کالاباغ ڈیم پر اے این پی کی بدلتی ہوئی سیاست
خیبرپختونخوا اسمبلی 1990 ،1993 اور 1997 ء میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں قراردادیں پاس کرچکی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے احکامات جاری ہونے کے بعد سندھ اور خیبرپختونخوا میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے اور دونوں صوبوں میں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اس حوالے سے گرما گرمی جاری ہے ۔
اے این پی نے ہمیشہ سے کالاباغ ڈیم کی بڑی شدومد کے ساتھ مخالفت کی ہے اور اس مرتبہ بھی اے این پی کا وہی انداز برقرارہے تاہم طریقہ کار تبدیل ہوگیا ہے ،اے این پی نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے کالاباغ ڈیم کے معاملے پر ہمیشہ سڑکوں پر نکلنے اور احتجاج کرنے کا راستہ اپنایا تاہم اب کی بار حکومت میں ہونے کی وجہ سے احتجاج پارلیمانی انداز اور پریس کانفرنسوں تک محدود ہے کیونکہ حکومتی نزاکتوں نے اے این پی کو محتاط انداز میں کھیلنے پر مجبور کردیاہے جبکہ اے این پی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ چونکہ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو خود اس منصوبہ کو دفن کرنے کا اعلان کرچکی ہے اس لیے زیادہ گرمی دکھانے کی فی الحال ضرورت نہیں اسی لیے اے این پی محتاط انداز میں چل رہی ہے ۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اس بات کا امکان ظاہر کیاجارہا تھا کہ یا تو اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ ترین عدالت یعنی سپریم کورٹ سے رجوع کیاجائے گا تاکہ جو فیصلہ سامنے آیا ہے اس کے حوالے سے ریلیف لیا جاسکے یا پھر سیاسی فورمز پر اس کے حوالے سے تکنیکی ماہرین کو اکھٹا کرتے ہوئے صورت حال کو سنبھالا دیاجائے گا، تاہم اے این پی نے یہ کہہ کر عدالتی باب بند کردیا ہے کہ سپریم کورٹ خود اس سلسلے میں نوٹس لے کیونکہ ایک ایسے ایشو کو چھیڑا گیا ہے جسے تین صوبے مسترد کرچکے ہیں ۔
خیبرپختونخوا اسمبلی 1990 ،1993 اور 1997 ء میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں قراردادیں پاس کرچکی ہے اور ان تینوں اسمبلیوں نے متفقہ طور پر یہ قرارداد پاس کی تھی، تاہم موجودہ اسمبلی میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں قرارداد نہیں لائی گئی کیونکہ یہ ایشو ختم ہوجانے کے باعث اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔
تاہم اب جبکہ یہ ایشو ایک مرتبہ پھر زندہ ہوگیا ہے اوراس بات کی ضرورت ہے کہ صوبہ کی عوام کے نمائندوں کے جذبات کو اوپر پہنچایاجائے تو اب قرارداد لانے کے حوالے سے سوچ بچار ہورہی ہے اور اس بارے میں ابھی مزید مشاورت کی جائے گی کیونکہ اے این پی اس معاملے میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتی اور نئی قرارداد لانے میں رسک موجود ہے اس لیے اگر یہ فیصلہ کیا بھی گیا کہ اے این پی یا حکمران اتحاد کالاباغ ڈیم کے خلاف صوبائی اسمبلی میں نئی قرارداد لائے تو اس کیلئے بھرپور طریقہ سے منصوبہ بندی کی جائے گی اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ قراراداد متفقہ ہی پاس ہو ۔
چند ماہ قبل جس طریقہ سے تحریک انصاف میں شمولیتوں کی بھرمار تھی اسی طرح ان دنوں پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے ،مسلم لیگ (ن) سے اپنے راستے جدا کرنے والی رکن صوبائی اسمبلی شازیہ اورنگزیب پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی ہیں جنھیں فوری طور پر پارٹی کے صوبائی صدر نے پارٹی کی صوبائی تنظیم میں شامل کرنے کا بھی اعلان کیا اور اب یہ بھی شنید ہے کہ انھیں پارٹی ورکروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے گورنر ہائوس میں بٹھانے کا پروگرام ہے جس پر پارٹی کے اندر پہلے سے موجود خواتین سراپا احتجاج بن گئی ہیں، جنہوں نے اس رویئے کے خلاف پارٹی کی مرکزی رہنما فریال تالپور سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
ان خواتین میں پی پی پی سے تعلق رکھنے والی خواتین ایم پی ایز ہراول دستے کے طور پر شامل ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی میں نئی شمولیتوں سے انھیں اپنا مستقبل تاریک نظر آنا شروع ہوگیا ہے، وہ اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ یہ معاملہ صرف شازیہ اور نگزیب تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کے بعد مسلم لیگ(ق)سے مستعفی ہونے والی خاتون رکن نگہت اورکزئی بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے جارہی ہیں اور ان سطور کی اشاعت تک وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکی ہوں گی جنھیں شعبہ خواتین کے حوالے کرنے کی بجائے انور سیف اللہ اپنی صوبائی ٹیم ہی کا حصہ بنائیں گے اور ان ہی خطرات کو بھانپتے ہوئے شعبہ خواتین سرگرم ہوا ہے ۔
پیپلز پارٹی کے ان شمولیتوں کے سفر میں تحریک انصاف میں کچھ عرصہ قبل ہی شامل ہونے والے افتخار جھگڑا بھی واپس پیپلز پارٹی کا حصہ بن چکے ہیں اور بات صرف یہیں تک ہی محدود نہیں بلکہ تحریک انصاف کے بعض دیگر رہنمائوں کے نام بھی لیے جارہے ہیں کہ وہ بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں اسی طرح دیگر پارٹیوں کا معاملہ ہے، جس کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابات کے حوالے سے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات شروع ہو جائیں گے۔
اے این پی نے ہمیشہ سے کالاباغ ڈیم کی بڑی شدومد کے ساتھ مخالفت کی ہے اور اس مرتبہ بھی اے این پی کا وہی انداز برقرارہے تاہم طریقہ کار تبدیل ہوگیا ہے ،اے این پی نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے کالاباغ ڈیم کے معاملے پر ہمیشہ سڑکوں پر نکلنے اور احتجاج کرنے کا راستہ اپنایا تاہم اب کی بار حکومت میں ہونے کی وجہ سے احتجاج پارلیمانی انداز اور پریس کانفرنسوں تک محدود ہے کیونکہ حکومتی نزاکتوں نے اے این پی کو محتاط انداز میں کھیلنے پر مجبور کردیاہے جبکہ اے این پی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ چونکہ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو خود اس منصوبہ کو دفن کرنے کا اعلان کرچکی ہے اس لیے زیادہ گرمی دکھانے کی فی الحال ضرورت نہیں اسی لیے اے این پی محتاط انداز میں چل رہی ہے ۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اس بات کا امکان ظاہر کیاجارہا تھا کہ یا تو اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ ترین عدالت یعنی سپریم کورٹ سے رجوع کیاجائے گا تاکہ جو فیصلہ سامنے آیا ہے اس کے حوالے سے ریلیف لیا جاسکے یا پھر سیاسی فورمز پر اس کے حوالے سے تکنیکی ماہرین کو اکھٹا کرتے ہوئے صورت حال کو سنبھالا دیاجائے گا، تاہم اے این پی نے یہ کہہ کر عدالتی باب بند کردیا ہے کہ سپریم کورٹ خود اس سلسلے میں نوٹس لے کیونکہ ایک ایسے ایشو کو چھیڑا گیا ہے جسے تین صوبے مسترد کرچکے ہیں ۔
خیبرپختونخوا اسمبلی 1990 ،1993 اور 1997 ء میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں قراردادیں پاس کرچکی ہے اور ان تینوں اسمبلیوں نے متفقہ طور پر یہ قرارداد پاس کی تھی، تاہم موجودہ اسمبلی میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں قرارداد نہیں لائی گئی کیونکہ یہ ایشو ختم ہوجانے کے باعث اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔
تاہم اب جبکہ یہ ایشو ایک مرتبہ پھر زندہ ہوگیا ہے اوراس بات کی ضرورت ہے کہ صوبہ کی عوام کے نمائندوں کے جذبات کو اوپر پہنچایاجائے تو اب قرارداد لانے کے حوالے سے سوچ بچار ہورہی ہے اور اس بارے میں ابھی مزید مشاورت کی جائے گی کیونکہ اے این پی اس معاملے میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتی اور نئی قرارداد لانے میں رسک موجود ہے اس لیے اگر یہ فیصلہ کیا بھی گیا کہ اے این پی یا حکمران اتحاد کالاباغ ڈیم کے خلاف صوبائی اسمبلی میں نئی قرارداد لائے تو اس کیلئے بھرپور طریقہ سے منصوبہ بندی کی جائے گی اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ قراراداد متفقہ ہی پاس ہو ۔
چند ماہ قبل جس طریقہ سے تحریک انصاف میں شمولیتوں کی بھرمار تھی اسی طرح ان دنوں پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے ،مسلم لیگ (ن) سے اپنے راستے جدا کرنے والی رکن صوبائی اسمبلی شازیہ اورنگزیب پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی ہیں جنھیں فوری طور پر پارٹی کے صوبائی صدر نے پارٹی کی صوبائی تنظیم میں شامل کرنے کا بھی اعلان کیا اور اب یہ بھی شنید ہے کہ انھیں پارٹی ورکروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے گورنر ہائوس میں بٹھانے کا پروگرام ہے جس پر پارٹی کے اندر پہلے سے موجود خواتین سراپا احتجاج بن گئی ہیں، جنہوں نے اس رویئے کے خلاف پارٹی کی مرکزی رہنما فریال تالپور سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
ان خواتین میں پی پی پی سے تعلق رکھنے والی خواتین ایم پی ایز ہراول دستے کے طور پر شامل ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی میں نئی شمولیتوں سے انھیں اپنا مستقبل تاریک نظر آنا شروع ہوگیا ہے، وہ اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ یہ معاملہ صرف شازیہ اور نگزیب تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کے بعد مسلم لیگ(ق)سے مستعفی ہونے والی خاتون رکن نگہت اورکزئی بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے جارہی ہیں اور ان سطور کی اشاعت تک وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکی ہوں گی جنھیں شعبہ خواتین کے حوالے کرنے کی بجائے انور سیف اللہ اپنی صوبائی ٹیم ہی کا حصہ بنائیں گے اور ان ہی خطرات کو بھانپتے ہوئے شعبہ خواتین سرگرم ہوا ہے ۔
پیپلز پارٹی کے ان شمولیتوں کے سفر میں تحریک انصاف میں کچھ عرصہ قبل ہی شامل ہونے والے افتخار جھگڑا بھی واپس پیپلز پارٹی کا حصہ بن چکے ہیں اور بات صرف یہیں تک ہی محدود نہیں بلکہ تحریک انصاف کے بعض دیگر رہنمائوں کے نام بھی لیے جارہے ہیں کہ وہ بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں اسی طرح دیگر پارٹیوں کا معاملہ ہے، جس کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابات کے حوالے سے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات شروع ہو جائیں گے۔