محدود رہنے والے وفاقی وزراء
شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے والوںکو بہت مشکلات کا سامنا ہے مگر وفاقی وزیر کراچی ہی بہت کم آتے ہیں
KEY WEST, FLORIDA:
وزیراعظم پاکستان کو کاروبار مملکت چلانے کے لیے مختلف محکموں کے لیے آئینی طور پر وفاقی وزیروں اور وزرائے مملکت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے قبل وزیراعظم اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کی مرضی ہوتی تھی کہ وہ جتنے چاہے وزیر رکھیں اور اپنی مرضی سے انھیں ایک یا ایک سے زائد محکمے دیں۔
صوبوں میں وزیر مملکت نہیں ہوتے تو اپنے لوگوں کو نوازنے کے لیے اس لیے وفاق میں وزیر مملکت رکھے جاتے ہیں جو مکمل وزیر نہیں ہوتے۔ وفاق اور صوبوں میں مشیر، معاونین خصوصی، پارلیمانی کمیٹیوں کے سربراہوں کے علاوہ بھی کوآرڈینیٹر بھی رکھے جاتے ہیں اور یہ سب سرکاری عہدوں کے ذریعے سرکاری دفاتر، ٹیلی فون، لگژری کاروں، گاڑیوں کے پٹرول کے علاوہ سرکاری رہائش گاہوں، سرکاری عملے و سرکاری سیکیورٹی عملے کے ساتھ تنخواہوں کے بھی حامل ہوجاتے ہیں جب کہ ارکان اسمبلی کو یہ مراعات نہیں ملتیں اور انھیں اسمبلی اجلاسوں کے موقع پر سفری اور رہائشی سہولیات کے ساتھ مختلف الاؤنس ملتے ہیں اور اپنے اس عہدے کے باعث وہ بھی وی آئی پی بن جاتے ہیں اور حکومت سے اپنے علاقوں کے کام کراتے ہیں اور فائدے بھی اٹھاتے ہیں اور ہمیشہ اپنے الاؤنس کم ہونے کا رونا روتے ہیں۔ سرکاری ارکان اسمبلی اپوزیشن ارکان کے مقابلے زیادہ بااثر ہوتے ہیں اور اپنے الیکشن اخراجات بمع سود وصول کرلیتے ہیں۔
ہر وفاقی حکومت میں یہ شکایت وفاقی وزیروں کے متعلق رہی ہے کہ وہ پورے ملک کا دورہ نہیں کرتے اور اکثر اسلام آباد میں اپنے آرام دہ دفاتر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ وہ پورے ملک کے وزیر اور اپنے محکمے کے تمام معاملات دیکھنے کے آئینی طور پر پابند ہیں مگر اپنے آرام دہ دفاتر سے دور رہنے کا ان کا دل نہیں کرتا مجبوراً وہ بڑے شہروں میں جاکر اجلاسوں کی صدارت ضرور کرلیتے ہیں البتہ افتتاحی تقریبات کے وفاقی وزیر شوقین ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں نصب پتھر پر ان کے نام جو تحریر ہوتے ہیں اور ان کے سابق ہونے کے بعد بھی یہ پتھر برسوں نظر آتے ہیں۔
وفاقی وزیر اگر اسلام آباد سے نکلتے ہیں تو آبائی حلقوں کے لیے، ویسے اسلام آباد آکر تو انھیں اپنے آبائی حلقے بھی مہینوں یاد نہیں آتے اور عید کے موقع پر شہر اقتدار خالی نہ ہو تو یہ عید بھی وہیں کریں مگر مجبوری میں انھیں اسلام آباد سے نکلنا پڑتا ہے اور وہ اپنے آبائی علاقوں میں جاکر عید منا لیتے ہیں اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ دفتر میں کام اور مصروفیات زیادہ تھیں مگر وہ اپنے حلقے کے لوگوں کی محبت میں ان سے ملنے آگئے ہیں اور لوگ بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ وزیر موصوف کو ہمارا کتنا خیال ہے۔
وزیر موصوف اپنے حلقے میں آکر اپنے ووٹروں سے زیادہ سرکاری افسروں سے زیادہ ملتے ہیں جسے اہم میٹنگ کا نام دیا جاتا ہے وقت ملے تو اپنے خاص بندوں سے مل کر ان سے مبارکباد اور مٹھائیاں وصول کرلیتے ہیں جو بنگلے پر آنے والوں کو بھی کھلائی جاتی ہیں۔ وفاقی وزرا اس نجی دورے میں اپنے ذاتی کام اور کاروباری معاملات نمٹانے کے علاوہ اپنے خاص بااثر زمینداروں کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیے گئے ظہرانوں اور عشائیوں اور سماجی تنظیموں کی طرف سے دیے گئے استقبالیوں میں ترجیحی بنیاد پر شرکت کرتے ہیں اور وقت ہو تو اپنے محکموں یا ضلعی حکام کے دفتر جاکر میٹنگ کرلیتے ہیں جس کی میڈیا میں کوریج ہوجاتی ہے اور سرکاری چھٹیاں ختم ہوتے ہی وفاقی وزرا شہر اقتدار پہنچ جاتے ہیں۔
راقم نے آبائی شہر شکارپور میں بائیس سالہ صحافتی دور میں اپنے ضلع سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا ہی کو دورے پر دیکھا صرف ایک بار وزیر مملکت برائے خارجہ مرحوم زین نورانی کا دورہ دیکھا تھا اور وہ اپنے دوست آغا صدر الدین سے ملنے گڑھی یاسین آئے تھے یا شہید ظہور الحسن بھوپالی کے ساتھ ضیا دور کے وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق شکارپور پریس کلب راقم کے مدعو کرنے پر آئے تھے اور یہ دورہ سرکاری طور پر شہید ظہور الحسن کی تنظیم استحکام پاکستان کونسل کی تقریبات کے لیے تھا۔ بھٹو دور میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اپنے وفاقی وزرا کو ہدایت تھی کہ وہ اندرون ملک دورے کریں، کھلی کچہریاں منعقد کریں، جس کا کچھ اثر تھا تو کچھ وفاقی وزیر اپنے اضلاع کے قریبی ضلعوں کا دورہ کرلیتے تھے یا کبھی کسی سرکاری منصوبے کے سنگ بنیاد یا افتتاح کا موقع ہوتا تھا تو وفاقی وزیر زحمت کر لیتے تھے وگرنہ ہر دور میں وفاقی وزیروں کے دورے محدود ہی رہتے ہیں۔
موجودہ حکومت کے اہم وزرا سے ہی پوچھا جائے کہ انھوں نے پنجاب کے علاوہ سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کے اندرونی اضلاع کے کتنے دورے کیے حالانکہ ان وزرا کے محکموں کا پورے ملک سے ہی واسطہ ہے جب کہ محکمہ سفیران، ہاؤسنگ، مواصلات امور کشمیر و دیگر غیر اہم محکمے ایسے ہیں، جن کا پورے ملک سے واسطہ نہیں اور ان کے وزیر زیادہ وقت اسلام آباد ہی میں گزارتے ہیں یا محکماتی دورے کرنے بڑے شہروں میں قدم رنجہ فرمالیتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی کا جو اجلاس طلب کیا گیا تھا اس میں ارکان نے وزیراعظم کی صحت یابی کے علاوہ وفاقی وزیروں کی بھی شکایت کی کہ وہ ارکان اسمبلی کے ساتھ اچھے رویے سے پیش نہیں آتے۔ ایک رکن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔ جب وفاقی وزیروں کا رویہ ارکان اسمبلی کے ساتھ یہ ہوگا تو وہ اسلام آباد سے باہر اپنے حلقے کے علاوہ باقی ملکی علاقوں کو کیوں اہمیت دیں گے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ کے علاوہ جو قائمہ کمیٹیاں آئینی طور پر بنائی گئی ہیں ان کے اجلاسوں میں شریک ہونے کے وفاقی وزرا پابند ہیں مگر مگر وہ وہاں جانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ تک کو نظرانداز کرنے پر وہاں ارکان احتجاج کرتے رہتے ہیں مگر وفاقی وزیروں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ وزارت داخلہ اور وزارت پانی و بجلی موجودہ حالات میں سب سے اہم محکمے ہیں کیونکہ ملک بھر میں سب سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کی شکایات ہیں۔ بجلی کے دو وزیر عوام میں لوڈشیڈنگ کی شکایات کے باعث نہیں جاتے تو وفاقی وزیر امن و امان کو صوبائی مسئلہ قرار دے کر جان چھڑا لیتے ہیں۔
شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے والوںکو بہت مشکلات کا سامنا ہے مگر وفاقی وزیر کراچی ہی بہت کم آتے ہیں تو اندرون ملک اپنے محکمے کے دفاتر میں کیوں جائیں گے انھوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کو ہی اپنے محکمے سے متعلق شکایات کا حل سمجھ رکھا ہے۔ اب بھی وقت ہے وزیراعظم اپنے وزیروں کو اسلام آباد سے نکل کر اندرون ملک جانے کا حکم دیں کیونکہ ہر ایک کے لیے اسلام آباد جانا تو ممکن نہیں مگر وفاقی وزیروں کا اندرون ملک کا دورہ ضروری اور آسان ہے۔
وزیراعظم پاکستان کو کاروبار مملکت چلانے کے لیے مختلف محکموں کے لیے آئینی طور پر وفاقی وزیروں اور وزرائے مملکت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے قبل وزیراعظم اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کی مرضی ہوتی تھی کہ وہ جتنے چاہے وزیر رکھیں اور اپنی مرضی سے انھیں ایک یا ایک سے زائد محکمے دیں۔
صوبوں میں وزیر مملکت نہیں ہوتے تو اپنے لوگوں کو نوازنے کے لیے اس لیے وفاق میں وزیر مملکت رکھے جاتے ہیں جو مکمل وزیر نہیں ہوتے۔ وفاق اور صوبوں میں مشیر، معاونین خصوصی، پارلیمانی کمیٹیوں کے سربراہوں کے علاوہ بھی کوآرڈینیٹر بھی رکھے جاتے ہیں اور یہ سب سرکاری عہدوں کے ذریعے سرکاری دفاتر، ٹیلی فون، لگژری کاروں، گاڑیوں کے پٹرول کے علاوہ سرکاری رہائش گاہوں، سرکاری عملے و سرکاری سیکیورٹی عملے کے ساتھ تنخواہوں کے بھی حامل ہوجاتے ہیں جب کہ ارکان اسمبلی کو یہ مراعات نہیں ملتیں اور انھیں اسمبلی اجلاسوں کے موقع پر سفری اور رہائشی سہولیات کے ساتھ مختلف الاؤنس ملتے ہیں اور اپنے اس عہدے کے باعث وہ بھی وی آئی پی بن جاتے ہیں اور حکومت سے اپنے علاقوں کے کام کراتے ہیں اور فائدے بھی اٹھاتے ہیں اور ہمیشہ اپنے الاؤنس کم ہونے کا رونا روتے ہیں۔ سرکاری ارکان اسمبلی اپوزیشن ارکان کے مقابلے زیادہ بااثر ہوتے ہیں اور اپنے الیکشن اخراجات بمع سود وصول کرلیتے ہیں۔
ہر وفاقی حکومت میں یہ شکایت وفاقی وزیروں کے متعلق رہی ہے کہ وہ پورے ملک کا دورہ نہیں کرتے اور اکثر اسلام آباد میں اپنے آرام دہ دفاتر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ وہ پورے ملک کے وزیر اور اپنے محکمے کے تمام معاملات دیکھنے کے آئینی طور پر پابند ہیں مگر اپنے آرام دہ دفاتر سے دور رہنے کا ان کا دل نہیں کرتا مجبوراً وہ بڑے شہروں میں جاکر اجلاسوں کی صدارت ضرور کرلیتے ہیں البتہ افتتاحی تقریبات کے وفاقی وزیر شوقین ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں نصب پتھر پر ان کے نام جو تحریر ہوتے ہیں اور ان کے سابق ہونے کے بعد بھی یہ پتھر برسوں نظر آتے ہیں۔
وفاقی وزیر اگر اسلام آباد سے نکلتے ہیں تو آبائی حلقوں کے لیے، ویسے اسلام آباد آکر تو انھیں اپنے آبائی حلقے بھی مہینوں یاد نہیں آتے اور عید کے موقع پر شہر اقتدار خالی نہ ہو تو یہ عید بھی وہیں کریں مگر مجبوری میں انھیں اسلام آباد سے نکلنا پڑتا ہے اور وہ اپنے آبائی علاقوں میں جاکر عید منا لیتے ہیں اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ دفتر میں کام اور مصروفیات زیادہ تھیں مگر وہ اپنے حلقے کے لوگوں کی محبت میں ان سے ملنے آگئے ہیں اور لوگ بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ وزیر موصوف کو ہمارا کتنا خیال ہے۔
وزیر موصوف اپنے حلقے میں آکر اپنے ووٹروں سے زیادہ سرکاری افسروں سے زیادہ ملتے ہیں جسے اہم میٹنگ کا نام دیا جاتا ہے وقت ملے تو اپنے خاص بندوں سے مل کر ان سے مبارکباد اور مٹھائیاں وصول کرلیتے ہیں جو بنگلے پر آنے والوں کو بھی کھلائی جاتی ہیں۔ وفاقی وزرا اس نجی دورے میں اپنے ذاتی کام اور کاروباری معاملات نمٹانے کے علاوہ اپنے خاص بااثر زمینداروں کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیے گئے ظہرانوں اور عشائیوں اور سماجی تنظیموں کی طرف سے دیے گئے استقبالیوں میں ترجیحی بنیاد پر شرکت کرتے ہیں اور وقت ہو تو اپنے محکموں یا ضلعی حکام کے دفتر جاکر میٹنگ کرلیتے ہیں جس کی میڈیا میں کوریج ہوجاتی ہے اور سرکاری چھٹیاں ختم ہوتے ہی وفاقی وزرا شہر اقتدار پہنچ جاتے ہیں۔
راقم نے آبائی شہر شکارپور میں بائیس سالہ صحافتی دور میں اپنے ضلع سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا ہی کو دورے پر دیکھا صرف ایک بار وزیر مملکت برائے خارجہ مرحوم زین نورانی کا دورہ دیکھا تھا اور وہ اپنے دوست آغا صدر الدین سے ملنے گڑھی یاسین آئے تھے یا شہید ظہور الحسن بھوپالی کے ساتھ ضیا دور کے وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق شکارپور پریس کلب راقم کے مدعو کرنے پر آئے تھے اور یہ دورہ سرکاری طور پر شہید ظہور الحسن کی تنظیم استحکام پاکستان کونسل کی تقریبات کے لیے تھا۔ بھٹو دور میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اپنے وفاقی وزرا کو ہدایت تھی کہ وہ اندرون ملک دورے کریں، کھلی کچہریاں منعقد کریں، جس کا کچھ اثر تھا تو کچھ وفاقی وزیر اپنے اضلاع کے قریبی ضلعوں کا دورہ کرلیتے تھے یا کبھی کسی سرکاری منصوبے کے سنگ بنیاد یا افتتاح کا موقع ہوتا تھا تو وفاقی وزیر زحمت کر لیتے تھے وگرنہ ہر دور میں وفاقی وزیروں کے دورے محدود ہی رہتے ہیں۔
موجودہ حکومت کے اہم وزرا سے ہی پوچھا جائے کہ انھوں نے پنجاب کے علاوہ سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کے اندرونی اضلاع کے کتنے دورے کیے حالانکہ ان وزرا کے محکموں کا پورے ملک سے ہی واسطہ ہے جب کہ محکمہ سفیران، ہاؤسنگ، مواصلات امور کشمیر و دیگر غیر اہم محکمے ایسے ہیں، جن کا پورے ملک سے واسطہ نہیں اور ان کے وزیر زیادہ وقت اسلام آباد ہی میں گزارتے ہیں یا محکماتی دورے کرنے بڑے شہروں میں قدم رنجہ فرمالیتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی کا جو اجلاس طلب کیا گیا تھا اس میں ارکان نے وزیراعظم کی صحت یابی کے علاوہ وفاقی وزیروں کی بھی شکایت کی کہ وہ ارکان اسمبلی کے ساتھ اچھے رویے سے پیش نہیں آتے۔ ایک رکن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔ جب وفاقی وزیروں کا رویہ ارکان اسمبلی کے ساتھ یہ ہوگا تو وہ اسلام آباد سے باہر اپنے حلقے کے علاوہ باقی ملکی علاقوں کو کیوں اہمیت دیں گے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ کے علاوہ جو قائمہ کمیٹیاں آئینی طور پر بنائی گئی ہیں ان کے اجلاسوں میں شریک ہونے کے وفاقی وزرا پابند ہیں مگر مگر وہ وہاں جانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ تک کو نظرانداز کرنے پر وہاں ارکان احتجاج کرتے رہتے ہیں مگر وفاقی وزیروں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ وزارت داخلہ اور وزارت پانی و بجلی موجودہ حالات میں سب سے اہم محکمے ہیں کیونکہ ملک بھر میں سب سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کی شکایات ہیں۔ بجلی کے دو وزیر عوام میں لوڈشیڈنگ کی شکایات کے باعث نہیں جاتے تو وفاقی وزیر امن و امان کو صوبائی مسئلہ قرار دے کر جان چھڑا لیتے ہیں۔
شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے والوںکو بہت مشکلات کا سامنا ہے مگر وفاقی وزیر کراچی ہی بہت کم آتے ہیں تو اندرون ملک اپنے محکمے کے دفاتر میں کیوں جائیں گے انھوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کو ہی اپنے محکمے سے متعلق شکایات کا حل سمجھ رکھا ہے۔ اب بھی وقت ہے وزیراعظم اپنے وزیروں کو اسلام آباد سے نکل کر اندرون ملک جانے کا حکم دیں کیونکہ ہر ایک کے لیے اسلام آباد جانا تو ممکن نہیں مگر وفاقی وزیروں کا اندرون ملک کا دورہ ضروری اور آسان ہے۔