پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسیاں

نواز شریف نے کہا ہے کہ باہمی اعتماد کے اصولوں کی پالیسی کے تحت ہی...


Editorial July 23, 2012
کیمرون منٹر پاک امریکا تعلقات میں پیشرفت کیلیے جمہوری اداروں کے فیصلوں کی پاسداری کو ناگزیر قرار دیا تھا۔ فوٹو: فائل

مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے کہا ہے کہ امریکا پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے باہمی احترام اور اعتماد کے اصولوں کو مدنظر رکھے کیونکہ صرف ایسی پالیسی کے ذریعے ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

امریکا کے سبکدوش سفیر کیمرون منٹر سے الوداعی ملاقات میں انھوں نے کہا کہ امریکا کو پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسیاں وضع کرتے وقت اس بات کو پیش نظر رکھنا ہو گا کہ پاکستان کے جمہوری ادارے مضبوط ہوں اور یہاں کی معیشت کا غیرملکی امداد پر کم سے کم انحصار رہے۔ انھوں نے پاک امریکا تعلقات میں پیشرفت کے لیے جمہوری اداروں کے فیصلوں کی پاسداری کو بھی ناگزیر قرار دیا ہے اور کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے وسیع تر مفاد کا تقاضا ہے کہ عالمی امن کے سلسلے میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے باہمی احترام کی پالیسی کو فروغ دیا جائے۔

امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے اور جمہوریت کی طرف گامزن ہے۔ سبکدوش ہونے والے امریکی سفیر کے ساتھ اپنی الوداعی ملاقات میں مسلم لیگ ن کے سربراہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان میں ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں پاک امریکا تعلقات کو نئے دور کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے اور مضبوط بنانے کی خواہش واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔

یہ بات اب تاریخ کا حصہ ہے کہ گزشتہ صدی کے نصف دوئم کے آغاز میں جب امریکا اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ عروج پر تھی اور دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی پاکستان نے اپنے قریب واقع سوویت یونین کا ساتھ دینے کے بجائے ہزاروں میل کے فاصلے پر قائم امریکا کا ساتھ دینے کا ارادہ کیا اور تب سے اب تک یہ تعلق کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی حوالے سے قائم چلا آرہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سارے عرصے کے دوران یہ تعلق نشیب و فراز کا شکار ہوتا رہا ہے جس کی بناء پر پاکستانی عوام میں یہ تاثر گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے کہ امریکا پاکستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اور اپنا مطلب پورا ہونے پر اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں 1971کی پاک بھارت جنگ' پریسلر ترمیم اور گزشتہ برس پیش آنے والے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا سب سے زیادہ ذکر کیا جاتا ہے' 1971کی جنگ میں امریکا پاکستان کی مدد کر سکتا تھا لیکن ہمیں محض وعدوں پر ٹرخایا جاتا رہا جس کی وجہ سے ہمارا ایک اہم اور بڑا حصہ ہم سے جُدا ہو گیا' اسی طرح گزشتہ صدی کی نویں دھائی کے اواخر میں جب سوویت یونین کو پاکستان کی مدد سے افغانستان میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی تو امریکا نے پاکستان کے اس کارنامے پر کچھ انعام دینے کے بجائے اسے پریسلر ترمیم کا نشانہ بنا دیا جس کے تحت اس کی کافی امداد روک لی گئی اور کئی طرح کی پابندیاں عائد کر گئیں۔

پھر نائن الیون کا واقعہ پیش آیا تو امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی یاد ستانے لگی چنانچہ اپنی ضرورت کے تحت اس وقت کی امریکی انتظامیہ نے نہ صرف پریسلر ترمیم کے تحت عائد کئی پابندیاں اٹھا لیں بلکہ امداد بھی بحال کر دی۔ یاد رہے کہ یہ تعلق بحال کرتے وقت بُش انتظامیہ نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اس بار پہلے والے معاملات نہیں کیے جائیں گے بلکہ تادیر قائم رہنے والے تعلقات قائم کیے اور قائم رکھے جائیں گے لیکن ماضی کی طرح اس وعدے کی پاسداری کو ضروری نہ سمجھا گیا' یہ معاملہ سات آٹھ سال چلتا رہا

پھر گزشتہ برسوں کے دوران امریکی فورسز کی جانب سے کئی بار پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی گئی جس پر پاکستان پہلے تو احتجاج کرتا رہا لیکن جب ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ پیش آیا اور پھر پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر ایبٹ آباد آپریشن عمل میں لایا گیا اور بعد ازاں 26نومبر کو افغانستان کی سرحد پر واقع پاکستان کی سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا تو پاکستان پر امریکی اعتماد کا پول کھل گیا اور اس کا صبر بھی جواب دے گیا' چنانچہ اس واقعہ کے ردعمل میں پاکستان نے نیٹو فورسز کی سپلائی روک دی۔ اگرچہ یہ سپلائی اب دوبارہ کھل چکی ہے اور پاک امریکا تعلقات بھی ایک بار پھر بہتری کی جانب گامزن ہیں تاہم پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسیوں میں مناسب اور مثبت نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت تاحال محسوس کی جا رہی ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ امریکا کے سبکدوش ہونے والے سفیر مسلم لیگ ن کے سربراہ کی یہ باتیں متعلقہ حکام تک پہنچائیں گے تاکہ حالات میں حقیقی بہتری لائی جا سکے۔ ضروری ہے کہ افغانستان کے معاملے میں بھی امریکا پاکستان کو نظرانداز نہ کرے کیونکہ اس کا خمیازہ افغانستان اور پاکستان کے علاوہ امریکا کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ کابل میں نئے پاکستانی سفارتخانے کی افتتاحی تقریب میں شریک سابق جہادی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ضیاء مسعود نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ جب تک پاکستان کو شامل نہیں کیا جاتا طالبان سے مصالحت کی کوششیں بے سود رہیں گی۔

انھوں نے افغانستان میں بھارت کے کردار کے بارے میں پاکستان میں پائے جانے والے تاثر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ملک افغانستان کے لیے پاکستان کا متبادل نہیں بن سکتا۔ چنانچہ مستقبل میں مزید خجل خواری بچنے کے لیے امریکی انتظامیہ کو ابھی سے مناسب اور زمینی حقائق پر مبنی منصوبہ بندی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں