لوڈشیڈنگ سے محروم ہمارے حکمران
آپ اسی بات پر خوش ہوں کہ ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقے کو...
ہمارے بڑوں کو جن میں وزیروں سے لے کر جناب صدر تک سبھی شامل ہیں اگر کسی چیز سے محرومی لاحق ہے تو وہ میں آپ کو بتا کر حیران کر سکتا ہوں۔ ایک عام پاکستانی کے خیال میں ان لوگوں کو دنیا کی کسی بھی چیز کی محرومی نہیں ہے لیکن ہم عوام کی دلجوئی کے لیے قدرت نے یا حالات نے ایک چیز ایسی رکھ چھوڑی ہے جس سے یہ لوگ محروم ہیں اور یہ ہے لوڈشیڈنگ' بجلی کی بندش۔
ان لوگوں کو بجلی کی بندش کے مزے لوٹنے کا موقع نہیں ملتا۔ وہ اپنے بچوں کو تفریح کے لیے کبھی کبھار کسی ایسی جگہ لے جاتے ہیں جہاں اس وقت لوڈشیڈنگ جاری ہوتی ہے۔ اندھیرا گھپ، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، بیوی اور سالی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ لوڈشیڈنگ یعنی اندھیرے کے اور بھی کئی مزے ہیں لیکن اخباری کالموں میں اس کی تفصیل کی جگہ نہیں ہوتی ہے فی الحال آپ اسی بات پر خوش ہوں کہ ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقے کو لوڈشیڈنگ کا مزا حاصل نہیں ہے اور وہ اس سے مکمل محروم ہیں۔
ان کی بے حد و حساب آسودہ زندگی میں صرف یہی ایک محرومی ہے جس سے وہ اپنے بچوں کو کبھی کبھار آگاہ کر دیتے ہیں۔ بتایا جاتا تھا کہ پیرس کے اسکولوں میں ایک مرتبان میں مٹی رکھی ہوتی تھی جب بچوں کو خاک کا بتایا جاتا تھا تو اس مرتبان کو کھول کر اس میں سے کچھ مٹی نکال کر ہوا میں اڑائی جاتی تھی اور اس طرح جو خاک اڑتی تھی ان بچوں کو بتاتی تھی کہ خاک کیا ہوتی ہے۔ یہی لوڈشیڈنگ کا معاملہ ہے۔
بچوں کو کسی اندھیرے علاقے میں لے جا کر انھیں لوڈشیڈنگ سے متعارف کرایا جاتا ہے تاکہ اسکول میں اگر سوال کیا جائے تو وہ اس کا جواب دے سکیں کہ لوڈشیڈنگ کیا ہوتی ہے۔ انھوں نے ڈیڈی ممی کے ساتھ جا کر یہ خود دیکھی ہے۔ اب اگر آپ بلاول زرداری سے کسی جلسے میں پوچھیں کہ گرد و غبار کیا ہوتا ہے یا لوڈشیڈنگ کیا ہوتی ہے تو وہ اپنے عوام کو یہ بتا سکتے ہیں۔ عوام خوشی سے تالیاں بجائیں گے کہ ان کے جدید ترین دور کے قائد ان دونوں یعنی لوڈشیڈنگ اور گردوغبار سے آشنا ہیں۔
یوں وہ اپنے عوام کے کس قدر قریب ہیں۔ کل ان کے دور اقتدار میں جب لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ان کی خدمت میں پیش ہو گا تو ادھر ادھر اپنے اسٹاف کی طرف نہیں دیکھیں گے کہ یہ کیا سوال ہے بلکہ وہ کہیں گے کہ وہ ذاتی طور پر اس مسئلے سے آگاہ ہیں اور اسے فلاں تاریخ تک حل کر لیا جائے گا۔ اس پر راجہ پرویز اشرف صاحب جو وہاں موجود ہوں گے سر ہلا کر اپنے لیڈر کو داد دیں گے اور موقع ملا تو بتائیں گے کہ انھوں نے اپنی پوری وزارت عرصہ چار سال انھی وعدوں پر گزار دی تھی اور اس کا پھل یہ ملا کہ وہ وزیر اعظم بن گئے۔
اس لیے وعدے کرنا اور تاریخیں دینا بہت مفید سیاسی سرگرمی ہے۔ سیاست میں جس قدر کذب بیانی کی قدر و منزلت ہوتی ہے کسی اور وصف کی نہیں ہوتی۔ کسی بھی سابق حکمران کی حکمرانی کی زندگی کا مطالعہ کر لیں وہ تمام کی تمام انھی جھوٹے وعدوں پر مشتمل ملے گی۔ جھوٹ کا یہ سلسلہ الیکشن سے شروع ہوتا ہے جو وعدوں کا زمانہ ہوتا ہے اور ان کے وعدوں کو قبول کیا جاتا ہے۔
ان پر عمل وغیرہ کا مرحلہ بعد میں آتا ہے جب اقتدار نصیب ہوتا ہے اور اقتدار وعدہ خلافی سے بھی بڑے مسئلوں کا شافی علاج ہے۔ حکمرانوں کو وعدے یاد دلانے کے مرض میں مبتلا اس علاج سے شفا پاتے دیکھے گئے ہیں، بے شک اﷲ نے ہر مرض کے ساتھ اس کا علاج بھی دیا ہے۔ میں نے اس بات کی مزید وضاحت کے لیے جب آج کے اخبارات اٹھائے تو ان کے صفحات ایسی مثالوں سے بھرے ہوئے تھے چنانچہ میں نے انھیں چوم کر رکھ دیا۔ زندگی انھیں سیاست دانوں کے ساتھ گزری ہے اور گزرے گی۔ عوام کو خوش کرنے کے لیے سیاستدانوں کو ناراض کیوں کیا جائے جن کی خوشی یا ناراضی کا کچھ حاصل بھی ہوتا ہے۔ عوام کا کیا ہے وہ ووٹ دیں اور خوش رہیں۔ ان کا واحد ہدف یہی ہے۔
گزشتہ دنوں اور یہ سلسلہ اب تک کسی نہ کسی بہانے جاری ہے کہ بھارت کا ایک اداکار بھارت میں مر گیا لیکن صف ماتم پاکستان میں بچھ گئی۔ پرویز مشرف نے میڈیا کو جو آزادی دی تھی اس کا ایک نمونہ ہم نے اس بھارتی ماتم میں دیکھ لیا۔ پورا میڈیا خصوصاً جدید دور کا نمونہ برقی میڈیا نوحہ گری سے گونج اٹھا۔ شاعر نے کہا تھا ع مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں'' لیکن اگر کوئی بھارتی مر جائے تو اسے نوحہ گری کے لیے کسی کو ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں، پاکستان میں ایسے نوحہ گر ہر جگہ مفت میں موجود ہیں۔
میں جناب انصار عباسی صاحب کا ممنون ہوں کہ انھوں نے بھی اس سانحہ پر قلم اٹھایا جو پاکستان میں برپا ہوا۔ اسے قومی حمیت کا سانحہ کہا گیا ہے۔ میں پرویز مشرف کے ذکر میں اس کی اس بات پر چپ ہو جاتا ہوں کہ اس نے میڈیا کو کھل کر آزادی دی تھی لیکن ایک اداکار راجیش کھنہ کی موت پر میڈیا نے جس آزادی کا اظہار کیا اسے دیکھ کر جی چاہتا ہے آزادی مادر پدر سے آزادی نہیں بلکہ حلالی اور جائز ہونی چاہیے جس کا کوئی ماں باپ بھی ہو جس کا نام لے کر اسے شرم دلائی جا سکے۔ اب پرویز مشرف کا نام لے کر تو کسی کو شرم نہیں دلائی جا سکتی۔
ہمارے میڈیا کے پروگراموں یعنی بحث و تمحیص کے لڑائی جھگڑوں میں اگر کچھ رونق باقی ہے تو وہ اکلوتے سیاستدان شیخ رشید کی وجہ سے ہے، وہ ایک اکلوتی پارٹی کے سربراہ ہیں اور بذات خود بھی ابھی تک اکلوتے ہی چلے آ رہے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں نے اتنی فرصت ہی نہیں دی کہ زلف و رخسار کی مسحورکُن دنیا میں گم ہو سکیں بلکہ مجھے تو شک پڑتا ہے کہ کہیں وہ بعض صوفیاء کی طرح تجرد کی زندگی میں ہی نہ گم ہو جائیں۔
شیخ صاحب کی یاد ایک خبر کی وجہ سے آئی ہے کہ انھوں نے 13 اگست کو نواز لیگ یا تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ کرنا ہے۔ وہ کسی جماعت کی رونق بنتے ہیں اس پر شرطیں لگنی شروع ہو گئی ہیں اور خبر نگار بتاتا ہے کہ کروڑوں کی شرطیں لگ گئی ہیں اگر کروڑوں والی بات سچ ہے تو شیخ صاحب کو کسی بکی سے فوراً رابطہ کر لینا چاہیے کہ اتنی رقم کہیں ادھر ادھر نہ ہو جائے۔
میں چونکہ جوئے بازی سے ناآشنا ہوں اور اس کے اسرار و رموز نہیں جانتا اس لیے مزید کچھ عرض نہیں کر سکتا لیکن اگر ہمارے کرکٹر میچ فکس کر سکتے ہیں تو کیا شیخ صاحب اپنا یہ میچ فکس نہیں کر سکتے۔ ایسے کاروباری معاملات میں شیوخ سے زیادہ ہنرمند کون ہو سکتا ہے۔ شیخ صاحب کسی تکلف میں نہ رہیں ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ سیاستدانوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہے اس لیے وہ جھجکیں نہ اور ہمت کر گزریں۔