چل میرے راکٹ بسم اللہ
اس دنیا میں کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، وہ تمہارا باپ ہی کیوں نہ ہو۔
آخر کار وقت کے قاضی کو یہ فیصلہ دینا ہی پڑے گا کہ بنی اسرائیل کے تعلق سے کون صحیح تھا اور کون غلط، کیا صحیح تھا اور کیا غلط۔ مثلاً
(1)۔ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کا فتح بیت المقدس کے بعد دربدر بھٹکنے والی قوم بنی اسرائیل پر رحم کھا کر ان کو فلسطین آنے کی اجازت دینا(2)۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں چھ ملین یہودیوں کا قتل۔ (3)۔ ''ہولوکاسٹ کے شکار'' مظلوم یہودیوں کی صابرا اور شتیلا کے فلسطینی کیمپوں انسانیت سوز درندگی (جس کے دوران علمائے دین کو فتویٰ دینا پڑا کہ وہ زندہ رہنے کے لیے اپنے مردہ بھائیوں کا گوشت کھا سکتے ہیں)۔اس وقت غزہ (نوم چومسکی کے مطابق) دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئرجیل کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جہاں 1.6 ملین فلسطینی اسرائیل کی قید میں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ چار سال قبل اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو بدترین فوجی کارروائی کا نشانہ بنایا تھا۔ جس کے جواب میں فلسطین کی حکمران جماعت حماس کے عسکری ونگ نے اسرائیل کی دکھتی رگ آباد کاروں کی بستیوں پر راکٹ داغنے شروع کر دیے۔ جن کی اکثریت ''باہری'' (باہر والے) یہودیوں کی ہے۔ جو بہتر مستقبل کے لالچ اور پُر امن ماحول کی ضمانت پر اسرائیل میں آ کر آباد ہوئے تھے جو ان کا وطن نہیں تھا۔ منصوبہ بندی کے ساتھ مسلسل راکٹ باری نے باہری یہودیوں کو بدحواس اور اسرائیلی حکومت کو پاگل کر دیا، وہ اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرنے لگے کہ راکٹ باری روکو ورنہ۔۔۔۔۔؟چنانچہ اسرائیل نے نومبر 2012 کو غزہ کی پٹی پر حملہ کر دیا اور بحری جہازوں سے میزائل، ہوائی جہازوں سے بم اور دور مار توپوں کے گولے برسانے لگا۔ مقصد حماس کو اتنا خوفزدہ کرنا تھا کہ وہ آیندہ راکٹ چلانے سے پہلے دس مرتبہ سوچے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے دعویٰ کیا، مسلح گروہوں کو نہتا کرنے تک گولہ باری بند نہیں ہو گی، اسرائیلی وزیر داخلہ فلسطین کو (بمباری کے ذریعے) پتھر کے زمانے میں پہنچانا چاہتے تھے تا کہ اسرائیل آیندہ 40 سال تک ''محفوظ'' ہو جائے، لیکن عملی طور پر یہ ہوا کہ جیسے جیسے اسرائیلی حملوں میں تیزی آتی گئی ویسے ویسے حماس نے بھی تابڑ توڑ راکٹ لانچنگ شروع کر دی، اور ہفتہ دس دن بعد جنگ بندی ہو گئی۔ باہری یہودی حلق پھاڑ کر چلّاتے رہے، کیا فلسطینیوں کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا؟ غیر مسلح کر دیا؟ اگر کچھ کرنا نہیں تھا تو دعوے کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ماضی میں جنوبی افریقہ میں گوروں کے خلاف ''ماؤ ماؤ'' تحریک چلی تھی۔ جب ماؤماؤ گوریلے کسی بستی یا گاؤں پر حملہ کرتے تو مسلسل دانتوں تلے دبی ہوئی سیٹیاں بجاتے رہتے تھے جونہی کارروائی ختم ہوتی، سیٹیاں بھی خاموش ہو جاتیں۔
رفتہ رفتہ سیٹیاں دہشت کی علامت بن گئیں، جس کی آواز سنتے ہی جوابی کارروائی کرنے والوں کے دماغ سُن، حواس معطل اور ہاتھ شل ہو جاتے تھے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جونہی ''ایک عدد'' راکٹ اسرائیلی بستیوں پر گرتا، خبردار کرنے کے لیے ''لاتعداد'' بھونپوں (سائرن) اپنی بھیانک آوازوں میں ہچکیاں لے لے کر ''بھونپنے'' لگتے اور یہودیوں کی ویسی ہی حالت ہو جاتی جیسی بلّی کی آواز سن کر ڈربے میں کبوتروں کی ہو جاتی ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ ڈربہ توڑ کر پُھر سے اُڑ جائیں، پھڑ پھڑا کر رہ جاتے ہیں، سارے سیناریو میں ایک دھماکہ خیز خبر اور ہے جو پردے کے آگے ہے نہ پردے کے پیچھے بلکہ چلمن کی آڑ میں ہے۔ یعنی اسرائیل غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔
اگر یہ خبر سچ نکلی تو اس کا یہاں مطلب یہ نکلتا ہے کہ اسرائیل ناقابلِ شکست نہیں ہے بلکہ راکٹ لانچرز کی رینج میں ہے۔اس وقت اصل مسئلہ یہ ہے کہ ''اوسلو'' معاہدے کے تحت فلسطین میں ہر حال میں دو آزاد خود مختار ریاستیں قائم ہونا ہیں، اسرائیل اور فلسطین۔ اس میں اسرائیل کو اپنی موت نظر آ رہی ہے، وہ اقوام متحدہ کی ممبر شپ کا امیدوار ہے، اس کے بعد فلسطین اسرائیل کی حراست سے نکل جائے گا اور اقوام عالم کے درمیان نظر آئے گا۔ اسرائیل کو ہر حال میں اس میں رکاوٹ ڈالنی ہے کیونکہ:(1)۔ اسرائیل قلت آبادی کا شکار ہے اور فلسطین کثرت آبادی کا شاہکار۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ آبادی کی بنیاد پر اسرائیل سے آگے نکل جائے گا۔
(2)۔ پورا عالم اسلام اس کے ساتھ ہو گا کیونکہ فلسطین58 ویں مسلم ریاست ہو گی، ترکی اور مصر اس وقت بھی اس کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔اوباما اسرائیل کے دفاع میں فرماتے ہیں آخر وہ کون سا ملک ہے جو اپنے ملک پر راکٹ باری برداشت کر سکتا ہے؟ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایسا ملک ہے اور وہ آپ کا اتحادی، نان نیٹو اسٹیٹس رکھنے والا ہے۔ اس کا نام پاکستان ہے جو خود پر ڈرون حملے برداشت کر رہا ہے جو صرف میزائل برساتے ہیں۔اگر انسان نہیں، انسانوں میں رہنا چاہتے ہیں تو پھر انسانوں کی طرح رہتے کیوں نہیں؟ سوال یہ ہے کہ آخر بنی اسرائیل میں کیا کمی ہے، عقلمند ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، دولت مند ہیں، لیکن ایک بہت بڑی کمی ہے غور کیجیے۔ایک یہودی باپ اپنے بچے سے کھیل رہا تھا، بچہ منبر پر کھڑا تھا، جب باپ بانہیں پھیلاتا بچہ میز سے چھلانگ لگاتا اور باپ اسے کیچ کر لیتا۔ باپ بیٹا قہقہہ لگاتے، ایک مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ دوسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا، لیکن تیسری مرتبہ باپ نے بچے کو کیچ نہیں کیا، ہاتھ عین موقعے پر پیچھے ہٹا لیے، بچہ منہ کے بل فرش پر گرا اور لہولہان۔ ایک شخص یہ تماشہ دیکھ رہا تھا، آگے بڑھ کر باپ سے پوچھا: ''کیا آیندہ کوئی بیٹا اپنے باپ پر بھروسہ کرے گا؟'' یہودی نے جواب دیا: ''یہی تو سبق دے رہا ہوں، اپنے بیٹے کو، اس دنیا میں کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، وہ تمہارا باپ ہی کیوں نہ ہو۔''