علامہ آئی آئی قاضی

آزادی سے پہلے متحدہ ہندوستان میں ہمارے لوگ کتنے پڑھے لکھے، باشعور اور تعلیم یافتہ تھے

LAHORE:
آزادی سے پہلے متحدہ ہندوستان میں ہمارے لوگ کتنے پڑھے لکھے، باشعور اور تعلیم یافتہ تھے، جس میں سرفہرست دینی تعلیم تھی اور سندھ کے ہر چھوٹے بڑے گاؤں میں دینی تعلیم ضرور حاصل کی جاتی تھی اور یہاں پر بڑے بڑے عالم پیدا ہوئے ہیں، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ ٹھٹھہ ضلع میں ہی لاکھوں کی تعداد میں بزرگ اولیا دفن ہیں، جس سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب، بغداد، شام، مصر سے لوگ آتے تھے۔

یہاں پر عربی، فارسی، سندھی اور اردو اچھے طریقے سے بولی اور لکھی جاتی تھی اور شاعروں نے ان زبانوں میں شاعری بھی کی ہے اور شاعری اور مضامین کی کتابیں بھی شایع ہوئی ہیں۔ اب اندازہ لگائیں کہ اس زمانے میں نہ تو بجلی عام تھی اور نہ ہی سفری سہولتیں زیادہ تھیں، خاص طور پر چھوٹے گاؤں اور شہروں میں جانے کے لیے کئی دن لگ جاتے تھے اور اس کے باوجود بھی کئی لوگوں نے تعلیمی، سماجی اور سیاسی خدمات کی ہیں، اس قدر لوگ ذہین، محنتی، ایماندار اور صبر والے تھے جنھوں نے ایسے کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ ہمارا دماغ دنگ رہ جاتا ہے۔ ان شخصیات میں آج ایک ایسا نام بھی ہے جس کی سندھ کی تعلیمی خدمات قابل تعریف ہیں۔ اس شخصیت کا نام ہے امداد علی امام علی انصاری، جس کو علامہ آئی آئی قاضی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جس نے ایک جرمن عورت سے شادی کی تھی، جس نے ایک وفادار بیوی بن کر دکھایا اور سندھ کی خدمات میں اپنا کردار ادا کیا۔

قاضی 18 اپریل 1886 کو ضلع دادو کے ایک اہم گاؤں پاٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بڑے محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ میں آئے تھے اور پھر یہاں پر ہی رہ گئے۔ گاؤں پاٹ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر تقریباً لوگ پڑھے لکھے ہوتے تھے اور انھوں نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ہندوستان میں نام کمایا تھا۔ یہاں کے لوگ لکھ پڑھ کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ یہ گاؤں 603 ہجری میں قائم ہوا تھا۔ قاضی کے والد ریونیو محکمے میں ملازم تھے۔ ان کے والد امداد علی انصاری اپنی ملازمت کی وجہ سے حیدرآباد شہر منتقل ہو گئے اور وہیں پر ایک باریش شخص محمد حفیظ کی بیٹی سے شادی کر لی، جس سے اسے دو بیٹے پیدا ہوئے جس میں ایک قاضی اور دوسرے اس کے بھائی فخر الدین تھے، جب کہ 11 بیٹیاں بھی پیدا ہوئیں۔

انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم آخوند میاں عبدالعزیز سے حاصل کی، انھوں نے عربی اور فارسی زبانیں بھی پڑھیں اور سیکھیں۔ اسی دوران قاضی نے صوفی فقیر سے 1902ء کو Join کیا، 1904ء میں سندھی فائنل کا امتحان پاس کیا، 1905ء میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ 1906ء میں کچھ عرصے کے لیے علی گڑھ کالج بھی گئے مگر پھر جلد ہی باقی تعلیم لندن کنگس کالج، لندن اسکول آف اکنامکس سے اکنامکس، سائیکالوجی، بائیولوجی کے مضامین میں 1907ء سے 1909ء تک حاصل کی۔ اس کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے جرمنی گئے، جہاں ایک سال گزارا۔ 1910ء سے 1911ء کے دوران ان کی ملاقات ایلسا سے ہوئی، جس کے عشق میں وہ گرفتار ہو گئے، مگر یہ عشق کی آگ دوسری طرف بھی شدت کے ساتھ جل رہی تھی۔ دونوں نے شادی کر لی اور پھر وہ دونوں کبھی سندھ میں اور کبھی انگلینڈ میں رہنے لگے۔

وہ ٹنڈو محمد خان میں سول جج کے طور پر کام کرتے رہے اور پھر جب وہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بنے تو انھیں خیرپور میرس میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ وہ خیرپور اسٹیٹ میں انتظامیہ کاؤنسل خیرپور میرس کے ہوم ممبر بھی رہے۔ انھوں نے پبلک پراسیکیوٹر کے طور پر بھی حیدرآباد میں کام کیا۔ ان کے تعلیمی معیار اور Intelligence کی وجہ سے انھیں لندن اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں سندھی زبان کا ٹیچر بن کر پڑھانے کا بھی موقع ملا تھا، جس سے اس نے اپنے شاگردوں کو بڑے احسن طریقے سے پڑھا کر مقبولیت اور اہمیت حاصل کی۔ وہ بہت مصروف رہتے تھے اور ہر وقت کسی نہ کسی کام میں اپنے آپ کو مصروف رکھ کر خدمت کرنا چاہتے تھے، جس کی وجہ سے انھیں یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ وہ پوئٹری سوسائٹی لندن کے وائس پریزیڈنٹ منتخب ہو گئے اور اس عہدے پر وہ 1946ء تک فائز رہے۔


اس کے علاوہ وہ لندن فلاسفیکل سوسائٹی کے ممبر بھی رہے جس کی وجہ سے انھیں فلاسفی کو فروغ دینے کا موقع ملا۔ جیساکہ انھیں مسلمانوں اور اپنے دین سے لگاؤ تھا جس کے لیے وہاں پر جماعت المسلمین قائم کی۔ وہ بہت اچھے ڈریسر تھے اور اکثر فل سوٹ میں نظر آتے تھے، ان کا لباس تو مغربی تھا مگر دل مشرقی تھا اور اسے اپنے سندھ سے بے حد محبت تھی۔ انگریزی زبان اور ادب انھوں نے بہت پڑھا تھا اور خاص طور پر انھیں دو کتابیں زیادہ پسند آئیں جس میں ایک تھی Adventure of a Black Girl اور دوسری تھی In search of God جن سے وہ بڑے متاثر تھے، لیکن انھوں نے پھر دو کتابیں اسی طرح کی لکھیں جس میں ایک کا نام تھا Adventure of a Brown Girl اور دوسرا تھا In search of God۔ ان دونوں میں انھوں نے اپنے مشرقی اور دینی رنگ بھرے۔

جب وہ 1951ء میں انگلینڈ سے پاکستان واپس آئے تو انھیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنایا گیا۔ اپنے عہد کے درمیان وہ وہاں پر امتحانی بورڈ کا Status بڑھا کر پوسٹ گریجویٹ کروانے میں کامیاب ہو گئے اور تعلیمی معیار کو بہت آگے لے آئے۔ اس طرح سے صحیح طور پر یہ ادارہ ایک Institute بن کر ابھر آیا۔ وہ اس پوزیشن سے 1959ء میں دستبردار ہو گئے اور اپنے آپ کو حیدرآباد میں ایک گھر میں محصور کر دیا اور تنہائی میں اپنا وقت گزارنے لگے۔

علامہ کی زندگی میں اپریل کا مہینہ بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہ اسی ماہ میں پیدا ہوئے تھے، شادی بھی اسی ماہ میں کی تھی اور ان کی وفات بھی اسی مہینے میں ہوئی ہے۔ مگر وہ اپنی زندگی میں سب سے زیادہ برا مہینہ مئی کو کہتے تھے کیونکہ ان کی محبت ایلسا قاضی کی موت 28 مئی 1967ء میں غلام محمد بیراج جامشورو کی پل سے پاؤں سلپ ہونے سے واقع ہوئی تھی، جس دن کو وہ منحوس کہتے تھے۔ جس کے بعد اس کی دنیا میں اندھیرا چھا گیا اور وہ سوچتے تھے کہ وہ وہاں ٹہلنے کیوں گئے جب کہ اس کے بعد بھی انھوں نے وہاں ٹہلنا جاری رکھا اور پل کے اوپر سے نیچے دیکھ کر کہتے تھے کہ اسے ایلسا پکار رہی ہے اور اسے اپنا وعدہ یاد دلوا رہی ہے کہ وہ ہمیشہ اکٹھے رہیں گے۔

وہ ہر روز چھلانگ لگانے کا سوچتے تھے اور آخر انھوں نے 13 اپریل کو 1968ء کے دن اپنے آپ کو پل سے نیچے گرا کر اپنا وعدہ پورا کیا۔ وہ ایلسا کی موت کے بعد ہر روز اس کا بستر اپنے ساتھ لگاتے، اس کے حصے کی روٹی اپنے آگے رکھتے اور کہتے تھے کہ کھانا کھاؤ۔ خود بھی کبھی کھاتے کبھی نہیں، جس کی وجہ سے اس کی صحت دن بہ دن گرتی جا رہی تھی۔ ان دونوں کی آخری آرام گاہ سندھ یونیورسٹی میں ہی ہے جہاں پر اکثر یونیورسٹی کے اساتذہ، شاگرد انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے قل پڑھنے جاتے ہیں اور خاص طور پر ان کی سالگرہ اور برسی کے موقع پر عام آدمی اور ادبی، سیاسی اور تعلیمی لوگ فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں۔ علامہ نہ صرف سندھ کا بلکہ پورے ملک کا اثاثہ تھے جنہیں ہم تعلیم داں، محقق، صوفی، ادیب، فلاسفر کہتے ہیں، ان کی تحریریں ہمارے نوجوانوں کے لیے ایک گائیڈینس کا درجہ رکھتی ہیں اور ہم ان کی تحریروں سے آنے والے وقت کے لیے تعلیمی راہ متعین کرنے میں آسانی حاصل کر سکتے ہیں۔

میں آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہم اپنے ماضی کے ہیروز کو اس لیے یاد کرتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل ان کی خدمات سے Inspire ہو اور ان کے چھوڑے ہوئے تعلیمی، علمی، ادب اور فلسفے کے کام میں اور جدت لائے تاکہ ان کے بعد آنے والی نسلیں اس کام کو مزید آگے بڑھاکر ملک اور اپنے علاقے میں علمی اور ادبی ماحول کو بہتر بنائیں۔
Load Next Story