بھلوال کی سنگین ترین خونی واردات

سنگین واردات ہونے پر ورثاء پولیس پر غصّہ نکالتے ہیںاور واردات ٹریس ہوجائے


[email protected]

بھلوال میں تعیناتی کے دوران ایک رات بھلوال سے سرگودھا جانے والی سڑک (اجنالہ روڈ) پر چند مسّلح افراد نے بس کے مسافروں سے نقدی اور زیورات چھین لیے جسکے بعد مشکوک افراد کی interrogationشروع ہوئی۔ پوچھ گچھ کا دائرہ وسیع ہوا اور اس میں سختی کا عنصر شامل ہوا تو ایک روز میرے دفتر ایک لفافہ موصول ہوا، لفافہ کھولا تو اس میں کچھ نقدی اور زیورات تھے، ساتھ ایک خط بھی تھا جسمیں لکھا تھا''ہم اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہیں اس لیے ہم بس سے لوٹا ہوا مال واپس کررہے ہیں''، لفافے پر پنجاب یونیورسٹی کی مہر تھی لہٰذا ہم نے اُس علاقے کے لاہور میں پڑھنے والے تمام طلباء کی لسٹ بنائی اور ان کی تفتیش شروع کردی۔

کئی سالوں بعد مجھے لاہور میں کچھ صحافی ملے جنہوں نے تعارف کرایا اورکہا''ہم ہیں آپکے سابق ملزم''، میں نے پوچھا کیا مطلب؟ تو انھوں نے بتایا'' بس ڈکیتی کے سلسلے میں آپ نے ہم سے بھی پوچھ گچھ کی تھی، ہم اسوقت طالبِ علم تھے اور موازنے کے لیے ہم سے بھی تحریر لکھوائی گئی تھی''یہ کیس ابھی حل نہیں ہوا تھا کہ بھلوال میں ایک ایسا واقعہ ہوگیا جس نے پورے ضلعے کو ہلا دیا۔ اُس روز ایس ایس پی سرگودھا کے دفتر میں ماہانہ کرائم میٹنگ ہورہی تھی جسمیںتمام سب ڈویژنل پولیس افسر شریک تھے اچانک ایس ایس پی کے فون کی گھنٹی بجی، اشرف مارتھ صاحب (شہید) نے فون اٹھایا تو چند لمحوں میں ہی ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا۔فون رکھتے ہی مجھ سے مخاطب ہوئے''بھلوال میں ڈکیتی ہوگئی ہے۔

ڈاکوؤں کی فائرنگ سے کچھ ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں،آپ بھلوال پہنچیں''، میںفوراً بھلوال روانہ ہوگیا۔ راستے میں وائرلیس میسج کے ذریعے اتنا معلوم ہوا کہ محکمہ اریگیشن کے سات ملازم نیشنل بینک سے تنخوا ہ لے کر واپس جارہے تھے کہ دو ملزموں نے ان کی جیپ پر فائرنگ کردی، جس سے چار ملازم ہلاک اورتین شدید زخمی ہوگئے، ملزم تنخواہوں کا تھیلا لے کر فرار ہوگئے ہیں۔ میں جس وقت موقعہ پرپہنچا، اسوقت نعشیں سڑک پر پڑی تھیں مقتولین کے ورثاء بھی پہنچ چکے تھے اوران کی خواتین بین کررہی تھیں، وردی والوںکو دیکھ کر انھوں نے پولیس کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ انھیں ایسا کرنے کا پورا حق تھا، ہم سب کچھ سنتے رہے اور ورثأ کو تسلّی اور حوصلہ دینے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔

سنگین واردات ہونے پر ورثاء پولیس پر غصّہ نکالتے ہیںاور واردات ٹریس ہوجائے اور ملزم گرفتار ہوجائیں تو پولیس کی تعریف و توصیف بھی کرتے ہیں۔ خیر بھلوال کے تمام تھانوں کی پولیس،گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر ڈاکوؤں کی تلاش میں نکل پڑی۔ عام شہریوں میں سے بھی کچھ نوجوانوں کو موٹر سائیکلوں پر نکالا گیا مگر رات گئے تک کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ سرگودھا جیسے پرامن ضلعے میں اتنی بڑی واردات سے خوف و ہراس پھیل گیا۔ بھلوال کا مین بازار چار بجے ہی بند ہوجاتا، کسی اور سرکاری محکمے نے نیشنل بینک سے جاکر تنخوا ہیں وصول کرنے کی ہمّت نہ کی۔ چار مقتولین میں سے ایک سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔مقتول کی بہنیں ہرروز تھانے آتیں اور محکمہ نہر کی کھڑی کی گئی جیپ سے لپٹ کر بین کرنے لگتیں۔

انھیں روتا دیکھ کر ہر شخص افسردہ ہوجاتا، پولیس کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ دوسرے روز ایس ایس پی نے سی آئی اے کی ٹیم سمیت بھلوال آکر کیمپ آفس قائم کرلیا۔ایک طرف محکمہ نہر کے ملازمین سے سائنسی انداز میں دریافت شروع ہوئی اور دوسری طرف مفید معلومات فراہم کرنے والے کے لیے ایک لاکھ روپے انعام کا بھی اعلان کردیا گیا۔ تیسرے روز کچھ مشکوک افراد حراست میں لے لیے۔ چوتھے روز بریک تھرو ہوگیا، محکمہ نہر ہی کے ایک ملازم چک نمبر6 کے رہائشی رشید نے اعتراف کرلیا کہ یہ واردات ضلع گجرات کے نصیر اور فیاض شاہ نے کی ہے جو ایک رات قبل اس کے گھر آکررہے تھے۔ میری سرکردگی میں پولیس پارٹی ملزموں کی تلاش میں فیاض شاہ کے گاؤں (آزاد کشمیر کے بارڈر پر واقع پبّی)کے لیے روانہ ہوگئی۔چھ سات گاڑیوں کا قافلہ آدھی رات کو بھلوال سے روانہ ہوا۔ایک جگہ پہنچ کر فجر کی اذان سنائی دی تو میں نے قافلہ روک لیا اورکہا کہ ''مشن مشکل بھی ہے اور Riskyبھی۔

لہٰذا ہم سچے دل سے اﷲ سے مدد مانگیں گے تو پھر کامیابی ہوگی'' سب نے نماز ادا کی اور اﷲ تعالیٰ سے مدد کی درخواست کی۔ منہ اندھیرے ہم کھاریاں تھانے پہنچے، وہاں ایک اے ایس آئی ڈیوٹی افسر کے طور پر بیٹھاہوا تھا، اس نے بے نیازی سے کہا،'' نصیرا آپ کو کہاں ملے گا اس کے پیچھے تو پورے ضلع گجرات کی پولیس لگی ہوئی ہے۔وہ فوج کا سابق کمانڈو ہے اور کئی سالوں سے اشتہاری ہے۔ اس کے ساتھ تو مقابلہ ہی ہوناہے''۔ خیر ہم رشید کو لے کر پّبی کی جانب چل پڑے مجھے یاد ہے طلوعِ آفتاب کے وقت ہم فیاض شاہ کے گاؤں پہنچ کر اس کے گھر کا گھیراؤ کرچکے تھے۔ فیاض شاہ تو نہ ملا مگر اس کے گھر والے مل گئے جن سے اس کے دوستوں اور ملنے والوں کے بارے میں مفید معلومات ملیں۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ فیاض اور نصیر یہاں آئے تھے اور بتاگئے ہیں کہ وہ آئیندہ چند روز میں فرانس چلے جائیں گے۔پولیس کی ایک پارٹی اسلام آباد روانہ کردی گئی، فرانس کے سفارتخانے سے یہ معلوم ہوگیا کہ ان دو ناموں کی درخواستیں جمع ہیں۔فیاض کے گھر والوں سے اس کے جاننے والوں کے جتنے بھی ایڈریس ملے تھے ان پر ریڈ کیے گئے۔ملزموں کے ایک جاننے والے کی زبانی ہمیں معلوم ہوچکا تھا کہ وہ پنڈی کے علاقے ویسٹرج کے قریب کہیں ٹھہرے ہوئے ہیں، میں بھلوال میں بیٹھا ہر آدھے گھنٹے بعد راولپنڈی بھیجی گئی پولیس پارٹی (جسمیں مطیع اﷲجیسے نوجوان اور دلیر افسر شامل تھے) سے رابطہ کرتا۔ دل و دماغ پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طریقے سے اتنی بڑی واردات کرنے والے مجرم پکڑے جائیں۔

اﷲ تعالیٰ سے دعائیں بھی کر رہا تھا۔ ایک روز میرے اضطراب میں اضافہ ہوا تو میں نے خود پنڈی جانے کا فیصلہ کرلیا۔مجھے اتنا معلوم تھا کہ ہماری ٹیم میں سے کچھ افسر راولپنڈی پولیس لائنز میں رہ رہے ہیں۔ میں غروبِ آفتاب کے بعد راولپنڈی پولیس لائنز میں داخل ہوا تو پوری لائنز اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی،صرف ایک کمرے کا بلب جل رہا تھا۔ میں نے اسی کمرے کے سامنے جاکر جیب کھڑی کی اور اندر داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ کنٹرول روم ہے وہاں صرف ایک ملازم تھاجو میسج وصول بھی کررہا تھا اور ریلے بھی کررہا تھا میں نے اپنا تعارف کرانے کے بعد اس سے سرگودھا پولیس پارٹی کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا''سر کچھ لوگ تو پولیس کالج سہالہ رہ رہے ہیں اور کچھ یہاں''ابھی اس کا فقرہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ وائرلیس کنٹرول روم میں ایک میسج آیا جو میں نے بھی سن لیا، بس اس کے بعد میں وہاں سے بجلی کی سی تیزی سے نکلا، ہماری ٹیم بھی نہ جانے کہاں کہاں سے چند منٹوں میں ہی پہنچ گئی۔لگتا ہے کائناتوں کے مالک نے ہماری دعائیں قبول کرکے فرشتوں کو حکم دے دیا تھا ۔

جنہوں نے رہنمائی کی اور کسی غیبی مدد کے نتیجے میں چند ہی منٹوں بعد چار بے گناہ شہریوں کا قاتل نصیرا ہماری حراست میں تھا، فوراً اس کی فراہم کردہ معلومات پر مختلف جگہوں پر ریڈ کیے جہاں سے اسکاساتھی فیاض شاہ بھی مل گیا۔نصیرے کی نشاندہی پر کھاریاں اور لالہ موسیٰ سے اس کی کلاشنکوف اور لوٹی ہوئی ساری رقم برآمد کرلی گئی۔ راقم نے اس سے پوچھا''تمہیں پتہ ہے کہ تمہاری فائرنگ سے کتنے بے گناہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں؟''اس نے بڑی بے نیازی سے جواب دیا ''سنیااے تِن چار مارے گئے نیں (سنا ہے تین چار افراد مارے گئے ہیں)''۔

پھر میں نے اس سے پوچھا''اتنے سنگین جرم پر تمہاری کیا سزا ہونی چاہیے؟''۔'' گولی''۔ اس نے فوراً جواب دیا۔ اس کے چند گھنٹوں بعد آدھی رات کے وقت تحصیل بھلوال کے تھانہ میانی کی حدود میں اشتہاری مجرم نصیرے کے ساتھ مقابلے کی اطلاع پولیس وائرلیس کنٹرول پر چلی تو ایس ایس پی سرگودھانے فوراً مجھ سے رابطہ کرنا چاہا،مگرمیں گریز کرتا رہا۔وہ میرے روکنے کے باوجود سرگودھا سے چل پڑے اور جب موقعہ پر پہنچے تو خطرناک ڈاکواور بیسیوں بیگناہ شہریوںکا قاتل اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا، مارتھ صاحب نے مجھے علیحدہ لے جاکر کہا''آپ کی مجھ سے بات ہوجاتی تو ہوسکتا ہے میں آپ کو روکتا مگرہونایہی چاہیے تھا جو ہوا ''۔ تجربہ کار ایس پی سی آئی اے نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا''اتنا مشکل کیس اسطرح حل ہوا ہے کہ ایک بھی نمبر نہیں کاٹا جاسکتا''۔ دوسرے روز پوسٹ مارٹم کے لیے لے جانے کے لیے نصیرے ڈاکو کی لاش تھانے کے باہر چوک میں رکھی گئی تو پندرہ بیس ہزار کا مجمع اکٹھا ہوگیا۔لوگوں کا ڈر اور خوف اتر گیا۔

شہر کی رونقیں بحال ہوگئیں۔اکلوتے بھائی کی بہنوں نے بھائی کے قاتل کی لاش دیکھی تو ان کے منہ سے نکلا'اﷲتیرا شکر ہے تو نے ہمارے قاتل کو سزا دیدی''۔ شام کو میری جیپ کا ڈرائیور بازار سے سبزی لے کر آیا توکہنے لگا''سر! آج میں بازار گیاتو دکاندار مجھے روک روک کر میرے ہاتھ چوم رہے تھے آج پولیس اہلکاروں کو عوام کی طرف سے اسطرح کی عزّت ملی ہے جسطرح 1965 میں محاذ سے آنے واے فوجی جوانوں کو ملا کرتی تھی'' میرے منہ سے نکلا الحمداﷲ سب کچھ مالکِ کائنات کی رہنمائی اور مدد سے ہی ہوا ہے۔ نصیرے ڈاکو کا انجام دیکھ کر جرائم پیشہ لوگ خوفزدہ ہوگئے اوربس ڈکیتی کے مجرم خود آکر پیش ہوگئے ۔ اگلے کافی عرصے تک بھلوال میں کوئی واردات نہ ہوئی۔دوہفتوں بعد ہمارا بَیچ پروموٹ ہوگیا اور میں ایس پی یعنی پُلس کپتان بن کر بھلوال سے لوگوں کی ڈھیر ساری دعائیں لے کر رخصت ہوگیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں