وال اسٹریٹ کی منطق

اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں شرعی قوانین کے نفاذ...

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

امریکا کے مشہور اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے کسی عالمانہ فکر و فلسفے کی ضرورت نہیں بلکہ معمولی سوجھ بوجھ اور حمایت درکار ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ موجودہ منظرنامے میں سیاست دانوں کا امریکا کے خلاف رویہ، مذہبی خیالات کا شدّت سے پرچار، میڈیا کا اس حوالے سے کردار چھایا رہا۔

اخبار لکھتا ہے کہ ان حالات میں پاکستان میں لبرلز کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ وال اسٹریٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ نیٹو سپلائی بحالی کے بعد امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے، جس کے لیے پاکستان کا لبرل طبقہ داد کا مستحق ہے۔ موجودہ حکومت کے بارے میں اگرچہ یہ تاثر موجود ہے کہ یہ ایک لبرل پارٹی کی حکومت ہے تاہم یہ سب دفتر میں بیٹھ کر خواہشات کے حوالوں سے بیان بازی تک محدود ہے۔

امریکا کے آزاد اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا اس حوالے سے تو بہت مشہور ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں اور اپروچ میں مکمل طور پر آزاد ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ میڈیا ہمیشہ حکومتی پالیسیوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حامی رہا ہے اور اس کی رائے عموماً حکومت کی رائے سمجھی جاتی ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل نے پاکستان اور نیٹو سپلائی کی بحالی کے حوالے سے پاکستان کے لبرل طبقے کی جن مشکلات اور مثبت رویے کا ذکر کیا ہے،

اس میں بالواسطہ طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ لبرل کو پیش آنے والی مشکلات کی وجہ پاکستان میں مذہبی خیالات کا شدّت سے پرچار ہے لیکن وال اسٹریٹ نے امریکی حکومتوں کے اس جرم کی کوئی نشان دہی نہیں کی کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کی اصل ذمے داری خود امریکی حکومتوں پر عاید ہوتی ہے، جنھوں نے پاکستان اور اس خطے میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ہمیشہ مذہبی طاقتوں کی نہ صرف سرپرستی کی بلکہ مذہبی انتہا پسندی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب روس کی قیادت میں سوشلسٹ نظام تیزی سے دنیا خاص طور پر پس ماندہ ملکوں میں مقبول ہونے لگا تو امریکا نے اس نظام کی مقبولیت کو روکنے کے لیے مسلم ملکوں خاص طور پر پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے ذریعے شدّت سے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ سوشلزم مذہب کا دشمن لادینی نظام ہے۔ اس حوالے سے اس نے ڈالروں کے منہ کھول دیے۔

اس قسم کے نظریاتی پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ اس نے کولمبو پلان کے نام پر پس ماندہ ملکوں کو بھاری اقتصادی امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ ایوب خان کے دور میں اسی کولمبو پلان کے تحت صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔ صنعتی ترقی کے لیے کسی پس ماندہ ملک کو اقتصادی امداد فراہم کرنا یقیناً ایک قابلِ تعریف کام ہے لیکن امریکا کا ہر کام ہر اقدام چونکہ اس کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کا آئینہ دار ہوتا ہے، اس لیے اس کی امداد میں اخلاص کا عنصر نہیں ہوتا۔


پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کا بھی اصل ذمے دار امریکا ہے۔ جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو یہ قبضہ بنیادی طور پر دونوں بڑی طاقتوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کا حصّہ تھا، لیکن امریکا کے بے شرم اور شاطر منصوبہ بندوں نے ضیاء الحق جیسے آمر کو اعتماد میں لے کر افغانستان سے روس کو نکالنے کی سیاسی لڑائی کو جہاد کا نام دلوا کر پاکستان میں طالبان کے نام پر وہ طبقہ ایجاد کیا جس نے امریکا کے مفادات کی لڑائی جہاد کے نام پر لڑی اور سادہ لوح مذہب پرستوں کے جذبات کو استعمال کرکے روس کو افغانستان سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی۔

افغان جہاد کی یہی باقیات آج پاکستان اور اس خطے میں وہ اندھی جنگ لڑرہی ہے جسے وہ مذہبی جنگ کا نام دے کر دہشت گردی اور خودکش حملوں کے ذریعے پاکستان میں ایسی انارکی پھیلانے میں مصروف ہے، جس کے پس منظر میں اقتدار پر قبضہ آسان ہوجائے۔ بے شک آج پاکستان میں لبرل اور ترقی پسند قوتوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، لیکن اس کی تمام تر ذمے داری امریکی حکمرانوں پر عاید ہوتی ہے۔
امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل دور اس لیے نہیں لڑرہا ہے کہ وہ اس خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ یہ جنگ اس لیے لڑرہا ہے کہ اپنے ملک سے ہزاروں میل دور ہی دہشت گردی کا سر اس طرح کچل دیا جائے کہ امریکا تک اس کی رسائی ناممکن ہوجائے۔ نواز شریف اور عمران خان ڈرون حملوں کے حوالوں سے امریکا کی مخالفت کرکے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی جو کوشش کرتے رہے ہیں،

اسے امریکی سفارت کار کے اس بیان نے عیاںکردیا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان امریکا کے مکمل طور پر حامی ہیں۔ اس بیان کی تردید تو نہیں کی جاسکی کہ یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے لیکن اس سے ان ''امریکا دشمنوں'' کی اصلیت کا اندازہ عوام کو ہورہا ہے جو امریکا دشمنی کا نقاب اوڑھ کر پاکستانی عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

امریکا کے نزدیک لبرل کا مطلب پرو امریکن پرو سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اسی حوالے سے وہ دنیا بھر میں سیاسی لبرلز اور مذہبی اعتدال پسندوں کی حمایت کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی عوامی تحریکوں کی وہ نہ صرف حمایت کرتا رہا بلکہ ان تحریکوں کی فضائی حملوں کے ذریعے مدد بھی کرتا رہا۔ ترکی میں جو اعتدال پسند مذہبی جماعتوں کی حکومت قائم ہے، اس پر امریکا کو کوئی پریشانی اس لیے نہیں ہے کہ وہ ایران کی طرح امریکا کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی نہیں ہیں نہ اس حکومت نے سرمایہ دارانہ نظام کی کوئی مخالفت کی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں قائم ہونے والی نئی حکومتوں کو بھی وہ لبرل دیکھنا چاہتا ہے۔

مصر میں اخوان المسلمین ایک زمانے میں مذہبی انتہا پسند جماعت کی حیثیت سے جانی جاتی تھی لیکن انتخابات کے بعد اس نے لبرلوں سے مل کر حکومت بنائی ہے اور اس کے اخوانی صدر ڈاکٹر مرسی نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا ہے جو شہنشاہِ ایران کے بعد اس خطے میں امریکا کا سب سے بڑا یار وفادار ہے۔ ڈاکٹر مرسی کے دورۂ سعودی عرب سے اخوانی حکومت کی خارجہ پالیسی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

سوشلسٹ بلاک سے فراغت حاصل کرنے کے بعد امریکا کی سیاسی حکمت عملی کی پہلی ترجیح ایسی قوتوں کو دبائے رکھنا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کو اپنی پہلی ترجیح سمجھتی ہیں۔ امریکا اگرچہ کہ دہشت گرد طاقتوں کو اپنے ملک سے دور رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے لیکن وہ درپردہ ان شدّت پسندوں سے اس لیے خوش ہے کہ یہ طاقتیں نہ صرف ساری دنیا میں ترقی پسندوں کی دشمن ہیں بلکہ ان کے سامنے مذہب کا جھنڈا اٹھائے کھڑی ہیں۔ امریکی حکومت اعتدال پسند طالبان سے بات چیت پر زور دے رہی ہے، اسے اس بات کی ذرّہ برابر پریشانی نہیں کہ شدّت پسند شریعت کے نفاذ کی باتیں کررہے ہیں۔

امریکا ایسی شدّت پسندی کو قطعی برا نہیں سمجھتا جو اس کی سرحدوں سے دور رہے، اسے اصل خطرہ ان طاقتوں سے ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہیں۔ آج ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی جارحیت کی مخالف قوتیں جس انتشار اور کمزور پوزیشن میں نظر آرہی ہیں، اس کی ایک وجہ پرو امریکن مذہبی طاقتوں کا ترقی پسند طاقتوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا ہے، جس کے پیچھے امریکی سرمایہ کام کررہا ہے۔
Load Next Story