لاڑکانہ میں بدعنوان حکومتی اہلکاروں کے خلاف نیب کی کارروائی چھوٹے ملازمین شکنجے میں بڑے آزاد
باقی نام بڑے سیاست دانوں، بیورو کریٹس، مشیران اور سیکریٹری لیول کے افسران کے ہوسکتے ہیں، مصدقہ اطلاعات
KARACHI:
قوموں کی تباہی کی ایک بڑی وجہ کرپشن ہے اور کرپشن غربت، بے چینی اور خود غرضی کو جنم دیتی ہے۔ جس معاشرے میں کرپشن ہوگی وہاں غربت میں اضافہ اور اس سے جڑی تمام خرابیاں اور پیچیدہ مسائل پیدا ہوں گے۔
دنیا میں کرپشن صرف بالائی طبقے تک محدود نہیں رہتی۔ حکم راں جب کرپٹ ہوتے ہیں تو اس کا اثر چند دنوں میں انتہائی نچلے طبقوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر ہم کرپشن کے منفی اثرات کا تقابل کریں تو ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، جس سے وہ تمام معاشرتی مسائل جنم لے چکے، جن کا ہم ذکر کرچکے ہیں۔
کرپشن وہ ناسور ہے جس نے وطن عزیز کو دہشت گردی سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے میں حکم رانوں اور ذمے دار اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کر یں، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ پچھلے کئی دہائیوں سے پاکستان اور سندھ بھر میں کرپشن جاری ہے، جہاں عوامی فلاح و بہبود، ترقیاتی اسکیموں، تعلیم، صحت یہاں تک کہ حج کوٹے اور زکوۃ کی تقسیم میں بھی بدترین کرپشن کی جاتی ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) سندھ کی جانب 2008 سے 2015 تک 7سالوں کے دوران سندھ میں کرپشن مقدمات کے خلاف کی گئی انکوائریز کی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی گئی ہے۔ یہ رپورٹ ایکسپریس نے حاصل کی ہے، جس میں نیب نے ان سات سالوں کے دوران دو وفاقی محکموں نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور نیشنل بینک آ ف پاکستان کے دو افسران سمیت 17صوبائی محکموں جن میں محکمۂ تعلیم کے 90،
محکمۂ خوراک کے 25، محکمۂ صحت کے 2، تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے 8، پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے 5، روڈز ڈیپارٹمنٹ کے 33، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جام شورو کے سابق چیئرمین قادر بخش رند، ورکس اینڈ سروسز کے9، سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے دو، ہائی ویز ڈیپارٹمنٹ کے10، محکمۂ ایری گیشن کے 11، کوآپریٹیو سوسائٹی کا ایک، بورڈ آ ف ریونیو کے 8، آر بی او ڈی کے 3، سائٹ کراچی کے 3، ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد کے 18سرکاری افسران و ملازمین کے علاوہ بیوروکریٹس اور نجی کمپنی کے 18مالکان و ٹھیکے داروں کے خلاف کرپشن کی شکایات پر کارروائی کرتے ہوئے انکوائریز شروع کی گئیں۔ اس طرح مذکورہ محکموں اور ان سے منسلک پرائیویٹ کمپنیز کے 249 افراد شامل تفتیش رہے۔
جنہوں نے نیب کی ابتدائی تحقیقات کے دوران ہی اپنی کرپشن کا اعتراف کرتے ہوئے مجموعی طور پر 1ارب 74 کروڑ 19لاکھ 47ہزار 281 روپے مختلف اوقات میں واپس کیے جسے نیب حکام نے قومی خزانے میں جمع کرایا۔ غبن اور رشوت کی رقم واپس کرنے والوں میں 21 گریڈ کے افسر سے لے کر لوئر اسٹاف تک سب شامل ہیں۔ دوسری جانب اس فہرست میں کل 807 انکوائریز کا ذکر تو موجود ہے تاہم درج انکوائریز کی تعداد اور نام صرف 235 ہیں۔
مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ باقی نام بڑے سیاست دانوں، بیورو کریٹس، مشیران اور سیکریٹری لیول کے افسران کے ہوسکتے ہیں، جن کے کیسز زیرتفتیش یا پلی بارگین اور ٹرائل میں ہیں۔ اس سلسلے میں نیب کراچی کے ترجمان ضمیر عباسی سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ اسلام آباد سے کراچی کے دورے پر آئے اعلیٰ افسران کے ساتھ مصروفیت کے باعث کوئی جواب نہ دے سکے۔ کرپشن فہرست کے مطابق گزشتہ سات سالوں میں سب سے زیادہ کرپشن ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد میں سامنے آئی۔
جہاں سابق ضلعی اکاؤنٹس آفیسر سکندر علی ابڑو نے پولیس اہل کار محمد یوسف خانزادہ اور دیگر کے ساتھ مل کر مجموعی طور پر مختلف محکموں میں72 کروڑ 65 لاکھ سے زاید کی کرپشن کی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اکیلے اکاؤنٹس آفیسر کی اتنی ہمت اور رسائی کیسے ہوئی کہ اس نے اتنی بڑی کرپشن کی لیکن نیب نے صرف اس کیس کی انکوائری میں ملوث افراد سے مذکورہ رقم واپس لی۔ دوسرے نمبر پر کرپشن محکمۂ ایجوکیشن میں کی گئی ہے، جس میں31 کروڑ، 69 لاکھ، 78 ہزار 414 روپے کا غبن کیا گیا۔ جس میں سابق ایجوکیشن سیکریٹری سبھاگو خان جتوئی سمیت لاڑکانہ، قمبر، شہدادکوٹ، ٹھٹھہ، جیکب آباد، شکارپور اور دادو سے تعلق رکھنے والے تعلقہ ایجوکیشن آفیسرز میل اور فی میل کے علاوہ ایچ ایس ٹی، جے ایس ٹی، پی ایس ٹی ٹیچرز و لوئر اسٹاف کلرکس نے اپنی کرپشن کا اعتراف کرتے ہوئے مذکور ہ رقم نیب کو واپس کی ہے۔
یہی نہیں بل کہ محکمۂ تعلیم کے سیڈا پروجیکٹ اور گاڑیوں کی خریداری میں بھی محکمے کو خوب لوٹا گیا، جب کہ جعلی بھرتیوں کی تحقیقات اب تک مکمل نہیں کی جاسکی ہیں۔ کرپشن میں تیسرا نمبر محکمۂ خوراک کاہے، جس میں21 کروڑ 84 لاکھ، 39 ہزار 884 روپے کرپشن کی نذر ہوئے۔ چوتھے نمبر پر سائیٹ کراچی کی سابق ایم ڈی لبنٰی صلاح الدین اور ڈائریکٹر فنانس سید سبحان علی شاہ کا نام ہے، اس کیس میں سی ای او فرسٹ نیشنل ایکویٹی علی اسلم ملک نے 24 کروڑ، 58لاکھ، 63 ہزار671 روپے واپس کیے۔ اسی طرح جعلی بینک اکاؤنٹس کے اجراء، ایڈوانس پے منٹس کے علاوہ جھوٹے شواہد کی بنیاد پر قرضہ جات معاف کرانے کی مد میں سرکاری محکموں سے وابستہ نجی کمپنی کے مالکان و ٹھیکے داروں کی جانب سے اٹھارہ سے زاید بااثر افراد سے 4کروڑ 27 لاکھ سے زاید کی رقم واپس لی گئی۔ تحصیل میونسپل کارپوریشن کی بات کی جائے تو 2008 سے 2016 تک گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران بدانتظامی، اضافی بھرتیوں، جعلی تقرریوں اور اربوں کی کرپشن کی گئی ہے، جس کا کئی بار وزیر بلدیات نے نوٹس لے کر بیان دیا اور ایسا بھی ہوا کہ بیان کے بعد وزیروں تک نے اپنے بیانات پر خود خاموشی اختیار کی۔ لیکن نیب نے صرف ضلع بدین اور تلہار شہر کے ٹی ایم اے آفس کے 7 افسران کے خلاف انکوائری کی اور ان سے مجموعی طور پر ایک کروڑ 61 لاکھ 56 ہزار کی رقم واپس لی۔
شہری اور سماجی تنظیمیں اس بات پر بھی حیران ہیں کہ مذکورہ ادوار میں محکمۂ صحت کا سندھ بھر میں برا حال رہا، جعلی ادویات کا کاروبار عروج پر رہا اور ادویات کی خریداری اور جعلی بھرتیوں کی مد میں اینٹی کرپشن کی جانب سے کئی مقدمات درج کیے گئے لیکن نیب کو صرف شکارپور اور لانڈھی کراچی میں دو ہی کیسز کیوں نظر آئے اور اس انکوائری میں ڈسٹرکٹ کونسل شکارپور کے سینیر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر عزیز سومرو اور عاصم علی خان سے مجموعی طور پر 58لاکھ 72ہزار سے زاید رقم واپس لی جاسکی۔
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی بات کی جائے تو اس کے سابق چیئرمین قادر بخش رند کے خلاف انکوائری شروع ہوئی، جس میں 23 لاکھ 54 ہزار روپے واپس حاصل کیے گئے لیکن انہیں دوبارہ عہدے پر فائز کیا گیا۔ تاہم سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کچھ عرصہ قبل ہی انہیں عہدے سے دوبارہ ہٹا دیا تھا۔ پبلک ہیلتھ اور روڈز ڈیپارٹمنٹ میں بھی سابق ایگزیکٹیو افسران، ایس ڈی اوز، سب انجینیرز سابق ڈی اوز اور ٹھیکے داروں کے خلاف شکایت پر کارروائی میں نیب نے مجموعی طور پر 2 کروڑ 95لاکھ سے زاید رقم برآمد کی۔ یہی نہیں بل کہ نیشنل بینک کلفٹن کراچی کے ہیڈ کیشیئر عمران اسلم سے 70لاکھ، آر بی او ڈی جام شورو پروجیکٹ کے لینڈ ایکیوزیشن آفیسر سہیل احمد بچانی سے 2 کروڑ 56 لاکھ، ورکس اینڈ سروسز کے آٹھ افسران و کونٹریکٹرز سے1 کروڑ 39 لاکھ ، سندھ ویلفیئر بورڈ کے ڈپٹی سیکریٹری ہریش کمار اور آفیسر سہیل احمد صدیقی سے 2 کروڑ 96 لاکھ، نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے شبیر احمد شیخ سے1کروڑ 54 لاکھ، ہائی ویز ڈیپارٹمنٹ، ایری گیشن، کوآپریٹو سوسائٹیز اور بورڈ آف ریونیو کے چیف انسپکٹر اسٹامپس سے بھی کروڑوں روپے کی رقم واپس لی گئی ہے۔
لیکن شہری حلقے یہ سوال کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ سندھ میں محض چند چھوٹے افسران نے جب اتنی کرپشن کی اور اعتراف کرتے ہوئے رقم واپس کر دی ہے تو پھر لسٹ میں موجود 572 افسران نے کتنی کرپشن کی ہوگی۔ نیب سندھ کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع شدہ سات سالہ انکوائریز لسٹ کا اگر بہ غور جائزہ لیا جائے تو نہ صرف نیب کی غیر تسلی بخش کارکردگی ظاہر ہوتی ہے بل کہ کارروائی کا دائرہ کار بھی صرف چھوٹے ملازمین تک محدود نظر آتا ہے۔ بے پناہ کرپشن کے باوجود کئی سالہ کارروائی کے دوران صرف سوا ارب تک کی رقم واپس وصول کرنا سمجھ سے بالاتر اور اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انکوائریز کے ان مراحل میں نیب کے اخراجات کا تخمینہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ 2008 سے 2013 تک وفاق اور صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت رہی لیکن صرف دو محکموں کے محض دو افسران کے خلاف کارروائی بھی کئی سوال اٹھا رہی ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر چھوٹے ملازمین سوا ارب روپے کی رقم واپس کر رہے ہیں تو مذکورہ سرکاری افسران کس طرح بری الذمہ ہوسکتے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی عمل میں کیوں نہیں لا ئی جارہی۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ پر سپریم کورٹ کے ججز کی جانب سے نیب کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صرف لوئر اسٹاف اور ملازمین کے خلاف ایکشن قرار دیتے ہوئے بڑے افسران اور ذمے داروں کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
یہ بات بھی جواب طلب ہے کہ807 مقدمات کی لسٹ میں 572 افراد کے کیسز ان سات سالوں میں مکمل کیوں نہیں کیے جاسکے اور اب تک زیرتفتیش اور پلی بارگین ٹرائل پر کیوں ہیں۔ محکمۂ تعلیم کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکریٹری ایجوکیشن ڈاکٹر فضل اﷲ پیچوہو کے خلاف بھی اربوں کی مبینہ کرپشن کی شکایات نیب کو موصول ہوئی ہیں، لیکن چوں کہ ڈاکٹر فضل اﷲ پیچوہو پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے بہنوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر فضل اﷲ پیچوہو کی جانب سے مبینہ طور پر محکمۂ ایجوکیشن سمیت ذیلی شاخیں اور پروجیکٹس جن میں ریفارمز سپورٹ یونٹ، پائیٹ نواب شاہ، سیڈا، ایجوکیشن ورکس ، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جام شورو، پیس، بیورو آف کری کولم اینڈ ایکس ٹینشن ونگ اور دیگر میں 52 ارب روپے سے زاید کی کرپشن کی شکایات نیب کے پاس موجود ہیں۔
جن کے تمام معاملات ایڈیشنل سیکریٹری ریحان بلوچ دیکھتے ہیں۔ انہی شکایات کی وجہ سے نیب نے سیکریٹریٹ پر چھاپا بھی مارا ہے۔ یہی نہیں خود سیکریٹری تعلیم کئی بار ہزاروں جعلی بھرتیوں سمیت خورد برد کا اعتراف میڈیا کے سامنے برملا کرچکے ہیں بل کہ2016 میں لاڑکانہ میں 90ارب روپے کے ترقیاتی اسکیموں کی مد میں کی گئی اربوں کی مبینہ کرپشن کے خلاف انکوائری شروع کی جا چکی ہے لیکن 2008 سے 2015 تک کی انکوائریز لسٹ میں لاڑکانہ پیکیج کے حوالے سے کوئی ایک بھی انکوائری نہیں کی گئی جو کہ نیب کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ہمارے سامنے پاکستان کے دوست ملک چین کی مثال موجود ہے جہاں کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت ترین فیصلے کیے گئے۔ چین نے کرپشن کی سزا موت کو بناتے ہوئے ملکی نظام کو کرپشن سے پاک بنانا شروع کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے سات لاکھ ارکان کا احتساب کیا تو کرپشن میں ملوث لاکھوں افراد کو سیاست سے فارغ کرکے ایک لاکھ افراد کو سزا بھی دی گئی۔ چین نے سیاست دانوں کے بعد ایک لاکھ 47 ہزار سرکاری اہل کاروں کے خلاف تحقیقات کرائیں اور کرپٹ افسران کو سزائیں دی گئیں۔ احتساب کا یہی وہ عمل تھا کہ چین آج دنیا کی معاشی سپر پاور بن چکا ہے۔ اب ناگزیر ہے کہ ہمارے ملک میں بھی غیرجانب دارانہ کڑے احتساب کا عمل شروع ہو اور ملکی خزانہ لوٹنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔
قوموں کی تباہی کی ایک بڑی وجہ کرپشن ہے اور کرپشن غربت، بے چینی اور خود غرضی کو جنم دیتی ہے۔ جس معاشرے میں کرپشن ہوگی وہاں غربت میں اضافہ اور اس سے جڑی تمام خرابیاں اور پیچیدہ مسائل پیدا ہوں گے۔
دنیا میں کرپشن صرف بالائی طبقے تک محدود نہیں رہتی۔ حکم راں جب کرپٹ ہوتے ہیں تو اس کا اثر چند دنوں میں انتہائی نچلے طبقوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر ہم کرپشن کے منفی اثرات کا تقابل کریں تو ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، جس سے وہ تمام معاشرتی مسائل جنم لے چکے، جن کا ہم ذکر کرچکے ہیں۔
کرپشن وہ ناسور ہے جس نے وطن عزیز کو دہشت گردی سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے میں حکم رانوں اور ذمے دار اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کر یں، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ پچھلے کئی دہائیوں سے پاکستان اور سندھ بھر میں کرپشن جاری ہے، جہاں عوامی فلاح و بہبود، ترقیاتی اسکیموں، تعلیم، صحت یہاں تک کہ حج کوٹے اور زکوۃ کی تقسیم میں بھی بدترین کرپشن کی جاتی ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) سندھ کی جانب 2008 سے 2015 تک 7سالوں کے دوران سندھ میں کرپشن مقدمات کے خلاف کی گئی انکوائریز کی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی گئی ہے۔ یہ رپورٹ ایکسپریس نے حاصل کی ہے، جس میں نیب نے ان سات سالوں کے دوران دو وفاقی محکموں نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور نیشنل بینک آ ف پاکستان کے دو افسران سمیت 17صوبائی محکموں جن میں محکمۂ تعلیم کے 90،
محکمۂ خوراک کے 25، محکمۂ صحت کے 2، تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے 8، پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے 5، روڈز ڈیپارٹمنٹ کے 33، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جام شورو کے سابق چیئرمین قادر بخش رند، ورکس اینڈ سروسز کے9، سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے دو، ہائی ویز ڈیپارٹمنٹ کے10، محکمۂ ایری گیشن کے 11، کوآپریٹیو سوسائٹی کا ایک، بورڈ آ ف ریونیو کے 8، آر بی او ڈی کے 3، سائٹ کراچی کے 3، ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد کے 18سرکاری افسران و ملازمین کے علاوہ بیوروکریٹس اور نجی کمپنی کے 18مالکان و ٹھیکے داروں کے خلاف کرپشن کی شکایات پر کارروائی کرتے ہوئے انکوائریز شروع کی گئیں۔ اس طرح مذکورہ محکموں اور ان سے منسلک پرائیویٹ کمپنیز کے 249 افراد شامل تفتیش رہے۔
جنہوں نے نیب کی ابتدائی تحقیقات کے دوران ہی اپنی کرپشن کا اعتراف کرتے ہوئے مجموعی طور پر 1ارب 74 کروڑ 19لاکھ 47ہزار 281 روپے مختلف اوقات میں واپس کیے جسے نیب حکام نے قومی خزانے میں جمع کرایا۔ غبن اور رشوت کی رقم واپس کرنے والوں میں 21 گریڈ کے افسر سے لے کر لوئر اسٹاف تک سب شامل ہیں۔ دوسری جانب اس فہرست میں کل 807 انکوائریز کا ذکر تو موجود ہے تاہم درج انکوائریز کی تعداد اور نام صرف 235 ہیں۔
مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ باقی نام بڑے سیاست دانوں، بیورو کریٹس، مشیران اور سیکریٹری لیول کے افسران کے ہوسکتے ہیں، جن کے کیسز زیرتفتیش یا پلی بارگین اور ٹرائل میں ہیں۔ اس سلسلے میں نیب کراچی کے ترجمان ضمیر عباسی سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ اسلام آباد سے کراچی کے دورے پر آئے اعلیٰ افسران کے ساتھ مصروفیت کے باعث کوئی جواب نہ دے سکے۔ کرپشن فہرست کے مطابق گزشتہ سات سالوں میں سب سے زیادہ کرپشن ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد میں سامنے آئی۔
جہاں سابق ضلعی اکاؤنٹس آفیسر سکندر علی ابڑو نے پولیس اہل کار محمد یوسف خانزادہ اور دیگر کے ساتھ مل کر مجموعی طور پر مختلف محکموں میں72 کروڑ 65 لاکھ سے زاید کی کرپشن کی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اکیلے اکاؤنٹس آفیسر کی اتنی ہمت اور رسائی کیسے ہوئی کہ اس نے اتنی بڑی کرپشن کی لیکن نیب نے صرف اس کیس کی انکوائری میں ملوث افراد سے مذکورہ رقم واپس لی۔ دوسرے نمبر پر کرپشن محکمۂ ایجوکیشن میں کی گئی ہے، جس میں31 کروڑ، 69 لاکھ، 78 ہزار 414 روپے کا غبن کیا گیا۔ جس میں سابق ایجوکیشن سیکریٹری سبھاگو خان جتوئی سمیت لاڑکانہ، قمبر، شہدادکوٹ، ٹھٹھہ، جیکب آباد، شکارپور اور دادو سے تعلق رکھنے والے تعلقہ ایجوکیشن آفیسرز میل اور فی میل کے علاوہ ایچ ایس ٹی، جے ایس ٹی، پی ایس ٹی ٹیچرز و لوئر اسٹاف کلرکس نے اپنی کرپشن کا اعتراف کرتے ہوئے مذکور ہ رقم نیب کو واپس کی ہے۔
یہی نہیں بل کہ محکمۂ تعلیم کے سیڈا پروجیکٹ اور گاڑیوں کی خریداری میں بھی محکمے کو خوب لوٹا گیا، جب کہ جعلی بھرتیوں کی تحقیقات اب تک مکمل نہیں کی جاسکی ہیں۔ کرپشن میں تیسرا نمبر محکمۂ خوراک کاہے، جس میں21 کروڑ 84 لاکھ، 39 ہزار 884 روپے کرپشن کی نذر ہوئے۔ چوتھے نمبر پر سائیٹ کراچی کی سابق ایم ڈی لبنٰی صلاح الدین اور ڈائریکٹر فنانس سید سبحان علی شاہ کا نام ہے، اس کیس میں سی ای او فرسٹ نیشنل ایکویٹی علی اسلم ملک نے 24 کروڑ، 58لاکھ، 63 ہزار671 روپے واپس کیے۔ اسی طرح جعلی بینک اکاؤنٹس کے اجراء، ایڈوانس پے منٹس کے علاوہ جھوٹے شواہد کی بنیاد پر قرضہ جات معاف کرانے کی مد میں سرکاری محکموں سے وابستہ نجی کمپنی کے مالکان و ٹھیکے داروں کی جانب سے اٹھارہ سے زاید بااثر افراد سے 4کروڑ 27 لاکھ سے زاید کی رقم واپس لی گئی۔ تحصیل میونسپل کارپوریشن کی بات کی جائے تو 2008 سے 2016 تک گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران بدانتظامی، اضافی بھرتیوں، جعلی تقرریوں اور اربوں کی کرپشن کی گئی ہے، جس کا کئی بار وزیر بلدیات نے نوٹس لے کر بیان دیا اور ایسا بھی ہوا کہ بیان کے بعد وزیروں تک نے اپنے بیانات پر خود خاموشی اختیار کی۔ لیکن نیب نے صرف ضلع بدین اور تلہار شہر کے ٹی ایم اے آفس کے 7 افسران کے خلاف انکوائری کی اور ان سے مجموعی طور پر ایک کروڑ 61 لاکھ 56 ہزار کی رقم واپس لی۔
شہری اور سماجی تنظیمیں اس بات پر بھی حیران ہیں کہ مذکورہ ادوار میں محکمۂ صحت کا سندھ بھر میں برا حال رہا، جعلی ادویات کا کاروبار عروج پر رہا اور ادویات کی خریداری اور جعلی بھرتیوں کی مد میں اینٹی کرپشن کی جانب سے کئی مقدمات درج کیے گئے لیکن نیب کو صرف شکارپور اور لانڈھی کراچی میں دو ہی کیسز کیوں نظر آئے اور اس انکوائری میں ڈسٹرکٹ کونسل شکارپور کے سینیر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر عزیز سومرو اور عاصم علی خان سے مجموعی طور پر 58لاکھ 72ہزار سے زاید رقم واپس لی جاسکی۔
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی بات کی جائے تو اس کے سابق چیئرمین قادر بخش رند کے خلاف انکوائری شروع ہوئی، جس میں 23 لاکھ 54 ہزار روپے واپس حاصل کیے گئے لیکن انہیں دوبارہ عہدے پر فائز کیا گیا۔ تاہم سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کچھ عرصہ قبل ہی انہیں عہدے سے دوبارہ ہٹا دیا تھا۔ پبلک ہیلتھ اور روڈز ڈیپارٹمنٹ میں بھی سابق ایگزیکٹیو افسران، ایس ڈی اوز، سب انجینیرز سابق ڈی اوز اور ٹھیکے داروں کے خلاف شکایت پر کارروائی میں نیب نے مجموعی طور پر 2 کروڑ 95لاکھ سے زاید رقم برآمد کی۔ یہی نہیں بل کہ نیشنل بینک کلفٹن کراچی کے ہیڈ کیشیئر عمران اسلم سے 70لاکھ، آر بی او ڈی جام شورو پروجیکٹ کے لینڈ ایکیوزیشن آفیسر سہیل احمد بچانی سے 2 کروڑ 56 لاکھ، ورکس اینڈ سروسز کے آٹھ افسران و کونٹریکٹرز سے1 کروڑ 39 لاکھ ، سندھ ویلفیئر بورڈ کے ڈپٹی سیکریٹری ہریش کمار اور آفیسر سہیل احمد صدیقی سے 2 کروڑ 96 لاکھ، نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے شبیر احمد شیخ سے1کروڑ 54 لاکھ، ہائی ویز ڈیپارٹمنٹ، ایری گیشن، کوآپریٹو سوسائٹیز اور بورڈ آف ریونیو کے چیف انسپکٹر اسٹامپس سے بھی کروڑوں روپے کی رقم واپس لی گئی ہے۔
لیکن شہری حلقے یہ سوال کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ سندھ میں محض چند چھوٹے افسران نے جب اتنی کرپشن کی اور اعتراف کرتے ہوئے رقم واپس کر دی ہے تو پھر لسٹ میں موجود 572 افسران نے کتنی کرپشن کی ہوگی۔ نیب سندھ کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع شدہ سات سالہ انکوائریز لسٹ کا اگر بہ غور جائزہ لیا جائے تو نہ صرف نیب کی غیر تسلی بخش کارکردگی ظاہر ہوتی ہے بل کہ کارروائی کا دائرہ کار بھی صرف چھوٹے ملازمین تک محدود نظر آتا ہے۔ بے پناہ کرپشن کے باوجود کئی سالہ کارروائی کے دوران صرف سوا ارب تک کی رقم واپس وصول کرنا سمجھ سے بالاتر اور اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انکوائریز کے ان مراحل میں نیب کے اخراجات کا تخمینہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ 2008 سے 2013 تک وفاق اور صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت رہی لیکن صرف دو محکموں کے محض دو افسران کے خلاف کارروائی بھی کئی سوال اٹھا رہی ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر چھوٹے ملازمین سوا ارب روپے کی رقم واپس کر رہے ہیں تو مذکورہ سرکاری افسران کس طرح بری الذمہ ہوسکتے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی عمل میں کیوں نہیں لا ئی جارہی۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ پر سپریم کورٹ کے ججز کی جانب سے نیب کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صرف لوئر اسٹاف اور ملازمین کے خلاف ایکشن قرار دیتے ہوئے بڑے افسران اور ذمے داروں کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
یہ بات بھی جواب طلب ہے کہ807 مقدمات کی لسٹ میں 572 افراد کے کیسز ان سات سالوں میں مکمل کیوں نہیں کیے جاسکے اور اب تک زیرتفتیش اور پلی بارگین ٹرائل پر کیوں ہیں۔ محکمۂ تعلیم کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکریٹری ایجوکیشن ڈاکٹر فضل اﷲ پیچوہو کے خلاف بھی اربوں کی مبینہ کرپشن کی شکایات نیب کو موصول ہوئی ہیں، لیکن چوں کہ ڈاکٹر فضل اﷲ پیچوہو پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے بہنوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر فضل اﷲ پیچوہو کی جانب سے مبینہ طور پر محکمۂ ایجوکیشن سمیت ذیلی شاخیں اور پروجیکٹس جن میں ریفارمز سپورٹ یونٹ، پائیٹ نواب شاہ، سیڈا، ایجوکیشن ورکس ، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جام شورو، پیس، بیورو آف کری کولم اینڈ ایکس ٹینشن ونگ اور دیگر میں 52 ارب روپے سے زاید کی کرپشن کی شکایات نیب کے پاس موجود ہیں۔
جن کے تمام معاملات ایڈیشنل سیکریٹری ریحان بلوچ دیکھتے ہیں۔ انہی شکایات کی وجہ سے نیب نے سیکریٹریٹ پر چھاپا بھی مارا ہے۔ یہی نہیں خود سیکریٹری تعلیم کئی بار ہزاروں جعلی بھرتیوں سمیت خورد برد کا اعتراف میڈیا کے سامنے برملا کرچکے ہیں بل کہ2016 میں لاڑکانہ میں 90ارب روپے کے ترقیاتی اسکیموں کی مد میں کی گئی اربوں کی مبینہ کرپشن کے خلاف انکوائری شروع کی جا چکی ہے لیکن 2008 سے 2015 تک کی انکوائریز لسٹ میں لاڑکانہ پیکیج کے حوالے سے کوئی ایک بھی انکوائری نہیں کی گئی جو کہ نیب کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ہمارے سامنے پاکستان کے دوست ملک چین کی مثال موجود ہے جہاں کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت ترین فیصلے کیے گئے۔ چین نے کرپشن کی سزا موت کو بناتے ہوئے ملکی نظام کو کرپشن سے پاک بنانا شروع کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے سات لاکھ ارکان کا احتساب کیا تو کرپشن میں ملوث لاکھوں افراد کو سیاست سے فارغ کرکے ایک لاکھ افراد کو سزا بھی دی گئی۔ چین نے سیاست دانوں کے بعد ایک لاکھ 47 ہزار سرکاری اہل کاروں کے خلاف تحقیقات کرائیں اور کرپٹ افسران کو سزائیں دی گئیں۔ احتساب کا یہی وہ عمل تھا کہ چین آج دنیا کی معاشی سپر پاور بن چکا ہے۔ اب ناگزیر ہے کہ ہمارے ملک میں بھی غیرجانب دارانہ کڑے احتساب کا عمل شروع ہو اور ملکی خزانہ لوٹنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔