رمضان اور دوزخ کے خریدار

ماہِ مبارک میں تجارت سے وابستہ بعض لوگ جائز و ناجائز طریقے سے...

mjgoher@yahoo.com

رمضان المبارک کا مقدس و بابرکت مہینہ شروع ہوچکا ہے۔ آسمان سے ربِ کائنات کی خصوصی نوازشوں کا نزول جاری ہے۔ ماہِ صیام سے ہر روزہ دار کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادات و نیکیاں کمانے اور توبہ و استغفار میں گزارے لیکن دوسری جانب رحمتوں اور برکتوں کے اس ماہِ مبارک میں تجارتی و کاروباری طبقے سے وابستہ بعض لوگ ہر جائز و ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے حوالے سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا مقابلہ شروع کردیتے ہیں، نتیجتاً سبزیوں، پھلوں، مشروبات، تیل، گھی، چینی اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے،

جس سے عام آدمی بالخصوص کم آمدنی والے لوگ بری طرح متاثر ہوتے ہیں، ان کی قوتِ خرید جواب دے جاتی ہے۔ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ماہ میں عوام خریداری بھی زیادہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پیداواری صلاحیت سے زیادہ خریداری ہو گی تو مہنگائی میں اضافہ لازمی ہو جائے گا۔ اس ماہ میں سموسے' پکوڑے 'دہی بھلے اور فروٹ چاٹ کی خریداری میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا ہے۔یوں ان اشیاء کی مہنگائی ہونا لازمی ہو جاتا ہے۔ اگر معاملات زندگی معمول کے مطابق رہیں اور رمضان میں اصراف سے بچا جائے تو مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن عوام شاید اس حوالے سے نہیں سوچتے۔

آپ پاکستانی معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر امیر اور غریب دو واضح طبقوں میں منقسم ہے۔ طبقۂ امرا کے لوگ تو ہمیشہ سے مالی طور پر خاصے مستحکم ہیں لیکن غریب و عام آدمی اوّل دن سے محرومیوں اور قرضوں کی فصل کاٹ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امراء کے لیے ہر روز، روزِ عید ہے اور وہ اپنے لامحدود وسائل و نادیدہ ذرایع سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل کرلیتے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی کی ہر شے خواہ کتنی ہی مہنگی ہو ان کی دسترس میں ہوتی ہے، اسی باعث رمضان المبارک میں مہنگائی کے اچانک آنے والے بلند نرخوں کے سونامی سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا،ویسے بھی امرا کا طبقہ جس انداز میں زندگی گزارتا ہے ' اس میں ماہ رمضان کے دوران بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ماہ رمضان ہو یا سال کے دوسرے مہینے ان کے کچن میں کئی کئی کھانے تیار ہوتے ہیں۔ مہمانداری بھی جوں کی توں رہتی ہے۔ ملبوسات بھی ہو سارا سال خریدتے رہتے ہیں۔

اس لیے ان کی زندگی پر رمضان المبارک کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن ہمارے معاشرے کا متوسط بالخصوص غریب و نادار طبقہ جو گزشتہ چھ دہائیوں سے مستقل افلاس، بھوک، غربت، بے روزگاری اور پس ماندگی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، وہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں مہنگائی و گرانی کے طوفان میں گھرا روز مرنے اور روز جینے کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔ ان کے دستر خوان امراء جیسی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں، غربا کے سحر و افطار کے مقابلے میں امیروں کے سحر و افطار انواع و اقسام کے کھانوں و نعمتوں سے سجے رہتے ہیں۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ غیر مسلم قومیتوں سے وابستہ تجارتی و کاروباری طبقے کے لوگ اپنے قومی و مذہبی تہواروں کے موقعوں پر اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے بجائے ان کے نرخ رضاکارانہ طور پر ازخود کم کردیتے ہیں تاکہ غریب و عام لوگ بھی روایتی مذہبی تہواروں کی خوشیوں میں سب کے ساتھ شریک ہوسکیں اور ان میں احساسِ محرومی پیدا نہ ہو لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود رمضان المبارک جیسے مقدس،


بابرکت اور رحمتوں والے مذہبی مہینے میں اپنے نادار، غریب، مفلس، پس ماندہ اور افلاس زدہ لاچار لوگوں میں خوشیاں بانٹنے کے بجائے ان کی کھال اتارنے اور اپنی تجوریاں بھرنے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔ کیا ہمارے پیارے دینِ اسلام کی یہی تعلیمات ہیں؟ ابھی رمضان کا مہینہ شروع ہی ہوا ہے کہ سبزیوں، پھلوں، گھی، تیل، چینی، چاول، دالوں اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ موقع پرست ذخیرہ اندوزوں نے اپنے گوداموں کو اشیائے صرف سے بھرلیا ہے اور چند روزوں کے بعد ان اشیاء کو بازار میں لا کر مہنگے داموں فروخت کریں گے۔

ایسا لگتا ہے کہ ماہِ صیام کے آتے ہی ہر چیز کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں، ہر دکان دار صبح اٹھ کر اشیائے زندگی کے اپنی مرضی کے نرخ مقرر کردیتا ہے، بالخصوص پھل فروٹ کی قیمتوں میں تو اس قدر ہوشربا اور ناقابلِ یقین اضافہ کردیا جاتا ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے انھیں خریدنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ روزہ دار فروٹ کی قیمتیں سن کے کانوں کو ہاتھ لگالیتے ہیں۔ پرچون کی اشیاء کے نرخ بھی رمضان المبارک کے آتے ہی آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ حکومت ہر سال اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے دعوے کرتی ہیں جس کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ حسب روایت اس مرتبہ بھی حکومت سندھ نے رمضان المبارک میں گراں فروشوں کے خلاف کارروائی کے لیے صوبے بھر کے ڈپٹی کمشنرز اور تعلقہ سب ڈویژن کے اسسٹنٹ کمشنرز کو اسپیشل مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن افسوس کہ گراں فروش مافیا کے سامنے سارے حکومتی اقدامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور دکان دار حضرات بڑے دھڑلے کے ساتھ اپنی مرضی کی قیمتوں کے مطابق اشیائے خورونوش فروخت کرتے ہیں جو روزہ داروں کی قوتِ خرید سے باہر ہوتی ہیں۔

حکومت ''رمضان پیکیج'' کے تحت لوگوں کو ارزاں قیمتوں پر اشیائے ضرورت کی فراہمی کے لیے اربوں روپے کی سبسڈی دیتی ہے جس کا اطلاق صرف یوٹیلٹی اسٹور پر ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز کی پورے پاکستان میں تعداد کتنی ہے؟ کیا ملک کے کروڑوں غریب لوگ یوٹیلٹی اسٹورز سے استفادہ کرسکتے ہیں؟ کیا حقیقتاً وہاں تمام اشیائے ضرورت اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں ارزاں قیمتوں پر اور معیاری و وافر مقدار میں ملتی ہیں؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پورے ملک میں یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد ڈھائی تین ہزار کے لگ بھگ ہے اور زیادہ تر یوٹیلٹی اسٹورز شہروں میں قائم کیے گئے ہیں جب کہ ہماری آبادی کا بڑا حصّہ اور غریب طبقہ گائوں، قصبوں اور دیہاتوں میں آباد ہیں

جہاں یوٹیلٹی اسٹور نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اوّل تو یوٹیلٹی اسٹورز کا دائرہ وسیع کرکے اس کا نیٹ ورک قصبوں و دیہاتوں تک پھیلادیا جائے، دوم اوپن مارکیٹ میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور گراں فروش مافیا کے خلاف کارروائی کے لیے ایک ایسا فول پروف اور مستقل بنیادوں پر میکنزم بنائے جو صرف رمضان المبارک تک محدود نہ ہو بلکہ پورے سال یہ سلسلہ چلتا رہے تاکہ غریب اور عام آدمی کو مہنگائی کے عفریت سے نجات دلائی جاسکے اور گراں فروش مافیا کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جاسکے۔

رمضان کے مقدس مہینے میں ایک طرف تو عوام گراں فروش مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب شیطان صفت دہشت گردوں نے شہرِ قائد میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کراچی میں آٹھ دس افراد کا روزانہ قتل ہونا اور اغوا، ڈکیتی و بھتہ خوری کی وارداتیں معمول بنتی جارہی ہیں۔ رمضان کے تقدس کو بری طرح پامال کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ حکومت سندھ رینجرز اور پولیس کی معاونت کے باوجود کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی ہے۔ روزہ دار تو نیکیاں کرکے جنّت کا سودا کررہے ہیں لیکن گراں فروش اور دہشت گرد رمضان میں بھی دوزخ کی خریداری کا سامان کررہے ہیں۔
Load Next Story