جاسوس
اگست 2016ء کے دوسرے ہفتے ایران نے اپنے ایک سینئر ایٹمی سائنسدان، شہرام امیری، کو پھانسی پر لٹکا دیا
اگست 2016ء کے دوسرے ہفتے ایران نے اپنے ایک سینئر ایٹمی سائنسدان، شہرام امیری، کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ اعلیٰ ایرانی عدالت کے ترجمان، غلام حسین محسنی ایجائی، نے پریس کانفرنس میں بتایا: ''شہرام امیری ایران کے خلاف امریکا کے لیے جاسوسی کر رہا تھا، اس نے امریکا کو ایران کے اہم ترین راز فراہم کیے، پکڑا گیا، مقدمہ چلا، جرم ثابت ہو گیا اور یوں کرمان شاہ میں پیدا ہونے والا یہ ایرانی سائنسدان اپنے انجام کو پہنچ گیا۔'' ایران نے تو جرأت کر کے جاسوس کو سزا دے ڈالی ہے لیکن پاکستانی حکام وطنِ عزیز کے خلاف جاسوسی کرنے والوں کو ابھی تک کوئی عبرت انگیز سزا نہیں دے سکے ہیں۔ یہاں امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس، جو دو پاکستانیوں کا قاتل بھی تھا، پکڑا گیا مگر ''خون بہا'' کی ادائیگی کے نام سے چھوڑ دیا گیا۔
بلوچستان سے ''را'' کا جاسوس اور بھارتی سیکیورٹی فورسز کا سینئر افسر، کلبھوشن یادیو، رنگے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے لیکن ابھی تک اسے کوئی سزا نہیں دی گئی ہے، حالانکہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے جرائم کا اعتراف بھی کر چکا ہے۔ ''افغان خفیہ ادارے، این ڈی ایس اور افغان نیشنل آرمی، کے تین جرنیل پاکستان میں دہشتگردی اور جاسوسیاں کروا رہے ہیں۔'' سرفراز بگٹی صاحب نے ان تین افغان جرنیلوں کے نام یہ بتائے: جنرل نعیم بلوچ، جنرل مومن، جنرل مالک۔ جنرل مالک اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ دکھ اور تاسف سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے ہر قدم پر افغانستان، افغان حکمرانوں اور افغان عوام کی اعانت کی ہے لیکن بدلے میں ان کی طرف سے پاکستان کو کیا مل رہا ہے؟
چند دن پہلے ٹیکسلا سے بھی افغان انٹیلی جنس ایجنسی، این ڈی ایس، کے دو سینئر اہلکار گرفتار کیے گئے۔ یہ دونوں افغان جاسوس ٹیکسلا شہر میں بظاہر سبزی فروش تھے لیکن بباطن پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں لگے تھے کہ دھر لیے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں افراد افغان آرمی کے حاضر سروس افسر ہیں۔ ٹیکسلا سے ان مبینہ جاسوسوں کی حراست کاری پاکستان کے حساس اداروں اور وطنِ عزیز کی سلامتی کے محافظوں کے لیے دشمن کی طرف سے وارننگ بھی ہے اور یہ صورتحال پاکستان بھر کے لیے الارمنگ بھی۔ کہنے کو تو ٹیکسلا، واہ کینٹ اور حسن ابدال الگ الگ شہر ہیں لیکن آبادی کے اضافے کی وجہ سے فی الواقعہ یہ تینوں شہر ایک دوسرے میں گھُس چکے ہیں۔ تینوں شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں آباد قانونی اور غیر قانونی افغان مہاجرین دیکھے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے مقامی پوٹھوہاری لہجہ بھی اپنا لیا ہے، اس لیے ان کی پہچان مشکل بن گئی ہے۔
افغان مہاجرین کے مشکوک کردار ہی کی وجہ سے دس اگست 2016ء کو سابق وزیراعظم جناب ظفر اللہ جمالی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ انھیں واپس اپنے ملک جانا چاہیے۔ ٹیکسلا، واہ کینٹ اور حسن ابدال کئی اعتبار سے حساس ترین شہر ہیں۔ یہاں ''پی او ایف'' کے نام سے پاکستان کی سب سے بڑی اور اکلوتی اسلحہ ساز فیکٹری بروئے کار ہے، یہیں ''ایچ ایف ایف'' کے نام سے پاکستان کا سب سے بڑا ٹینک ساز کارخانہ کام کر رہا ہے اور انھی شہروں میں ''اے ڈبلیو سی'' کے زیرِ عنوان ایک تیسرا اہم ترین ادارہ ہے۔ امید یہی ہے کہ ہمارے خفیہ ادارے پوری تندہی سے ان تینوں شہروں پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہوں گے لیکن اس کے باوجود ملک دشمن جاسوسوں کو بھیس بدل کر اپنا کام دکھانے کا موقع مل جاتا ہے۔
مثلاً: کچھ عرصہ قبل واہ کینٹ کے اندر ایک ہی دن میں دو خود کش دھماکے ہوئے جنہوں نے چشم زدن میں سات درجن کے قریب پی او ایف کے ملازمین کی جان لے لی تھی۔ اور سو کے قریب جو شدید مجروح ہوئے تھے، ان کے زخم ابھی تک ہرے ہیں۔ دشمنانِ پاکستان کے جاسوس اداروں کا مرکزِ نگاہ بنے یہ تینوں مذکورہ شہر وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے انتخابی حلقے میں آتے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو ان شہروں کے حوالے سے چوہدری صاحب کی ذمے داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔
یہ محض تہمت اور الزام نہیں بلکہ واقعہ ہے کہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں (Raw & NDS) ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پاکستان میں ہر جگہ اپنے جال بچھا چکی ہیں۔ (ان کے ساتھ بعض معروف مغربی ممالک بھی مبینہ طور پر تعاون کر رہے ہیں) اپنے جاسوسوں کے ذریعے مل کر پاکستان میں غارتگری، خونریزی، اغوا کاری اور خود کش دھماکوں کی وارداتیں کرنے کا مظاہرہ حال ہی میں اسلام آباد نے اس وقت دیکھا جب گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت میں ''سارک'' ممالک کے وزرائے داخلہ اور سیکریٹری داخلہ کی کانفرنس ہوئی۔ افغانستان اور بنگلہ دیش کے وزرائے داخلہ تو سرے سے اس کانفرنس میں شریک ہی نہ ہوئے۔ بھارتی وزیر داخلہ، راجناتھ سنگھ، آئے تو سہی لیکن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شرارت کر کے چلے گئے۔
مقصد یہ تھا کہ افغانستان، بنگلہ دیش اور بھارت مل کر پاکستان کو نیچا دکھا سکیں، حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اس لیے بھی پوری طرح شریک نہ ہوئے کیونکہ انھیں ڈر اور خدشہ تھا کہ پاکستان پوری تیاری کے ساتھ سب کے سامنے ان تینوں کی پاکستان دشمنی کے پول کھولنے والا ہے۔ دیکھا جائے تو مہلک جاسوسی کے ذریعے پاکستان میں شیطنت کا خونی کھیل کھیلنے والی غیر ملکی ایجنسیوں میں بھارتی ''را'' مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ سارا پاکستان اس کی زد میں ہے۔ مگر بلوچستان اور کے پی کے کو خصوصی ہدف بنایا گیا ہے۔ بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے ''را'' اور ''این ڈی ایس'' نے پنجاب کے ان علاقوں میں اپنے مرکز بنا رکھے ہیں جہاں سندھ اور بلوچستان کی سرحدیں باہم ملتی ہیں۔
معتبر ذرایع کا کہنا ہے کہ یہاں لائے جانے والے دشمنانِ پاکستان جاسوسوں کی ٹریننگ چار افغان صوبوں (بدخشاں، ہلمند، قندھار، خوست) میں کی جاتی ہے۔ ان کی تربیت بظاہر افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک میجر جنرل (NB) کر رہے ہیں لیکن نگرانی ''را'' کے افسران کرتے ہیں۔ آلات اور پیسہ بھی بھارت فراہم کر رہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے خلاف تربیت پانے والے ان جاسوسوں اور دہشتگردوں کو آٹھ ماہ اور چھ ماہ کے لیے گوریلا ٹریننگ بھی دی جاتی ہے، اسلحہ سازی کا ''فن'' بھی سکھایا جاتا ہے اور ان کی ''ذہنی صفائی'' بھی کی جاتی ہے۔ اس امکان کو بھی سرے سے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سیکڑوں بچوں کے اغوا کی جو وارداتیں ہوئی ہیں، ان کے عقب میں بھی ''این ڈی ایس'' اور ''را'' کا ہاتھ ہو۔
شواہد بتا رہے ہیں کہ جاسوسوں کے ذریعے پاکستان میں بدامنی اور دہشت پھیلانے کے لیے کابل اور نئی دہلی ایک ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکی ادارے بھی ان کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ ''برادر'' مسلمان اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناتے خصوصاً افغانستان کے ان پاکستان مخالف اقدامات پر گہرے رنج ہی کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ عشرے کے دوران افغان انٹیلی جنس ادارے، این ڈی ایس، کے چھ سربراہ آ چکے ہیں: محمد عارف سروائی، امر اللہ صالح، ابراہیم سپانزادہ، رحمت اللہ نبی اور اسد اللہ خالد۔ رحمت اللہ نبی کو دوبارہ ''این ڈی ایس'' کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ ان سربراہوں میں اکثریت برسوں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان میں رہے ہیں۔ برسوں تک پاکستان کا کھایا پیا اور یہاں کے امن سے لطف اٹھایا ہے۔ اب یہی پاکستان کے امن کے درپے ہیں۔ کیا اسے احسان فراموشی اور نمک حرامی نہیں کہا جائے گا؟
بلوچستان سے ''را'' کا جاسوس اور بھارتی سیکیورٹی فورسز کا سینئر افسر، کلبھوشن یادیو، رنگے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے لیکن ابھی تک اسے کوئی سزا نہیں دی گئی ہے، حالانکہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے جرائم کا اعتراف بھی کر چکا ہے۔ ''افغان خفیہ ادارے، این ڈی ایس اور افغان نیشنل آرمی، کے تین جرنیل پاکستان میں دہشتگردی اور جاسوسیاں کروا رہے ہیں۔'' سرفراز بگٹی صاحب نے ان تین افغان جرنیلوں کے نام یہ بتائے: جنرل نعیم بلوچ، جنرل مومن، جنرل مالک۔ جنرل مالک اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ دکھ اور تاسف سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے ہر قدم پر افغانستان، افغان حکمرانوں اور افغان عوام کی اعانت کی ہے لیکن بدلے میں ان کی طرف سے پاکستان کو کیا مل رہا ہے؟
چند دن پہلے ٹیکسلا سے بھی افغان انٹیلی جنس ایجنسی، این ڈی ایس، کے دو سینئر اہلکار گرفتار کیے گئے۔ یہ دونوں افغان جاسوس ٹیکسلا شہر میں بظاہر سبزی فروش تھے لیکن بباطن پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں لگے تھے کہ دھر لیے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں افراد افغان آرمی کے حاضر سروس افسر ہیں۔ ٹیکسلا سے ان مبینہ جاسوسوں کی حراست کاری پاکستان کے حساس اداروں اور وطنِ عزیز کی سلامتی کے محافظوں کے لیے دشمن کی طرف سے وارننگ بھی ہے اور یہ صورتحال پاکستان بھر کے لیے الارمنگ بھی۔ کہنے کو تو ٹیکسلا، واہ کینٹ اور حسن ابدال الگ الگ شہر ہیں لیکن آبادی کے اضافے کی وجہ سے فی الواقعہ یہ تینوں شہر ایک دوسرے میں گھُس چکے ہیں۔ تینوں شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں آباد قانونی اور غیر قانونی افغان مہاجرین دیکھے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے مقامی پوٹھوہاری لہجہ بھی اپنا لیا ہے، اس لیے ان کی پہچان مشکل بن گئی ہے۔
افغان مہاجرین کے مشکوک کردار ہی کی وجہ سے دس اگست 2016ء کو سابق وزیراعظم جناب ظفر اللہ جمالی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ انھیں واپس اپنے ملک جانا چاہیے۔ ٹیکسلا، واہ کینٹ اور حسن ابدال کئی اعتبار سے حساس ترین شہر ہیں۔ یہاں ''پی او ایف'' کے نام سے پاکستان کی سب سے بڑی اور اکلوتی اسلحہ ساز فیکٹری بروئے کار ہے، یہیں ''ایچ ایف ایف'' کے نام سے پاکستان کا سب سے بڑا ٹینک ساز کارخانہ کام کر رہا ہے اور انھی شہروں میں ''اے ڈبلیو سی'' کے زیرِ عنوان ایک تیسرا اہم ترین ادارہ ہے۔ امید یہی ہے کہ ہمارے خفیہ ادارے پوری تندہی سے ان تینوں شہروں پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہوں گے لیکن اس کے باوجود ملک دشمن جاسوسوں کو بھیس بدل کر اپنا کام دکھانے کا موقع مل جاتا ہے۔
مثلاً: کچھ عرصہ قبل واہ کینٹ کے اندر ایک ہی دن میں دو خود کش دھماکے ہوئے جنہوں نے چشم زدن میں سات درجن کے قریب پی او ایف کے ملازمین کی جان لے لی تھی۔ اور سو کے قریب جو شدید مجروح ہوئے تھے، ان کے زخم ابھی تک ہرے ہیں۔ دشمنانِ پاکستان کے جاسوس اداروں کا مرکزِ نگاہ بنے یہ تینوں مذکورہ شہر وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے انتخابی حلقے میں آتے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو ان شہروں کے حوالے سے چوہدری صاحب کی ذمے داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔
یہ محض تہمت اور الزام نہیں بلکہ واقعہ ہے کہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں (Raw & NDS) ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پاکستان میں ہر جگہ اپنے جال بچھا چکی ہیں۔ (ان کے ساتھ بعض معروف مغربی ممالک بھی مبینہ طور پر تعاون کر رہے ہیں) اپنے جاسوسوں کے ذریعے مل کر پاکستان میں غارتگری، خونریزی، اغوا کاری اور خود کش دھماکوں کی وارداتیں کرنے کا مظاہرہ حال ہی میں اسلام آباد نے اس وقت دیکھا جب گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت میں ''سارک'' ممالک کے وزرائے داخلہ اور سیکریٹری داخلہ کی کانفرنس ہوئی۔ افغانستان اور بنگلہ دیش کے وزرائے داخلہ تو سرے سے اس کانفرنس میں شریک ہی نہ ہوئے۔ بھارتی وزیر داخلہ، راجناتھ سنگھ، آئے تو سہی لیکن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شرارت کر کے چلے گئے۔
مقصد یہ تھا کہ افغانستان، بنگلہ دیش اور بھارت مل کر پاکستان کو نیچا دکھا سکیں، حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اس لیے بھی پوری طرح شریک نہ ہوئے کیونکہ انھیں ڈر اور خدشہ تھا کہ پاکستان پوری تیاری کے ساتھ سب کے سامنے ان تینوں کی پاکستان دشمنی کے پول کھولنے والا ہے۔ دیکھا جائے تو مہلک جاسوسی کے ذریعے پاکستان میں شیطنت کا خونی کھیل کھیلنے والی غیر ملکی ایجنسیوں میں بھارتی ''را'' مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ سارا پاکستان اس کی زد میں ہے۔ مگر بلوچستان اور کے پی کے کو خصوصی ہدف بنایا گیا ہے۔ بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے ''را'' اور ''این ڈی ایس'' نے پنجاب کے ان علاقوں میں اپنے مرکز بنا رکھے ہیں جہاں سندھ اور بلوچستان کی سرحدیں باہم ملتی ہیں۔
معتبر ذرایع کا کہنا ہے کہ یہاں لائے جانے والے دشمنانِ پاکستان جاسوسوں کی ٹریننگ چار افغان صوبوں (بدخشاں، ہلمند، قندھار، خوست) میں کی جاتی ہے۔ ان کی تربیت بظاہر افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک میجر جنرل (NB) کر رہے ہیں لیکن نگرانی ''را'' کے افسران کرتے ہیں۔ آلات اور پیسہ بھی بھارت فراہم کر رہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے خلاف تربیت پانے والے ان جاسوسوں اور دہشتگردوں کو آٹھ ماہ اور چھ ماہ کے لیے گوریلا ٹریننگ بھی دی جاتی ہے، اسلحہ سازی کا ''فن'' بھی سکھایا جاتا ہے اور ان کی ''ذہنی صفائی'' بھی کی جاتی ہے۔ اس امکان کو بھی سرے سے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سیکڑوں بچوں کے اغوا کی جو وارداتیں ہوئی ہیں، ان کے عقب میں بھی ''این ڈی ایس'' اور ''را'' کا ہاتھ ہو۔
شواہد بتا رہے ہیں کہ جاسوسوں کے ذریعے پاکستان میں بدامنی اور دہشت پھیلانے کے لیے کابل اور نئی دہلی ایک ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکی ادارے بھی ان کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ ''برادر'' مسلمان اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناتے خصوصاً افغانستان کے ان پاکستان مخالف اقدامات پر گہرے رنج ہی کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ عشرے کے دوران افغان انٹیلی جنس ادارے، این ڈی ایس، کے چھ سربراہ آ چکے ہیں: محمد عارف سروائی، امر اللہ صالح، ابراہیم سپانزادہ، رحمت اللہ نبی اور اسد اللہ خالد۔ رحمت اللہ نبی کو دوبارہ ''این ڈی ایس'' کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ ان سربراہوں میں اکثریت برسوں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان میں رہے ہیں۔ برسوں تک پاکستان کا کھایا پیا اور یہاں کے امن سے لطف اٹھایا ہے۔ اب یہی پاکستان کے امن کے درپے ہیں۔ کیا اسے احسان فراموشی اور نمک حرامی نہیں کہا جائے گا؟