آخری نظام

میر عثمان علی خاں کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کس قدر دولت کے مالک ہیں۔


Rafiuzzaman Zuberi December 04, 2012

لاہور: ماہ مارچ 1934 کے ابتدائی ایام تھے، ولی عہد کی رہائش گاہ ''بیلا وستا'' سے اعظم جاہ اور درِ شہوار کو لے کر موٹروں کا قافلہ نظام دکن کے محل کنگ کوٹھی کی طرف چلا۔ محل کے پردہ گیٹ پر نظام کے ذاتی محافظوں نے جو ڈھیلے ڈھالے نیلے پتلونوں اور سنہری کام والے سرخ کوٹوں میں ملبوس تھے، سلامی پیش کی اور دروازے پر پڑے ہوئے بھاری پردے ہٹا دیے۔ اعظم جاہ اور درِ شہوار اتر کر محل میں داخل ہوئے، جہاں نظام میر عثمان علی خاں بڑے ذوق و شوق سے ان کی راہ دیکھ رہے تھے، شہزادی درِ شہوار کے ہاتھ میں ایک پنگھوڑا تھا جس میں نفیس باریک ململ میں لپٹا ہوا آصف جاہی خاندان کا آیندہ حکمراں... برکت مکرم جاہ محو خواب تھا۔

میر عثمان علی خاں نے چھ ماہ کے شہزادے کو دیکھا اور جھک کر اس کی پیشانی کو چوم لیا۔ شہزادے نے آنکھیں کھول دیں اور دادا کے چہرے پر مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی۔

برکت مکرم جاہ کی پیدائش میلوں دور فرانس میں ہوئی تھی، لیکن پیدائش کا جشن حیدرآباد میں منایا گیا تھا۔ توپوں کی سلامی سے شہر گونج اٹھا تھا، عوام میں مٹھائی تقسیم کی گئی تھی اور رات زبردست آتش بازی ہوئی تھی۔ شاہی فرمان جاری ہوا تھا اور ریاست بھر میں ایک دن کی چھٹی کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

فرانس سے جہاں درِ شہوار کے والد، ترکی کے آخری خلیفہ سلطان عبدالمجید مقسم تھے جیسے ہی شہزادے کی پیدائش کی خبر حیدر آباد پہنچی فوراً تار کے ذریعے وائسرائے ہند، لارڈ ولنگڈن کو اطلاع دی گئی، لارڈ ولنگڈن نے تاج برطانیہ کی طرف سے جواب میں مبارکباد کا پیغام بھیجا۔

جان زبرزکی (John Zuberzeki) نے اپنی دلچسپ کتاب ''دی لاسٹ نظام'' میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس وقت اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا، لیکن کنگ کوٹھی محل کے مکینوں اور نئی دہلی میں وائسرائے کے دفتر کو میر عثمان علی خاں کے اس فیصلے کا علم تھا کہ حیدر آباد کا اگلا نظام ان کا بیٹا اعظم جاہ نہیں، ان کا پوتا مکرم جاہ ہو گا۔ اعظم جاہ کی فضول خرچیاں اور عیاشیاں نظام کی ناپسندیدگی کا باعث تھیں، لیکن ان کے اس فیصلے کی اصل وجہ ننھے شہزادے کا نسب تھا، اہمیت اس کی ہی تھی۔ اعظم جاہ کے فرزند کو جو ابھی گھٹنے دینے کے قابل بھی نہ ہوا تھا، ایسی عالی نسبی حاصل تھی جو اس کے باپ کو نصیب نہیں تھی۔ مکرم جاہ کا نسب ماں کی طرف سے حضرت صدیق اکبرؓ تک اور دادی کی طرف سے خود جناب رسالت مآبؐ تک جاتا تھا۔ میر عثمان علی خاں سمجھتے تھے کہ سرکار دو عالمؐ اور خلیفۂ اوّل سے اس نسبی تعلق نے مکرم جاہ کو عالم اسلام کا روحانی رہنما اور ہندوستان کی سب سے بڑی مسلمان ریاست کا فرمانروا بننے کا اہل بنا دیا ہے، خلافت اب اس کی پہنچ میں ہے۔ کوئی دوسرا اس مقام کا حقدار نہیں بن سکتا۔

جان زبرزکی نے جو ایک انعام یافتہ آسٹریلوی صحافی ہیں، بہت سال ہندوستان میں گزارے ہیں۔ انھوں نے حیدرآباد کے آٹھویں اور آخری نظام کے حالات زندگی خود ان سے سن کر اور پھر حیدرآباد جا کر تحقیق کر کے لکھے ہیں۔ یہ مکرم جاہ کی زندگی کی داستان ہی نہیں ہندوستان میں آصف جاہی خاندان کے زوال اور مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست کی جس کی اپنی فوج اور اپنی پولیس، اپنی ریل، اپنا مالیاتی نظام اور اپنا سکّہ تھا، تباہی کی عبرتناک کہانی بھی ہے۔

مکرم جاہ محض نام کے ہزایگزالٹیڈ ہائنس، رستم دوراں، ارسطوئے زماں، فاتح ملک آصف جاہ ہشتم رہ گئے اور پھر جب وہ ایک دن اپنے خادم سے یہ کہہ کر نماز کے لیے مسجد جا رہے ہیں، گولکنڈہ کے ہیرے، دولت کے انبار اور عالی شان محلات چھوڑ کر چپکے سے آسٹریلیا کے ویران جنگل میں بل ڈوزر چلانے کے لیے حیدر آباد سے نکل گئے تو یہ القابات اور خطابات بھی تاریخ کے صفحات میں گم ہو گئے۔

برٹش گورنمنٹ نے نظام کے اس فیصلے کو کہ وقت آنے پر برکت مکرم جاہ کے خلیفۃ المسلمین ہونے کا اعلان کر دیا جائے گا اس لیے خاموشی سے قبول کر لیا تھا کیونکہ میر عثمان علی خاں نے سلطان عبدالمجید کے انتقال کے بعد خود اپنے آپ کو خلیفہ قرار دینے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا، اس سے چھٹکارا مل جائے گا۔ پھر یہ ہوا کہ اس کی نوبت ہی نہ آئی کیونکہ دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اور دنیا ایک نئے انقلاب کے دہانے پر پہنچ گئی۔

جان زبرزکی لکھتا ہے کہ ترکی میں خلافت کے خاتمے اور سلطان عبدالمجید کی فرانس میں جلا وطنی کے بعد مولانا شوکت علی خاں اور مارماڈیوک پکتھال نے جنھیں نظام نے قرآن مجید کے انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لیے حیدر آباد بلایا ہوا تھا، خاموشی سے یہ کوشش شروع کر دی تھی کہ میر عثمان علی کو خلیفہ بنا کر سلطان کا خطاب دے دیا جائے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عثمان علی خاں یہ سمجھنے لگے تھے کہ اب دنیا کی سب با اثر اسلامی ریاست کے حکمراں کی حیثیت سے وہ اس منصب کے حقدار ہیں۔ شہزادی درِ شہوار کی ولی عہد دکن سے اور ان کی کزن نیلوفر کی ان کے چھوٹے بھائی معظم جاہ سے شادی بھی اس منصوبے کے تحت ہوئی تھی۔ ہندوستان میں انگریزی اقتدار کے خاتمے سے یہ تمام منصوبے اور خواہشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ دہلی میں نئی حکومت نے فوج کشی کر کے نظام کو اقتدار سے محروم ہی نہیں ریاست حیدر آباد کو ہی ختم کر دیا۔ برطانوی حکومت سے کیے ہوئے سارے قول و قرار اور معاہدے جن پر نظام کو بھروسہ تھا بیکار ثابت ہوئے۔

مکرم جاہ اس المناک واقعہ کو دیکھنے اور مسلمانوں کے ہندوستانی فوج کے ہاتھوں قتل کی داستانیں سننے کے لیے حیدر آباد میں نہیں تھے۔ ہندوستانی فوج کے حیدر آباد پر حملے سے چند دن پہلے درِ شہوار اپنے دونوں بیٹوں، مکرم اور مفخم کو لے کر ایک ڈکوٹا ہوائی جہاز سے کراچی آئیں اور پھر یہاں سے کمرشل فلائٹ میں لندن پہنچ گئیں۔ نظام نے بہت چاہا کہ وہ ان کے دونوں پوتوں کو حیدرآباد واپس بھیج دیں لیکن درِ شہوار نے صاف انکار کر دیا۔ ان کے سامنے اب سب سے اہم معاملہ ان دونوں کی تعلیم کا تھا۔ اس کے لیے انھوں نے ہیرو کے پبلک اسکول کا انتخاب کیا۔ یہاں مکرم جاہ کی ملاقات عراق کے فیصل اور ان کے کزن اردن کے حسین سے ہوئی اور ایک طویل دوستی میں بدل گئی۔ سینڈھرسٹ سے پھر انھوں نے ایک ساتھ گریجویشن کی۔

25 جنوری 1950 کو میر عثمان علی خاں اور ہندوستان کی نئی حکومت کے درمیان جس معاہدے پر دستخط ہوئے اس سے مکرم جاہ بے خبر تھے۔ انھیں معلوم نہ تھا کہ اس معاہدے کے بعد ان کی زندگی یکسر بدل جائے گی۔ اس معاہدے کی دفعہ 4 میں کہا گیا تھا کہ میر عثمان علی خاں کی جائیداد مال و دولت شرعی قانون کے تحت تقسیم نہیں ہو گی۔ مکرم جاہ تنہا اس کے وارث ہوں گے۔

میر عثمان علی خاں کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کس قدر دولت کے مالک ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں