قیام امن مزید اقدام کا متقاضی
ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے اصل متحرکات کا جائزہ لیا جائے
نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوا۔ کس قدر خوف، استعجاب، خدشات، وسوسے، اندیشے، شکوک و شبہات اور امکانات پنہاں ہیں محض اس ایک جملے میں۔
سانحہ کوئٹہ کے قیامت خیز اور اندوہناک واقعے میں 73 شہید اور درجنوں زخمی ہونے کے بعد اب اس ایک جملے کی گونج مختلف رہنماؤں، سیاستدانوں اور بعض عوامی حلقوں کی جانب سے بھی چہارسو اور مسلسل سنائی دے رہی ہے۔ میڈیا پر یہی بحث و مباحثہ جاری ہے، دعوؤں اور زمینی حقائق، نیز حالات و واقعات کو پیش نظر رکھیں تو فطری طور پر سوالات تو جنم لیتے ہیں، واقعات وقفے وقفے سے لیکن مسلسل رونما ہورہے ہیں اور جب بھی کوئی سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے ہم یہی کہتے ہیں کہ یہ شکست خوردہ، بھاگتے، مٹھی بھر دشمن کی بزدلانہ کارروائی ہے، لیکن کارروائی ہر بار چیخ چیخ کر ہماری ایجنسیوں، سیکیورٹی اداروں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی، نیز ہمارے نیشنل ایکشن پلان پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیتی ہے۔ ہر سانحے کے بعد تیزی نظر آتی ہے، حکومت یکدم متحرک ہوجاتی ہے، دھڑا دھڑ اجلاس کا انعقاد ہوتا ہے، دشمن سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے، بیانات ایسے دیے جاتے ہیں گویا آیندہ ایک چڑیا بھی پر نہ مار سکے گی، لیکن کچھ ہی عرصے بعد پھر ایک قیامت ٹوٹ پڑتی ہے، پھر کوئی نیا سانحہ ہمیں منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔
روز بیسیوں افراد مختلف الزامات میں گرفتار کیے جا رہے ہیں، جیلیں بھر رہی ہیں، مقدمات چل رہے ہیں، مختلف سزائیں اور پھانسیاں بھی ہورہی ہیں، مقابلے بھی جاری ہیں، گویا آبادی کا پچیس فیصد دہشتگردوں اور تخریب کاروں ہی پر مشتمل ہو جیسے۔ لیکن دہشتگردی کا عفریت قابو میں آکر نہیں دے رہا، دہشتگرد اپنی پرانی منصوبہ بندی کے تحت نئے حملے کرکے اپنے وجود اور آزادی کا مسلسل ثبوت دے رہے ہیں، پہلے کسی اہم شخصیت کو نشانہ بنایا اور جب سب اس کے لیے جمع ہوئے تو اجتماع کو بھی نشانہ بنا ڈالتے ہیں، اس طرز کی کارروائیاں پہلے بھی کئی بار ہوئی ہیں لیکن روک تھام ندارد۔ یہ سوالات بھی جنم لیتے ہیں کہ اگر اصل دہشت گرد گرفتار ہیں۔
سزائیں کاٹ رہے ہیں، سولی بھی چڑھ رہے ہیں تو پھر پرانی ہی منصوبہ بندی کے تحت یہ نئے حملے بھلا کون کر رہا ہے؟ کیا کوئی پروڈکشن فیکٹری ہے کہ جتنے گرفتار ہوتے ہیں اتنے ہی مارکیٹ میں نئے آجاتے ہیں، یا جو گرفتار ہیں وہ اصل دہشتگرد نہیں صرف خانہ پری ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو بے گناہ افراد کی ساری زندگی عدالتوں میں اپنی مظلومیت اور معصومیت ثابت کرنے میں گزر جائے گی اور اصل دہشت گرد بے فکر ہوکر یونہی اپنی کارروائیاں کرتے رہیں گے۔ ہر نیا سانحہ اس امر کی ضرورت کو دہراتا اور باور کراتا ہے کہ اصل دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالا جائے، انھیں گرفتار کیا جائے، محض الزامات کی بارش اور باہم دست و گریباں ہونے سے حاصل کچھ نہیں۔ سپریم کورٹ بھی کہہ رہا ہے کہ کراچی بدامنی کیس میں اداروں نے اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کیں۔
دہشتگردی اور تخریب کاری کی روک تھام کے ضمن میں کیا یہی ہماری سنجیدگی کا مظہر ہے کہ نیکٹا کی عمر 8 برس ہوچکی ہے لیکن تاحال کوئی ایک اجلاس بھی عمل میں نہیں لایا گیا، ادارہ بنایا تو اس سے کام لینا بھی حکومت ہی کا فرض تھا اور ہے، لیکن حکومتی عدم دلچسپی کے باعث یہ ادارہ فعال نہیں، نیز نیکٹا ہی نہیں دیگر ادارے بھی کتنی ذمے داری اور دیانت داری سے اپنا فرض منصبی ادا کر رہے ہیں اور ہم کس حد تک ان سے کام لے پا رہے ہیں؟ اس کا بھی حقیقی معنوں میں جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔
ملکی امن و سلامتی کے ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کا بیان بھی قابل غور ہے، فرماتے ہیں کہ ''دہشتگردی کے سفاکانہ واقعات نے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے، ملک سیکیورٹی اسٹیٹ بن چکا ہے، دہشتگردوں کو لگام دینے والا کوئی نہیں، دہشتگردی کے اندوہناک اور دردناک واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے، ناقص اقدامات کی وجہ سے دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، جو لمحہ فکریہ ہے ، اگر حکومت دہشت گردی کے سدباب اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں سنجیدہ ہے تو نیشنل ایکشن پلان کو عملی جامہ پہنائے اور بلا امتیاز کارروائیوں کو تیز اور یقینی بنائے''۔
آرمی چیف کی زیر صدارت جی ایچ کیو میں ملکی صورتحال کے پیش نظر اہم اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے سے آپریشن ضرب عضب پر اثر پڑ رہا ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت بھی سیاسی و عسکری قیادت کا 6 گھنٹے طویل اجلاس ہوا جس میں نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کے لیے ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
بہرحال جہاں یہ حقیقت ہے کہ ہم طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنی گمبھیر جنگ سے نبرد آزما ہونا اتنا آسان کام نہیں۔ دہشتگردی کے واقعات میں کمی آئی ہے تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ملکی سلامتی مزید مشکل فیصلوں کی متقاضی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد اور ضرب عضب کی قربانیاں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ آپریشن کا دائرہ وسیع کرکے ملک گیر کردیا جائے، کیا دوسرے صوبوں کو اپنا امن پیارا اور عوام کی جان، مال، عزت و آبرو عزیز نہیں؟ پھر وہ کیوں نہیں اپنے شہروں اور صوبوں کو دہشتگردی کے اثرات اور امکانات سے محفوظ کرنے کے لیےآپریشن کا دائرہ وسیع نہیں کرتے؟ تمام شہریوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ انھیں فی الفور یقینی تحفظ فراہم کیا جائے، صدر سپریم کورٹ بار سید علی ظفر نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ آپریشن کا دائرہ پنجاب تک پھیلایا جائے، پنجاب میں منظم کارروائی تک کومبنگ آپریشن کامیاب نہیں ہوگا۔
علاوہ ازیں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ جب تک آپریشن ملک گیر سطح پر اور تمام تر سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر نہیں کیا جائے گا نتائج بے سود ہی رہیں گے نیز جب تک حکومت اداروں کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتی رہے گی، ہمارا اتحاد یونہی پارہ پارہ اور توانائیاں بتدریج ضایع ہوتی رہیں گی، ضرب عضب کی کامیابیوں کو برقرار رکھنے اور ایکشن پلان کو موثر اور کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم باہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، ایک دوسرے کو گلے لگائیں، گلے شکوے سب بھلائیں، یہ آپریشن صرف اسلحے کے زور پر کامیاب نہیں ہوگا بلکہ اس کی کامیابی کثیر الجہتی فیصلوں کی متقاضی ہے، ایسے کثیر الجہتی فیصلے جو زندگی کے ہر رخ، ہر پہلو میں، انفرادی و اجتماعی اور قومی و بین الاقوامی سطح پر ہماری نمایندگی اور رہنمائی کریں، ایکشن پلان کو مضبوط اور ضرب عضب کو کامیابی سے ہمکنار کریں، ہمارا مستقبل اس مادر وطن سے وابستہ ہے، جس کے لیے ہمیں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، یہ وطن ہمارا ہے ہمیں ہی اس کی پاسبانی کے فرائض بھی انجام دینے ہیں۔
ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے اصل متحرکات کا جائزہ لیا جائے، ان محرکات کا خاتمہ کیا جائے جو دہشت گردی کی بنیاد بنتے ہیں، اس نقطے کو بھی سمجھا جائے کہ آخر اتنی نفرتیں کس وجہ سے جنم لیتی ہیں کہ دوسروں کی جانیں لینے کے لیے لوگ خود کو فنا کرنے پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں، دشمنیاں نسل در نسل آخر کیوں چلتی رہتی ہیں، امن جنگ میں کیوں بدل جاتا ہے، دائمی اور پائیدار امن کیسے اور کیونکر حاصل کیا جاسکتا ہے، ہم سب کو مل کر سوچنا ہوگا اپنے لیے، اپنی آنیوالی نسلوں کے لیے، اپنے اپنے وطن کے لیے اس دنیا کی بقا اور اس میں آباد تمام بنی نوع انسانیت کی ترقی، سکون اور خوشحالی کے لیے، اپنے آج اور آنیوالے کل کے لیے۔