سندھ کی حکومتوں کے ساتھ اصل مسئلہ
سندھ میں حکومت کی تشکیل کا کام مکمل ہوچکا ہے، جس کابینہ نے حلف اٹھایا ہے
LOS ANGELES:
سندھ میں حکومت کی تشکیل کا کام مکمل ہوچکا ہے، جس کابینہ نے حلف اٹھایا ہے وہ ہر لحاظ سے ایک بڑی کابینہ ہے۔ نئے اور نوجوان وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے سید قائم علی شاہ کی جگہ لی ہے، جو اپنی زندگی کی 80 سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ مراد علی شاہ اپنے پیش رو سے 30 سال چھوٹے اور اسٹینفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نوجوان ہونے کی وجہ سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ صوبے کو ایک فعال قیادت فراہم کریں گے اور ان کی گورننس پچھلی حکومت سے بہتر ہو گی۔
اس تمام تر پرامیدی کے ساتھ یہ اندیشے بھی موجود ہیں کہ جب تک سندھ حکومت میں پیپلز پارٹی کی قیادت کی مداخلت رہے گی، نئے وزیراعلیٰ کی طرف سے شروع کے چند دنوں میں دکھائے جانے والے جوش و خروش کے باوجود ہر تبدیلی مصنوعی ثابت ہوگی۔ جب سے یہ ملک قائم ہوا ہے سندھ کے ساتھ یہ ایک بڑی بدقسمتی چلی آرہی ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے سندھ کی تاریخ پر مختصراً نظر ڈالنا ضروری ہے کہ صوبائی حکومتیں کیوں ناکام ثابت ہوئیں اور جس سے صوبے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ پچھلے 69 سال کے عرصے میں صرف 34 سال صوبائی حکومتوں نے کام کیا۔ ان 34 برسوں میں سندھ میں 21 حکومتیں آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حکومت اوسطاً ڈیڑھ سال کام کرسکی۔
ایوب کھوڑو کی قیادت میں سندھ کی پہلی حکومت آٹھ ماہ بعد برطرف کر دی گئی۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کراچی کو وفاقی دارالحکومت میں ضم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ اس فیصلے کا نتیجہ صوبے کے بہترین شہر کو ہتھیانے کی صورت میں نکلا اور صوبائی دارالحکومت کو حیدرآباد منتقل کرنا پڑا۔ کراچی نئے ملک کی واحد بندرگاہ تھی اور اس طرح اس شہر کی ترقی کے زبردست امکانات تھے۔ مرکزی حکومت کے اس فیصلے سے مقامی آبادی اور نقل مکانی کرکے آنے والوں کے درمیان نفرت کے بیج بو دیے گئے۔ 1951 تک پانچ حکومتیں تبدیل کی گئیں اور پھر دسمبر 1953 میں گورنر راج نافذ کردیا گیا۔
اگلے دو سال میں مزید دو حکومتیں تبدیل کی گئیں اور پھر مشرقی پاکستان کے ساتھ مصنوعی برابری پیدا کرنے کے لیے صوبوں کو ختم کرکے ون یونٹ قائم کردیا گیا۔ یہ مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کی اکثریت اور چھوٹے صوبوں (سندھ اور شمال مغربی صوبہ سرحد) کے عوام کو ان کی حکمرانی کے حق سے محروم کرنے کے لیے ایک غیر منصفانہ اقدام تھا۔ اس وقت تک بلوچستان کو صوبے کا درجہ بھی نہیں دیا گیا تھا۔
17 سال کی طویل مداخلت اور آدھا ملک کھو دینے کے بعد 1972 میں دوبارہ صوبے قائم کیے گئے مگر اس کے لیے مشرقی پاکستان کے ون یونٹ اور مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں طویل تحریک چلائی گئی۔
1972 میں ممتاز علی بھٹو کی قیادت میں، جو ذوالفقار علی بھٹو کے چچا زاد بھائی تھے، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کی گئی۔ مگر ڈیڑھ سال کے دوران ہی بڑے بھٹو نے محسوس کرلیا کہ ان کے کزن کی سوچ ان جیسی نہیں ہے اور وہ مرکزی حکومت کا حکم نہیں مانیں گے، چنانچہ انھیں بھی ہٹادیا گیا اور ان کی جگہ غلام مصطفیٰ جتوئی کو لایا گیا جو مرکزی حکومت کے تابعدار تھے۔ ان کی حکومت جولائی 1977 تک رہی، جب ملک میں سویلین حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
جنرل ضیا نے سات سال کی فوجی حکمرانی کے بعد 1985 میں غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات کرائے۔ 1988 میں جنرل ضیا کی پراسرار موت تک، دو حکومتوں کو تبدیل کیا گیا اور پھر جمہوریت بحال کرنے کے لیے انتخابات کرائے گئے۔
اگلے 28 برسوں میں گورنر راج کی طویل مداخلت کے ساتھ، موجودہ حکومت سمیت اس صوبے میں 15 حکومتیں بنیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور طویل ترین رہا۔ اور اگر تینوں ادوار کو اکٹھا کیا جائے تو سابق وزیراعلی قائم علی شاہ کا دور سب سے طویل ہے۔
اس تفصیل سے دو باتیں سامنے آتی ہیں کہ سندھ میں برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت کیوں ناکام رہی: پہلی بات تو یہ ہے کہ صوبے میں منتخب حکومتوں کی اوسط مدت دو سال سے کم رہی۔ دوسری بات یہ کہ ان میں سے کوئی بھی حکومت آزاد نہیں تھی کیوں کہ مرکزی حکومت نے اس صوبے کا ریموٹ کنٹرول ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، مرکز میں جب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، اس کی قیادت نے صوبے میں کمزور وزیراعلیٰ اور تابعدار حکومت لانے کو ترجیح دی۔ ہم ماضی قریب میں دیکھ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت حکومت کے روزمرہ کے کام کاج میں مداخلت کرتی رہی ہے، یہاں تک کہ تقرر و تبادلے اور ترقی تک کے معاملات وزیراعلیٰ اور متعلقہ وزیروں کے ہاتھ میں نہیں تھے۔
صوبہ سندھ کے ساتھ اور بھی بہت سے مسائل ہیں جو حکومت کرنے کے لیے اسے ایک مشکل صوبہ بناتے ہیں۔ منتخب حکومت کے علاوہ یہاں طاقت کے تین بڑے مراکز ہیں، یعنیعسکری قیادت؛ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت اور شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی قیادت۔ شہری اور دیہی تقسیم بدقسمتی سے نسلی تقسیم بھی ہے۔ مضبوط مقامی حکومتیں نہ ہونے کی وجہ سے شہری علاقوں پر کنٹرول کے لیے مسلسل کھینچا تانی ہورہی ہے۔ ایک طرف صوبائی حکومت ہے جو واضح طور پر دیہی علاقوں سے منتخب کی جاتی ہے اور دوسری طرف متوسط طبقے کی مہاجر شہری قیادت ہے۔ اس صورت حال نے صوبے پر حکمرانی کو انتہائی مشکل بنادیا ہے۔
زیادہ تر دیہی علاقوں کی نمایندگی سندھ کے بڑے نیم جاگیردار خاندان کرتے ہیں۔ نئی صوبائی کابینہ کی تشکیل صوبے کی سیاست پر ان خاندانوں کے کنٹرول کی ایک واضح مثال ہے۔ کابینہ کی تشکیل صوبائی حکومت کے مختلف محکموں کی ضروریات کے مطابق نہیں کی گئی بلکہ 2018 کے انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیہی سندھ کے تمام بڑے جاگیرداروں کو مطمئن رکھنے کے لیے کی گئی ہے۔ جب یہ جاگیردار وزیر بن جاتے ہیں تو اپنے محکموں کے ساتھ بھی اپنی جاگیر جیسا سلوک کرتے ہیں۔ بیشتر وزیر اس موقع کو اپنی مالی حیثیت مستحکم بنانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب کچھ بڑی بے شرمی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک المیہ یہ ہے کہ اسے شہری علاقوں میں کچھ زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے۔ گویا پیپلز پارٹی نے شہری سندھ کو ایم کیو ایم کے حوالے کردیا ہے۔ صوبائی کابینہ کی تشکیل سے تو یہی نظر آتا ہے۔
اس پس منظر میں نئے وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کے ساتھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں کہ وہ اس صوبے کی تقدیر بدل دیں گے۔ بہرحال اگر وہ اس صوبے کے گٹر کھلوانے اور کچرا اٹھوانے میں بھی کامیاب ہوگئے تو یہ بڑی بات ہوگی۔ اس کام سے انھیں کوئی نہیں روکے گا۔ اگر وہ روزمرہ کے معاملات چلانے کے قابل بھی ہوگئے تو میں اگلے الیکشن میں انھیں ہی ووٹ دوں گا۔