ترکی کی خارجہ پالیسی ایک سبق
ترکی کے صدر نے امریکا پر یہ الزام لگایا کہ ترک جمہوریت کے خلاف بغاوت نیٹو ہوائی اڈے سے شروع ہوئی
پاکستان اور ترکی کی خارجہ پالیسی میں بڑی یکسانیت رہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ پاکستان 50 کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا اور ترکی نیٹو (Nato) کا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں ان دونوں معاہدوں کو منسوخ کر دیا تھا، جب کہ ترکی آج بھی نیٹو کا ایک رکن ملک ہے۔ ترکی کے صدر نے امریکا پر یہ الزام لگایا کہ ترک جمہوریت کے خلاف بغاوت نیٹو ہوائی اڈے سے شروع ہوئی اور اس عمل کو پھیلانے اور بغاوت کو منظم کرنے میں ایک ترک مذہبی اور سیاسی رہنما گولن کا بڑا عمل دخل ہے، جو حالیہ دنوں میں امریکا میں مقیم ہیں۔
الزامات کے سوال جواب کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، جب کہ اوباما حکومت مسلسل یہ کہتی رہی ہے کہ وہ گولن کو اپنے ملک سے نہیں نکالے گی اور گولن بھی اپنی عدم مداخلت کے بیانات دیتے رہے ہیں۔ ان سوال اور جواب کے نتیجے میں امریکا اور ترکی کے تعلقات میں جھول آتا رہا ہے اور سردمہری پیدا ہو گئی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ قبل ترکی اور روس میں معاملات بہت کشیدہ اور سنگین ہو گئے تھے، جب حلب کے سرحدی علاقے سے ایک روسی ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا گیا تھا، ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنانے کے واقعے نے روس اور شام کے تعلقات کو خاتمے کے قریب کر دیا تھا، بلکہ یہاں تک کہ روس نے ترکی کی پروازیں بند کر دیں، اناج کے معاہدے ختم کر دیے اور براہ راست حملہ کرنے کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔
اس لیے ترکی پر دباؤ میں اتنا اضافہ ہوا کہ ترکی کے صدر نے ایک تحریری معافی نامہ صدر پوتن کو دے دیا کیونکہ نیٹو نے اپنے اتحادی کے لیے کوئی حرف حمایت نہ نکالا، ابھی یہ معاملات چل ہی رہے تھے کہ اسی دوران ترکی میں فوجی بغاوت پیدا ہو گئی، جس کا پورا الزام ترکی کے صدر نے امریکا پر لگا دیا، گویا ترکی کی تاریخ بدل ڈالی یعنی امریکی مداخلت کا واضح الزام صدر اردگان نے لگا دیا۔ اس طرح یہ عمل واضح تر ہوتا جا رہا ہے کہ ترکی نیٹو سے الگ راہ یعنی آزاد خارجہ پالیسی کی جانب رخ بدل رہا ہے۔ اس کشمکش میں جو حمایت شام مخالف قوتوں کو ملی تھی، وہ محرومی کی جانب گئیں اور حلب جو شام کا بڑا شہر ہے وہ شامی اور روس حامی فوجوں کے مکمل حصار میں آ گیا۔
گویا ایک طریقے سے جو 50 ملکی اسلامی اتحاد سعودی عرب نے بنایا تھا اس میں دراڑ پڑ گئی اور یہ ایک بہت بڑا منفی عمل ترکی کی جانب سے آیا جس نے مشرق وسطیٰ میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کو زبردست نقصان پہنچایا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس نے ایران میں اپنا عارضی طور سے ہوائی اڈہ حلب پر بمباری کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ گو کہ حلب کے شہر الیپو، جو ایک ماہ سے شامی اور روسی فوجوں کے گھیراؤ میں تھا اب ہوائی حملوں کی زد میں ہے۔
الیپو شام کا وہ شہر ہے جس کی آبادی جنگ شروع ہونے سے قبل 45 لاکھ سے زیادہ تھی، تمام عمارتیں تہس نہس ہو چکی ہیں، اس شہر پر فی الحال شام مخالف فوجوں کا زمینی قبضہ ہے۔ یہاں زبردست انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے اور حملہ آوروں کے مقاصد بھی پورے نہ ہو سکے، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے عزائم بھی ناکام ہو گئے۔ اس ناکامی میں ترکی کا بے عمل ہو جانا ایک اہم عنصر ہے۔ ترکی کے صدر اردگان نے چند ہفتے قبل ماسکو کا دورہ کیا اور تعلقات کی ایک نئی بنیاد رکھی۔
یہاں ان باتوں کو تحریر کرنے کی ایک وجہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کسی معاہدے میں تو نہیں بندھے ہیں مگر پھر بھی یہ کہنا پڑے گا کہ پاکستان کے سیاسی فیصلے برطانیہ اور امریکا کے اشتراک سے ہوتے ہیں، کیونکہ صدر جنرل پرویز مشرف کی رخصتی میں ان دونوں ممالک کا بڑا دخل ہے، این آر او کی داغ بیل وہیں پروان چڑھی اور پاکستانی سرمایہ واپس انھی یا ان کے طفیلی ملکوں میں جمع ہوتا ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی انھی ملکوں کی رائے مشورے سے تیار ہوتی ہے۔ اسی لیے کشمیر کا مسئلہ 70 برس میں بھی حل نہ ہوا بلکہ آج اس مسئلے میں مزید شدت آ گئی ہے۔
آر ایس ایس کے حمایت یافتہ نریندر مودی نے معاملات کو اور کشیدہ کر دیا ہے۔ ہندو مسلم رواداری کی ہر شاخ یہ کاٹتے جا رہے ہیں اور اس کے ردعمل سے پاکستان میں بھی شدت آ رہی ہے جو ایک قدرتی عمل ہے۔ گو کہ بھارت میں کشمیریوں پر ظلم کے خلاف بھی آواز ہے مگر ہمارے میڈیا مین ان کو عوام تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔ دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں تقریباً ہر ماہ اس ظلم کے خلاف ریلی نکالی جاتی ہے مگر یہ آوازیں شدت پسندوں کی وجہ سے دب سی گئی ہیں اور عافیت پسند لوگوں کی آواز نقار خانے میں طوطی کی صدا بن کر گم ہو گئی ہے۔ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی حد درجہ کمزور ہے۔ امریکی حکومت کا موقف عجیب و غریب ہے، ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملک مل کر مسئلہ حل کریں، جب کہ دونوں طرف جنگی کیفیت پیدا ہو رہی ہے، انسانی حقوق کے اس دور میں کشمیریوں پر مظالم بڑھتے جا رہے ہیں۔
دنیا میں ہماری حکومت کو کرپشن کے عنوان سے جانا جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی لڑائی نے اقتدار کی خاطر ایک دوسرے پر الزامات کا انبار لگا رکھا ہے اور ہر لمحہ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت موجود رہے گی بھی یا نہیں۔ ظاہری طور پر پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ میں زبردست اختلاف ہے، مگر کون جانتا ہے کہ دونوں ایک ہی صفحے پر موجود ہیں۔ اختلاف کا اندازہ اگر لگانا ہے تو مکمل اختلاف اور بنیاد پر پرکھ لیں، جیسے ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی دوڑ کو دیکھیے، دونوں کی تقریر میں واضح فرق ملے گا، اگر ایک کو شمال سے تعبیر کریں تو دوسرے کو جنوب کہیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ہلیری کلنٹن میں اتنا ہی فرق ہے، جب کہ ایک عام تاثر یہ ہے کہ ہلیری اسٹیبلشمنٹ کی امیدوار ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ بالکل آزاد، بلکہ بے نکیل کے اونٹ کی طرح سیاہ فام کا دشمن امریکی ویزا لینے والوں اور شہریت کے خلاف، مذہبی تعصب سے لبریز۔ ٹرمپ نے الزام لگایا ہے کہ آئی ایس آئی ایس یعنی داعش بنانے والے اوباما اور ہلیری ہیں۔
ایسا الزام لگانا کوئی کھیل نہیں، امریکا جیسے ملک میں بغیر تصدیق کے کہنا آسان نہیں، ذرا سی الٹی سیدھی بات سے دعویٰ دائر ہو سکتا ہے اور یہ دعویٰ درست بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اب تک یہی افواہ تھی کہ اسرائیل کے نیتن یاہو کا یہ کارنامہ ہے کہ داعش نے ایک گولی بھی اسرائیل کے خلاف نہیں چلائی۔ مگر پاکستانی سیاست دانوں کے متعلق رائے قائم کرنا آسان نہیں کہ کون کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ نہ کسی کو قوم کا درد ہے، نہ عوام کے مسائل یا ان کا حل ہے، بس اپنے آپ کو اقتدار میں لانے کے لیے ترکیبیں ہیں، وہ بھی غیر ملکی تدبیروں کے ذریعے۔ ظاہر ہے جس ملک کی جمہوری حکومت غیر ملکی حکمت عملی سے وجود میں آئے گی وہ کیوں کر عوام کے دکھ سکھ کا علاج کرنے میں کوشاں ہو گی۔
عوام کے مسائل کیا ہیں ان کو معلوم نہیں، گورنمنٹ کے چھوٹے کارکنوں کی تنخواہ کیا ہے، بھلا 12, 11 ہزار میں کیا کھائے گا، کیا شادی کرے گا، کیسے اولاد کو پالے گا اور کیسی زندگی گزارے گا اور ایک صوبائی اسمبلی کا رکن کن مراعات کا مستحق ہے؟ جب تک یہ فرق کم نہیں ہوتا عوام میں حقیقی انقلاب آنا ممکن نہیں اور کرپشن جیسی لعنت کا ختم ہونا آسان نہیں۔ ان باتوں سے آخر ہم کس نتیجے پر پہنچیں کہ مجموعی طور پر ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی جب تک اطمینان بخش نہ ہو گی عوام سکھ کا سانس نہ لے سکیں گے۔ ترکی میں صدر اردگان نے جس طرح ان کی روایتی سیاسی اور اقتصادی پالیسی کو نئے سرے سے بدلا ہے اسی طرح پاکستان کے سیاست دانوں کو بھی آزاد خارجہ اور داخلہ پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے، ورنہ ایں جناب آتے رہیں گے اور آں جناب جاتے رہیں گے۔ چہروں کی تبدیلی ہم دیکھ رہے ہیں اور ملک عالمی طور پر تنہا ہوتا جا رہا ہے۔
یہ جو پی پی اور (ن) لیگ کی چپقلش ہے، یہ کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ قربت کے طریقے ہیں اور مزید مراعات کی جدوجہد۔ ماہ ستمبر میں جو کچھ ہونے کی باتیں ہیں یہ محض خواہشات ہیں، کیونکہ عوام میں لیڈروں کی قدر و منزلت مجموعی طور پر نہیں ہے، عوام تماش بین ہیں، نہ لیڈر عوام کے لیے قربانی دے رہا ہے اور نہ ہی عوام ایسے لیڈروں کے لیے قربان ہوں گے۔
الزامات کے سوال جواب کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، جب کہ اوباما حکومت مسلسل یہ کہتی رہی ہے کہ وہ گولن کو اپنے ملک سے نہیں نکالے گی اور گولن بھی اپنی عدم مداخلت کے بیانات دیتے رہے ہیں۔ ان سوال اور جواب کے نتیجے میں امریکا اور ترکی کے تعلقات میں جھول آتا رہا ہے اور سردمہری پیدا ہو گئی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ قبل ترکی اور روس میں معاملات بہت کشیدہ اور سنگین ہو گئے تھے، جب حلب کے سرحدی علاقے سے ایک روسی ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا گیا تھا، ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنانے کے واقعے نے روس اور شام کے تعلقات کو خاتمے کے قریب کر دیا تھا، بلکہ یہاں تک کہ روس نے ترکی کی پروازیں بند کر دیں، اناج کے معاہدے ختم کر دیے اور براہ راست حملہ کرنے کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔
اس لیے ترکی پر دباؤ میں اتنا اضافہ ہوا کہ ترکی کے صدر نے ایک تحریری معافی نامہ صدر پوتن کو دے دیا کیونکہ نیٹو نے اپنے اتحادی کے لیے کوئی حرف حمایت نہ نکالا، ابھی یہ معاملات چل ہی رہے تھے کہ اسی دوران ترکی میں فوجی بغاوت پیدا ہو گئی، جس کا پورا الزام ترکی کے صدر نے امریکا پر لگا دیا، گویا ترکی کی تاریخ بدل ڈالی یعنی امریکی مداخلت کا واضح الزام صدر اردگان نے لگا دیا۔ اس طرح یہ عمل واضح تر ہوتا جا رہا ہے کہ ترکی نیٹو سے الگ راہ یعنی آزاد خارجہ پالیسی کی جانب رخ بدل رہا ہے۔ اس کشمکش میں جو حمایت شام مخالف قوتوں کو ملی تھی، وہ محرومی کی جانب گئیں اور حلب جو شام کا بڑا شہر ہے وہ شامی اور روس حامی فوجوں کے مکمل حصار میں آ گیا۔
گویا ایک طریقے سے جو 50 ملکی اسلامی اتحاد سعودی عرب نے بنایا تھا اس میں دراڑ پڑ گئی اور یہ ایک بہت بڑا منفی عمل ترکی کی جانب سے آیا جس نے مشرق وسطیٰ میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کو زبردست نقصان پہنچایا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس نے ایران میں اپنا عارضی طور سے ہوائی اڈہ حلب پر بمباری کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ گو کہ حلب کے شہر الیپو، جو ایک ماہ سے شامی اور روسی فوجوں کے گھیراؤ میں تھا اب ہوائی حملوں کی زد میں ہے۔
الیپو شام کا وہ شہر ہے جس کی آبادی جنگ شروع ہونے سے قبل 45 لاکھ سے زیادہ تھی، تمام عمارتیں تہس نہس ہو چکی ہیں، اس شہر پر فی الحال شام مخالف فوجوں کا زمینی قبضہ ہے۔ یہاں زبردست انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے اور حملہ آوروں کے مقاصد بھی پورے نہ ہو سکے، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے عزائم بھی ناکام ہو گئے۔ اس ناکامی میں ترکی کا بے عمل ہو جانا ایک اہم عنصر ہے۔ ترکی کے صدر اردگان نے چند ہفتے قبل ماسکو کا دورہ کیا اور تعلقات کی ایک نئی بنیاد رکھی۔
یہاں ان باتوں کو تحریر کرنے کی ایک وجہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کسی معاہدے میں تو نہیں بندھے ہیں مگر پھر بھی یہ کہنا پڑے گا کہ پاکستان کے سیاسی فیصلے برطانیہ اور امریکا کے اشتراک سے ہوتے ہیں، کیونکہ صدر جنرل پرویز مشرف کی رخصتی میں ان دونوں ممالک کا بڑا دخل ہے، این آر او کی داغ بیل وہیں پروان چڑھی اور پاکستانی سرمایہ واپس انھی یا ان کے طفیلی ملکوں میں جمع ہوتا ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی انھی ملکوں کی رائے مشورے سے تیار ہوتی ہے۔ اسی لیے کشمیر کا مسئلہ 70 برس میں بھی حل نہ ہوا بلکہ آج اس مسئلے میں مزید شدت آ گئی ہے۔
آر ایس ایس کے حمایت یافتہ نریندر مودی نے معاملات کو اور کشیدہ کر دیا ہے۔ ہندو مسلم رواداری کی ہر شاخ یہ کاٹتے جا رہے ہیں اور اس کے ردعمل سے پاکستان میں بھی شدت آ رہی ہے جو ایک قدرتی عمل ہے۔ گو کہ بھارت میں کشمیریوں پر ظلم کے خلاف بھی آواز ہے مگر ہمارے میڈیا مین ان کو عوام تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔ دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں تقریباً ہر ماہ اس ظلم کے خلاف ریلی نکالی جاتی ہے مگر یہ آوازیں شدت پسندوں کی وجہ سے دب سی گئی ہیں اور عافیت پسند لوگوں کی آواز نقار خانے میں طوطی کی صدا بن کر گم ہو گئی ہے۔ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی حد درجہ کمزور ہے۔ امریکی حکومت کا موقف عجیب و غریب ہے، ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملک مل کر مسئلہ حل کریں، جب کہ دونوں طرف جنگی کیفیت پیدا ہو رہی ہے، انسانی حقوق کے اس دور میں کشمیریوں پر مظالم بڑھتے جا رہے ہیں۔
دنیا میں ہماری حکومت کو کرپشن کے عنوان سے جانا جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی لڑائی نے اقتدار کی خاطر ایک دوسرے پر الزامات کا انبار لگا رکھا ہے اور ہر لمحہ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت موجود رہے گی بھی یا نہیں۔ ظاہری طور پر پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ میں زبردست اختلاف ہے، مگر کون جانتا ہے کہ دونوں ایک ہی صفحے پر موجود ہیں۔ اختلاف کا اندازہ اگر لگانا ہے تو مکمل اختلاف اور بنیاد پر پرکھ لیں، جیسے ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی دوڑ کو دیکھیے، دونوں کی تقریر میں واضح فرق ملے گا، اگر ایک کو شمال سے تعبیر کریں تو دوسرے کو جنوب کہیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ہلیری کلنٹن میں اتنا ہی فرق ہے، جب کہ ایک عام تاثر یہ ہے کہ ہلیری اسٹیبلشمنٹ کی امیدوار ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ بالکل آزاد، بلکہ بے نکیل کے اونٹ کی طرح سیاہ فام کا دشمن امریکی ویزا لینے والوں اور شہریت کے خلاف، مذہبی تعصب سے لبریز۔ ٹرمپ نے الزام لگایا ہے کہ آئی ایس آئی ایس یعنی داعش بنانے والے اوباما اور ہلیری ہیں۔
ایسا الزام لگانا کوئی کھیل نہیں، امریکا جیسے ملک میں بغیر تصدیق کے کہنا آسان نہیں، ذرا سی الٹی سیدھی بات سے دعویٰ دائر ہو سکتا ہے اور یہ دعویٰ درست بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اب تک یہی افواہ تھی کہ اسرائیل کے نیتن یاہو کا یہ کارنامہ ہے کہ داعش نے ایک گولی بھی اسرائیل کے خلاف نہیں چلائی۔ مگر پاکستانی سیاست دانوں کے متعلق رائے قائم کرنا آسان نہیں کہ کون کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ نہ کسی کو قوم کا درد ہے، نہ عوام کے مسائل یا ان کا حل ہے، بس اپنے آپ کو اقتدار میں لانے کے لیے ترکیبیں ہیں، وہ بھی غیر ملکی تدبیروں کے ذریعے۔ ظاہر ہے جس ملک کی جمہوری حکومت غیر ملکی حکمت عملی سے وجود میں آئے گی وہ کیوں کر عوام کے دکھ سکھ کا علاج کرنے میں کوشاں ہو گی۔
عوام کے مسائل کیا ہیں ان کو معلوم نہیں، گورنمنٹ کے چھوٹے کارکنوں کی تنخواہ کیا ہے، بھلا 12, 11 ہزار میں کیا کھائے گا، کیا شادی کرے گا، کیسے اولاد کو پالے گا اور کیسی زندگی گزارے گا اور ایک صوبائی اسمبلی کا رکن کن مراعات کا مستحق ہے؟ جب تک یہ فرق کم نہیں ہوتا عوام میں حقیقی انقلاب آنا ممکن نہیں اور کرپشن جیسی لعنت کا ختم ہونا آسان نہیں۔ ان باتوں سے آخر ہم کس نتیجے پر پہنچیں کہ مجموعی طور پر ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی جب تک اطمینان بخش نہ ہو گی عوام سکھ کا سانس نہ لے سکیں گے۔ ترکی میں صدر اردگان نے جس طرح ان کی روایتی سیاسی اور اقتصادی پالیسی کو نئے سرے سے بدلا ہے اسی طرح پاکستان کے سیاست دانوں کو بھی آزاد خارجہ اور داخلہ پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے، ورنہ ایں جناب آتے رہیں گے اور آں جناب جاتے رہیں گے۔ چہروں کی تبدیلی ہم دیکھ رہے ہیں اور ملک عالمی طور پر تنہا ہوتا جا رہا ہے۔
یہ جو پی پی اور (ن) لیگ کی چپقلش ہے، یہ کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ قربت کے طریقے ہیں اور مزید مراعات کی جدوجہد۔ ماہ ستمبر میں جو کچھ ہونے کی باتیں ہیں یہ محض خواہشات ہیں، کیونکہ عوام میں لیڈروں کی قدر و منزلت مجموعی طور پر نہیں ہے، عوام تماش بین ہیں، نہ لیڈر عوام کے لیے قربانی دے رہا ہے اور نہ ہی عوام ایسے لیڈروں کے لیے قربان ہوں گے۔