سیاسی سرگرمیوں میں تیزی

سکھر میں حکم راں جماعت سے تعلق رکھنے والے منتخب نمایندوں میں عرصے سے اختلافات چلے آرہے ہیں۔

وعدہ کرتا ہوں کہ دوبارہ حکومت میں آنے پر ملازمتیں فراہم کی جائیں گی، خورشید شاہ۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
کالا باغ ڈیم بنانے کے عدالتی فیصلے پر پیپلز پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت، قوم پرست جماعتوں کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔

سندھ میں نئے بلدیاتی نظام پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے احتجاج میں شدت آ گئی ہے۔ سندھ بچاؤ کمیٹی کی کال پر بلدیاتی نظام کے نفاذ کے خلاف سکھر سمیت بالائی سندھ میں مکمل ہڑ تال کی گئی، احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیے گئے۔ سندھ بچاؤ کمیٹی میں شامل سنی تحریک، مسلم لیگ (ف)، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف سمیت قوم پرست جماعتوں کے راہ نماؤں نے حکومتی فیصلے پر شدید تنقید کی اور سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈننس واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

مسلم لیگ فنگشنل کی حکومت سے علیحدگی اور سندھ اسمبلی میں خاتون سیاست داں کے ساتھ حکومتی اراکین کی طرف سے ناروا سلوک کے بعد حکومت کے خلاف احتجاج میں تیزی آتی جارہی ہے۔ عام انتخابات سے قبل فنکشنل لیگ کے صوبائی جنرل سیکریٹری امتیاز شیخ، سید اجمل شاہ، ندیم قادر بھٹو، لیڈیز ونگ کی محترمہ صفیہ بلوچ سمیت دیگر راہ نمائوں نے اپنے قائد پیر سائیں پگارا کی رابطہ مہم سے قبل خاصی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ ان راہ نماؤں نے اپنی جماعت کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو اپنے قائد کے استقبال کے لیے متحرک کردیا ہے۔

فنکشنل لیگ کی قیادت کو اس سلسلے میں کافی حد تک کام یابی حاصل ہوئی ہے، جس کی مثال تیس نومبر کو سکھر سمیت بالائی سندھ میں ہونے والی ہڑتال ہے۔ اس میں فنکشنل لیگ کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ نگراں حکومت کے قیام سے قبل لاہورہائی کورٹ کے فیصلے نے پیپلز پارٹی کی حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

قومی اور علاقائی سطح پر سیاست کرنے والی جماعتیں عام انتخابات میں ڈیم مخالف نعرے لگا کر اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ طویل عرصے سے التواء کا شکار ذخیرۂ آب کے منصوبے کی تعمیر کے بارے میں فیصلے کے اثرات سے بچنے کے لیے پیپلز پارٹی نے بھی کام شروع کردیا ہے۔ ضلعی اور اعلی قیادت کی طرف سے اس منصوبے کے خلاف بیانات دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔




پیپلز پارٹی کے 46 ویں یوم تاسیس پر سکھر پبلک اسکول میں تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ، رکن قومی اسمبلی و ریلوے کے پارلیمانی سیکریٹری نعمان اسلام، رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر نصر اللہ بلوچ، حاجی انور خان مہر، پہلاج رائے، مشتاق سرہیو، ڈاکٹر ارشد مغل سمیت دیگر ذمے داروں اور کارکنان کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

اس تقریب کے دوران خواتین کی بڑی تعداد اپنے مسائل کے حل کے لیے اسٹیج پر پہنچ گئیں اور وفاقی وزیر سمیت تمام ذمے داروں سے ہاتھ جوڑ کر ملازمتیں، انکم سپورٹ پروگرام کی رقم فراہم کرنے کی درخواست کرتی رہیں۔ تقریب کے دوران کیک کاٹا گیا اور راہ نماؤں نے اپنے خطاب میں شہید ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو کو خراج تحسین پیش کیا۔ وفاقی وزیر اور منتخب نمایندوں کی جانب سے تقریبات کے دوران کالا باغ ڈیم، سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں حلقہ بندیوں کے فیصلے پر کھل کر اظہار خیال کیا گیا۔

پیپلز پارٹی کے وزراء اور منتخب نمایندے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں عوام کے سامنے جذباتی تقاریر اور نئے منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں ایک تقریب کے دوران وفاقی وزیر نے کہا کہ نوجوانوں کو صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد علاقے میں ریکارڈ ترقیاتی کام اور ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔ تاہم کارکنان جن میں خواتین کی بڑی تعداد شامل تھی، ان کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسٹیج پر پہنچ گئے اور وفاقی وزیر سے منت سماجت شروع کردی۔

سکھر میں حکم راں جماعت سے تعلق رکھنے والے منتخب نمایندوں میں عرصے سے اختلافات چلے آرہے ہیں۔ ایک طرف سید خورشید احمد شاہ ہیں اور دوسری جانب اسلام الدین شیخ ہیں، جو مقامی سطح پر سیاست میں اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتے ہیں۔ عام الیکشن سے قبل دونوں حضرات اپنے ناراض ساتھیوں کو منانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ عام انتخابات کے لیے تیاریوں پر نظر ڈالی جائے تو سنی تحریک بھی سرگرم نظر آتی ہے، سنی تحریک کے صوبائی راہ نما نور احمد قاسمی، مولانا محبوب سہتو اپنے دیگر ساتھیوں کے ہم راہ سکھر سمیت مضافاتی علاقوں میں جلسے جلوس، پریس کانفرنس کرنے کے علاوہ کارنر میٹنگز کر رہے ہیں.

سنی تحریک کی جانب سے رمضان المبارک کے دوران مستحق افراد میں راشن تقسیم کرنے کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، ان کے اس عمل نے شہر کی مختلف یونین کونسل میں مرد اور خواتین کی بڑی تعدادکو متحرک کردیا ہے اور وہ ان کی کارنر میٹنگز میں بڑی تعداد میں شریک نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس مقامی سطح پر بااثر افراد مسلم لیگ (ن) سے کنارہ کش ہوتے نظر آرہے ہیں اور آیندہ انتخابات میں سکھر سمیت مضافاتی علاقوں میں اس کی کام یابی کی کوئی خاص امید نظر نہیں آرہی۔
Load Next Story