پشتو اور ہندکو کی قدامت
جب قوم گرتی ہے تو شاعری چڑھتی ہے یا جب شاعری چڑھنے لگتی ہے تو قوم گرنے لگتی ہے
جب قوم گرتی ہے تو شاعری چڑھتی ہے یا جب شاعری چڑھنے لگتی ہے تو قوم گرنے لگتی ہے ۔ یہ مشہور و معروف قول پشتو کے بے بدل و بے مثل ادیب راحت زاخیلی مشہور کا ہے۔ راحت زاخیلی ہر لحاظ سے پشتو ادب و صحافت کی جدید بنیادیں استوار کرنے والوں میں سے تھے بلکہ پشتو میں صحافت اور ناول و افسانے کے بانی کہے جاتے ہیں وہ آخری عمر میں روزنامہ شہباز کے حصے پشتو کے مدیر تھے، پیر کے دن ایک خاص ایڈیشن نکالتے تھے جس میں صرف شاعری ہوتی تھی اس طرح وہ آنے والے بے پناہ ''کلاموں'' باریک قلم سے بھگتاتے اور اس کی پیشانی پر یہ طغرہ جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا
چہ قوم پہ پریوتو شی
نو شاعری پہ ختوشی
یا شاید دونوں اس سے الٹ ہوتے تھے دونوں کا مفہوم وہی تھا کہ شاعری کا عروج قوم کے زوال کی نشانی ہے یا قوم کے زوال کی نشانی شاعری کا عروج ہے، یہ دونوں باتیں آج کل پاکستان کی ساری اقوام اور زبانوں میں پائی جاتی ہیں، چنانچہ پشاور کی دونوں زبانوں پشتو اور ہندکو میں بھی شاعری بے پناہ ہونے لگی ہے۔ پشتو میں تو کہا جاتا تھا کہ پہلے جب کنکر اٹھاتے تھے تو نیچے سے ایک شاعر برآمد ہوتا تھا لیکن آج کل کنکر کے نیچے سے پورا ایک مشاعرہ برآمد ہوتا ہے جس کے ہر شاعر کی بغل میں ایک دیوان بھی ہوتا ہے، لیکن آج ہم شاعری کے الٹ ایک اور چیز کے بارے میں بتاتے ہیں یہ کسی فرد یا قوم کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے جب کوئی آدمی نہایت نکما نکھٹو ہوتا ہے تو وہ اپنے آباء و اجداد کی بڑائیاں بیان کرنے میں لگ جاتا ہے کہ اس کے فلاں فلاں جد نے یہ یہ تیر مارے تھے اور اتنی اتنی خواتین کو بیوہ کیا تھا، جس میں اکثر وہی کیفیت ہوتی ہے کہ میں پہلے جب پیدا ہوا تو بڑا خوب صورت تھا لیکن پھر میں اسپتال میں کسی سے بدل گیا یا مجھے نظر لگ گئی یا کوئی بیماری ہو گئی جس کی وجہ سے میں تھوڑا سا بدصورت ہو گیا تھا حالانکہ وہ تھوڑا سا نہیں بلکہ بہت زیادہ بدصورت ہوتا ہے ۔
ایسا اکثر جوانی میں ہوتا ہے بڑھاپے میں تو پھر اپنی جوانی کے قصے اور کارنامے بیان کرتا ہے جو صرف اس کی آرزوئیں اور حسرتیں بلکہ محرومیاں ہوتی ہیں، کچھ ایسا ہی معاملہ آج کل ہمارے صوبے میں پشتو اور ہندکو کے کچھ رائٹروں کا ہے جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنی زبانوں کو قدیم ترین قرار دینے کے لیے وہ وہ ناروا لکھتے ہیں کہ جنھیںکوئی نہ مانے۔ پشتو میں یہ کام مرحوم کوثر غوریا خیل اور افغانستان کے فاضل اور کچھ دیگر کرتے تھے اور ہندکو میں نام نہ لینے کے باوجود لوگ سمجھ جائیں گے ۔ ہندکو والوں نے تو اپنی زبان کو دنیا کی تمام زبانوں سے قدیم کہا ہے جس میں وید بھی لکھے گئے تھے، حضرت نوح کی کشتی میں جو لوگ سوار تھے وہ بھی آپس میں ہندکو بولتے تھے اور دراوڑی زبان بھی ہندکو ہی سے نکلی ہے۔
یہی حال پشتون محققین کا بھی ہے کہ پشتو ہی تمام زبانوں کی ماں ہے، حضرت آدم بھی پشتو بولتے تھے اور اپنے بیٹے کو ''شیت'' کر کے بلاتے تھے جس طرح آج کل کسی کو شیت کر کے پکارتے ہیں اس شیت سے ان کا نام پھر شیث ہو گیا ہے لیکن تورات میں شیت ہی لکھا ہوا ہے اور موئنجو داڑو میں جو زبان نکلی ہے جو آج تک پڑھی نہیں جا سکی ہے وہ بھی دراصل پشتو ہی میں ہے لیکن دنیا بھر کی زبانوں میں پشتو کے الفاظ بھی دریافت کرتے تھے بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھا کر دنیا بھر میں پشتو کو بھی دریافت کرتے ہیں کہ فلاں فلاں بھی پشتون نسل سے تھا۔
پشتو میں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ گزارہ ہو جاتا ہے کیوں کہ اس میں کم از کم پرانا اور قدیم ادب تو موجود ہے لیکن ہندکو والوں کے پاس چند سال پہلے کا کوئی بھی ادبی نمونہ نہیں ہوتا، ہاں اگر ویدوں کو اور دراوڑی زبان کو ہندکو مانا جائے تو پھر بات بن سکتی ہے، لیکن فرض کیجیے بات بن بھی گئی اور یہ ثابت بھی ہو گیا کہ پشتو اور ہندکو دونوں جڑواں بہنیں ہیں اور آدم ؑ سے پہلے بھی موجود تھیں بلکہ ہمیں، لیکن اس سے ہو گا کیا؟ ان زبانوں کی موجودہ صحت پر اس کا کوئی اثر پڑ جائے گا اور پشتونوں یا ہندکو وانوں کو کوئی عالمی تمغہ یا نوبل پرائز مل جائے گا یا ان زبانوں کو اقوام متحدہ کی زبان قرار دے دیا جائے گا۔
دونوں زبانیں بولنے والوں کو احساس ہے کہ جدید اور وقت کی ضرورت کے مطابق ان کے پاس شعروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے لیکن غلطیوں کا احساس کر کے انھیں دور کرنا تو سخت جان جوکھم کا کام ہے اور ادھر محفل میں کچھ نہ کچھ اڑانا بھی ضروری ہے اس لیے آگے جانے کے بجائے... لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔اصل حقیقت تو یہ ہے جس کا دونوں زبانوں کے مدعیوں کو احساس تک نہیں کہ دونوں زبانوں کے سر پر ''معدومیت'' کا خطرہ منڈلا رہا ہے دنیا جتنی جتنی سمٹ کر گلوبل بن رہی ہے اس میں بہت سی زبانیں معدوم ہو بھی گئی ہیں اور باقی بھی معدوم ہونے والی ہیں، پشتو کی معدومیت کا پڑاؤ اگرچہ ابھی دور ہے کیوں کہ زبانوں کے بولنے والے منشتر نہیں ہو رہے ہیں اور ابھی بہت سارا علاقہ اسی کے زیر نگین ہے لیکن ہندکو پر توہلا بولا بھی جا چکا ہے۔پشاور شہر میں جہاں جہاں پرانے شہری محلے تھے قدیم اور وضع دار خاندان تھے اور ان کا پیارا سا کلچر تھا، مکان تنگ تھے لیکن باسی فراخ دل تھے اور اپنے مخصوص ہندکو کلچر کو سنبھالے ہوئے تھے اب ان گلیوں اور بازاروں میں بڑے بڑے پلازے اور مارکیٹیں ابھر رہی ہیں کیوں کہ شہر میں چاروں اطراف سے بے پناہ دولتوں والے آگئے ہیں چنانچہ زیادہ تر شہری اپنے تنگ مکان بیچ کر نقل مکانی کر رہے ہیں۔
اور کون نہیں جانتا کہ آج کے دور میں خصوصاً نوجوان نسل ''پیسے'' کے آگے نہیں ٹھہر رہی ہے پرانے وضع دار لوگ تو اب رہے نہیں۔ پشتو کہاوت کے مطابق پیسہ نر کو بھی مادہ بنا دیتا ہے چنانچہ وہ شہری اور ہندکو بولنے والی آبادی چھدری ہو رہی ہیں آہستہ آہستہ ان کے مکانوں کی جگہ جدید تجارتی تعمیرات ابھر رہی ہیں رہائشی باہر نئی آبادیوں میں منتقل ہو رہے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ لوگ باہر کی آبادیوں میں اکٹھے تو نہیں رہیں گے اور دوسری زبانوں والوں کے درمیان رہیں گے، ہماری اپنی زبان ہندکو نہیں پشتو ہے لیکن گذشتہ سال سے ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا چل رہا ہے اور ''رور بھائی'' کا یہ رشتہ بڑا پیارا ہے اس لیے دکھ ہوتا ہے کہ ادھر ہو کیا رہا ہے اور ادھر بولا کیا جارہا ہے ۔
سادہ لوگ تو اس پر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہماری زبان کتنی بزرگ ہے اور صوبے کے تمام شہروں بنوں، کوہاٹ، نوشہرہ، مردان، سوات، دیر چترال سب میں بولی جارہی ہے بلکہ ان رائٹروں کے نزدیک کوئی اور زبان ہے نہیں، پشتو تو صرف تین لوگوں کی زبان ہے جن میں ایک گونگا ہے دوسرا بہرا ہے اور تیسرا گونگا بہرا دونوں ہے۔