وزارت کھیل کوئی کھیل نہیں

محترم وزیر کھیل، آپ کے دھوپ کے چشمے، اعلیٰ ملبوسات اور شاندار گاڑیاں عوام دیکھ چکے اب کارکردگی بھی دکھائیے۔


سدرہ ایاز August 17, 2016
اب سوال یہ ہے کہ کیا نئے وزیر اپنی وزارت کی ذمہ داریوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹیں گے یا دوسروں کو پش اپس کی طرح کے مختلف چیلنج دیتے رہیں گے؟ فوٹو:فائل

کل سوشل میڈیا پر عامر لیاقت کی ایک ویڈیو نظر سے گزری، ارے نہیں بھئی! یہ ویسی ویڈیو نہیں تھی جس پر ابھی رمضان ہی میں انہیں بہت برا بھلا کہا گیا۔ نہ ہی یہ زخمی حالت میں پاکستانی پرچم بلند رکھنے والے ڈرامے جیسی تھی۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ ویسی کوئی ویڈیو نہیں جس پر کوئی انہیں ڈرامے باز، مذہبی ایکٹر، پاگل واگل کہہ سکیں۔ یہ کچھ مختلف تھی اور رات کو ایک نجی ٹی وی چینل پر جب انہوں نے اپنی اس ویڈیو کا جواز بتاتے ہوئے سندھ کے ایک وزیر کا تذکرہ کیا تو میں بھی ان کی ہم خیال ہوگئی۔ عامر بھائی کی یہ ویڈیو سندھ کے نوجوان وزیر کھیل سردار محمد بخش خان مہر کے 50 پش اپس والی ویڈیو کا جواب ہے جس کی ہر طرف دھوم مچی ہوئی تھی۔ عامر بھائی نے کہا ہے کہ وزیر کام کرکے دکھائیں تو بات بنے۔ ان کی بات مجھے بھی پسند آئی، لیکن ہمارے وزیر موصوف نے تو پنجاب کو للکارا تھا۔ عامر بھائی کیوں اسے دل پر لے گئے؟ یہ میں اب تک نہیں سمجھ سکی۔ بہرحال عامر بھائی نے 64 پش اپس کے ساتھ میدان مار لیا ہے۔

قارئین، اگر کل ہمارے وزیر کھیل ''ڈبو'' کے ٹورنامنٹ کا افتتاح کرتے ہوئے اس کھیل کے فروغ کے لئے فنڈز مختص کرنے کا اعلان کریں تو کسی قسم کی حیرت کا اظہار مت کیجئے گا۔ اگر گلی گلی لگے ''فٹبال گیم'' کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی جارہی ہو تو بھی تعجب نہیں ہونا چاہیئے، اور ہوسکتا ہے کسی دن تاریخی ہاکی اسٹیڈیم میں سندھ کی سطح پر ''کنچا ٹورنامنٹ'' بھی منعقد ہوجائے۔ یہی نہیں بلکہ سندھ میں سب سے پہلے پگڑی پہننے کا کوئی مقابلہ بھی منعقد کیا جاسکتا ہے۔ میرے اس طنز کی وجہ وزیر موصوف کا بظاہر غیر سنجیدہ اور نمائشی انداز ہے۔ انہوں نے پش اپس اور سوشل میڈیا پر اپنے لائف اسٹائل کی تصاویر سے میڈیا کی توجہ تو اپنی جانب مبذول کرالی ہے، مگر اب انہیں اپنی وزارتی ذمہ داریوں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ سب سے پہلے تو انہیں خود اپنے آبائی علاقے گھوٹکی کے کھیلوں کے میدانوں کا دورہ کرنا چاہیئے جو کچرے کے ڈھیر اور گندے پانی کی وجہ سے کھیل کود کے مقابلوں سے محروم ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کھیلوں کا شوق رکھنے والے گھوٹکی کے نوجوان اور شہری مثبت اور صحتمند جسمانی سرگرمیوں سے دور ہیں، اور وہ ان کی طرح پچاس تو کیا دس پش اپ بھی نہیں لگا سکتے کیونکہ سندھ بھر میں کھیل کے میدانوں پر قبضہ کرکے غیر قانونی تعمیرات کردی گئی ہیں۔

دوسری طرف کراچی میں بھی یہی صورتحال ہے۔ گراؤنڈ موجود ہیں تو وہاں گندا پانی اور کچرا پڑا ہوا ہے اور بعض علاقوں میں قبضہ کرنے کے بعد ان پر عمارتیں قائم کردی گئی ہیں۔ حال ہی میں کراچی کے عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم میں اسٹروٹرف پر موٹر سائیکل چلانے کا مظاہرہ اور ڈاگ شو کا انعقاد کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے میڈیا رپورٹس کے مطابق پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے لگائی گئی آسٹرو ٹرف برباد ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس کا نوٹس تو آپ نے لے لیا ہے، مگر اب بھی آپ کی وزارت کو کئی چیلنجز در پیش ہیں، جن سے نمٹنے کے لئے آپ کو ذرا ہمت دکھانی ہوگی اور آگے آنا ہوگا۔ سندھ کے عوام تو آپ کی طاقت کا مظاہرہ پش اپس کی صورت دیکھ چکے۔ کیا ہوا جو کسی نے کچھ زیادہ پش اپس لگالئے۔ وہ عامر لیاقت ہوں یا کوئی اور آپ کے لائف اسٹائل کا مقابلہ تو نہیں کرسکتا۔ رہے غریب عوام تو وہ آپ کے طرز زندگی اور فیشن سے بے حد متاثر ہیں۔ آپ کے دھوپ کے چشمے، پگڑیاں اور انگریزی ہیٹ، اعلیٰ برانڈ کے ملبوسات اور بڑی بڑی گاڑیوں کے ساتھ اسپورٹس کاریں انہوں نے دیکھ لیں۔ بس اب جلد کھیل اور اس کے فروغ کے حوالے سے اپنی شاندار کارکردگی دکھا کر بھی انہیں اپنا بنالیں۔

28 سالہ سردار محمد بخش خان مہر کو سندھ کابینہ میں وزیر کھیل کا قلم دان سونپا گیا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو زرداری نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سیاست میں لانے اور عوام کی خدمت کا جو وعدہ کا تھا یہ اسی کی ایک کڑی ہے، لیکن وزیر موصوف کا اپنی آمد کے ویڈیو بناکر دوسرے صوبوں کے وزیر کھیل کو چیلنج کرنے والے عمل کو اچھے انداز میں نہیں لیا گیا۔

یہ تو خیر ان کی ذاتی زندگی ہے اور وہ اس میں آزاد بھی ہیں، مگریہ بھی درست ہے کہ سیاستدان جب عوام میں جاتے ہیں تو ان کا پہلا تاثر بہت اہم ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئے وزیر صاحب اپنی وزارت کی ذمہ داریوں کو بھی سمجھتے ہیں؟ وہ اپنی وزارت کو درپیش چیلنجز سے نمٹیں گے یا دوسروں کو پش اپس کی طرح کے مختلف چیلنج دیتے رہیں گے؟ کھلاڑیوں اور کھیلوں کی بہتری کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر کیا ہے؟ کھیلوں کے شائقین خصوصاً نوجوانوں کو صحتمند اور مثبت سرگرمیوں سے قریب لانے کے لیے ان کا کیا کردارہو گا؟ اس کے علاوہ کیا وہ اس وزارت کے لیے سنجیدہ بھی ہیں یا ان کے نزدیک یہ سیاسی عہدہ محض ایک کھیل ہے؟

دراصل ہمارا پہلا تاثر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ پہلی مرتبہ بحیثیت وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ خود کو عوام کے سامنے لائے تو اپنا ایک مثبت تاثر دینے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے سرکاری افسران کو صبح 9 بجے دفتر پہنچنے اور کام شروع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے خود اس پر عمل شروع کردیا۔ بارش ہوئی تو سڑکوں پر دکھائی دیئے، افسران کے خوب کان کھینچے، ان کی وجہ سے کئی مقامات سے پانی نکالنے کا کام شروع ہوا اور پولیس بھی سڑکوں پر ٹریفک بحال کروانے کے لیے موجود رہی۔ انہوں نے ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا اور سب وزراء کو رابطے میں رہنے کی ہدایت کردی۔ یہ الگ بات ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر اب بھی گندا پانی بہہ رہا ہے اور گٹر ابل رہے ہیں، ٹریفک جام رہتا ہے اور دیگر مسائل بھی جوں کے توں ہیں۔ لیکن مراد علی شاہ نہ صرف عوام میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جارہے ہیں بلکہ لوگوں کو امید ہے کہ وہ سندھ کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

بلاول بھٹو زرداری محمد بخش مہر کی طرح سندھ کے تعلیم یافتہ اورعوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے دیگر نوجوانوں کو بھی حکومتی عہدے اور پارٹی ذمہ داریاں ضرور سونپیں مگر اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ باصلاحیت اور عوامی خدمت کا جذبہ بھی رکھتے ہوں، کیونکہ صرف پش اپس سے سندھ کی تقدیر نہیں بدلی جاسکتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں