مسٹرپاکستان بننے تک ٹرینرتھا نہ ہی کوئی سرپرستی حاصل تھی استاد عابد بٹ

ایک ہی سال میں جونیئر مسٹر ملتان‘ مسٹر پنجاب‘ مسٹر پاکستان اور مسٹر اولمپیاء پاکستان بنا

 1961ء میں ’’مسٹر پاکستان‘‘ بننے والے کلاسیکل تن ساز استاد عابد بٹ سے مکالمہ ۔ شاہد سعید مرزا

لاہور:
پاکستان کے مختلف شہروں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران ممنوعہ ادویہ کے استعمال سے کئی تن ساز زندگی کی بازی ہار گئے۔ دیکھا جائے تو باڈی بلڈنگ کی جدید ترین سہولیات سے آراستہ کلبوں میں ایکسر سائز کرنے والے یہ نوجوان تن ساز محنت کئے بغیر شارٹ کٹ کے ذریعے اپنی منزل پر پہنچنا چاہتے تھے۔

تن سازی ایسے محنت طلب اور صبر آزما کھیل میں ممنوعہ ادویہ کا استعمال ایک روایت ہی بن چکی ہے لیکن ہم آج آپ کی ملاقات پاکستان کے ایک ایسے کلاسیکل تن ساز سے کرا رہے ہیں محنت جن کا شعار تھی' انہیں اپنے والد کو اکھاڑے میں زور کرتے دیکھ کر پہلوانی کا شوق ہوا۔

پہلوانی کرتے کرتے تن سازی کی طرف آ گئے اور پھر ایک جنون میں مبتلا ہو گئے کہ باڈی بلڈنگ میں نام کمانا ہے۔ اس دور میں تن سازی کے حوالے سے نہ تو ان کے پاس جدید سہولیات تھیں نہ کوئی ٹرینر... بس ایک جنون تھا ... 1961ء میں جونیئر مسٹر ملتان کا ٹائیٹل جیتا' کچھ ماہ بعد ہی مسٹر پنجاب بن گئے اور اسی سال کے آخر میں مسٹر پاکستان اور مسٹر اولمپیاء پاکستان بن کر تاریخ رقم کر دی۔ یہ کہانی ہے 1961ء میں پاکستان کے نامور تن سازو ں کو شکست دے کر مسٹر پاکستان بننے والے کلاسیکل تن ساز استاد عابد بٹ کی۔ آئیے ان کے احوال زیست کی طرف بڑھتے ہیں۔

استاد عابد بٹ جو ملتان کے ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں' 1944ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔1947ء میں ان کا خاندان ہجرت کے بعد ملتان میں آباد ہوا۔ان کے والد محمد صادق بٹ پہلوان تھے' وہ روزانہ ورزش اور اکھاڑا تو کرتے لیکن کشتی نہیں لڑتے تھے' انہی کو ورزش کرتے دیکھ کر عابد بٹ کو بھی پہلوانی کا شوق ہوا' شروع میں یہ بھی پہلوانی کرتے رہے کچھ کشتیاں بھی لڑیں' بعدازاں تن سازی کی طرف آ گئے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ پہلوانی کے عروج کے دور میں آپ تن سازی کی طرف کیسے آ گئے تو کہنے لگے۔

''میرے والد صادق بٹ بڑے شہ زور تھے' اپنے والد کو دیکھ کر مجھے بھی شروع میں پہلوانی کا ہی شوق ہوا تھا' ابتداء میں' میں نے کچھ کشتیاں بھی لڑیں لیکن پہلوانی میں کشتی گرانے کے بعد کھڑے ہو کر تماشائیوں سے پیسے لینے والی بات مجھے اچھی نہیں لگی' اس لئے میں نے پہلوانی چھوڑ دی اور تن سازی کی طرف آ گیا لیکن بعد کے دور میں بھی اکھاڑے سے میرا کسی نہ کسی طرح تعلق برقرار رہا۔ اپنے تن سازی کے دور میں بھی میں مختلف ورزشیں کرنے کیلئے اکھاڑوں میںجاتا رہا ' اکثر پہلوانوں سے زور بھی کیا کرتا تھا۔''

استاد عابد بٹ نے جس دور میں تن سازی کا آغاز کیا' اس مہنگے ترین کھیل کے لئے نہ تو اس وقت کے ملتان ایسے غیر ترقی یافتہ شہر میں کوئی سہولیات تھیں نہ ہی کوئی ٹرینر تھا' عابد بٹ جو تن سازی کے حوالے سے ایک جنون میں مبتلا ہو چکے تھے اس دور کے بارے میںبتاتے ہیں:

''جب میں نے ملتان میں باڈی بلڈنگ کا آغاز کیا تو یہاں صرف چارپانچ باڈی بلڈنگ کلب تھے جن میں میرا یونیورسل ہیلتھ کلب سب سے نمایاں تھا۔میں نے ملتان سے لاہور جا کر استاد محمد شفیع کو جو مجھ سے پہلے مسٹرپاکستان بن چکے تھے ،اپنا استاد بنایا' انہوں نے ہی مجھے باڈی بلڈنگ کے حوالے سے ابتدائی رہنمائی دی۔ میں نے لاہور میں ان کے ساتھ رہ کر بہت زیادہ ایکسر سائز کی جس کا مجھے بعد میں بہت فائدہ ہوا' استاد شفیع کا کلب لاہور رنگ محل میں ہوا کرتا تھا۔

اسی دور میں لاہور کے ایک باڈی بلڈر اشرف بٹ جو مسٹر سنٹرل زون بنے تھے ملتان آئے' اشرف بٹ کا جسم دیکھ کر میرا باڈی بلڈنگ کا شوق اور بھی زیادہ ہو گیا۔ اشرف بٹ جن کا مستی گیٹ لاہور میں کلب تھا' 1961ء میں مسٹر پاکستان کے مقابلے میں میری کلاس میں ہی تھے لیکن میں نے انہیں ہرا دیا تھا۔ میں نے سب سے پہلے جو ٹائیٹل جیتا وہ مسٹر جونیئر ملتان کا تھا' اس وقت عمر خان مسٹر ملتان بنے تھے لیکن مسٹر پنجاب کے مقابلہ میں عمر خان کو بھی میں نے ہرا دیا تھا۔''

جونیئر مسٹر ملتان بننے کے بعد عابد بٹ نے کچھ ماہ بعد ہی مسٹر پنجاب کا ٹائیٹل بھی جیت لیا' اتنے کم عرصے میں صوبائی سطح کا ٹائیٹل جیت کر انہوں نے اس وقت کی باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کو بھی حیران کر دیا تھا۔انہوں نے جن تن سازوں کو دیکھ کر تن سازی شروع کی تھی وہ بھی مختلف مقابلوں میں ان کے مقابل آئے لیکن ان کی محنت اتنی زیادہ تھی کہ ان کے سینئرز بھی ان کا مقابلہ نہ کر سکے۔ مسٹر پنجاب کے مقابلہ کے حوالے سے انھوں نے بتایا:

''باڈی بلڈنگ تو دراصل میں کئی سال سے کر رہا تھا لیکن جب میں جونیئر مسٹر ملتان بنا تو میرا شوق اور زیادہ ہو گیا' اسی مقام پر آ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میں اس کھیل میں مزید آگے جا سکتا ہوں اور پھر میں بڑھتا ہی گیا۔ جب میں مسٹر پنجاب کے مقابلہ کیلئے گیا تو سارے پنجاب سے تن ساز آئے ہوئے تھے لیکن جب انہوں نے میرا جسم دیکھا تو سب حیران ہو گئے کہ یہ آدمی کہاں سے آ گیا' خیر مقابلہ ہوا تو مجھے مسٹر پنجاب کا ٹائیٹل مل گیا۔ لاہور والے حیران تھے کہ ملتان سے ایک لڑکا آیا اور سب کو چت کر گیا۔ مسٹر پنجاب بننے کے کچھ ماہ بعد ہی میں مسٹر پاکستان بن گیا' یہ مقابلہ بھی 1961ء میں لاہور کے ریٹز سینما میں ہوا تھا۔''

مسٹر پنجاب بننے کے بعد استاد عابد بٹ نے 1961ء میں ہی لاہور میں مسٹر پاکستان کا مقابلہ بھی لڑا' اس حوالے سے عابد بٹ بتاتے ہیں:

''مسٹر پاکستان کے مقابلہ کیلئے بنگالی لڑکے بھی آئے ہوئے تھے لیکن وہ جسم میں مجھ سے بہت کم تھے کیونکہ میرا جسم اللہ کے فضل سے بہت خوبصورت بن گیا تھا' عمر بٹ جو اس وقت لاہور کا معروف باڈی بلڈر تھا میں بھی اسے پسند کرتا تھا' وہ بھی مسٹر پاکستان کے مقابلہ میں شریک تھا' اسی طرح لاہور کے مشتاق بٹ بھی اس مقابلہ میں شریک تھے لیکن میں نے ان سب کو شکست دی۔ مسٹر پاکستان تک کے مقابلہ کیلئے نہ تو میرے پاس کوئی ٹرینر تھا نہ ہی کسی قسم کی کوئی سرپرستی تھی' میں نے جو کچھ کیا اپنے بل بوتے پر کیا۔

مسٹر پاکستان بننے کے بعد جب میں ملتان آیا تو ریلوے سٹیشن پر ایک بہت بڑا جلوس مجھے لینے کیلئے آیا' میرے شاگردوں نے مجھے کاندھوں پر اُٹھا رکھا تھا' پھولوں کے ہار ڈالے' مسٹر پاکستان بننے کے بعد مجھے اپنے شہر میں عوامی سطح پر بڑی محبت اور پذیرائی ملی لیکن سرکاری سطح پر مجھے جو پذیرائی ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی حالانکہ 1961ء سے آج تک 50 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود میرا اعزاز برقرار ہے کیونکہ ملتان اور جنوبی پنجاب سے آج تک کوئی بھی تن ساز مسٹر پاکستان نہیں بن سکا۔ میری خواہش تھی کہ میرے اس اعزاز کو دیکھتے ہوئے ملتان میں میرے اعزاز میں سرکاری سطح پر ایک تقریب کی جاتی' دوسرے ملتان میں قلعہ کہنہ پر جہاں ملتان کی دیگر نامور شخصیات کی تصاویر لگائی گئی ہیں میری تصویر بھی وہاں آویزاں کی جائے' یہ میرا خواب ہے کیونکہ میں پاکستان سطح کا سپورٹس مین ہوں' میرے اس اعزاز کا سرکاری سطح پر بھی اعتراف ہونا چاہیے''۔


مسٹر پاکستان بننے کے بعد استاد عابد بٹ کا خواب مسٹر یونیورس بننا تھا لیکن اس دوران انہوں نے مسٹر اولمپیاء پاکستان کا مقابلہ لڑا' اس مقابلہ میں صرف وہی لوگ شامل تھے جو اس سے پہلے مسٹر پاکستان بن چکے تھے' یہ مقابلہ بھی استاد عابد بٹ جیت گئے اور مسٹر اولمپیاء پاکستان کا ٹائٹل بھی اپنے نام کر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے مسٹر یونیورس کے مقابلہ کیلئے تیاری کی۔ 1962ء میں پاکستان باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن نے مسٹر یونیورس کے مقابلہ کیلئے سلیکشن کی تو استاد عابد بٹ بھی اس مقابلہ کیلئے سلیکٹ ہوئے۔ یوں 1962ء میں یہ مسٹر یونیورس کے مقابلہ کیلئے انگلینڈ گئے' اس مقابلہ کی خاص بات عالمی شہرت یافتہ باڈی بلڈر اور فلمسٹار سٹیو ریوز کی بطور جج شرکت تھی۔ اس مقابلہ میں استاد عابد بٹ نے چوتھی پوزیشن حاصل کی لیکن جب یہ اس مقابلہ میں شرکت کے بعد واپس پاکستان آئے تو ان پر چار سال کی پابندی لگا دی گئی' ہم نے اس پابندی کی وجہ پوچھی تو استاد عابد بٹ کہنے لگے:

''دیکھیں مسٹر پاکستان بننے کے بعد میرا خواب مسٹر ایشیاء اور مسٹر یونیورس بننے کا تھا لیکن مسٹر یونیورس کے مقابلے کے بعد حالات ہی خراب ہو گئے' کچھ مجھ پر بین لگا دیا گیا' یہ بین اس وجہ سے لگا کہ میں نے ایک لڑکے کیلئے احتجاج کیا تھا' باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن کے لوگ تو پہلے ہی چاہتے تھے کہ میں کسی طرح پکڑ میں آ جاؤں' سو انہوں نے ایسوسی ایشن کو میرے خلاف لکھنے کیلئے کہا' بہرحال یہ سب کچھ مجھے راستے سے ہٹانے کیلئے کیا جا رہا تھا۔ بین مجھ پر چار سال کا لگا تھا لیکن اسے یہ لوگ کھینچ کر 8 سال تک لے گئے۔

اس بین کی وجہ یہ بھی تھی کہ میں لاہور کی طاقت ور لابی کی آنکھوں میں پہلے سے ہی کھٹکتا تھا' وہ چاہتے تھے کہ یہ ٹوٹ جائے اور بددل ہو کر مقابلہ سے ہی آؤٹ ہو جائے لیکن میں بھی ضدی تھا' میں ضد کر بیٹھا کہ میں پھر آؤں گا' پھر مقابلہ کروں گا' دراصل لاہور کی طاقت ور لابی نہیں چاہتی تھی کہ ملتان کا ایک لڑکا مسٹر یونیورس کے مقابلہ میں جائے' مجھ پر 8 سال پابندی رہی' پابندی کی وجہ سے کسی مقابلہ میں تو شرکت نہیں کر سکتا تھا لیکن میں اس دوران مسلسل ایکسرسائز کرتا رہا' 8 سال بعد جب میں دوبارہ مسٹر یونیورس کی سلیکشن کیلئے آیا تو اس وقت تک 8 باڈی بلڈرز مسٹر پاکستان بن چکے تھے لیکن میں نے ان سب کو شکست دے دی اور ایک بار پھر مسٹر یونیورس کے مقابلہ کیلئے سلیکٹ ہو گیا' مسٹر یونیورس کے دوسرے مقابلہ کیلئے جب سلیکشن ہوئی تو لوگوں کا خیال تھا کہ عابد بٹ ختم ہو چکا ہو گا لیکن میں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور توانا ہو کر آیا تھا۔ مسٹر یونیورس کا یہ مقابلہ بلغراد میں 1971ء میں ہوا تھا۔

اس مقابلہ کی خاص بات عالمی شہرت یافتہ باڈی بلڈر اور اداکار آرنلڈ شیوازنیگر کی شرکت تھی' آرنلڈ اس وقت بالکل ینگ تھا لیکن بڑا مشہور باڈی بلڈر تھا' وہ اس وقت مسٹر یونیورس بھی نہیں بنا تھا صرف مقابلہ دیکھنے کیلئے آیا ہوا تھا' میرا خیال ہے وہ دو تین سال بعد مسٹر یونیورس بنا' میری اس مقابلہ میں پانچویں پوزیشن آئی تھی' انہی دنوں میری خواہش مسٹر ایشیاء کا مقابلہ لڑنے کی بھی تھی لیکن لاہور کی لابی مجھے بھیجنا نہیں چاہتی تھی' انہوں نے اس وقت مسٹر ایشیاء کے مقابلہ کیلئے لاہور کے مشتاق چھینہ کو بھیجا تھا جسے میں مسٹر پاکستان کے مقابلہ میں ہرا چکا تھا''

باڈی بلڈنگ میں ممنوعہ ادویہ کے استعمال کی روایت کے حوالے سے عابد بٹ نے بتایا:

'' جب میں نے باڈی بلڈنگ کا آغاز کیا تو پاکستان میں کہیں بھی ممنوعہ ادویہ استعمال نہیں ہوتی تھیں' میں مسٹر پاکستان بن چکا تھا لیکن میں نے ان ادویہ کی شکل تک نہیں دیکھی تھی' میرے خیال میں 70ء کے بعد پاکستان میں یہ ادویہ متعارف ہوئیں' ان ادویہ کے استعمال سے بہت سے تن سازوں کی وفات ہوئی' لاہور کا ایک مسٹر پاکستان بھی ان ادویہ کی بھینٹ چڑھا۔ 1970ء کے بعد جب میری باڈی بلڈنگ کے حوالے سے ایک شہرت تھی اس وقت مجھے بھی اس جانب راغب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن میں نے ان کی طرف آنکھ اُٹھا بھی نہ دیکھا' آج کل کے لڑکے شارٹ کٹ کے چکر میں ہوتے ہیں کہ جلد از جلد باڈی بلڈر بن جائیں' جلدی میں تو آپ کو پتہ ہے کہ کام خراب ہو جاتا ہے۔ میرے دور میں ایسا نہیں تھا' میری خوراک بہت اچھی تھی' میں نے ہمیشہ خالص دیسی خوراک استعمال کی' خوراک اچھی کھائی تو محنت بھی بہت زیادہ کی' میں دن میں 8 گھنٹے ایکسرسائز کیا کرتا تھا' میں نے ہمیشہ نئے باڈی بلڈرز کو یہی مشورہ دیا کہ محنت کرو اتنی محنت کرو کہ تم اپنی محنت کا ثمر بن جاؤ''

استاد عابد بٹ ملتان کے ایسے تن ساز ہیں جنہوں نے ملتان میں باڈی بلڈنگ کی ایک مضبوط روایت قائم کی۔ 60ء کی دہائی میں جونیئر ملتان بن کر انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور پھر ایک سال کے عرصے یں ہی یہ مسٹر پنجاب' مسٹر پاکستان اور مسٹر اولمپیاء پاکستان بن گئے۔ استاد عابد بٹ نے 1980ء میں کراچی میں منعقدہ سینئر باڈی بلڈرز کے مقابلہ ''ماسٹر اولڈ ٹرافی'' میں بھی شرکت کی تھی' اس مقابلہ میں بھی انہوں نے پہلی پوزیشن ہی حاصل کی تھی۔ اس مقابلہ میں بہت سے تن ساز ایسے بھی تھے جنہیں یہ مسٹر پاکستان کے مقابلہ میں ہرا چکے تھے۔1961ء میں جب یہ مسٹر پاکستان بن کر ملتان آئے تو اس وقت کے ملتان میں انہیں ایک افسانوی شہرت حاصل ہوئی۔

ان کی ملتان میں عوامی سطح پر پذیرائی کا یہ عالم تھا کہ عابد بٹ جہاں جہاں سے بھی گزرتے لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر صرف انہیں دیکھتے تھے۔ چوک شہیداں ملتان کے قریب ایک پرائمری سکول کے گراسی پلاٹ میں قائم ان کے ''پاک عابد ہیلتھ کلب'' کے سامنے سرشام ہی لوگوں کے ٹھٹھ لگ جاتے تھے جو صرف عابد بٹ اور ان کے شاگردوں کو ایکسرسائز کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ استاد عابد بٹ نے اس دور میں باڈی بلڈنگ میں نام کمایا جب سادہ اور روایتی انداز سے تن سازی ہوتی تھی اور اچھا تن ساز بننے کے لئے صرف اچھی خوراک اور محنت ہی درکار ہوتی تھی۔ استاد عابد بٹ کے خاندان میں ان کے بعد ان کے بھائی زاہد بٹ بھی مسٹر پنجاب بنے' زاہد بٹ مسٹر اولمپیاء پاکستان کے مقابلہ میں بھی رنر اپ رہے۔

بعدازاں ان کا ایک بھتیجا محمود بٹ بھی مسٹر ملتان' مسٹر ملتان ڈویژن اور مسٹر اولمپیاء ملتان رہا۔ استاد عابد بٹ نے ملتان میں باڈی بلڈنگ کے حوالے سے بہت سے شاگرد بھی پیدا کئے' ملتان میں آج بہت سے ہیلتھ کلب انہی کے شاگرد چلا رہے ہیں' استاد عابد بٹ مسٹر یونیورس کے دوسرے مقابلہ کے بعد برطانیہ چلے گئے تھے کافی عرصہ وہاں مقیم رہے۔ 1970ء میں ان کی شادی ہوئی ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں ان کی فیملی آج بھی انگلینڈ میں مقیم ہے جبکہ یہ ملتان میں رہتے ہیں اور اپنی فیملی سے ملنے برطانیہ آتے جاتے رہتے ہیں۔

امریکی ریسلر کنگ کانگ کو چیلنج
معروف پہلوان بھولو برادران ہمارے رشتہ دار تھے' دیسی کشتی میں ان کا بڑا نام تھا یہ لوگ اکثر ملتان آیا کرتے اور کئی کئی دن مقیم رہتے تھے۔ 60ء کی دہائی میں انہوں نے ملتان میں ایک فری سٹائل دنگل کرایا جس میں امریکی ریسلر کنک کانگ کو بھی بلایا گیا' قلعہ کہنہ ملتان میں یہ دنگل ہونا تھا' وہیں یہ لوگ پریکٹس کرتے تھے' یہ تمام لوگ آپس میں طے کرکے نورا کشتی لڑنے والے لوگ تھے۔

میں نے سوچا میں تو ان سے بہتر کشتی لڑ سکتا ہوں سو میں نے کنگ کانگ کو چیلنج کرنے کے لئے بھولو پہلوان کو ایک چٹ بھیجی' عین دنگل کے وقت انتظامیہ کو ''وختہ'' پڑ گیا' انہوں نے قلعہ کے چار اطراف لوگ کھڑے کر دیئے کہ عابد بٹ اندر نہ آنے پائے میں جیسے ہی قلعہ کے قریب پہنچا تو لوگ مجھے پکڑ کر ایک طرف لے گئے کہ ''یار تم نے کشتی لڑنا تھی تو ہمیں بتاتے ہم کسی اچھے پہلوان سے کشتی رکھوا دیتے'' میں نے کہا کہ میں ایک نامور آدمی ہوں اور کسی نامور آدمی سے ہی کشتی لڑوں گا۔ کنک گانگ ان دنوں ملتان آیا ہوا تھا اور بہت موٹا پہلوان تھا میں بھی ان دنوں عروج پر تھا' انتظامیہ دراصل مجھے لڑانا ہی نہیں چاہتی تھی کہ اگر یہ جیت گیا تو ہمارے پہلوانوں کی بے عزتی ہوگی۔

سٹیو ریوز میری ٹانگیں دیکھ کر حیران تھا
میرے جسم میں سب سے نمایاں حصہ میرا سینہ تھا' میں نے مسٹر پاکستان کے مقابلہ میں بیسٹ چیسٹ کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا تھا' اس کے علاوہ میری ٹانگوں کے مسلز بھی غیر معمولی تھے جب میں مسٹر یونیورس کے پہلے مقابلہ میں شرکت کے لئے انگلینڈ گیا تو عالمی شہرت یافتہ باڈی بلڈر اور اداکار سٹیو ریوز بھی بطور جج شریک تھا' پوزنگ کے وقت وہ میری ٹانگیں دیکھ کر حیران تھا' کافی دیر تک وہ میری ٹانگوں کو بغور دیکھتا رہا اسے کچھ شک ہوا تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آیا اور میری ٹانگوں کو باقاعدہ چھو کر دیکھا کہ میں نے کوئی جعلسازی تو نہیں کر رکھی۔
Load Next Story