عوام احساس کمتری سے نکلیں
ماضی میں حکمرانوں کا عوام کو احساس کمتری میں مبتلا رکھنا سب سے بڑا حربہ تھا۔
ماضی میں حکمرانوں کا عوام کو احساس کمتری میں مبتلا رکھنا سب سے بڑا حربہ تھا۔آقا اور غلام کے کلچر کو بادشاہوں نے ظل الٰہی اور رعایا کے کلچر میں بدل کر عوام کو احساس کمتری میں مبتلا کر رکھا اور اس کلچرکو مضبوط کرنے کے لیے جمعے کی نماز کے دوران خطبات میں بادشاہوں کی تعریف کے پل باندھ دیے جاتے اور علما کے ذریعے عوام کو یہ بتایا جاتا کہ بادشاہوں کی اطاعت عوام پر فرض ہے آسمان پر خدا اور زمین پر بادشاہ خدا کا نائب ہے جس کی اطاعت رعایا پر فرض ہے۔
متحدہ ہندوستان میں یہ کلچرصدیوں تک جاری و ساری رہا۔ مغل امپائر کے بعد جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہی کلچر جاری رہا انگریز جانتے تھے کہ ہندوستان پر حکومت کرنے کے لیے انھیں مقامی آلہ کاروں کی ضرورت پڑے گی سو انھوں نے امرا اور جاگیرداروں کی شکل میں یہ ٹولے پیدا کردیے جن کا کام عوام سے محصول وصول کرنا، جنگوں کے لیے انگریزوں کو فوجی فراہم کرنا اور عوام کو دبائے رکھنا تھا۔ اس خدمت کے لیے انگریزوں نے انھیں جاگیریں عطا کیں اور معاشرے میں انھیں ''بڑا آدمی'' بناکر رکھا تاکہ عوام انگریزوں کے ساتھ ان کے گماشتوں سے بھی مرعوب رہیں یہ وہ نفسیاتی حربے تھے جن کے ذریعے عوام کو احساس کمتری میں مبتلا رکھا گیا۔
بادشاہ جب اپنے محلوں سے باہر نکلتے تو ٹریفک بند کردیا جاتا، رعایا بادشاہ کی سواری گزرنے تک سڑکوں کے دونوں طرف سر جھکائے کھڑی رہتی۔ حیدرآباد دکن میں چونکہ بادشاہت تھی اور میر عثمان علی خان حیدرآباد کی ریاست کے بادشاہ تھے عوام پر رعب ودبدبہ قائم رکھنے کے لیے میر عثمان علی خان کے لیے اس وقت سے ٹریفک بند کردیا جاتا تھا جب وہ حمام میں ہوتے تھے۔ بادشاہ یا ظل سبحانی کے گزرنے تک رعایا سڑک کے دونوں طرف سر جھکائے کھڑی رہتی۔
1947 میں قیام پاکستان کے بعد نوآبادیاتی نظام سے آزادی ملی 200 سال بعد انگریزوں سے نجات حاصل ہوئی اور ملک میں جمہوریت آنے کی خوشخبری سنائی گئی تو یہ امید پیدا ہوئی کہ عوام صدیوں کی غلامی سے بھی آزاد ہوں گے اور قانون ساز اداروں تک ان کی رسائی ممکن ہوگی اور عوام کو یہ اختیار حاصل ہوجائے گا کہ وہ اپنے مفادات کے مطابق قانون سازی کریں گے لیکن عوام کا یہ خواب اس لیے چکنا چور ہوگیا کہ جاگیر دار طبقہ ملک کی سیاست پر قابض ہوگیا اور عوام کو غلام بنائے رکھنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرنا شروع کیے۔
زرعی معیشت سے جڑی ہوئی60 فیصد آبادی کو زرعی غلام بناکر رکھ دیا گیا ہاری اور کسانوں کو اول تو وڈیروں سے ملنے کی اجازت نہ تھی اگر کسی شدید ضرورت کے تحت کسی ہاری یا کسان کو وڈیرے کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملتا تو اسے محل میں داخلے سے پہلے جوتے اتارنا پڑتے تھے اور باریابی کے بعد الٹے پاؤں واپس لوٹنا پڑتا تھا یہ سب اس لیے ہو رہا تھا کہ پاکستان میں بالادست طبقات سیاست اور اقتدار پر قابض ہوگئے تھے اور زرعی اصلاحات ہونے نہیں دیتے تھے۔
ایوب خان، بھٹو اور ضیا الحق کی نام نہاد زرعی اصلاحات کے بعد بھی نہ صرف جاگیردار ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک بنے رہے بلکہ ہاریوں اور کسانوں کے ووٹ لے کر اقتدار کے مالک بن بیٹھے ۔ بھارت میں آزادی کے فوری بعد زرعی اصلاحات کرکے جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا گیا اب بھارت کے قانون ساز اداروں اور حکومتوں سے جاگیرداروں کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا گیا۔ بھارت کے عوام اب غلام یا رعایا نہیں بلکہ آزاد شہری ہیں اور قانون ساز اداروں اور حکومتوں میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ موجود ہیں بھارت میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کردیا گیا ہے عوام کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہیں۔
نوآزاد ملکوں میں پاکستان غالباً واحد ملک ہے جہاں ابھی تک نہ صرف جاگیردارانہ نظام قائم ہے بلکہ پوری آن بان شان سے دیہی معیشت پر جلوہ گر ہے۔ غریب عوام ہاری اورکسان اب تک وڈیروں کی رعیت بنے ہوئے ہیں پاکستان بنانے والے اب تک جھونپڑیوں اورکچے مکانوں میں رہتے ہیں اور پاکستان پر قابض مٹھی بھر لوگ ہزاروں کے محلوں میں براجمان ہیں۔ پاکستان کے 20 کروڑ عوام بھیڑ بکریوں کی طرح بسوں، منی بسوں میں سفر کرتے ہیں اور پاکستان پر قابض اشرافیہ کروڑوں روپوں کی بلٹ پروف گاڑیوں میں سفرکرتی ہے پاکستان کے عوام ایک موٹر سائیکل خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے اشرافیہ کے گھروں میں قیمتی کاروں کے بریگیڈیئر موجود ہیں پاکستان کے عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی، ایلیٹ 5 اسٹار ہوٹلوں میں دنیا بھر کی نعمتوں سے مستفید ہوتی ہے پاکستان کے 20 کروڑ غریب عوام کو عیدوں پر بھی نہ نئے کپڑے میسر ہوتے ہیں نہ بہتر غذا۔ ایلیٹ کا ہر روز روزِ عید ہوتا ہے ہر شب شب برات۔
حکمران پچاسوں گاڑیوں کے جھرمٹ میں گھر سے باہر نکلتے ہیں اور آئے گئے جمہوری دور میں بھی حکمرانوں کے لیے سڑکیں بند کی جاتی ہیں۔ اس طمطراق اور شان وشوکت کے مظاہروں کا ایک مقصد عوام کو احساس کمتری میں مبتلا کرکے اقتدار اور اختیار سے دور رکھنا ہوتا ہے۔
جمہوری معاشروں میں عوام کو طاقت کا سرچشمہ کہا جاتا ہے اور اہل اقتدار عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اپنی تقریروں میں عوام کو طاقت کا سرچشمہ کہتے ہیں انتخابات کے موقعے پر اشرافیہ کے فرعون غریب بستیوں میں مسکین بن کر جاتے ہیں اور جھوٹے وعدے کرکے عوام کے ووٹ حاصل کرتے ہیں اور جب الیکشن جیت جاتے ہیں تو عوامی بستیوں سے گدھوں کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں اور یہ سب اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک عوام احساس کمتری میں مبتلا رہیں گے۔ عوام اس ملک کے مالک ہیں اور ہر تنخواہ دار خواہ وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر کیوں نہ ہو عوام کا خادم عوام کا ملازم ہے۔