درخشاں ستارے

لوگ کہتے ہیں تاریخ میں مت جھانکو، آج کی بات کرو، مگر انھیں نہیں معلوم کہ گزرے کل کے بغیر آج کچھ بھی نہیں ہے

muqtidakhan@hotmail.com

لوگ کہتے ہیں تاریخ میں مت جھانکو، آج کی بات کرو، مگر انھیں نہیں معلوم کہ گزرے کل کے بغیر آج کچھ بھی نہیں ہے۔ آج گزرے کل کا پرتو اور آنے والے کل کی تصویر ہوتا ہے۔ گزرے کل کی غلطیاں آج پر اثرانداز ہوتی ہیں اور آج کی کوتاہیاں آنے والے کل کو پراگندہ کرتی ہیں۔ عقل و دانش بتاتی ہے کہ غلطیوں سے سیکھنا ہی کامیابی کی سیڑھی ہے، مگر شاید ہماری حکمران اشرافیہ کے ہاتھوں میں سیکھنے کی ریکھا ہی نہیں ہے۔

میں جب نوجوانوں سے بات کرتا ہوں تو یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ وہ ماضی قریب میں ہونے والی سیاسی جدوجہد اور اہم سیاسی شخصیات کے بارے میں کسی قسم کی کوئی معلومات نہیں رکھتے۔ انھیں سیاست میں بدعنوانیوں، بدقماشیوں اور بدکرداری کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کی تاریخ میں سچی اور کھری بات کرنے والوں کی ہمیشہ زباں بندی کی گئی جس طرح بانی پاکستان کی 11اگست کی تقریرریڈیو پاکستان کے ریکارڈ سے غائب کردی گئی۔ اسی طرح ان شخصیات کے کارناموں کو منظر عام پر آنے نہیں دیا جاتا۔ لہٰذا نئی نسل کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ماضی قریب میں کیسی کیسی نابغہ روزگار ہستیاں گزری ہیں، جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت و عزم ،دیانتداری اور جرأت مندی کے ساتھ اس مملکت کو ہر موقعے پر غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھنے سے روکنے کے لیے بھر پور کردار ادا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ حکمران اشرافیہ نے ان کے مشوروں اورانتباہ کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ نتیجتاً حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی سزا اس ملک کے عوام69برس سے مسلسل بھگت رہے ہیں۔

وہ نابغہ روزگار ہستیاں جو قیام پاکستان کے وقت سے آج تک اسٹبلشمنٹ کے بیانیے (Narrative) میں موجود خامیوں اورکمزریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے متبادل بیانیے پیش کرتی رہی ہیں۔ غلط ریاستی حکمت عملیوں اور فیصلوں کی جرأت مندی کے ساتھ پردہ چاک کرکے جمہوریت، وفاقیت اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے ہر ظلم اور ہر صعوبت برداشت کرتی رہی ہیں۔ ان کی فہرست خاصی طویل ہے ۔

ان کے ویژن، کردار اور بے لوث خدمات کے بارے میں نئی نسل کو آگاہ کرنا، اس کی سوچ میں وسعت لانے اور ریاست کو ترقی وتعمیر کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے ان شخصیات پر وقتاً فوقتاً اظہار رائے ہوتے رہنا چاہیے۔آج ہم جس روشن شخصیت کے بارے میں گفتگو کرنا چاہیں گے، وہ میاں افتخار الدین مرحوم ہیں۔

میاں صاحب مرحوم ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت تھے جنہوں نے سیاست کے ساتھ صحافت کو بھی ایک ترقی دوست سمت دینے کی پر خلوص کوشش کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ بااصول سیاست کے فروغ کے لیے جرأت مند صحافت نہایت ضروری ہے کیونکہ سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، مگر جس طرح اسٹبلشمنٹ اور سیاسی گدھوں نے اپنے سازشی ہتھکنڈوںکے باعث انھیں سیاسی میدان سے باہرکرنے کی کوشش کی، اسی طرح ان کے صحافتی ادارے پروگریسو پیپرزکو پا با زنجیر کر کے حق گوئی کی رسم کو بھی ہمیشہ کے لیے پابند سلاسل کردیا۔

یہ قلندر صفت شخص پنجاب کے اس خانوادے سے تعلق رکھتا تھا، جس نے سرمیاں محمد شفیع اور جسٹس سرمیاں عبدالرشید مرحوم جیسی شخصیات کوجنم دیا۔ اگر سر میاں محمد شفیع نے برصغیر میں علم وآگہی کے فروغ میں نمایاں کردار اداکیا تو جسٹس سر میاں عبدالرشید ایک بلند پایہ منصف تھے، جو نئی مملکت کے پہلے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ میاں صاحب نے دیگر مسلمان اکابرین کی طرح سیاست کا آغازکانگریس سے کیا۔ جب تک کانگریس میں رہے تو اصولوں کی بنیادپرحق گوئی کو اپنا وتیرہ بنائے رکھا۔لیکن جب محسوس کیا کہ کانگریس دہرے معیار کا شکار ہے تو مسلم لیگ میںچلے آئے پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حصول نہ ان کا مطمع نظرتھا اور نہ ہی مشکل۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1937 میں وہ کانگریس کے ٹکٹ پر جب کہ1946میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔


جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، میاں افتخار الدین نے سیاست کو صحیح سمت دینے کے لیے صحافت کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے1946میں پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کے تحت قیام پاکستان سے چند ماہ پیشتر (فروری1947)انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز شروع کیا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد اردو روزنامہ امروز اور1957میں ہفت روزہ جریدہ لیل ونہار کی اشاعت بھی شروع کردی۔ کھیلوں پر بھی ایک جریدہ شایع کیاجانے لگا۔ یوں پروگریسو پیپرز نے نئے ملک میں آزاد، غیر جانبدار اور ترقی دوست صحافت کی بنیاد رکھی اور صحافت کو بااعتماد اسلوب اختیار کرنے کی راہ دکھائی جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے اخبارات و جرائد کی ادارت فیض احمد فیض ، مظہر علی خان، احمد ندیم قاسمی، چراغ حسن حسرت اور سبط حسن جیسی نابغہ روزگار ہستیاںکررہی تھیں۔

ہمارے محترم حمید اختر مرحوم، جنہوں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز پروگریسو پیپرز کے اخبار امروز سے کیا تھا، جب بھی ملتے میاں صاحب مرحوم کی اعلیٰ ظرفی، بلند کرداراوراصول پرستی کا کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور سناتے۔ ایک مرتبہ انھوں نے بتایا کہ ایک روز میاں صاحب امروز کے مدیر چراغ حسن حسرت کے کمرے میں تشریف لائے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ'' حسرت صاحب کدی ساڈی خبراں وی فرنٹ پیج تے لادیا کرو۔'' اس پر حسرت مرحوم نے برجستہ جواب دیا کہ'' میاں صاحب جب آپ کی خبریں اس قابل ہوجائیں گی تو ضرور انھیں فرنٹ پیج پر لگائیں گے۔'' کیا آج کوئی مالک اپنے ایڈیٹر سے اس طرح ملتجانہ انداز میں درخواست کرے گا؟کیا کوئی مدیر مالک کو اس پیشہ ورانہ جرأت مندی سے جواب دے گا؟ نہیں۔ کیونکہ ہم اپنی اقدار، روایات اور پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے جان چھڑا کر وقتی مفادات کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔

سیاست میں بھی میاں صاحب مرحوم نے حق گوئی اور اصول پرستی کا دامن نہیں چھوڑا۔ مارچ1950میں دستور ساز اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران انھوں نے وزیرخزانہ(ملک غلام محمد) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ '' ملک میں غریب کو روٹی میسر نہیں ہے اور تم دفاع پر قومی وسائل کا خطیر حصہ لگا رہے ہو، اگر یہ ضروری ہے تو کیوں نہ 50ایکٹر سے زائد زمین قومی ملکیت میں لے کر اس سے ہونے والی آمدنی دفاع پر لگادی جائے۔''اس بیان پر اسمبلی میں موجود جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں نے ان پر کمیونسٹ ہونے کا الزام عائد کیا، مگر وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔

میاں صاحب مرحوم نے 1953میں لاہور سمیت پنجاب کے چند شہروں میں مارشل لا کے نفاذ کی بھی شدید الفاظ میں مخالفت کی اور اسے ملک میں مارشل لا کی راہ ہموار کرنے کا ابتدائیہ قرار دیا۔ ان کی بات درست ثابت ہوئی اور پانچ برس بعد ملک میں عملاً مارشل لا لگ گیا۔ مسلم لیگ جس پر مغربی پاکستان کے وڈیروں اور جاگیرداروں کا قبضہ ہوگیا تھا، میاں افتخار الدین جیسی شخصیت ناقابل قبول ہوچکی تھی۔ اس لیے1951میں انھیں مسلم لیگ سے خارج کردیا گیا۔ مسلم لیگ سے علیحدگی کے بعد انھوں نے پہلے آزاد پاکستان پارٹی تشکیل دی۔ اس کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کے بھی ناقد تھے اور اسمبلی کے فلور ، جلسوں اور تقریبات میں کھل کر تنقید کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ 1957میں اس وقت کے امریکی سفیر نے تمام سفارتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے میاں صاحب پر کڑی تنقید کی۔

ان کے اخبارات کو 1959کے اوائل میں فوجی آمر ایوب خان کی ہدایت پر قومی تحویل میں لے لیا گیا، جب کہ اخبارات و رسائل کو قومی تحویل میں لیے جانے کا انھیں کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔ وہ خود بھی اس دور میں مختلف نوعیت کی سیاسی پابندیوں کا شکار رہے۔ یوں وہ صاحب بصیرت سیاستدان جو پاکستان میں سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کا حامی،آزادی اظہار کا نقیب اورآزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل کا خواہش مند تھا، 55برس کی عمر میں 6 جون 1962کو شکستہ دل کے ساتھ اس دار فانی سے کوچ کرگیا ۔ اس شخص کی بصیرت، سوچ اور طرز سیاست ان تمام لوگوں کے لیے چراغ راہ ہے، جو اس ملک کو ایک مہذب اور شائستہ معاشرے کے طور پر دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔

یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کے سامنے اپنی تاریخ کے ان کرداروں کو وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہیں، تاکہ ہماری نئی نسل کو اندازہ ہوسکے کہ اس ملک میںہم نے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں ماریں بلکہ ایسی شخصیات گذری ہیں ، جنہوں نے اپنی جان ومال اس ملک کے عوام کی بہتری اور ترقی کے لیے وقف کردیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ریاست پر قابض حلقوں نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور من مانیاں کرتے ہوئے اس ملک کو تباہی کی اس منزل تک پہنچا دیا۔
Load Next Story