نئی حلقہ بندیوں کے لیے حکمت عملی تیار
پیپلزپارٹی کے خلاف سندھ میں مخالفانہ سیاسی فضا کسی حد تک تحلیل ہونے لگی ہے .
کراچی بدامنی کیس میںسپریم کورٹ آف پاکستان کے 2011ء کے فیصلے کے مطابق کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ اس وقت سب سے زیادہ موضوع بحث بنا ہواہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری اشتیاق احمد خان نے اس ضمن میں حکومت سندھ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ اجلاس منعقد کرکے نئی حلقہ بندیوں کے لیے حکمت عملی وضع کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوںنے 15بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ طویل مشاورت بھی کی۔ الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اپنی تحریری تجاویز دیں، سیکریٹری الیکشن کمیشن کے مطابق 15میں سے 14 سیاسی جماعتوں نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا جبکہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے تحفظات کا اظہار کیا۔
اشتیاق احمد خان نے بتایا کہ ایم کیو ایم کا یہ موقف تھا کہ سپریم کورٹ کا حکم تحریری طور پر دکھایا جائے جبکہ نئی حلقہ بندیاں نئی مردم شماری کے بعد ہونی چاہئیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ کراچی میں اس طرح حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں کہ یہاں رہنے والی تمام آبادیوں کو نمائندگی مل سکے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اور حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق رائے کیسے پیدا کرے کیونکہ سندھ میں اس کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کو نئی مردم شماری کے بغیرنئی حلقہ بندیوں پر سخت اعتراض ہے۔ پیپلزپارٹی نے اگرچہ نئی حلقہ بندیوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے لیکن پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل تاج حیدر نے چیف الیکشن کمشنر کے نام اپنے خط میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ نئی حلقہ بندیاں صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے سندھ میں کی جائیں کیونکہ سندھ میں بھی کوئی انتخابی حلقہ ایسا نہیں ہے جہاں حلقہ بندیوں کے لیے تسلیم شدہ اصولوں کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔
گویا انہوںنے اس حد تک ایم کیو ایم کے موقف کی حمایت کی ہے کہ صرف کراچی کو ہی کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر مذہبی امور سیدخورشید شاہ نے بھی سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ ادھر سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوگا اور کراچی میں نئی حلقہ بندیاں ہر صورت میںہوںگی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کے پاس ایم کیو ایم سے معذرت کا جواز موجود ہے کہ یہ عدالت کا معاملہ ہے، اس میں وہ کچھ نہیں کرسکتی۔
ایم کیو ایم کے زیراہتمام کراچی سمیت 39 شہروں میں عوامی اجتماعات منعقد کیے گئے جن سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ٹیلفونک خطاب کیا۔ان اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ کس حلقے میں کس کی اکثریت ہوگی یا کس کی اکثریت نہیں ہوگی۔ اس بات کا فیصلہ جج حضرات نہ کریں بلکہ یہ فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔ انہوںنے کئی حلقہ بندیوں کو ایم کیو ایم کا مینڈیٹ توڑنے کی سازش قرا ردیا۔ الطاف حسین نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق فیصلے پر تنقید کی اور کہا کہ عوام نئی حلقہ بندیوں اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے احکام مسترد کرتے ہیں۔
کراچی میں خونریزی اور ٹارگٹ کلنگ میں پھر تیزی آگئی ہے۔ پوری حکومتی مشینری نہ صرف کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے متعدد اقدامات کرنے میں مصروف ہے بلکہ وہ خود بھی حالات کو کنٹرول کرنے کی غرض سے غیرمعمولی کوششیں کررہی ہے۔ لیکن کراچی میں کسی بھی طرح لوگوں کو جان ومال کا تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے لیے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے دوبارہ کراچی میں بیٹھ کر ایک سال بعد کیس کی سماعت شروع کی اور متعلقہ حکام کو بلاکر ان کی سرزنش کی۔ فاضل بنچ نے بعض اقدامات کے لیے ٹائم فریم بھی دیا ہے۔
اس فیصلے پر عملدرآمد کی نگرانی بھی خود عدالت کررہی ہے لہٰذا اکثر سیاسی حلقے یہ محسوس کررہے ہیں کہ اگر فیصلے پر عملدرآمد ہوجائے تو اس کے دوررس مثبت نتائج ہوںگے لیکن بعض حلقے یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ کراچی میں پہلے براہ راست آپریشنز کے دوران فوج، پولیس اور رینجرز کو استعمال کیا گیا لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ اب اگر عدالتی فیصلے کے بھی مطلوبہ نتائج نہ نکلے تو پھر کراچی کا کیا ہوگا۔
سندھ میں نئے بلدیاتی نظام اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی خواتین ارکان کے ساتھ مبینہ بدتمیزی کے خلاف 30نومبر کو حروں کے روحانی پیشوا مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ پیرپگارا اور سندھ بچاؤ کمیٹی کی طرف سے صوبے میں ہڑتال کی گئی جو کراچی کے سوا پورے سندھ میں ایک بھرپور اور کامیاب ہڑتال تھی۔ کراچی کے صرف مضافاتی علاقوں میں ہڑتال ہوئی جبکہ کراچی سمیت پورے سندھ میں احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا بھی انعقاد کیا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جو سندھ بچاؤ کمیٹی میں بھی شامل ہے قوم پرستوں سے اتحاد کرکے سندھ میں سیاست کے لیے اپنی جگہ بنالی تھی لیکن کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے نے صورت حال ایک بار پھر تبدیل کرلی ہے۔ قوم پرست جماعتیں نہ صرف میاں نوازشریف سے کالاباغ ڈیم پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں بلکہ پیپلزپارٹی کے خلاف سندھ میں مخالفانہ سیاسی فضا کسی حد تک تحلیل ہونے لگی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی اور قوم پرستوں کا کالاباغ ڈیم کے خلاف ایک ہی مؤقف ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری اشتیاق احمد خان نے اس ضمن میں حکومت سندھ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ اجلاس منعقد کرکے نئی حلقہ بندیوں کے لیے حکمت عملی وضع کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوںنے 15بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ طویل مشاورت بھی کی۔ الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اپنی تحریری تجاویز دیں، سیکریٹری الیکشن کمیشن کے مطابق 15میں سے 14 سیاسی جماعتوں نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا جبکہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے تحفظات کا اظہار کیا۔
اشتیاق احمد خان نے بتایا کہ ایم کیو ایم کا یہ موقف تھا کہ سپریم کورٹ کا حکم تحریری طور پر دکھایا جائے جبکہ نئی حلقہ بندیاں نئی مردم شماری کے بعد ہونی چاہئیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ کراچی میں اس طرح حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں کہ یہاں رہنے والی تمام آبادیوں کو نمائندگی مل سکے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اور حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق رائے کیسے پیدا کرے کیونکہ سندھ میں اس کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کو نئی مردم شماری کے بغیرنئی حلقہ بندیوں پر سخت اعتراض ہے۔ پیپلزپارٹی نے اگرچہ نئی حلقہ بندیوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے لیکن پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل تاج حیدر نے چیف الیکشن کمشنر کے نام اپنے خط میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ نئی حلقہ بندیاں صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے سندھ میں کی جائیں کیونکہ سندھ میں بھی کوئی انتخابی حلقہ ایسا نہیں ہے جہاں حلقہ بندیوں کے لیے تسلیم شدہ اصولوں کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔
گویا انہوںنے اس حد تک ایم کیو ایم کے موقف کی حمایت کی ہے کہ صرف کراچی کو ہی کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر مذہبی امور سیدخورشید شاہ نے بھی سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ ادھر سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوگا اور کراچی میں نئی حلقہ بندیاں ہر صورت میںہوںگی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کے پاس ایم کیو ایم سے معذرت کا جواز موجود ہے کہ یہ عدالت کا معاملہ ہے، اس میں وہ کچھ نہیں کرسکتی۔
ایم کیو ایم کے زیراہتمام کراچی سمیت 39 شہروں میں عوامی اجتماعات منعقد کیے گئے جن سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ٹیلفونک خطاب کیا۔ان اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ کس حلقے میں کس کی اکثریت ہوگی یا کس کی اکثریت نہیں ہوگی۔ اس بات کا فیصلہ جج حضرات نہ کریں بلکہ یہ فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔ انہوںنے کئی حلقہ بندیوں کو ایم کیو ایم کا مینڈیٹ توڑنے کی سازش قرا ردیا۔ الطاف حسین نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق فیصلے پر تنقید کی اور کہا کہ عوام نئی حلقہ بندیوں اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے احکام مسترد کرتے ہیں۔
کراچی میں خونریزی اور ٹارگٹ کلنگ میں پھر تیزی آگئی ہے۔ پوری حکومتی مشینری نہ صرف کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے متعدد اقدامات کرنے میں مصروف ہے بلکہ وہ خود بھی حالات کو کنٹرول کرنے کی غرض سے غیرمعمولی کوششیں کررہی ہے۔ لیکن کراچی میں کسی بھی طرح لوگوں کو جان ومال کا تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے لیے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے دوبارہ کراچی میں بیٹھ کر ایک سال بعد کیس کی سماعت شروع کی اور متعلقہ حکام کو بلاکر ان کی سرزنش کی۔ فاضل بنچ نے بعض اقدامات کے لیے ٹائم فریم بھی دیا ہے۔
اس فیصلے پر عملدرآمد کی نگرانی بھی خود عدالت کررہی ہے لہٰذا اکثر سیاسی حلقے یہ محسوس کررہے ہیں کہ اگر فیصلے پر عملدرآمد ہوجائے تو اس کے دوررس مثبت نتائج ہوںگے لیکن بعض حلقے یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ کراچی میں پہلے براہ راست آپریشنز کے دوران فوج، پولیس اور رینجرز کو استعمال کیا گیا لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ اب اگر عدالتی فیصلے کے بھی مطلوبہ نتائج نہ نکلے تو پھر کراچی کا کیا ہوگا۔
سندھ میں نئے بلدیاتی نظام اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی خواتین ارکان کے ساتھ مبینہ بدتمیزی کے خلاف 30نومبر کو حروں کے روحانی پیشوا مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ پیرپگارا اور سندھ بچاؤ کمیٹی کی طرف سے صوبے میں ہڑتال کی گئی جو کراچی کے سوا پورے سندھ میں ایک بھرپور اور کامیاب ہڑتال تھی۔ کراچی کے صرف مضافاتی علاقوں میں ہڑتال ہوئی جبکہ کراچی سمیت پورے سندھ میں احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا بھی انعقاد کیا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جو سندھ بچاؤ کمیٹی میں بھی شامل ہے قوم پرستوں سے اتحاد کرکے سندھ میں سیاست کے لیے اپنی جگہ بنالی تھی لیکن کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے نے صورت حال ایک بار پھر تبدیل کرلی ہے۔ قوم پرست جماعتیں نہ صرف میاں نوازشریف سے کالاباغ ڈیم پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں بلکہ پیپلزپارٹی کے خلاف سندھ میں مخالفانہ سیاسی فضا کسی حد تک تحلیل ہونے لگی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی اور قوم پرستوں کا کالاباغ ڈیم کے خلاف ایک ہی مؤقف ہے۔