سونے کے تاجروں کا اسٹیٹ بینک کے الزامات پر سخت رد عمل
اس وقت سونے کی درآمد پر 1 فیصد ودہولڈنگ اور 2.5 روپے فی گرام کسٹم ڈیوٹی عائد ہے، جیم مرچنٹس اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن
HYDERABAD:
سونے کی درآمد اور طلائی زیورات کی برآمد سے وابستہ تاجروں کی نمائندہ انجمن آل پاکستان جیم مرچنٹس اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے سونے کے زیورات کی آڑ میں اسمگلنگ اور ملک سے سرمائے کے انخلا کے الزامات پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی بینک کے خلاف ہتک عزت کے تحت قانونی کارروائی کا عندیہ دے دیا ہے۔
ایسوسی ایشن کے چیئرمین حبیب الرحمن کی جانب سے وفاقی وزارت تجارت کو ارسال کردہ خط میں ایکسپورٹرز پر الزامات کو وزارت تجارت کی کارکردگی اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے شفاف نظام، کسٹم اور ایف بی آر کی ساکھ پر بھی سنگین حملہ قرار دیا گیا ہے۔ ایسوسی ایشن نے سونے کی درآمد اور زیورات کی برآمدکے لیے امپورٹ پالیسی آرڈر اور ایس آر او 760 کے غلط استعمال سے زرمبادلہ ذخائر اور کرنسی پر پڑنے والے دباؤ جیسے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے اسٹیٹ بینک پر زور دیاکہ وہ اپنی آئینی ذمے داری ادا کرتے ہوئے پانامہ لیکس کے ذریعے سرمائے کے انخلا، برطانیہ، امریکا و متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری اور چین کے ساتھ غیردستاویزی تجارت کے بارے میں تحقیقات کرے جو تمام تر حوالہ ہنڈی کے ذریعے کی جاتی ہے او حقیقت میں اس سے زرمبادلہ ذخائر اور کرنسی کو دباؤ کا سامنا ہے۔
وفاقی سیکریٹری تجارت کو ارسال کردہ خط میں الزامات کو بے بنیاد، گمراہ کن اور معلومات کی کمی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے الزامات کا ترتیب وار جواب دیا گیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق ایس بی پی نے امپورٹ پالیسی آرڈر کے تحت سونے کی درآمد کے جس پہلے ماڈل کا حوالہ دیا ہے اس ماڈل کے تحت چند سال کے دوران سونے کی درآمد نہیں کی گئی جس کی تصدیق اس طریقے سے امپورٹ پر حکومت کو حاصل ریونیو سے کی جا سکتی ہے، اسٹیٹ بینک نے سونے کی درآمد اور زیورات کی برآمد کے لیے جس ایس آر او 760 کا حوالہ دیا وہ 2 ستمبر 2013کو متعارف کرایا گیا اور سخت ترین شرائط پر مبنی اس ایس آر او کے تحت 3 سال میں بے قاعدگی کاکوئی کیس سامنے نہیں آیا، اس ایس آر او پر عملدرآمد کرتے ہوئے ٹی ڈیپ سونے کی درآمد اور جیولری کی برآمد کی سختی سے مانیٹرنگ کرتی ہے، تمام ٹرانزیکشن جیولری پاس بک میں ریکارڈ کی جاتی ہیں جس کی تصدیق ٹی ڈی اے پی، کسٹم اتھارٹیزاور متعلقہ بینک سے کی جاتی ہے، درآمدی سونے سے تیار تمام زیورات برآمدکردیے جاتے ہیں ۔
اس لیے بھارت کو سونے کی اسمگلنگ کا الزام بھی بلاجواز ہے، وفاقی وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے الزامات اس بات سے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں کہ آج تک بھارتی اتھارٹیز یا میڈیا نے پاکستان سے سونا اسمگل کرنے کا کوئی الزام عائد نہیں کیا، اسٹیٹ بینک کسی ثبوت کے بغیر ان ایکسپورٹرز پر مصنوعی زیورات برآمد کرنے کا الزام لگا رہا ہے جو اسٹیٹ بینک سے 1ڈالر لیے بغیر پاکستان کو زرمبادلہ کما کر دے رہے ہیں، اسٹیٹ بینک کے الزامات وفاقی وزارت تجارت، ٹی ڈیپ اور کسٹم اتھارٹیز کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ ایسوسی ایشن نے استفسارکیاکہ کیا اسٹیٹ بینک کسی ایجنسی کی جانب سے پاکستان یا ملک سے باہر ایسی کسی سرگرمی کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ ایسوسی ایشن نے واضح کیاکہ برآمدکنندگان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بننے والے ان بے بنیاد الزامات پر ایسوسی ایشن اسٹیٹ بینک کے خلاف ہتک عزت کے تحت کارروائی کا اختیار محفوظ رکھتی ہے۔ ایسوسی ایشن نے سونے کی درآمد کے لیے کوٹا مقرر کرنے کی تجویز کو بھی اس تجارت پر مخصوص دولت مند افراد کی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش قرار دیا جو ماضی میں بھی ناکام ہوچکی ہے اور اس حوالے سے متعدد مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔
ایسوسی ایشن کے مطابق اس وقت سونے کی درآمد پر 1 فیصد ودہولڈنگ اور 2.5 روپے فی گرام کسٹم ڈیوٹی عائد ہے اور کئی سال سے اس شرح پر 1 گرام سونا بھی درآمد نہیں کیا گیا تو پھر اسٹیٹ بینک کی تجویز کے مطابق 10فیصد کسٹمز ڈیوٹی پر کس طرح سونے درآمد کرنے کی امید کی جا سکتی ہے، ڈیوٹی ڈرا بیک کی تجویز سے قبل ایکسپورٹرز کے اربوں روپے کے پھنسے ہوئے ریفنڈ کی صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے، سونا قیمتی دھات ہے،1کلو گرام سونے کی درآمد پر 10 فیصد ڈیوٹی5لاکھ روپے بنتی ہے، طلائی زیورات کا کاروبار 2سے 3فیصد مارجن پر کیا جاتا ہے اس لیے 10فیصد ڈیوٹی ایف بی آر میں پھنساکر کاروبار کرنا ناممکن ہے، درحقیقت اس اقدام سے اسمگلنگ کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ایسوسی ایشن کے مطابق سونے کی درآمدی ادائیگیاں بینکاری چینل سے کرنا ناممکن ہے، ورلڈ گولڈ کونسل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سونے کی سالانہ کھپت 150ٹن ہے، اسٹیٹ بینک کو اندازہ ہونا چاہیے کہ 150 ٹن سونے کے لیے کتنا زرمبادلہ درکار ہے، اگر سونے کی درآمدی ادائیگیاں بینکاری چینل سی کی جائیں تو ملک کے موجودہ 20ارب ڈالر کے ذخائر بھی 1سال کی درآمد کے لیے کم ہوں گے۔
سونے کی درآمد اور طلائی زیورات کی برآمد سے وابستہ تاجروں کی نمائندہ انجمن آل پاکستان جیم مرچنٹس اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے سونے کے زیورات کی آڑ میں اسمگلنگ اور ملک سے سرمائے کے انخلا کے الزامات پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی بینک کے خلاف ہتک عزت کے تحت قانونی کارروائی کا عندیہ دے دیا ہے۔
ایسوسی ایشن کے چیئرمین حبیب الرحمن کی جانب سے وفاقی وزارت تجارت کو ارسال کردہ خط میں ایکسپورٹرز پر الزامات کو وزارت تجارت کی کارکردگی اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے شفاف نظام، کسٹم اور ایف بی آر کی ساکھ پر بھی سنگین حملہ قرار دیا گیا ہے۔ ایسوسی ایشن نے سونے کی درآمد اور زیورات کی برآمدکے لیے امپورٹ پالیسی آرڈر اور ایس آر او 760 کے غلط استعمال سے زرمبادلہ ذخائر اور کرنسی پر پڑنے والے دباؤ جیسے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے اسٹیٹ بینک پر زور دیاکہ وہ اپنی آئینی ذمے داری ادا کرتے ہوئے پانامہ لیکس کے ذریعے سرمائے کے انخلا، برطانیہ، امریکا و متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری اور چین کے ساتھ غیردستاویزی تجارت کے بارے میں تحقیقات کرے جو تمام تر حوالہ ہنڈی کے ذریعے کی جاتی ہے او حقیقت میں اس سے زرمبادلہ ذخائر اور کرنسی کو دباؤ کا سامنا ہے۔
وفاقی سیکریٹری تجارت کو ارسال کردہ خط میں الزامات کو بے بنیاد، گمراہ کن اور معلومات کی کمی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے الزامات کا ترتیب وار جواب دیا گیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق ایس بی پی نے امپورٹ پالیسی آرڈر کے تحت سونے کی درآمد کے جس پہلے ماڈل کا حوالہ دیا ہے اس ماڈل کے تحت چند سال کے دوران سونے کی درآمد نہیں کی گئی جس کی تصدیق اس طریقے سے امپورٹ پر حکومت کو حاصل ریونیو سے کی جا سکتی ہے، اسٹیٹ بینک نے سونے کی درآمد اور زیورات کی برآمد کے لیے جس ایس آر او 760 کا حوالہ دیا وہ 2 ستمبر 2013کو متعارف کرایا گیا اور سخت ترین شرائط پر مبنی اس ایس آر او کے تحت 3 سال میں بے قاعدگی کاکوئی کیس سامنے نہیں آیا، اس ایس آر او پر عملدرآمد کرتے ہوئے ٹی ڈیپ سونے کی درآمد اور جیولری کی برآمد کی سختی سے مانیٹرنگ کرتی ہے، تمام ٹرانزیکشن جیولری پاس بک میں ریکارڈ کی جاتی ہیں جس کی تصدیق ٹی ڈی اے پی، کسٹم اتھارٹیزاور متعلقہ بینک سے کی جاتی ہے، درآمدی سونے سے تیار تمام زیورات برآمدکردیے جاتے ہیں ۔
اس لیے بھارت کو سونے کی اسمگلنگ کا الزام بھی بلاجواز ہے، وفاقی وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے الزامات اس بات سے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں کہ آج تک بھارتی اتھارٹیز یا میڈیا نے پاکستان سے سونا اسمگل کرنے کا کوئی الزام عائد نہیں کیا، اسٹیٹ بینک کسی ثبوت کے بغیر ان ایکسپورٹرز پر مصنوعی زیورات برآمد کرنے کا الزام لگا رہا ہے جو اسٹیٹ بینک سے 1ڈالر لیے بغیر پاکستان کو زرمبادلہ کما کر دے رہے ہیں، اسٹیٹ بینک کے الزامات وفاقی وزارت تجارت، ٹی ڈیپ اور کسٹم اتھارٹیز کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ ایسوسی ایشن نے استفسارکیاکہ کیا اسٹیٹ بینک کسی ایجنسی کی جانب سے پاکستان یا ملک سے باہر ایسی کسی سرگرمی کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ ایسوسی ایشن نے واضح کیاکہ برآمدکنندگان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بننے والے ان بے بنیاد الزامات پر ایسوسی ایشن اسٹیٹ بینک کے خلاف ہتک عزت کے تحت کارروائی کا اختیار محفوظ رکھتی ہے۔ ایسوسی ایشن نے سونے کی درآمد کے لیے کوٹا مقرر کرنے کی تجویز کو بھی اس تجارت پر مخصوص دولت مند افراد کی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش قرار دیا جو ماضی میں بھی ناکام ہوچکی ہے اور اس حوالے سے متعدد مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔
ایسوسی ایشن کے مطابق اس وقت سونے کی درآمد پر 1 فیصد ودہولڈنگ اور 2.5 روپے فی گرام کسٹم ڈیوٹی عائد ہے اور کئی سال سے اس شرح پر 1 گرام سونا بھی درآمد نہیں کیا گیا تو پھر اسٹیٹ بینک کی تجویز کے مطابق 10فیصد کسٹمز ڈیوٹی پر کس طرح سونے درآمد کرنے کی امید کی جا سکتی ہے، ڈیوٹی ڈرا بیک کی تجویز سے قبل ایکسپورٹرز کے اربوں روپے کے پھنسے ہوئے ریفنڈ کی صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے، سونا قیمتی دھات ہے،1کلو گرام سونے کی درآمد پر 10 فیصد ڈیوٹی5لاکھ روپے بنتی ہے، طلائی زیورات کا کاروبار 2سے 3فیصد مارجن پر کیا جاتا ہے اس لیے 10فیصد ڈیوٹی ایف بی آر میں پھنساکر کاروبار کرنا ناممکن ہے، درحقیقت اس اقدام سے اسمگلنگ کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ایسوسی ایشن کے مطابق سونے کی درآمدی ادائیگیاں بینکاری چینل سے کرنا ناممکن ہے، ورلڈ گولڈ کونسل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سونے کی سالانہ کھپت 150ٹن ہے، اسٹیٹ بینک کو اندازہ ہونا چاہیے کہ 150 ٹن سونے کے لیے کتنا زرمبادلہ درکار ہے، اگر سونے کی درآمدی ادائیگیاں بینکاری چینل سی کی جائیں تو ملک کے موجودہ 20ارب ڈالر کے ذخائر بھی 1سال کی درآمد کے لیے کم ہوں گے۔