٹ نے ہم کو پہلے تنبیہہ کی تھی کہ ہم اپنی چیزوں کا خیال رکھیں اسی وجہ سے بچت ہوگئی ورنہ کسی کے بلیڈ نے یسریٰ کا بیگ کاٹ دیا تھا۔
اب ہم عازم ساہی وال ہوئے۔ ساہی وال ایک چھوٹا صاف ستھرا شہر ہے ساہی قوم کی ایک بڑی تعداد یہاں آباد تھی جس کی وجہ سے یہ ساہی وال کا نام پڑا، مگر انگریزوں کے دور میں یہ منٹگمری کہلایا مگر صدر ایوب نے پھر اس کا نام بحال کردیا ۔ ساہی وال میں یہاں کی مشہور سیاسی سماجی شخصیت محمد سلیم انصاری کے گھر قیام پذیر ہوئے اور ان کی دیرینہ روایتی مہمان نوازی سے مستفید ہوئے۔ بھابی نے ملازمین کی موجودگی کے باوجود خود کھانا بنایا، لطف دوبالا ہوگیا ۔ سلیم صاحب ساہی وال کی نامی گرامی سیاسی شخصیت میں بارکونسل کے صدر رہ چکے ہیں یا بس یہ کالم بڑھ کر وہ خود ہماری تصحیح کردیں گے ان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوکر ہم پھر فیصل آباد کی طرف روانہ ہوئے کہ منزل مقصود یہی تھی۔
اسی لیے جس کو ملنا ہے مل جائے ورنہ ہم ہوئے پردیسی۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اورہم لگے تیاری کرنے کہ اب کون منع کرے گا ہمارے شریک سفر ہمارے بہن بہنوئی یسریٰ اور حذیفہ ٹھہرے اب وقت کم اور مقابلہ سخت تھا۔ مرحلہ یہ پیش آیا کہ ٹرین کے ٹکٹ نایاب ہوگئے لگتا تھا ہماری محبت میں ساری خلقت پنجاب کا رخ کر رہی ہے ڈائیو سے بہن بہنوئی جانے سے انکاری ،کیونکہ ان کی اولاد حذیفہ عمر کی 9 دس بہاریں گزارنے کے باوجود ٹرین میں نہیں بیٹھے تھے، اسی لیے لازم تھا کہ ٹرین میں ہی سفر کیا جائے ۔ خیر بڑی منت ترلوں کے بعد بکنگ کلرک خاتون جوکہ شکل سے ہی آدم بیزار لگ رہی تھیں اور بداخلاقی کے انتہائی درجوں پر تھیں نے بتایا کہ فرید ایکسپریس میں برتھ مل سکتی ہیں جو پاک پتن جا رہی ہے ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ اس سے چلے جائیں اور ساہی وال اترکر فیصل آباد چلے جائیں دو ڈھائی گھنٹے کا راستہ ہے وہاں سے ہم نے مرتے کیا نہ کرتے اسی مشورے پر عمل کیا اور فرید ٹرین کو رونق بخشی۔
اب ہماری سواری بمعہ ہم سفروں کے چلی سو چلی ایسے کہ جہاں دل چاہتا رک جاتی، کسی نے ہاتھ دیا وہاں سے لوگوں کو بٹھا لیا، کہیں رک گئی تو چلنے کو دل نہ چاہے، یااللہ کیا مصیبت ہے ادھر یہ حال ادھر ہم بے حال بہنوئی سے کہا جناب رات ہو رہی ہے برتھ پرجا کر سو جائیں انھوں نے کہا میں گھومنے آیا ہوں، سونے نہیں ۔ اب اتنی جرأت ہماری نہ ہوسکی کہ سوال در سوال کرتے کہ جناب عالی یہ کون سی جگہ ہے گھومنے کی بلکہ ٹرین میں تو چلنے کی بھی جگہ نہیں توگھومیں گے کہاں؟
ہمیں لگا شاید بہنوئی گھوم گئے ہیں مگر زبان سے کچھ نہ کہا ایسا نہ ہو ہمیں ہی گھمادیں بڑی مشکلوں سے صبح ہوئی لگتا تھا مہینوں سے اس ٹرین میں بیٹھے ہوئے ہیں ،کھانا خراب پانی ختم اب بیٹھے تھے ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تصورجاناں کیے ہوئے ،ہمارے تو پیش نظر یہ تھا کہ اس ٹرین سے ساہی وال آئے گا تصور ساہی وال کرتے کرتے بریکنگ نیوز ملی کہ اس ٹرین کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ، یعنی ساہی وال نہیں ہے یہ صراط مستقیم پر چلتی ہوئی سیدھی پاک پتن تشریف لے جائے گی پھر وہاں سے ساہی وال خیر جب یہ سنا تو پھر سوچا کہ ہم خود نہیں آئے بلوائے گئے ہیں کہ زیارتیں تو نصیب والوں کو ملتی ہیں اسی لیے ہم پاک پتن کی طرف رواں دواں ہوگئے کہ یہی قسمت میں لکھا تھا۔
خانیوال کے بعد جوگردوغبار کے طوفان اٹھے اس نے تو ہماری صورتوں کو ہی بدل دیا۔ حذیفہ کہنے لگے یسریٰ باجی! آپ اتنی موٹی ہیں یا لگ رہی ہیں؟ یسریٰ نے انھیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور کہا یہ پانچ دس کلو مٹی کی موتی تہہ ہٹے گی تو پتا چلے گا۔ ادھر ایک خاتون نے ہم سے فرمایا کہ'' باجی! آپ کا میک اپ جگہ جگہ سے بد رنگ ہو رہا ہے ہم تو ویسے ہی باجی کا لفظ سن کر طیش میں تھے کہ وہ خود آنٹی لگ رہی تھیں یہ سن کر تو ہمارے غیظ وغضب میں اضافہ ہوگیا ہم نے تڑخ کر کہا' ہمیں ضرورت نہیں میک اپ کی قدرتی حسن ہی کافی ہے۔
خیر بڑی مشکلوں سے پاک پتن آگیا ادھر ہم محو حیرت تھے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی اس علاقے کا برا حال ہے تو صدیوں پہلے جب بابا فرید الدین گنج شکر نے یہاں قدم رنجہ فرمایا ہوگا تو کیا حالات ہوں گے مگر پنجاب کے اس دور افتادہ شہر جو دوسرے شہروں سے الگ تھلگ ہے مگر ایک صاحب کرامت کے قدموں نے مٹی سے سونا بنادیا۔ آج سالانہ عرس پر ہزاروں لوگوں کی آمد سے یہاں کے رہنے والوں کے روزگار چل رہے ہیں صدیوں سے یہ جگہ عوام اور خواص کے لیے من کی مرادیں مانگنے کا وسیلہ بنی ہوئی ہیں۔ آج لوگ بادشاہوں، شہنشاہوں کو نہیں جانتے مگر بابا فرید الدین گنج شکر کا نام سب کی زبان پر جاری ہے کیونکہ انھوں نے چشتیہ سلسلے کی خدمات کے ذریعے یہاں کے رہنے والوں کے دلوں میں قرآن اور اسلام کی خوشبو پھیلادی۔ آپ کی تبلیغ کے ذریعے پنجاب کے 16 راجپوتوں کے قبیلے اسلام میں داخل ہوگئے ۔
اس کے ذریعے ان لوگوں کے رہن سہن تعلیم و تربیت مرجع اخلاق میں بہت گہرا اثر پڑا، آپ کابل کے بادشاہ فرخ شاہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کابل کی جنگ کے بعد آپ کے جد اعلیٰ لاہور تشریف لائے پھر قصور کو اپنا مسکن بنایا آپ کے دادا قاضی شعیب فاروق نے اپنے 3 صاحبزادوں کے ہمراہ اپنا مرکز نگاہ بنایا آپ کا سلسلہ نسب حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا ہے آپ شروع ہی سے اپنی زندگی اسلام کی راہ میں وقف کرچکے تھے جب آپ کو حکم ملا کہ پاک پتن جاکر دین کی ترویج کے لیے کام کرو، تو بغیر کسی چوں چرا کے آپ نے رخت سفر باندھ لیا اور اپنی دینی سرگرمیوں کا مرکز بنالیا۔ یہاں آپ نے فریدیہ جماعت خانہ کی بنیاد رکھی اور اس جماعت کے ذریعے چشتیہ سلسلے کو آگے بڑھایا۔
آپ نے اپنے جماعت خانہ کے ذریعے سیرت، شریعت، طریقت کی ترویج کا کام شروع کیا۔ مگر افسوس کی بات یہ دیکھی کہ مسلمان ہوتے ہوئے ہم نے اللہ رسول اور صوفیائے کرام کی تعلیمات کو بھلادیا۔ آج ہم ان صوفیا کرام کو گلہائے عقیدت تو پیش کرتے ہیں مگر جو زائرین کا حشر کیا جاتا ہے وہ الگ ایک کہانی ہے مانگنے والوں کا ایک جم غفیر ہے جو لوگوں کو سکون سے دعا اور فاتحہ بھی کرنے نہیں دیتے خیر ہم نے فاتحہ پڑھی اور فوراً ساہی وال کی جانب چل دیے کہ 7 بجے کے بعد پاک پتن سے کوئی سواری نہیں ملتی چونکہ ہمارے ایک یونیورسٹی فیلو سلیم انصاری ایڈووکیٹ نے ہم کو پہلے تنبیہہ کی تھی کہ ہم اپنی چیزوں کا خیال رکھیں اسی وجہ سے بچت ہوگئی ورنہ کسی کے بلیڈ نے یسریٰ کا بیگ کاٹ دیا تھا۔
اب ہم عازم ساہی وال ہوئے۔ ساہی وال ایک چھوٹا صاف ستھرا شہر ہے ساہی قوم کی ایک بڑی تعداد یہاں آباد تھی جس کی وجہ سے یہ ساہی وال کا نام پڑا، مگر انگریزوں کے دور میں یہ منٹگمری کہلایا مگر صدر ایوب نے پھر اس کا نام بحال کردیا ۔ ساہی وال میں یہاں کی مشہور سیاسی سماجی شخصیت محمد سلیم انصاری کے گھر قیام پذیر ہوئے اور ان کی دیرینہ روایتی مہمان نوازی سے مستفید ہوئے۔ بھابی نے ملازمین کی موجودگی کے باوجود خود کھانا بنایا، لطف دوبالا ہوگیا ۔ سلیم صاحب ساہی وال کی نامی گرامی سیاسی شخصیت میں بارکونسل کے صدر رہ چکے ہیں یا بس یہ کالم بڑھ کر وہ خود ہماری تصحیح کردیں گے ان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوکر ہم پھر فیصل آباد کی طرف روانہ ہوئے کہ منزل مقصود یہی تھی۔