کشمیر دھرتی کا مظلوم ترین گوشہ
کشمیر کا مسئلہ اگر صرف جغرافیائی یا زمینی سرحدوں کا معاملہ ہوتا تو شاید اب تک حل ہو چکا ہوتا،
LONDON:
خطہ کشمیر، ارض فلسطین کے بعد دھرتی کا مظلوم ترین گوشہ ہے جس پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن بھارت کی درندہ صفت فوجیں اتنی بڑی تعداد میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی پر مامور ہیں۔ آبادیاں ویران، کھیت کھلیان اور باغات تباہ حال، عفت مآب بیٹیوں کی عصمتیں پامال اور وادی جنت نظیر آج مقتل کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ہزاروں مرد و خواتین لاپتہ ہیں اور ہزاروں بھارتی عقوبت خانوں میں ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔
جب بھی وادی کشمیر میں حق خودارادیت کے لیے احتجاج کی لہر اٹھی تو بھارت اسے توپ و تفنگ سے کچلنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ تازہ لہر کا پس منظر 21 سالہ کشمیری نوجوان برہان وانی کی شہادت ہے، اس نوجوان نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کو ذریعہ بنایا اور پورے مقبوضہ کشمیرکی نئی نسل میں آزادی کی زبردست امنگ بیدار کر دی، برہان وانی کو بھارتی فوج نے گرفتار کر کے شہیدکر دیا، اس خبر کے ساتھ ہی پورے مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی، تحریک آزادی کے کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فورسز کی بے رحمی، بے حسی اور بربریت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔
بھارتی جارحیت سے صرف جولائی میں 74 کشمیری اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں، پیلٹ گنز کے استعمال سے اب تک سیکڑوں نوجوان آنکھوں میں چھرے لگنے کی وجہ سے نابینا ہو چکے ہیں جب کہ 90 سے زائد کشمیری بیٹیوں اور ماؤں کی بے حرمتی کے واقعات کی اطلاعات بھی ہیں۔ کشمیر میں تحریک آزادی کی نئی لہر کو جبر سے دبانے کی تفصیلات اتنی لرزہ خیز ہیں کہ انسانی حقوق کا دم بھرنے والے حلقوں اور عالمی برادری میں زلزلہ آنا چاہیے تھا، ہر بار خود کو سپر پاور کہنے والے ملکوں اور اقوام متحدہ کی طرف سے بیانات تو آتے ہیں مگر اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
موجودہ تحریک مکمل طور پر مقامی ہے اور اس کے منیجر جواں سالہ کشمیری ہیں، اس کا ہیرو بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والا 21 سالہ مظفر برہان وانی ہے جس نے انٹرنیٹ کے کمال استعمال سے ہم عمر نوخیزکشمیریوں کو ''کشمیر بنے گا پاکستان'' کے نعرے پر منظم کیا، پھر متحرک اور اسے جاری آزادی کی ایسی تحریک میں ڈھال دیا جس میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے ہر سیاسی جماعت، ہر عمر کا مرد وزن کشمیری گھر سے نکل آیا۔ آج وہ سب ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بھارت کے مقبوضہ علاقے میں بے مثال جرات و ایمان سے کھلی ریاستی دہشتگردی کے مقابل ڈٹ گئے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر نے بڑی کروٹ لے لی ہے جب کہ برہان اس شان سے رخصت ہوا کہ تحریک آزادی کو غیر معمولی توانائی دے گیا۔
کشمیر کا مسئلہ اگر صرف جغرافیائی یا زمینی سرحدوں کا معاملہ ہوتا تو شاید اب تک حل ہو چکا ہوتا، حل نہ بھی ہوتا تو پس منظر میں جا چکا ہوتا یا پھر کسی حد تک فراموش کر دیا جاتا، لیکن کشمیر کا معاملہ بالکل مختلف ہے، یہ تقریباً ستر ہزار مربع میل پر محیط علاقہ ہے جہاں ڈیڑھ کروڑ سے زائد زندہ انسان بستے ہیں، ان میں سے ایک کروڑ سے زائد کشمیری مقبوضہ کشمیر میں بستے ہیں، جنھیں ستر برس سے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبورکر دیا گیا ہے، یہ لوگ انسان ہیں، انسان اپنا دفاع، اپنی سوچ، اپنا دل، اپنے جذبات رکھتا ہے، اسے حیوانوں کی طرح کسی باڑے میں بند کرکے نہیں رکھا جاسکتا، انھیں زیادہ لمبے عرصے تک غلام بھی نہیں بنایا جا سکتا، ان کے ہونٹوں پر تالے بھی نہیں ڈالے جا سکتے ۔
بین الاقوامی تنازعات میں کشمیر کا مقدمہ سب سے سیدھا ہے اس کی تاریخ جھٹلائی نہیں جا سکتی، یہ مقدمہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت خود بطور ریاست اقوام متحدہ میں لے کر گیا، آج ساری بین الاقوامی برادری دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں آزادی کے لیے لڑنے والوں کی عملی، عسکری، سفارتی یا اخلاقی مدد کر رہی ہے، اسی مدد کا نتیجہ ہے کہ وہ سوڈان جو صدیوں سے افریقہ کا دل سمجھا جاتا تھا اس میں مٹھی بھر عیسائی آبادی نے طاقتور عیسائی ریاستوں کی مداخلت سے خود مختار ملک بنا لیے، یہی نہیں بلکہ اسلامی ملک انڈونیشیا کے ایک جزیرے میں ایشیاء کا پہلا عیسائی ملک ایسٹ تیمور بھی خود مختاری لینے میں کامیاب ہو گیا۔
ان دونوں خطوں میں نہ کوئی آزادی کی تحریک چلی، نہ تو لاکھوں شہیدوں کے نئے قبرستان بنے اور نہ ہی سرزمین وطن کی کسی بیٹی کی آبرو کا آنچل تار تار ہوا، اس کے باوجود حق خود ارادیت کے نام پر عالمی طور پر تسلیم شدہ ریاستوں کا پیٹ چاک کر کے دو نئے ملک بنا دیے گئے۔ مگر کشمیر میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، اقوام متحدہ اپنے بین الریاستی چارٹر کے تحت پابند ہے کہ وہ کشمیر کے حریت پسند عوام کو مزید کسی بھی مجرمانہ تاخیر کے بغیر آزادی کے ساتھ اپنی رائے اور مرضی سے پاکستان میں شامل ہونے کا حق دلوائے تاہم وہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر مکمل خاموش ہے، اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی عالمی ادارہ بھارت کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی کشمیریوں پر ہونیوالے انسانیت سوز مظالم پر اپنے لبوں پر سکوت کی مہر لگا رکھی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عالمی طاقتیں اگر بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کرانے پر مجبور کرتیں تو جنوبی ایشیاء کا یہ اہم اور حساس معاملہ کب کا حل ہو چکا ہوتا۔ اقوام متحدہ نے بھی جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ اسلامی ممالک انڈونیشیا اور سوڈان کو تقسیم کرنے کے لیے یہ عالمی ادارہ خاصا متحرک رہا مگر مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے حوالے سے دوہرے معیارات اور منافقانہ پالیسیوں سے کام لیتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اشارۂ ابرو پر مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں عیسائی ریاست قائم کر دی گئیں، اسی طرح افغانستان اور عراق میں امریکی و نیٹو افواج کو لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے کا پروانہ بھی اقوام متحدہ نے دیا، آج اس انسانی حقوق کے چیمپئن عالمی ادارے کو مقبوضہ کشمیر و فلسطین میں بھارتی و اسرائیلی مظالم کیوں دکھائی نہیں دیتے؟ کیا اقوام متحدہ امریکہ اور یورپی ملکوں کے مفادات کے تحفظ کا ایک ادارہ بن چکا ہے؟
پاکستان تنازع کشمیر کا ایک مسلمہ فریق ہے، اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھا کر حل کرانے کی ہر ممکن کوشش حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے، لہذا قومی سلامتی کونسل کی جانب سے کشمیر کے مسئلے کو از سر نو اقوام متحدہ میں اٹھانے کے فیصلے پر پوری تیاری کے ساتھ مزید کسی تاخیر کے بغیر عمل کرنا چاہیے۔
اقوام عالم بھی آنکھیں کھول کر سن لیں، اگر کشمیر و فلسطین کے مسلمان بھارتی و صیہونی استبداد کا شکار رہینگے تو دنیا دوزخ بنی رہے گی۔ اقوام عالم میں امن کا راز ان دونوں ریاستوں کی مکمل آزادی، خود مختاری میں پنہاں ہے۔ عالمی برادری پر فرض ہے کہ وہ اپنی منافقانہ پالیسیاں اور دہرا معیار ترک کر کے مشرقی تیمور کی طرح مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے بھی اپنا کردار موثر طور پر ادا کرے تا کہ خطے میں پائیدار قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔