فکشن سے حقیقت تک

ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں تو بھی قریب ترین ستارے تک پہنچنے میں ہمارے خلائی جہاز کو سوا چار سال لگ جائیں گے

drtayyabsinghanyi100@gmail.com

جہاں سائنس و ٹیکنالوجی میں روز بروز نت نئے تجربات کی بدولت نئی نئی تحقیقات اور دریافتیں و سہولیات زندگی سامنے آ رہی ہیں، خلائی تحقیق کے شعبے میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے اور معلوم ہوتا ہے رواں دواں اکیسویں صدی کے آیندہ پچیس برس میں خلائی سفر اس طرح عام ہو جائے گا جس طرح ہوائی جہاز کا سفر۔ اس وقت خلاء میں کئی تجربہ گاہیں کام کر رہی ہیں جن میں سائنس دان، خلاء باز اور روبوٹ تجربات میں مصروف ہیں۔ ان سائنس دانوں اور خلاء بازوں کے لیے ان کی خلائی تجربہ گاہوں میں ضرورت کی تمام چیزیں خوراک اور دوائیں وغیرہ موجود ہیں۔ پھر بھی جن چیزوں کی کمی ہوجاتی ہے اسے پورا کرنے کے لیے زمین سے اکثر خلائی جہاز بھیجے جاتے ہیں جو نہ صرف خوراک اور دوسری ضروری اشیاء ان تجربہ گاہوں کے لیے لے جاتے ہیں بلکہ ان میں سائنس دانوں اور خلاء بازوں کی دوسری جماعت بھی بھیجی جاتی ہے تا کہ پہلے بھیجے جانے والے سائنس دان زمین پر آ سکیں اور یہ ان کی جگہ لے سکیں۔

اس وقت مختلف ترقی یافتہ ممالک کے سائنسدان خلاء میں تجربہ گاہوں کے علاوہ خلائی فیکٹریوں یا ہوٹلوں اور کئی کئی میل لمبی خلائی کالونیوں کے قیام کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، چنانچہ مستقبل قریب میں اگر آپ مستقل طور پر ٹھہرنے کے قابل نہ ہوئے تو اپنی چھٹیاں خلاء میں گزارنے کے قابل ضرور ہو جائیں گے۔ امید ہے کہ اس صدی کے آخر تک خلاء میں گردش کرنیوالے شہابیوں سے نکل اور لوہے جیسی قیمتی دھاتوں کی کان کنی کے لیے خلاء میں صنعتیں قائم ہو جائیں گی اور 2025کے اندر خلاء میں کئی آزاد شہر اور کالونیاں قائم ہو چکی ہوں گی۔بظاہر یہ سب باتیں کہانیوں اور سائنس فکشن کی طرح معلوم ہوتی ہیں، لیکن خلائی فتوحات کی ہر کہانی بے حد دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔

سیکڑوں برس پہلے کہانی نویسوں نے چاند اور دوسرے سیّاروں تک سفر کے بارے میں جو کہانیاں لکھیں وہ آج حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں اور جو باتیں آج افسانہ معلوم ہوتی ہیں وہ بھی جلد حقیقت بن جائیں گی۔خلائی سفر کی سب سے پہلی داستان ایک یونانی لیوسین نے لکھی تھی۔ اس کہانی کے بنیادی کردار نے گدھ اور عقاب کے پروں کی مدد سے چاند کا سفر کیا تھا۔ اگرچہ یہ کہانی تفریحاً لکھی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی خلاء میں سفر کا تصور سامنے آیا۔خلاء زیادہ تر سرد، تاریک اور بالکل ویران و سنسان ہے۔

اگر ہم روشنی کی رفتار (ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ) سے سفر کریں تو بھی قریب ترین ستارے تک پہنچنے میں تقریباً ہمارے خلائی جہاز کو سوا چار سال لگ جائیں گے اور یقینا ہمارا خلائی جہاز روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کر سکتا۔ خلاء میں سفر کرنے، آسمان کی وسعتوں کو ناپنے کی خواہش تو انسان کے دل میں ازل سے تھی لیکن 1608 میں جب گلیلیو نے دوربین بنائی اور خلائی مشاہدہ کرنے کے بعد اس نے کتاب میں چاند کی کہانی لکھی اور کہانی میں چاند کو ناہموار کھردارا وغیرہ بتایا تو گلیلیو کی کتاب اور کہانی نے کہانیاں لکھنے والوں کو نیا موضع فراہم کر دیا۔1687 میں نیوٹن کی کتاب ''دی پرنسپیا'' شایع ہوئی جس میں گلیلیو، کوپرنیکس اور کیلپر کی خلائی تحقیقات کا موازنہ کیا گیا تھا۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں یہ ممکن ہو گیا تھا کہ خلاء میں سیاروں کی گردش اور سفر کے متعلق پیش گوئیاں کی جا سکیں۔

دوربین کی ایجاد اور نیوٹن کی تحقیقات کے درمیان تقریباً 80 برس کا عرصہ حائل ہے لیکن اس عرصے میں کہانیاں لکھی جاتی رہیں۔ چنانچہ ایک انگریز کہانی نویس جان وکنز نے خلاء میں بے وزنی کی کیفیت کا صحیح تصور اپنی کتاب ''دی ڈسکوری آف اے سیو ورلڈ آن دا مون'' میں پیش کیا۔ یہ کتاب 1638میں شایع ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ کتاب خلائی سفر کے عملی طریقوں کی دریافت سے کئی صدی پہلے لکھی گئی تھی۔ 1827 میں ایک امریکی جوزف ایٹرلے نے اپنے ناول ''اے وائج ٹودی مون'' میں لکھا کہ خلاء ایک ایسی ٹھنڈی جگہ ہے جہاں حفاظتی اقدامات کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔1835 میں ایڈ گرایلن پو نے اپنی کہانی میں ایک غبارے کا تصور پیش کیا جو ایک آدمی کو چاند تک لے گیا۔ اسی سال رچرڈ لاک نے اپنی کہانی لکھی جس میں بتایا گیا کہ ایک بھٹکا ہوا غبارہ ایک انسان کو لے کر چاند پر جا پہنچا اور اس نے چاند پر عجیب و غریب مخلوق دیکھی۔

انیسویں صدی میں لوگ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں پوری طرح یقین رکھتے تھے اور اس زمانے میں خلائی سفر کی داستانیں عوام میں بہت مقبول ہوئیں۔ 1865 میں ایک فرانسیسی ناول نگار جولیس ور نے اپنا مشہور ناول ''فرام دی ارتھ ٹو دی مون'' لکھا۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک سائنس دان تھا اور کہانی کی بنیاد سائنسی حقائق پر رکھی گئی تھی۔1901 میں ایک انگریز ناول نگار ایج جی ویلز نے اپنا پہلا سائنسی ناول ''فرسٹ مین آن دی مون'' لکھا۔ 1903 میں ایک روسی اسکول ٹیچر نے ایک کتاب ''ایکسپلوریشن آف اسپیس'' لکھی جس میں خلاء میں جانے والے راکٹوں کے ایندھن کے طرو پر ہائیڈروجن اور آکسیجن کے استعمال کا تصور پیش کیا گیا تھا۔


اب جدید دور میں یہی گیسیں بطور ایندھن بہت سے راکٹوں میں استعمال کی جاتی ہیں۔1938 میں امریکا میں ایک عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا۔ رات کو بہت سارے لوگ ریڈیو سے موسیقی اور دوسرے تفریحی پروگرام سن رہے تھے کہ اچانک ریڈیو کے اناؤنسر نے نشریات روک کر اعلان کیا کہ مریخی مخلوق نے زمین پر حملہ کر دیا ہے، درحقیقت یہ اعلان ایچ جی ویلز کے مشہور ناول ''دی وار آف دی ورلڈز'' کے ریڈیو پروگرام کا حصہ تھا۔1909 میں کیرٹ پی سروس نے ایک ناول لکھا جس میں خلائی جہاز جوہری توانائی کے استعمال پر غور کر رہے ہیں کہ نظام شمسی کے آخری سرے تک پہنچنے کی کوشش میں ایندھن کی کمی کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔ لوگ ہمیشہ ہی سے مریخ پر جانداروں کی آبادی کا تصور رکھتے ہیں۔ 1836میں جیو وانی شیاپاریلی نے مریخ پر نہریں دریافت کیں۔ چنانچہ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے مریخ پر دوربینوں کی مدد سے بہت مریخی عفریتوں کو دیکھا ہے۔ لوگ ہمیشہ سے اس تجسس میں مبتلا رہے ہیں کہ زمین کے علاوہ کرۂ ارض پر کہاں زندگی پائی جاتی ہے۔

عوام کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے خلائی مخلوقات کی فرضی تصویریں اور خیالی خاکے شایع کیے جاتے رہے۔ مصور فرینک پال سائنس فنکشن تصویروں کا پہلا بڑا خالق تھا۔1956 میں پہلی سینما اسکوپ فلم ''فارن بیڈن پلینٹ'' پیش کی گئی۔ اس فلم میں روبی دی روبوٹ کا کردار پہلی مرتبہ متعارف کرایا گیا، روبوٹ کا یہ کردار بعد میں متعدد فلموں اور ٹیلی ویژن پر بھی پیش کیا گیا۔ اس سال ایک اور فلم بنی جس میں دکھایا گیا کہ خلاء سے کسی خلائی جہاز کے ذریعے ایسے بیج زمین پر گرے جس سے انسانوں سے مشابہ نقلی انسانوں کی پیداوار ہوئی۔ 1950 سے 1960 تک جو فلمیں بنیں ان میں متعدد فلموں کا موضوع خلائی سفر اور خلائی حملہ آور تھے۔ہمارے نظام شمسی اور اس سے باہر کہکشاؤں میں زندگی کے امکانات صرف سائنسی فنکشن کا موضوع ہی نہیں ہیں۔

درحقیقت آج بھی بہت سے سائنسدان اس پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکا اور دوسرے بڑے ترقی یافتہ ملکوں دوردراز کہکشاؤں سے آنے والے پیغامات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش بھی جاری ہے۔خلائی دور کا آغاز 1957 میں ہوا جب پہلا مواصلاتی سیارہ اسپتنک مدار میں بھیجا گیا۔ اپریل 1960 میں امریکا نے پہلا موسمی سیارہ ٹیروس اول مدار میں بھیجا جس نے تقریباً تین ہزار تصویریں زمین پر بھیجیں ۔ 20؍ اگست 1960کو امریکا نے زمین کی تصویریں کھینچنے اور نقشہ کشی کے لیے ڈسکوری اول مدار میں بھیجا۔ 1970 میں امریکا اور روس نے ایسے حملہ آور مواصلاتی سیارے بنا لیے جو دوسری قوموں کے جاسوس سیاروں کو تباہ کر سکتے تھے۔

دنیا کا پہلا تجارتی مواصلاتی سیارہ ٹیلی اسٹار 1962 میں مدار پر آیا۔ اب خلائی سائنس اتنی ترقی کر گئی ہے کہ خلاء میں مستقل قیام کے منصوبے زیر غور ہیں۔ پہلی امریکی خلائی تجربہ گاہ ''اسکائی لیب'' اور روسی تجربہ گاہ ''سیلیوٹ'' 1973 میں مدار میں گئیں۔ ان تجربہ گاہوں میں سائنس دان ایک مختصر مدت تک ٹھہر سکتے تھے۔ اب تو خلاء میں مستقل قیام کے لیے کالونیاں بنانے کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔

خلائی سفر میں اہم ترین پیش رفت ''خلائی شٹل'' کی ایجاد ہے۔ خلائی شٹل کو مشہور ٹیلی ویژن سیریز ''اسٹار ٹریک2 کے خلائی جہاز ''انٹرپرائز'' کا نام دیا گیا ہے۔

خلائی سفر کے سلسلے میں وائجر اول اور وائجر دوم انسان کی ترقی کا بے مثال کارنامہ کہے جا سکتے ہیں۔ جو کہ نظام شمسی کے سیاروں کے مطالعہ خاص کے لیے روانہ کیے گئے ان بے مثال خلائی جہازوں نے سیاروں کے متعلق بے انتہا قیمتی معلومات فراہم کیں۔ وائجر اول اور دوم اب کبھی لوٹ کر زمین پر واپس نہیں آئیں گے کیونکہ ان کی سائنسی دریافتیں، ان کی غیر معمولی معلومات اور رودادِ سفر ضرور ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ اب انسان کے دونوں عظیم شاہکار ستاروں کی جانب سفر کر رہے ہیں۔ دونوں کے اندر ایک سنہری رنگ کا تانبے کا گراموفون اور ریکارڈ پلیئر ہے اور ریکارڈ کے ایلومینیم ٹائٹل پر اس کے استعمال کا طریقہ درج ہے۔ ہم نے اپنے جین، دماغ اور اپنے کتب خانوں کے بارے میں کچھ معلومات اب خلائی مخلوقات کو بھیجی ہیں جو شاید کبھی بحر خلاء کا سفر اختیار کریں اور ہماری جستجو کریں۔
Load Next Story