کالاباغ اور وفاقیت
ورلڈ بینک نے منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر کیلئے مدد کی مگر کالا باغ ڈیم منصوبے کو پس پشت ڈال دیا گیا ۔
KARACHI:
منصوبہ بندی اور ترقیاتی کام کا فریضہ انتظامیہ کو انجام دینا چاہیے مگر یہ فرض عدلیہ انجام دے رہی ہے۔ صوبوں کے درمیان متنازعہ منصوبوں کے بارے میں کسی ایک صوبے کی اعلیٰ عدالت فیصلہ دے گی تو پھر دوسرے صوبے کیا سوچیں گے؟ کالا باغ ڈیم کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سیاستدانوں کے اس قسم کے بیانات سامنے آرہے ہیں۔کالاباغ ڈیم ملک کا سب سے زیادہ متنازعہ منصوبہ ہے۔ 50کی دہائی میں ملک میں دریائوں پر ڈیم بنانے کے مسئلے پر غور شروع ہوا ۔
جنرل ایوب خان نے جب بھارت سے سندھ طاس کا معاہدہ کیا تو دریائے سندھ پر مختلف ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے بنے، ان میں منگلا، تربیلہ اور کالاباغ کے مقامات پر ڈیموں کی تیاری شامل تھی ۔ سندھ طاس معاہدے میں ورلڈ بینک کا اہم کردار تھا، اس بناء پر ورلڈ بینک نے منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر کے لیے مالیاتی امداد فراہم کی مگر مختلف وجوہات کی بناء پر کالا باغ ڈیم منصوبے کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا، پھر اس منصوبے پر یحییٰ خان ، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں غور نہیں ہوا، مگر جب محمد خان جونیجو غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے قائد ایوان منتخب ہوئے ،انھوں نے مارشل لاء کے خاتمے اور 1973کے آئین کی بحالی کے لیے کوششیں شروع کیں اور افغان مسئلے کے حل کے لیے جنرل ضیاء الحق کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے جنیوا مذاکرات میں شرکت کی تو پھر جونیجو حکومت کو کمزور کرنے کے لیے مختلف مسائل ابھر کر سامنے آئے۔ان مسائل میں سندھ میں لسانی کشیدگی اور کالا باغ ڈیم کے قیام کا منصوبہ بھی شامل تھا ۔
کالا باغ ڈیم پر چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میںاس وقت تفصیلی بحث ہوئی ، اس زمانے میں مسلم لیگی رہنما غوث علی شاہ سندھ میں ، میاںنواز شریف پنجاب میں اورارباب جہانگیر سابقہ صوبہ سرحد میںوزیر اعلیٰ تھے ، جب کہ جام صاحب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے۔ تمام صوبوں میں مسلم لیگ کی اکثریت تھی ان انتخابات کا ایم آر ڈی نے بائیکاٹ کیا تھا، اس بناء پر پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی کوئی نمایندگی نہیں تھی مگر صوبہ سرحد اور سندھ کی اسمبلیوں نے کالا باغ ڈیم کو اپنے صوبوں کے مفادات کے خلاف قرار دیا تھا صرف پنجاب کی اسمبلی نے اس فیصلے کی حمایت کی تھی، یوں محمد خان جونیجو کی مسلم لیگی حکومت کو کالا باغ ڈیم منصوبہ کو ترک کرنا پڑا تھا پھر میاں نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے، ان کے اقتدار کے دوران چاروں صوبوں میں مسلم لیگ کی حکومتیں رہیں ، میاں صاحب نے وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتصادی ترقی کے لیے مختلف نوعیت کی پالیسیاں تیار کیں ، چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ نے ان پالیسیوں کی حمایت کی اور ان کومنصوبوں پر عمل درآمد کرانے میں اہم کردار ادا کیا.
مگر میاں صاحب کالا باغ ڈیم کو اپنی حکومت کے ایجنڈا میں شامل نہیں کرسکے پھر جنرل پرویز مشرف کا 9سال کا دور آیا، ان کے ابتدائی 3برسوں کے دوران فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ نے ملک کا انتظام چلایا۔ اس اسٹبلشمنٹ میں چاروں صوبوں کے گورنر اور ا ن کی کابینہ کے اراکین بھی شامل تھے مگر جنرل مشرف اپنے مطلق العنان دور میں اس مسئلے پر توجہ نہیں دے سکے پھر 2002میں جب چاروں صوبوں میں مسلم لیگ ق کی حکومتیں بنیں تو ایک بار پھر سندھ اور سابقہ صوبہ سرحد کی اسمبلیوں نے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو مسترد کیا۔ یوں ظفراللہ جمالی اور شوکت عزیز نے اپنے ایجنڈا میں کالا باغ ڈیم کو شامل کرنے کا رسک نہیںلیا ۔بعض ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ 1988سے 2008 تک مسلم لیگ کی تینوں حکومتوں میں یہ مسئلہ سینیٹ میں پیش کیا جاتا تو سینیٹ میں یہ منصوبہ مسترد ہوجاتا کیونکہ تینوں صوبوں کے سینیٹر اکثریت کی بناء پر اس فیصلے کو مسترد کردیتے۔
لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو مشترکہ مفاد کونسل کے فیصلے پر عملدرآمد کی ہدایت کی ہے مگر جب کونسل نے یہ فیصلہ کیا تو اس وقت اس کی ہیت مختلف تھی۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو بجلی کے بحران کے خاتمے کا حل قرار دے کر اس کی حمایت کی جاتی ہے مگر اس منصوبے سے شہروں کی تباہی ، سیم و تھور کے مسئلے اورسندھ کے ساحلی علاقوں کی تباہی جیسے اہم معاملات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ جب کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے ابتدائی کا م شروع ہوا تھا تو سروے کرنے والے اہلکاروں نے نوشہرہ میں عمارتوں پر نشانات لگادیے تھے۔ یوں یہ واضح ہوگیا تھا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بعد اس کے ریزر وائر میں پانی بھر اجائے گا تو نوشہرہ شہر کا نشان زدہ حصہ ڈوب جائے گا ، اس اعتراض کے بعد ڈیم کے سائز کو کم کرنے کی تجویز منظور ہوئی مگر پھر خیبر پختونخواہ میں وسیع وعریض اراضی کے پانی کے ڈوبنے کے معاملے کا کوئی حل پیش نہیں کیا گیا، یوں خیبر پختونخواہ میں اس ڈیم کی تعمیر سے کتنا ماحولیاتی نقصان ہوگا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس طرح اس ڈیم کی تعمیر سے سندھ میں پانی کی کمی آئے گی، یوں سندھ کی زرعی زمینوں کے لیے ہونے والے نقصانات پر غور نہیں کیا گیا ۔
چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا جو نظام قائم ہے، اس نظام کے بارے میں چھوٹے صوبوں میں بداعتمادی پائی جاتی ہے۔یہ الزامات لگائے جاتے ہیں کہ پنجا ب طے شدہ فارمولے کے تحت سندھ اور بلوچستان کو پانی فراہم نہیں کرتا،اگر پنجاب میں ڈیم بن گیا تو پھرسندھ اور بلوچستان میں پانی کی قلت بہت زیادہ ہوجائے گی، پھر سندھ کی سمندری پٹی پر لاکھوں لوگ صدیوں سے آباد ہیں ۔ بحیرہ عرب کے کنارے یہ پٹی کراچی میں مبارک ولیج سے شروع ہوتی ہے ، بدین اور تھر تک جاتی ہے ، اس ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیروں کا گزاراسمندر ی مخلوق یعنی مچھلیوں اور جھینگوں کے شکار پر ہے ، اس سمندری مخلوق کی پیداوار کے لیے سمندر میں جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ سمندر میں اگنے والے درختوں کی بقاء کے لیے میٹھا پانی ضروری ہے۔ یوں دریائے سندھ سے پانی سمندر میں جاتا ہے، وہ ان جنگلات کی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بعض ماہرین دریا سے سمندرمیں جانے والے پانی کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کو پانی کا ضیاع قرار دیتے ہیں جب کہ یہ سمندری مخلوق کے لیے آکسیجن کا کام دیتا ہے، ملک میں بجلی کی کمی کو دور کرنے کے لیے دوسرے منصوبے شروع ہوسکتے ہیں ، ان میں ایٹمی بجلی، چھوٹے ڈیموں کی تعمیر، دریائوں اور نہروں کے پانی سے ٹربائن چلانے یا گیس ٹیکنالوجی شمسی توانائی اور پن چکی ٹیکنک شامل ہے مگر ان تمام طریقوں کے بجائے محض کالا باغ ڈیم کو ایشو بنانے سے استعماریت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے۔ پاکستان ایک وفاق ہے ، وفاق کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اہم فیصلے تمام چاروں صوبوں کی مرضی سے ہوں .
ماضی میں وفاقیت کے اصول کو نظر انداز کرنے کے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں جب 50کی دہائی میں گورنر جنرل غلام محمد نے ایک بنگالی مسلم لیگی رہنما خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطر ف کیا تھا تو اس وقت کی چیف کورٹ نے جن کے سربراہ جسٹس منیر تھے اس فیصلے کی توثیق کردی تھی، اس وقت فاضل ججوں نے وفاقیت کے اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے، اس کے مضمرات کو محسوس نہیں کیا تھا، یوں اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی مایوسی کا انجام 16دسمبر1971کو سامنے آیا تھا ۔ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے، اس کو وفاقیت کے اصولوں کو اہمیت دینی ہو گی۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردے گا۔
منصوبہ بندی اور ترقیاتی کام کا فریضہ انتظامیہ کو انجام دینا چاہیے مگر یہ فرض عدلیہ انجام دے رہی ہے۔ صوبوں کے درمیان متنازعہ منصوبوں کے بارے میں کسی ایک صوبے کی اعلیٰ عدالت فیصلہ دے گی تو پھر دوسرے صوبے کیا سوچیں گے؟ کالا باغ ڈیم کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سیاستدانوں کے اس قسم کے بیانات سامنے آرہے ہیں۔کالاباغ ڈیم ملک کا سب سے زیادہ متنازعہ منصوبہ ہے۔ 50کی دہائی میں ملک میں دریائوں پر ڈیم بنانے کے مسئلے پر غور شروع ہوا ۔
جنرل ایوب خان نے جب بھارت سے سندھ طاس کا معاہدہ کیا تو دریائے سندھ پر مختلف ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے بنے، ان میں منگلا، تربیلہ اور کالاباغ کے مقامات پر ڈیموں کی تیاری شامل تھی ۔ سندھ طاس معاہدے میں ورلڈ بینک کا اہم کردار تھا، اس بناء پر ورلڈ بینک نے منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر کے لیے مالیاتی امداد فراہم کی مگر مختلف وجوہات کی بناء پر کالا باغ ڈیم منصوبے کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا، پھر اس منصوبے پر یحییٰ خان ، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں غور نہیں ہوا، مگر جب محمد خان جونیجو غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے قائد ایوان منتخب ہوئے ،انھوں نے مارشل لاء کے خاتمے اور 1973کے آئین کی بحالی کے لیے کوششیں شروع کیں اور افغان مسئلے کے حل کے لیے جنرل ضیاء الحق کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے جنیوا مذاکرات میں شرکت کی تو پھر جونیجو حکومت کو کمزور کرنے کے لیے مختلف مسائل ابھر کر سامنے آئے۔ان مسائل میں سندھ میں لسانی کشیدگی اور کالا باغ ڈیم کے قیام کا منصوبہ بھی شامل تھا ۔
کالا باغ ڈیم پر چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میںاس وقت تفصیلی بحث ہوئی ، اس زمانے میں مسلم لیگی رہنما غوث علی شاہ سندھ میں ، میاںنواز شریف پنجاب میں اورارباب جہانگیر سابقہ صوبہ سرحد میںوزیر اعلیٰ تھے ، جب کہ جام صاحب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے۔ تمام صوبوں میں مسلم لیگ کی اکثریت تھی ان انتخابات کا ایم آر ڈی نے بائیکاٹ کیا تھا، اس بناء پر پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی کوئی نمایندگی نہیں تھی مگر صوبہ سرحد اور سندھ کی اسمبلیوں نے کالا باغ ڈیم کو اپنے صوبوں کے مفادات کے خلاف قرار دیا تھا صرف پنجاب کی اسمبلی نے اس فیصلے کی حمایت کی تھی، یوں محمد خان جونیجو کی مسلم لیگی حکومت کو کالا باغ ڈیم منصوبہ کو ترک کرنا پڑا تھا پھر میاں نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے، ان کے اقتدار کے دوران چاروں صوبوں میں مسلم لیگ کی حکومتیں رہیں ، میاں صاحب نے وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتصادی ترقی کے لیے مختلف نوعیت کی پالیسیاں تیار کیں ، چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ نے ان پالیسیوں کی حمایت کی اور ان کومنصوبوں پر عمل درآمد کرانے میں اہم کردار ادا کیا.
مگر میاں صاحب کالا باغ ڈیم کو اپنی حکومت کے ایجنڈا میں شامل نہیں کرسکے پھر جنرل پرویز مشرف کا 9سال کا دور آیا، ان کے ابتدائی 3برسوں کے دوران فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ نے ملک کا انتظام چلایا۔ اس اسٹبلشمنٹ میں چاروں صوبوں کے گورنر اور ا ن کی کابینہ کے اراکین بھی شامل تھے مگر جنرل مشرف اپنے مطلق العنان دور میں اس مسئلے پر توجہ نہیں دے سکے پھر 2002میں جب چاروں صوبوں میں مسلم لیگ ق کی حکومتیں بنیں تو ایک بار پھر سندھ اور سابقہ صوبہ سرحد کی اسمبلیوں نے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو مسترد کیا۔ یوں ظفراللہ جمالی اور شوکت عزیز نے اپنے ایجنڈا میں کالا باغ ڈیم کو شامل کرنے کا رسک نہیںلیا ۔بعض ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ 1988سے 2008 تک مسلم لیگ کی تینوں حکومتوں میں یہ مسئلہ سینیٹ میں پیش کیا جاتا تو سینیٹ میں یہ منصوبہ مسترد ہوجاتا کیونکہ تینوں صوبوں کے سینیٹر اکثریت کی بناء پر اس فیصلے کو مسترد کردیتے۔
لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو مشترکہ مفاد کونسل کے فیصلے پر عملدرآمد کی ہدایت کی ہے مگر جب کونسل نے یہ فیصلہ کیا تو اس وقت اس کی ہیت مختلف تھی۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو بجلی کے بحران کے خاتمے کا حل قرار دے کر اس کی حمایت کی جاتی ہے مگر اس منصوبے سے شہروں کی تباہی ، سیم و تھور کے مسئلے اورسندھ کے ساحلی علاقوں کی تباہی جیسے اہم معاملات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ جب کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے ابتدائی کا م شروع ہوا تھا تو سروے کرنے والے اہلکاروں نے نوشہرہ میں عمارتوں پر نشانات لگادیے تھے۔ یوں یہ واضح ہوگیا تھا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بعد اس کے ریزر وائر میں پانی بھر اجائے گا تو نوشہرہ شہر کا نشان زدہ حصہ ڈوب جائے گا ، اس اعتراض کے بعد ڈیم کے سائز کو کم کرنے کی تجویز منظور ہوئی مگر پھر خیبر پختونخواہ میں وسیع وعریض اراضی کے پانی کے ڈوبنے کے معاملے کا کوئی حل پیش نہیں کیا گیا، یوں خیبر پختونخواہ میں اس ڈیم کی تعمیر سے کتنا ماحولیاتی نقصان ہوگا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس طرح اس ڈیم کی تعمیر سے سندھ میں پانی کی کمی آئے گی، یوں سندھ کی زرعی زمینوں کے لیے ہونے والے نقصانات پر غور نہیں کیا گیا ۔
چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا جو نظام قائم ہے، اس نظام کے بارے میں چھوٹے صوبوں میں بداعتمادی پائی جاتی ہے۔یہ الزامات لگائے جاتے ہیں کہ پنجا ب طے شدہ فارمولے کے تحت سندھ اور بلوچستان کو پانی فراہم نہیں کرتا،اگر پنجاب میں ڈیم بن گیا تو پھرسندھ اور بلوچستان میں پانی کی قلت بہت زیادہ ہوجائے گی، پھر سندھ کی سمندری پٹی پر لاکھوں لوگ صدیوں سے آباد ہیں ۔ بحیرہ عرب کے کنارے یہ پٹی کراچی میں مبارک ولیج سے شروع ہوتی ہے ، بدین اور تھر تک جاتی ہے ، اس ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیروں کا گزاراسمندر ی مخلوق یعنی مچھلیوں اور جھینگوں کے شکار پر ہے ، اس سمندری مخلوق کی پیداوار کے لیے سمندر میں جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ سمندر میں اگنے والے درختوں کی بقاء کے لیے میٹھا پانی ضروری ہے۔ یوں دریائے سندھ سے پانی سمندر میں جاتا ہے، وہ ان جنگلات کی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بعض ماہرین دریا سے سمندرمیں جانے والے پانی کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کو پانی کا ضیاع قرار دیتے ہیں جب کہ یہ سمندری مخلوق کے لیے آکسیجن کا کام دیتا ہے، ملک میں بجلی کی کمی کو دور کرنے کے لیے دوسرے منصوبے شروع ہوسکتے ہیں ، ان میں ایٹمی بجلی، چھوٹے ڈیموں کی تعمیر، دریائوں اور نہروں کے پانی سے ٹربائن چلانے یا گیس ٹیکنالوجی شمسی توانائی اور پن چکی ٹیکنک شامل ہے مگر ان تمام طریقوں کے بجائے محض کالا باغ ڈیم کو ایشو بنانے سے استعماریت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے۔ پاکستان ایک وفاق ہے ، وفاق کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اہم فیصلے تمام چاروں صوبوں کی مرضی سے ہوں .
ماضی میں وفاقیت کے اصول کو نظر انداز کرنے کے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں جب 50کی دہائی میں گورنر جنرل غلام محمد نے ایک بنگالی مسلم لیگی رہنما خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطر ف کیا تھا تو اس وقت کی چیف کورٹ نے جن کے سربراہ جسٹس منیر تھے اس فیصلے کی توثیق کردی تھی، اس وقت فاضل ججوں نے وفاقیت کے اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے، اس کے مضمرات کو محسوس نہیں کیا تھا، یوں اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی مایوسی کا انجام 16دسمبر1971کو سامنے آیا تھا ۔ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے، اس کو وفاقیت کے اصولوں کو اہمیت دینی ہو گی۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردے گا۔