چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
سوال یہ ہے کہ جس ملک کے عوام خود ہی فوج کو آنے کی دعوت دے رہے ہوں وہاں ٹینکوں کے آگے کون لیٹے گا؟
NEW YORK:
آمریت کی دو اقسام ہوتی ہیں، فوجی آمریت اور سول آمریت۔ اسی طرح جمہوریت کی بھی دو اقسام ہیں، عوامی جمہوریت اور اشرافیائی جمہوریت۔ جتنا خطرہ فوجی آمریت سے اشرافیائی آمریت کو ہوتا ہے اتنا ہی خطرہ مادر زاد (وراثتی) اشرافیائی جمہوریت سے عوامی جمہوریت کو ہوتا ہے۔ دوسرے معنوں میں ہم فوجی آمریت کو اشرافیائی جمہوریت کی دشمنی اور اشرافیائی جمہوریت کو عوامی جمہوریت کی دشمنی کہہ سکتے ہیں۔
وسط جولائی میں پاکستان اور ترکی میں دو دھماکا خیز واقعات رونما ہوئے، ترکی میں عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر فوجی بغاوت کو ناکام بنایا اور پاکستان میں ایک نوزائیدہ Move on پارٹی نے آرمی چیف کی تصویر کے ساتھ مختلف شہروں میں پوسٹر چسپاں کیے، جن میں فوج کو آنے کی دعوت دی گئی یعنی ''چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے'' نتیجتاً دبئی مارکہ سیاست دان جمہوریت کو خطرے میں دیکھ کر تڑپ اٹھے، جن کا جمہور (عوام) سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اور ایسی اشرافیائی جمہوریت کے لیے جس کا عوامی جمہوریت سے دور کا بھی رشتہ نہیں ہے Move on پارٹی کے منچلے اندر ہوگئے۔ اس کے فوری بعد ملک کی تیسری بڑی پارٹی کے کپتان نے کہا کہ اگر آج بھی فوجی آجائے تو عوام مٹھائیاں بانٹیں گے۔ جس پر رد عمل کچھ اس طرح تھا، کپتان نے بات تو صحیح کی ہے لیکن الفاظ کا چناؤ اور جملوں کی بنت صحیح نہیں تھی، اس لیے ان کے بیان میں سیاسی ''رچاؤ'' کا فقدان تھا۔ (یعنی بات تو سچ ہے مگر بات ہے...)
سوال یہ ہے کہ جس ملک کے عوام خود ہی فوج کو آنے کی دعوت دے رہے ہوں وہاں ٹینکوں کے آگے کون لیٹے گا؟ ظاہر ہے ملک پر 69 سال سے اشرافیہ کا راج ہے، چنانچہ یہ طے ہے کہ جاگیردار، وڈیرے، صنعت کار وغیرہ آمریت کا راستہ روکنے کے لیے ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں گے۔ پھر عوام کیا کریں گے؟ ظاہر ہے وہی کریں گے جو 69 سال سے کرتے چلے آرہے ہیں، یعنی وڈیرے، جاگیرداروں، صنعت کاروں کے اطراف بھنگڑا ڈالیں گے اور مٹھائیاں تقسیم کریں گے۔ لیکن افسوس کہ یہ ناممکن ہے کیوں کہ بقول بزرگ سیاست دان چوہدری شجاعت حسین پاکستان میں مارشل لاء دو فوجی ٹرک اور ایک جیپ کی مار ہے یعنی جب آمریت ٹینکوں پر سوار ہوکر آئے گی ہی نہیں تو پھر ٹینکوں کے آگے لیٹنے کا کیا سوال ؟ فوجی ٹرک کے آگے لیٹنے اور ٹرک گزرنے کے بعد کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہونے کا فائدہ؟ یا اﷲ! پاکستان کو آرٹیکل چار کم دس سے محفوظ رکھ! سنو!
ماشااﷲ کامیاب اشرافیائی جمہوریت کو جمہوریت کے تسلسل کا آٹھواں سال لگا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آٹھ سال پہلے جتنے عوامی مسائل تھے کیا وہ حل ہوگئے؟ مثلاً لوڈشیڈنگ، مہنگائی، خودکش بمباری، اغوا برائے تاوان وغیرہ۔ ان میں سے کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا۔ خدا کی پناہ! ملک میں جتنی ڈھٹائی سے لوٹ مار ہورہی ہے اتنی ڈھٹائی سے تو ملیر ندی سے ٹرک نہیں لوڈ کرکے بجری چوری نہیں ہوتی۔ پاکستان میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں بے قصور ہوں، مجھ پر بہتان لگایا جارہا ہے، میں کرپٹ نہیں ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ سینہ تان کر کہتا ہے کہ ثابت کرکے بتاؤ۔ ثابت کون کرے گا؟ ثابت کرنے والے سارے کے سارے غریب اور اوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے چاہے وہ انتظامیہ کے اور واردات کرنے والے سب کے سب قانون ساز بھی ہیں اور قانون باز بھی۔
تاریخ شاہد ہے کہ دور آمریت میں ہی جمہوریت کی نرسری سرسبز و شاداب ہوتی ہے، مقامی حکومتوں کا بلدیاتی نظام پورے طمطراق کے ساتھ کام کرتا ہے، جب کہ اشرافیائی جمہوریت میں جمہوریت کی نرسری میں خاک اڑتی ہے۔
جمہوریت تو پاکستان اور ترکی دونوں جگہ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ترکی میں عوام اپنے صدر کی اپیل پر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے سڑکوں پر آجاتے ہیں اور پاکستان میںحکمرانوں کی بات پر کوئی کان ہی نہیں دھرتا۔ اس کے لیے A پاکستانی ماڈل اشرافیائی جمہوریت، اور B ترکی ماڈل عوامی جمہوریت کا تقابلی جائزہ لینا پڑے گا۔ تاکہ مقطع میں جو سخن گسترانہ بات آپھنسی ہے کھل کر سامنے آجائے۔
A۔ پاکستانی ماڈل جمہوریت: اس وقت پاکستان میں مادر زاد (وراثتی) اشرافیائی جمہوریت رائج ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں دادا حضور کی حکومت تھی اور چائے پانی لیول کی کرپشن کا زمانہ تھا۔ ایک ہاتھ سے رشوت دی جاتی تھی دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہیں ہوتی تھی، اس سے پہلے جیب میں گھس جاتی تھی پھر ابا حضور کا دور آیا ''خرچہ پانی'' لیول کی ''ہڑپشن'' رواج پائی، کرپشن جیبوں سے نکل کر بینکوں میں جگہ پائی، ملکی بینکوں سے قرضے معاف کرانے اور سوئس بینکوں میں اوپر کی آمدنی جمع کرانے کا چلن عام ہوا۔ اس وقت ملک میں پوتوں کا راج ہے، جن میں مال پانی لیول کی ''ہڑپشن'' عام ہے، آف شور کنگ کمپنیاں قائم ہیں، جن میں ایک طرف سے کالے کرتوتوں کی بلیک منی ڈالی جاتی ہے تو دوسری طرف سے دھلی دھلائی پاک دامن دولت نکل آتی ہے، جو دنیا کے ہر ملک کے لیے نیک پروین کا درجہ رکھتی ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پڑپوتا ابھی پوتڑوں میں کلیلیں کررہا ہے، جب چڈی بدلنے کے لائق ہوگا تو ملک کی تقدیر بدلنے اور قوم کی عاقبت سنوارنے میدان عمل میں آئے گا اور ابا حضور سے انتہائی خلوص کے ساتھ عوام کو روٹی کپڑا مکان دینے کا جھانسہ دینے کی تربیت حاصل کرے گا۔
B۔ ترکی ماڈل جمہوریت: ترکی کے موجودہ صدر طیب اردگان کے گھر میں غربت کا یہ عالم تھا کہ وہ فٹ پاتھ پر ڈبل روٹی اور ٹافیاں بیچا کرتے تھے، یوں اسٹریٹ فائٹنگ ان کی گھٹی میں پڑگئی اور ان کی اٹھان میں عوامی خمیر شامل ہوگیا، جب سیاست میں آئے تو پہلے جمہوریت کی نرسری یعنی مقامی حکومتوں کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور استنبول کے میئر بن گئے، عوامی خدمت کے ریکارڈ قائم کیے۔ مقامی پولیس ماتحت تھی۔ کونسلرز ان کے کندھے سے کندھا ملاکر اور ووٹرز ان کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے ایک ایک کرکے منظم جرائم کے اڈے مسمار کیے اور سارے مافیاز کے سرغنوں کو کچل کر رکھ دیا۔ استنبول جو کراچی کا لیاری بنا ہوا تھا امن کا گہوارہ بنادیا۔ تاجروں نے ان پر ہاتھ رکھ دیا۔
پاکستانی اور ترکی ماڈل جمہوریت میں جو فرق نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات سے پہلے ووٹرز حاکم اور امیدوار خادم ہوتے ہیں، کامیاب ہوتے ہی امیدوار VVIP اور ووٹرز کمی بن جاتے ہیں۔ نتیجتاً چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک۔ترکی کے صدر کا خمیر عوامی تھا، انھوں نے عوام کو سڑکوں پر آنے کی کال دی اور عوام ''اپنے آدمی'' طیب اردگان کو بچانے کے لیے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، جانوں کا نذرانہ پیش کیا، فوجی بغاوت کو ناکام بنایا۔ اس کا مطلب ہوا کہ آمریت روکنے کا واحد راستہ ترکی ماڈل عوامی جمہوریت ہے، اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں فوج کی آمد کے بغیر گلشن کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا؟ جواباً آخری سوال پیش خدمت ہے جس کا جواب اپنے تک ہی رکھیے۔ خدا کے لیے کہیے اس وقت پاکستان کی مقبول ترین شخصیت کون ہے؟ سویلین چیف یا عسکری چیف۔