نفرت بے پیندے کا پیالہ
یقین نہیں آتا کہ ہم اس قابل ہوئے کہ امریکا کی ہمسری کرسکیں۔
یقین نہیں آتا کہ ہم اس قابل ہوئے کہ امریکا کی ہمسری کرسکیں۔ یقین نہ آئے تو ہمارے اور امریکا کے بعض سیاستدانوں کی تقریریں ملاحظ کریں۔ آج ایک انگریزی اخبار میں امریکی صدارتی امیدوار کا ایک کارٹون نظر آیا جس میں ان کی زبان ان کے دہن سے نکلی ہے اور گھوم کر ایک ایسا پستول بن گئی ہے جو ان کی کنپٹی پر رکھا ہے۔ وہ صبح و شام جس نوعیت کی تقریریں کرتے اور بیانات دیتے ہیں، اس کے بعد یہ کہنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہ وہ اپنے الفاظ سے خودکشی کرنے والے ہیں۔ کوئی سیاستدان اگر اپنے حریف کے خلاف بدکلامی میں ان بلندیوں کو چھولے جسے انھوں نے اپنی معراج سمجھ رکھا ہے تو پھر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی زبان کے آگے نہ کھائی ہے اور نہ خندق۔ ایسے شہسوار عموماً اس کھائی میں جاگرتے ہیں جسے وہ ایڑ لگا کر پار کرنے کا یقین رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کے کئی شاگرد رشید ہمارے یہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک صاحب موجودہ وزیراعظم کو بہ بانگ دُہل غدار، را کا ایجنٹ اور ہندوستانی وزیراعظم کا یار غار کہتے ہیں۔ دوسرے شہسوار انھیں بے ایمان، غدار اور جھوٹا کہتے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس اپنے دعوؤں کے ثبوت موجود نہیں، اس کے باوجود وہ شہر شہر پھر کر اپنے جھوٹ کا پرچار کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ خود بھی اپنے بولے ہوئے جھوٹ پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے دشمن آپ ہیں۔ ان کے منہ سے کسی افعی کی مانند زہر بہتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ نفرت دراصل خوف کا نتیجہ ہے۔ ہم کسی شخص یا کسی چیز سے ڈرتے ہیں اور یہ خوف ہمیں اس سے نفرت پر مجبور کردیتا ہے۔ امریکی صدارتی انتخاب میں ہمیں جس طرح کی نفرت نظر آرہی ہے وہ شخصیت کو مکمل طور پر تباہ کردیتی ہے۔ اس بارے میں سب سے خوبصورت بات ڈھائی ہزار برس پہلے یوری پیڈیز کہہ گیا ہے کہ نفرت بے پیندے کا پیالہ ہے جس میں نفرت انڈیلتے جائیے لیکن وہ کبھی نہیں بھرے گا۔
ٹرمپ جو ارب پتی، کھرب پتی ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک سفید فام امریکی عورت کا مقابلہ کس طرح کریں۔ اس نے کم عمری سے محنت کی، اپنی محنت کے سبب وہ زینہ بہ زینہ بلندی کی طرف بڑھتی رہی۔ اب جب وہ ان کے مقابل ہے تو اس سے ان کی نفرت اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ وہ چھوٹے اسلحے کے کاروباریوں کو اکساتے ہیں کہ وہ کیوں نہیں اس عورت سے اپنا حساب برابر کرلیتے، وہ اگر اقتدار میں آئے گی تو موجودہ امریکی صدر بارک اوباما کی طرح چھوٹے اسلحے پر پابندی لگانے کی اپنی سی پوری کوشش کرے گی۔ ان کے جملے لوگوں کو ہیلری کلنٹن کے قتل پر اکساتے نظر آئے ہیں۔ اب تو ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی ان کے بیانات سے پریشان ہیں۔ وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ نظر نہیں آنا چاہتے جو امریکا کا صدارتی انتخاب لڑ رہا ہے اور کامیاب ہوگیا تو صرف امریکا نہیں، دنیا کو زیر و زبر کرسکتا ہے۔
ٹرمپ کی نفرت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انھوں نے اب روسی خفیہ ایجنسیوں سے آس باندھ لی ہے۔ اپنی ایک تقریر میں انھوں نے کہا ''اے روس والو! اگر تم سن رہے ہو تو تم ان 30 ہزار ای میلز کا کھوج لگانے کی کوشش کرو جن کا اتا پتا نہیں چل رہا۔ اگر تم یہ کرسکو تو تمہیں ہمارے میڈیا کی طرف سے بے پناہ داد ملے گی''۔ ہلیری کلنٹن کو صدارتی انتخاب میں شکست دینے کے لیے وہ روسی خفیہ ایجنسیوں سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ایک ایسا موقف ہے جس نے ہلیری کے مخالفین کو بھی دہلا دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے دیوار برلن کے گرنے تک اور سوویت یونین کے تحلیل ہوجانے کے بعد بھی روس اور امریکا ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔
کوئی امریکی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اپنی کسی کامیابی کے لیے وہ روسیوں کا سہارا لے گا۔ ٹرمپ نے روسی 'ہیکرز' کو جس طرح ہلیری کلنٹن اور ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے سرور کے ای میل اکاؤنٹ کو ہیک کرنے کی دعوت دی ہے، وہ ہلیری کے حامیوں اور مخالفین دونوں کے لیے ناقابل یقین ہے۔ سیاسی معاملات سے دلچسپی رکھنے والے امریکی جانتے ہیں کہ 30 ہزار ای میلز کے بارے میں امریکی محکمہ انصاف نے طویل عرصے تک تحقیقات کرنے کے بعد ہلیری کلنٹن سے 8 گھنٹے جرح کی اور پھر انھیں کسی الزام کے بغیر کلین چٹ دی۔ بعض حلقوں کی طرف سے مسز کلنٹن پر غداری کا الزام بھی لگایا گیا لیکن انھیں اس الزام سے بھی بری قرار دیا گیا۔ انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں یہ کہا کہ اس طرح کے بیانات مسٹر ٹرمپ کی ذہنی صحت کے بارے میں شکوک پیدا کرتے ہیں اور امریکی یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ مسٹر ٹرمپ جمہوریت پر کتنا ایمان رکھتے ہیں اور کیا وہ سمجھتے ہیں کہ صدر منتخب ہوجانے کے بعد وہ کمانڈر انچیف کے عہدے کی نزاکت سمجھتے ہیں یا نہیں۔
نیویارک ٹائمز اور دوسرے امریکی اخباروں کے مطابق مسٹر ٹرمپ نے یہ بات اس وقت کہی جب امریکی خفیہ ایجنسیاں وہائٹ ہاؤس کو چند گھنٹوں پہلے یہ اطلاع دے چکی تھیں کہ ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے کمپیوٹروں کی ہیکنگ روس کی خفیہ ایجنسیوں نے کی تھی اور ان ای میلز کو عام کیا تھا جن میں مسز کلنٹن کو سینیٹر سینڈرز پر ترجیح دی گئی تھی۔
اخبار کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر مسٹر ٹرمپ کو روسی صدر کو خبردار کرنا چاہیے تھا کہ اگر ان کی حکومت نے امریکی انتخابات میں کسی طرح کی دخل اندازی کی کوشش کی تو تمام امریکی سیاستدان متحد ہوجائیں گے اور روس پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنے کی بات کریں گے۔ مسٹر ٹیک پنیس جنھیں ٹرمپ صاحب نے اپنا نائب صدر نامزد کیا ہے، انھوں نے فوراً اسی طرح کا بیان دیا تھا جس میں روسی صدر پیوٹن کو خبردار کیا گیا تھا۔
امریکی صدارتی انتخاب کے موقع پر کیا ہوتا ہے، یہ دیکھنے کی بات ہے۔ اس مرتبہ امریکی قوم کی دانش کا امتحان ہے کہ کیا وہ کسی ایسے شخص کو 4 برس کے لیے اپنا صدر منتخب کرسکتی ہے جس کے جوش خطابت کی کوئی حد و انتہا نہیں۔ کبھی وہ اپنے انتخابی فائدے کے لیے امریکا کے پرانے حریف روس کی خفیہ ایجنسیوں کو بڑھاوا دیتا ہے اور کبھی ہسپانوی اور مسلمان تارکین وطن کے خلاف نفرت بھڑکاتا ہے، اشاروں کنایوں میں لوگوں کو اپنی حریف ہلیری کلنٹن کے قتل پر اکساتا ہے اور کبھی ہم جنس پرست امریکیوں کی شدید الفاظ میں مخالفت اور مذمت کرتا ہے۔ وہ عورتوں کو خواہ وہ سفید فام ہوں یا سیاہ فام، ان کا ذکر حقارت سے کرتا ہے۔ امریکا جو اپنی کثیرالمشربی کے لیے مشہور ہے، ایک ایسا صدر وہاں کیا کرسکتا ہے؟ یہ امریکیوں کے سوچنے سمجھنے کی بات ہے۔
اس مرحلے پر جب ہم اپنے یہاں کے 'خوش بیان ' لوگوں کی تقریریں سنتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ ہمارا ملک جو پہلے ہی مذہب، مسلک، فرقے اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم ہورہا ہے ، جہاں لوگوں کو دل کشادہ کرنے کے بجائے تنگ دلی اور تنگ نظری کی تعلیم دی جارہی ہے، وہاں سیاسی مخالفین کا جوش جذبات میں حد سے گزر جانا کس قدر ہولناک ہوسکتا ہے۔
ہمارے سامنے بے نظیر بھٹو اور سلمان تاثیر کا قتل ہے، ہم نے آرمی پبلک اسکول میں بچوں کے ساتھ سفاکی کو اپنی انتہا پر پہنچتے دیکھا ہے۔ ہمارے یہاں غیرت اور نفرت کے قتل ہورہے ہیں، ایسے میں کسی سیاستدان کا یہ کہنا کہ میں اپنے مخالفین کو گردن سے گھسیٹتے ہوئے لے جاؤں گا، کبھی کسی کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالنے کی باتیں اور کبھی وزیراعظم کو غدار اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی سے ساز باز کرنے والا قرار دینا، کہاں کا انصاف ہے۔ کیا اقتدار اتنی دلربا حسینہ ہے کہ اس کے لیے ملک کے ٹکڑے کردیے جائیں؟ کیا وزیراعظم بننے کا شوق اتنا ہی بے قرار کردینے والا ہے کہ اس کے لیے ہر حد و انتہا سے گزر جانے کو جائز سمجھا جائے؟
ٹرمپ نے ہمیں یہ اعزاز بخش دیا ہے کہ اب ہمارے کچھ سیاستدان ان کی سی زبان استعمال کررہے ہیں اور اس خیال میں ہیں کہ اس طرح وہ لوگوں کے دل جیت سکیں گے۔