مقامی سیاست احتجاج اور ہڑتال کے گرد گھومتی رہی

نواب شاہ میں قتل، اغوا برائے تاوان، ڈکیتیاں اور رہ زنی کے واقعات معمول بن چکے ہیں .


Ismail Domki December 04, 2012
یوم تاسیس کی تقریب میں پیپلز پارٹی کے ضلع بھر سے منتخب پانچ اراکین سندھ اسمبلی میں سے صرف غلام قادر چانڈیو نے شرکت کی ۔ فوٹو: فائل

پچھلے دنوں مسلم لیگ فنکشنل اور سندھ بچاؤ کمیٹی کی اپیل پر نواب شاہ میں یوم سیاہ منایا گیا۔

اس موقع پر نواب شاہ شہر میں مکمل شٹرڈاون ہڑتال کی گئی، شہر کے اہم تجارتی مراکز سمیت چھوٹے بڑے علاقے مکمل طور پر بند رہے۔ کسی ناخوش گوار واقعے سے نمٹنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری شہر کے اہم چوراہوں اور تجارتی مراکز پر تعینات تھی جب کہ رینجرز اور پولیس کے اہل کار موبائلوں میں مختلف علاقوں اور سڑکوں پر گشت کرتے رہے۔ اس کے باوجود بعض مقامات پر جلاؤ گھیراؤ اور فائرنگ کے واقعات پیش آئے۔ سکرنڈ روڈ پر نامعلوم افراد نے ٹائر نذرآتش کیے اور پرانی سبزی منڈی، ریلوے پھاٹک روڈ پر نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی ہوائی فائرنگ سے خوف و ہراس پھیل گیا۔

مسلم لیگ ن یوتھ ونگ، مسلم لیگ فنکشنل، جیے سندھ محاذ، جیے سندھ قومی محاذ، سندھ ترقی پسند پارٹی، تحریک انصاف اور این پی پی کے کارکنان نے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاجی مظاہرے سے فنکشنل لیگ کے فقیر جان ڈاہری، غلام حیدر راہو، امتیاز وگن، جیے سندھ محاذ کے ضلعی صدر زاہد سومرو، جسقم کے مسعود خاصخیلی، علی رضا خاصخیلی، سرفراز میمن، سندھ ترقی پسند پارٹی کے فرحان نورانی، خالق داد بروہی، مسلم لیگ ن یوتھ ونگ کے نصیر آرائیں، آغا عاصم، غلام مصطفیٰ جٹ، مسلم لیگ ن کے محمد حسین آزاد، اسلم کھینچی، حاجی فیض محمد آرائیں و دیگر نے خطاب کیا۔

نواب شاہ کے علاوہ دوڑ، باندھی، جام صاحب، سکرنڈ، قاضی احمد، دولت پور اور دیگر شہروں میں بھی مکمل ہڑتال رہی۔ فنکشنل لیگ سمیت قوم پرست تنظیموں کے دو ہزار سے زاید کارکنان نے سکرنڈ کے قریب قومی شاہراہ پر دھرنا دے کر ہائی وے کو بلاک کر دیا، احتجاجی دھرنے کی قیادت سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے مرکزی راہ نما سید زین شاہ اور جسقم کے سرفراز میمن نے کی۔ یہ دھرنا پانچ گھنٹے تک جاری رہا، احتجاج کے دوران ایس ایس پی خالد مصطفیٰ کورائی اور رینجرز کی گاڑیوں نے وہاں سے گزرنے کی کوشش کی، جس پر دھرنے میں شریک سیاسی کارکن مشتعل ہوگئے اور انھوں نے گاڑیوں پر پتھراؤ کر دیا، جس سے گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ تاہم افسران محفوظ رہے۔ نواب شاہ میں سندھ بچاؤ کمیٹی کی اپیل پر بھرپور احتجاج کیا گیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کے لیے مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر تنظیموں نے بھرپور تیار کر رکھی ہے۔

پیپلز پارٹی کے 45 ویں یوم تاسیس پر ضلع نواب شاہ میں پارٹی کی جانب سے ایچ ایم خواجہ آڈیٹوریم میں تقریب منعقد کی گئی، یوم تاسیس کی تقریب میں پیپلز پارٹی کے ضلع بھر سے منتخب پانچ اراکین سندھ اسمبلی میں سے صرف غلام قادر چانڈیو نے شرکت کی جب کہ دیگر چار اراکین اسمبلی سید فصیح شاہ، سردار جام تماچی انڑ، حاجی احمد علی جلبانی غیر حاضر رہے۔ تقریب میں سب سے زیادہ پیپلز یوتھ کے کارکنان اور عہدے داران نظر آئے جب کہ آڈیٹوریم میں پیپلز یوتھ کے پرچم اور بینرز بڑی تعداد میں دکھائی دیے، جس سے یہ تأثر ملتا رہا ہے کہ اس تقریب کا اہتمام پیپلز یوتھ نے کیا ہے۔

یوم تاسیس کی تقریب میں پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر اور ایم پی اے غلام قادر چانڈیو، جنرل سیکریٹری امداد دھامرہ، سابق ضلع ناظم عبدالحق جمالی، پیپلز یوتھ کے ضلعی جنرل سیکریٹری میر مسرور رند، پیپلز ہاری کمیٹی کے ضلعی صدر ذوالفقار خاصخیلی، سابق یو سی ناظمین حنیف چانڈیو، علی حیدر رضا خاصخیلی، عبدالرسول بروہی، محمد قاسم بروہی اور دیگر نے شرکت کی۔ تقریب میں صرف ضلعی صدر نے خطاب کیا اور خطاب کے بعد جیالے سال گرہ کے کیک پر ایسے ٹوٹے، جیسے فوج اپنے دشمن پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ کیک کے لیے کارکن لڑ پڑے، جس سے سخت بد نظمی کی صورت پیدا ہو گئی۔ جیالوں نے پارٹی پرچم کو بھی نہیں بخشا اور اس سے اپنے ہاتھ صاف کرتے رہے۔

گذشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے راہ نما اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے معاون خصوصی اسماعیل ڈاہری کے بھائی ابراہیم ڈاہری کو دولت پور پولیس نے شراب کے نشے میں مدہوش گرفتار کر کے لاک اپ کر دیا۔ باخبر ذرایع کے مطابق ابراہیم ڈاہری شراب کے نشے میں دولت پور تھانے پہنچے اور ایس ایچ او کو چند گرفتار ملزمان کی رہائی کے لیے کہا۔ جن ملزمان کی رہائی کے لیے کہا گیا تھا، ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔

ایس ایچ او کے انکار پر ابراہیم ڈاہری نے مبینہ طور پر پولیس افسران کو دھمکیاں دیں اور توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔ اس پر ایس ایچ او نے ایس ایس پی خالد مصطفی کورائی کو آگاہ کیا جنھوں نے ابراہیم ڈاہری کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور پھر دولت پور تھانے پہنچ کر شراب کے نشے میں دھت ابراہیم ڈاہری کی خبر لی۔ انھوں نے پولیس کو حکم دیا کہ ابراہیم ڈاہری کا طبی معائنہ اور اس کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے حوالات میں بند کر دیا جائے۔

ایس ایس پی خالد مصطفی کورائی نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ابراہیم ڈاہری کو پولیس نے گرفتار کیا ہے اور مقدمہ بھی درج کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم چاہے کتنا بھی بااثر کیوں نہ ہو، اسے قانون کی گرفت میں لایا جائے گا، جرائم کا خاتمہ اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں کسی کے ساتھ رعایت نہیں کی جائے گی۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی اسماعیل ڈاہری سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ایس ایس پی خالد مصطفی کورائی پر ذاتی رنجش رکھنے کا الزام عاید کیا اور کہا کہ ان کا بھائی بے قصور ہے، وہ نہ تو شراب کے نشے میں تھا اور نہ ہی ملزمان کو رہا کرانے گیا تھا۔ پولیس نے ذاتی رنجش کی بنیاد پر ان کے خلاف کاروائی کی ہے۔

ضلع نواب شاہ میں امن و امان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہو چکی ہے۔ قتل، اغوا برائے تاوان، ڈکیتیاں اور رہ زنی کے واقعات معمول بن چکے ہیں، جن پر قابو پانے میں ایس ایس پی نثار چنا ناکام رہے اور پھر ان کا تبادلہ عمل میں لایا گیا اور خالد مصطفی کورائی کو ان کی جگہ مقرر کیا گیا۔ انھوں نے چارج سنبھالنے کے بعد بھیس بدل کر موٹر سائیکل پر گشت کیا اور پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔

دل چسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی، جب وہ ایر پورٹ پولیس اسٹیشن پہنچے اور ڈیوٹی افسر کو بتایا کہ میرا قومی شناختی کارڈ گم ہو گیا ہے اور اس کی رپورٹ درج کرانی ہے۔ پولیس نے ایس ایس پی سے گم شدگی کی رپورٹ درج کرنے کے لیے ایک سو بیس روپے رشوت طلب کی، جس پر ایس ایس پی نے اپنا تعارف کرایا اور اس افسر کو معطل کر کے 'کوارٹر گارڈ' کر دیا۔ ایس ایس پی خالد مصطفی کورائی کو مکمل فری ہینڈ دیا گیا ہے، اور وہ جرائم کا خاتمہ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مقامی سطح پر بااثر شخصیات انھیں کب تک برداشت کریں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں