مہربان آنچل کی چھائوں
آج لاکھوں لوگ اس ماں کو سلام عقیدت پیش کر رہے ہیں جس کے عزم و استقلال نے ہمیں الطاف حسین جیسا قائد دیا ۔
داستانِ عشق کا پہلا سبق جس ذات سے وابستہ ہے، وہ ذات، ذاتِ باری تعالیٰ ہے جس نے اپنے محبوب پیغمبر آخر الزمان کے لیے اس کائناتِ رنگ و بو کو آراستہ کیا۔ اُسی ذاتِ واحدہ نے اپنی محبتوں کے خزانے سے ذرّہ برابر محبت سے جس ہستی کو سرفراز کیا، وہ محبت کی دیوی کہلانے لگی۔ اس محبتوں بھرے وجود سے آج ہمارے دل منور ہیں، جس نے ہمیں پہلا لمسِ محبت عطا کیا۔ جس نے پہلا لفظ بولنا سکھایا، جس کی انگلی پکڑ کر ہم نے پہلا قدم اٹھایا، جس کے لمس اور آغوش نے ہمیں محبت کا پہلا درس دیا، جس کے وجود نے تخلیق کے حقیقی عمل کی تکمیل کی۔ جس کے مہربان آنچل کی چھائوں نے ہمیں زندگی کی تلخیوں سے بچا کر شہد انگیز احساس سے روشناس کروایا۔ محبتوں سے گوندھا یہ وجود ''ماں'' کا ہے جس کی عظمت و محبت کی داستانوں سے تاریخ کا صفحہ صفحہ رقم ہے۔ جب جب انسان اپنی ماں کی محبت سے سرشار ہوتا ہے۔
اس کے رب کی محبت اس کے دل کو منور کرتی ہے۔ ان محبتوں اور عظمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارا دل ان کی عقیدت و احسان مندی اور چاہتوں سے سرشار رہے اور شکر گزاری اور محبتوں کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی شکر گزاری کے ساتھ ساتھ ان عظیم والدین کو بھی یاد رکھا جائے جو لاکھ قربانیاں دے کر اپنی اولاد کو عزت اور بلند مرتبے کے قابل بناتے ہیں۔ عزت و مرتبہ، شہرت وبلندی، نام و مقام ، محبتوں اور چاہتوں کا اُمنڈتا ہوا ایک سیلاب جس نے ہر سو اس ذات کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے، آج جس کے نام پر لاکھوں دل دھڑکتے ہیں، اور جس کے لیے لاکھوں لب ہر وقت دعا گو رہتے ہیں۔ لیکن آج وہ لب خاموش ہیں جو اس مقام و منصب کا باعث بنے۔
آج سے ستائیس سال قبل 5 دسمبر1985 کو وہ ماں ہم سے جدا ہو گئی جس کی آغوش میں اس عظیم رہبر و رہنما نے پرورش پائی جسے الطاف حسین کہا جاتا ہے۔ جو آج مظلوموں کی آواز ہے۔ جن کی تربیت ایک عظیم ماں کے ہاتھوں ہوئی، وہ ماں بہت خاموشی سے اپنے ہونہار فرزند سے جدا ہوئی جس کی بہادری، حوصلے اور حق و سچ کے درس نے قائد تحریک کو مقام عطا فرمایا ہے۔ بے شک آج وہ ماں الطاف حسین کے ساتھ نہیں، لیکن ان کی حق پرستی کی تعلیم ، اُن کا صبر و حوصلہ ان کے ساتھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ آج 5 دسمبر کا دن اُسی عظیم ماں کے وصال کا دن ہے۔ وہ عظیم ماں جس نے قائد تحریک جیسے انسان کی پرورش کی اور قدم بہ قدم اپنے فرزند کی بہترین تربیت کی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نڈر بیٹے نے معاشرے میں پھیلے ظالمانہ نظام کے خلاف آوازِ حق بلند کی اور سچ اور حق کی اس بلند آواز پر انتہائی مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا۔ جیل کی تاریک کوٹھڑی میں گزرنے والے وہ روز و شب جہاں قائد تحریک کے لیے ایک کڑی آزمائش تھے، وہیں اُس ماں کے لیے بھی صبر و ہمت کا کٹھن وقت تھا جب آپ اور آپ کے رفقائے کار کو گرفتار کر کے ان پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی گئی۔
یہ آپ کی والدہ محترمہ کا ہی عزم و حوصلہ تھا کہ جب آپ پر قائد تحریک کی رہائی کے لیے معافی نامہ پیش کرنے کے لیے دبائو ڈالا گیا تو آپ نے ان کے سامنے اپنا سر نہ جھکایا اور اپنے رب کے سامنے سر بسجود ہو گئیں کہ ''اے رب کریم تو میرے فرزند کو سچ اور حق کا علم یوں ہی بلند رکھنے کی استقامت عطا فرما۔'' یقینا ہر ماں اس ماں کے درد کو محسوس کر سکتی ہے جس نے قوم کے تابناک مستقبل کے لیے اپنی ممتا کو اپنے بیٹے کے پائوں کی زنجیر نہ بننے دیا ہو۔ آج نہ ذہن ساتھ دے پا رہا ہے اور نہ قلم کہ اُس ماں کو خراج عقیدت اور خراج تحسین کس طرح پیش کیا جائے کہ ہمارے پاس الفاظ کا وہ خزانہ نہیں جو اُس ماں کی شخصیت کو اُجاگر کر سکیں۔ اس ماں کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ''وہ ایسی مقدس ہستی تھی جو دکھوں کے سمندر سے نکال کر ہمیں اپنے آنچل میں چھپا لیتی تھی جو مجھ تک کوئی غم آنے سے پہلے ہر غم اپنے وسیع دل میں سمیٹ لیتی تھی کیونکہ وہ مقدس ہستی میری ماں تھی اور میں اس کی تخلیق۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس وقت جب ظالم و جابر حکمرانوں نے ایک پر امن مظاہرہ کرنے پر قائد تحریک اور ان کے ساتھیوں کو جیل میں ڈال دیا تو اُس بہادر ماں نے نہ صرف یہ کہ دی جانے والی پیشکش کو ٹھکرا دیا بلکہ اپنے بلند حوصلہ فرزند کو بھی حق اور سچ کی راہ پر ڈٹے رہنے کی تلقین کی۔ یقینا آج لاکھوں لوگ اس ماں کو سلام عقیدت پیش کر رہے ہیں جس کے عزم و استقلال نے ہمیں الطاف حسین جیسا قائد دیا کیونکہ اگر وہ ان سرکاری اہلکاروں کے آگے سر خم کر لیتیں تو آج بھی قوم ظلم و بربریت اور نا انصافی کی چکی میں پس رہی ہوتی۔
محترمہ خورشید بیگم کی دعائوں کے صدقے اور اُن کی حوصلہ افزائی کے سبب آج قائد تحریک الطاف حسین ملک کے 98 فیصد غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے معصوم لوگوں کے غصب شدہ حقوق کے حصول کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں اور اس امید پر اپنی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں کہ انشاء اللہ ایک نہ ایک دن کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ اس ماں نے الطاف حسین کی شکل میں ایک بہادر، نڈر، حق گو اور سچ کا پرچم بلند رکھنے والے رہبر و رہنما کو جنم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال 5 دسمبر کو اس عظیم ماں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قوم کی اس عظیم اور بہادر ماں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے (آمین)
اس کے رب کی محبت اس کے دل کو منور کرتی ہے۔ ان محبتوں اور عظمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارا دل ان کی عقیدت و احسان مندی اور چاہتوں سے سرشار رہے اور شکر گزاری اور محبتوں کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی شکر گزاری کے ساتھ ساتھ ان عظیم والدین کو بھی یاد رکھا جائے جو لاکھ قربانیاں دے کر اپنی اولاد کو عزت اور بلند مرتبے کے قابل بناتے ہیں۔ عزت و مرتبہ، شہرت وبلندی، نام و مقام ، محبتوں اور چاہتوں کا اُمنڈتا ہوا ایک سیلاب جس نے ہر سو اس ذات کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے، آج جس کے نام پر لاکھوں دل دھڑکتے ہیں، اور جس کے لیے لاکھوں لب ہر وقت دعا گو رہتے ہیں۔ لیکن آج وہ لب خاموش ہیں جو اس مقام و منصب کا باعث بنے۔
آج سے ستائیس سال قبل 5 دسمبر1985 کو وہ ماں ہم سے جدا ہو گئی جس کی آغوش میں اس عظیم رہبر و رہنما نے پرورش پائی جسے الطاف حسین کہا جاتا ہے۔ جو آج مظلوموں کی آواز ہے۔ جن کی تربیت ایک عظیم ماں کے ہاتھوں ہوئی، وہ ماں بہت خاموشی سے اپنے ہونہار فرزند سے جدا ہوئی جس کی بہادری، حوصلے اور حق و سچ کے درس نے قائد تحریک کو مقام عطا فرمایا ہے۔ بے شک آج وہ ماں الطاف حسین کے ساتھ نہیں، لیکن ان کی حق پرستی کی تعلیم ، اُن کا صبر و حوصلہ ان کے ساتھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ آج 5 دسمبر کا دن اُسی عظیم ماں کے وصال کا دن ہے۔ وہ عظیم ماں جس نے قائد تحریک جیسے انسان کی پرورش کی اور قدم بہ قدم اپنے فرزند کی بہترین تربیت کی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نڈر بیٹے نے معاشرے میں پھیلے ظالمانہ نظام کے خلاف آوازِ حق بلند کی اور سچ اور حق کی اس بلند آواز پر انتہائی مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا۔ جیل کی تاریک کوٹھڑی میں گزرنے والے وہ روز و شب جہاں قائد تحریک کے لیے ایک کڑی آزمائش تھے، وہیں اُس ماں کے لیے بھی صبر و ہمت کا کٹھن وقت تھا جب آپ اور آپ کے رفقائے کار کو گرفتار کر کے ان پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی گئی۔
یہ آپ کی والدہ محترمہ کا ہی عزم و حوصلہ تھا کہ جب آپ پر قائد تحریک کی رہائی کے لیے معافی نامہ پیش کرنے کے لیے دبائو ڈالا گیا تو آپ نے ان کے سامنے اپنا سر نہ جھکایا اور اپنے رب کے سامنے سر بسجود ہو گئیں کہ ''اے رب کریم تو میرے فرزند کو سچ اور حق کا علم یوں ہی بلند رکھنے کی استقامت عطا فرما۔'' یقینا ہر ماں اس ماں کے درد کو محسوس کر سکتی ہے جس نے قوم کے تابناک مستقبل کے لیے اپنی ممتا کو اپنے بیٹے کے پائوں کی زنجیر نہ بننے دیا ہو۔ آج نہ ذہن ساتھ دے پا رہا ہے اور نہ قلم کہ اُس ماں کو خراج عقیدت اور خراج تحسین کس طرح پیش کیا جائے کہ ہمارے پاس الفاظ کا وہ خزانہ نہیں جو اُس ماں کی شخصیت کو اُجاگر کر سکیں۔ اس ماں کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ''وہ ایسی مقدس ہستی تھی جو دکھوں کے سمندر سے نکال کر ہمیں اپنے آنچل میں چھپا لیتی تھی جو مجھ تک کوئی غم آنے سے پہلے ہر غم اپنے وسیع دل میں سمیٹ لیتی تھی کیونکہ وہ مقدس ہستی میری ماں تھی اور میں اس کی تخلیق۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس وقت جب ظالم و جابر حکمرانوں نے ایک پر امن مظاہرہ کرنے پر قائد تحریک اور ان کے ساتھیوں کو جیل میں ڈال دیا تو اُس بہادر ماں نے نہ صرف یہ کہ دی جانے والی پیشکش کو ٹھکرا دیا بلکہ اپنے بلند حوصلہ فرزند کو بھی حق اور سچ کی راہ پر ڈٹے رہنے کی تلقین کی۔ یقینا آج لاکھوں لوگ اس ماں کو سلام عقیدت پیش کر رہے ہیں جس کے عزم و استقلال نے ہمیں الطاف حسین جیسا قائد دیا کیونکہ اگر وہ ان سرکاری اہلکاروں کے آگے سر خم کر لیتیں تو آج بھی قوم ظلم و بربریت اور نا انصافی کی چکی میں پس رہی ہوتی۔
محترمہ خورشید بیگم کی دعائوں کے صدقے اور اُن کی حوصلہ افزائی کے سبب آج قائد تحریک الطاف حسین ملک کے 98 فیصد غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے معصوم لوگوں کے غصب شدہ حقوق کے حصول کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں اور اس امید پر اپنی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں کہ انشاء اللہ ایک نہ ایک دن کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ اس ماں نے الطاف حسین کی شکل میں ایک بہادر، نڈر، حق گو اور سچ کا پرچم بلند رکھنے والے رہبر و رہنما کو جنم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال 5 دسمبر کو اس عظیم ماں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قوم کی اس عظیم اور بہادر ماں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے (آمین)