جب تاریخ بنی اولمپک گیمز کے کچھ واقعات جو تبدیلی لے آئے
1976 کےاولمپکس مقابلوں میں سیاسی بنیادوں پرہونےوالے بائیکاٹ کو1980میں ماسکومیں ہونے والےاولمپکس مقابلوں میں دہرایا گیا
اولمپکس کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس کھیل کا آغاز 8قبل مسیح میں یونان میں ہوا۔ ایک فرانسیسی ماہر تعلیم اور مورخ Pierre de Coubertin نے اسے جدید شکل میں ڈھالا۔ Pierre de Coubertin کو جدید اولمپکس کھیل کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے 1894میں انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی قائم کی اور کھیل کے مقابلوں کی ایک نئی دنیا سے روشناس کرایا۔
دنیائے کھیل میں نہایت اہمیت کے حامل اولمپکس مقابلوں میں شرکت ہر کھلاڑی کی خواہش ہوتی ہے۔ اولمپکس کی تاریخ بہت سے یادگار لمحات اور بہت سے تنازعات سے بھری ہوئی ہے، لیکن کچھ تنازعات اور واقعات ایسے ہیں جن کی وجہ سے ایک طرف اولمپکس کے قواعد میں تبدیلیاں ہوئیں تو دوسری طرف کیمرے کی آنکھ نے کچھ ایسے لمحات کو بھی مقید کرلیا جن کا حقیقت میں تصور بھی محال ہے۔ جہاں اس کھیل میں دنیا کی دو بڑی طاقتیں آمنے سامنے آئیں تو دوسری طرف دو ممالک کے کھلاڑیوں نے ایک ساتھ مارچ کر کے دنیا کو فرط حیرت میں مبتلا کردیا۔ زیر نظر مضمون میں اولمپکس کے ایسے ہی کچھ تاریخی لمحات کو احاطۂ تحریر میں لایا گیا ہے۔
٭اولمپکس میں پہلی بار خاتون کھلاڑی کی شرکت
قدیم اور جدید اولمپکس کے آغاز میں خواتین کو ان مقابلوں میں شرکت کی اجات نہیں تھی، لیکن 1900میں فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں پہلی بار خواتین تو تجرباتی بنیادوں پر صرف دو کھیلوں ٹینس اور گالف میں شرکت کا موقع دیا گیا۔ ان کھیلوں میں خواتین کھلاڑیوں کی شان دار کارکردگی اور پوزیشنز نے اولمپکس میں خواتین کی نمائندگی کو مستقل کردیا۔ اولمپکس مقابلوں میں خواتین کی فتوحات کو دیکھتے ہوئے 2012میں لندن میں ہونے والے سمر اولمپکس میں اولمپکس کی تاریخ میں پہلی بار وومینز باکسنگ (خواتین کی مُکے بازی) کو متعارف کروایا گیا۔ اسی سال یہ اولمپکس کی تاریخ کا پہلا کھیل بن گیا جس میں مقابلہ لینے والے ہر ملک کی خواتین کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔
٭ہٹلر کے نظریے کو شکست
1936میں جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والے سمر اولمپکس میں امریکی کھلاڑی Jesse Owens نے سو میٹر، چار سو میٹر، اسپرنٹ ریلے اور لانگ جمپ میں گولڈ میڈل جیت کر تین عالمی ریکارڈ قائم کیے، جنہیں آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ جیسی نے لانگ جمپ میں اپنے جرمن حریف Luz Lon کو ہرا کر ہٹلر کے نظریے 'آریان ازم'(ہٹلر کے نسلی بنیادوں پر قائم کیے گئے اس نظریے کے تحت جرمنی کے لوگ نسل میں سب سے برتر ہیں اور انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا) کو شکست دے دی تھی۔ 1936کے اولمپکس مقابلوں میں امریکا نے نہ صرف کھیل کے میدان میں بل کہ نظریاتی طور پر بھی ہٹلر کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔
٭ پہلی بار معذور کھلاڑیوں کی شرکت
1948میں لندن میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں پہلی بار معذور کھلاڑیوں کو بھی شرکت کا موقع دیا گیا۔ معذور کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو سامنے لانے کا سہرا جرمن نژاد برطانوی ڈاکٹر لُڈوگ گٹمین کو جاتا ہے، جنہوں نے انٹرنیشنل وہیل چیئر گیمز کی بنیاد رکھی۔ لُڈوگ کا مقصد اسپورٹس تھیراپی کے ذریعے دوسری جنگ عظیم میں معذور ہونے والے فوجیوں کی ذہنی اور جسمانی صحت بحال کرنا تھا۔ انہوں نے وہیل چیئر کے سہارے چلنے والے کھلاڑیوں کو 1948 کو لندن میں ہونے والے سمر اولمپکس میں شرکت کی دعوت دی۔ اس اولمپک میں مصنوعی ہاتھ والے ہنگری کے Karoly Takacsنے 1948 اور 1952کے سمر اولمپکس میں 25میٹر ریپڈ فائر پستول کے مقابلے میں سونے کے میڈل جیتے تھے۔ ڈاکٹر لُڈ وگ کی اس حوصلہ افزائی نے جدید پیرا اولمپکس (معذوروں کا اولمپکس) کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
٭اولمپکس میں ٹیلی ویژن براڈ کاسٹ، اسکینڈلز اور کمرشلائزیشن کا آغاز
1960میں روم میں ہونے والے اولمپکس کمرشلائزیشن (تجارت کاری) کے لحاظ سے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اولمپکس کے ان مقابلوں میں نہ صرف پہلی بار پورے اولمپکس مقابلوں کو ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا بل کہ کھلاڑیوں کے ذریعے مشہور برانڈز کی تشہیر بھی کی گئی۔ روم کے اولمپکس مقابلوں نے کمرشلائزیشن کے ایک نئے دور کو جنم دیا اور اولمپیئنز کے بارے میں دنیا کے نظریات کو بھی تبدیل کردیا۔ انہی اولمپکس میں قوت بخش ممنوعہ ادویہ کے استعمال کا اسکینڈل بھی منظر عام پر آیا، جس سے انکشاف ہوا کہ مقابلے میں شریک کھلاڑی گولڈ میڈل کے حصول کے لیے کیسے طریقے استعمال کرتے ہیں۔
٭اولمپکس اور نسلی تعصب
سیاست اور کھیل کا بہ ظاہر کوئی ربط نظر نہیں آتا، لیکن 1968میں میکسیکو میں ہونے والے اولمپکس گیمز نے امریکا میں نسلی امتیاز کے خلاف چلنے والی سول رائٹ تحریک کو بین الاقوامی سطح پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ افریقی نژاد سیاہ فام امریکی کھلاڑیوں ٹومی اسمتھ (سونے کا تمغہ) اور جان کارلوس (کانسی کا تمغہ) نے دنیا کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے انوکھا اور پُر امن طریقہ اختیار کیا۔ کھیل کے اختتام پر اول اور دوئم آنے والے ان دونوں کھلاڑیوں نے پوڈیم (وہ چبوترا جس پر رنر اپ رہنے والے کھلاڑی اپنے نمبرز کے لحاظ سے کھڑے ہوتے ہیں) پر امریکا کا قومی ترانہ شروع ہوتے ہی اپنے سیاہ دستانے والے ہاتھ مٹھی بناکر ہوا میں بلند کردیے۔ امریکی میڈیا نے اس انداز کو 'بلیک پاور سیلیوٹ' کا نام دیا۔ امریکا کی اولمپکس کمیٹی نے ان دونوں کھلاڑیوں کو فوری طور پر اولمپکس مقابلوں سے خارج کردیا۔ تاہم ٹومی اسمتھ اور جان کارلوس کے اس پُرامن اور خاموش احتجاج نے سول رائٹس تحریک کو بین الاقوامی سطح پر اجُاگر کیا۔
٭ 22افریقی ممالک کا بائیکاٹ
1976میں کینیڈا کے شہر مانٹریال میں پہلی بار منعقد ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں انسانی حقوق کا معاملہ سرفہرست رہا اور22 افریقی ممالک کے بائیکاٹ نے ان اولمپکس کو دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ کی شہہ سرخی بنادیا۔ ان ممالک کے بائیکاٹ کی وجہ اولمپکس میں نیوزی لینڈ کی شرکت تھی۔ اس تنازعے کا پس منظر کچھ یوں ہے: اس سال (1976) کے آغاز میں نیوزی لینڈ کی رگبی ٹیم نے اپنے دورہ افریقا کے دوران نسلی عصبیت کا مظاہرہ کیا اور ان کی اس حرکت نے افریقی ممالک میں غم و غصے کی لہر پیدا کردی تھی۔ اولمپکس کی تاریخ پہلی بار سیاسی محرکات کی وجہ سے ہونے والا یہ پہلا بائیکاٹ تھا۔
٭افغانستان پر روسی جارحیت کے خلاف امریکا کا بائیکاٹ
1976 کے اولمپکس مقابلوں میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والے بائیکاٹ کو 1980میں ماسکو میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں دہرایا گیا۔ لیکن اس بار بائیکاٹ امریکا اور اُس کے اتحادی ممالک نے کیا تھا۔ سردجنگ کے زمانے میں امریکی صدر جمی کارٹر نے افغانستان پر روسی جارحیت کیخلاف احتجاجاً اولمپکس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے اتحادیوں سے بھی ان مقابلوں کے بائیکاٹ کی درخواست کی۔ امریکا نے نہ صرف اولمپکس کا بائیکاٹ کیا بل کہ ریاست فلاڈیلفیا میں 'لبرٹی بیل کلاسک' کے نام سے اولمپکس کے متبادل مقابلے منعقد کرائے، جن میں اولمپکس کا بائیکاٹ کرنے والے امریکا کے اتحادی ممالک کے درمیان کھیلوں کے مقابلے ہوئے۔
٭ پہلی بار پیشہ ورکھلاڑیوں کی شرکت
1992میں بارسلونا میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں ایک نئی تاریخ رقم کی گئی، امریکا کی باسکٹ بال ٹیم جسے 'ڈریم ٹیم' بھی کہا جاتا ہے، میں اولمپکس کی تاریخ میں پہلی بار NBA(نیشنل باسکٹ بال ایسو سی ایشن) کے بہترین کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا، جن میں اُس وقت کے مشہور کھلاڑی مائیکل جارڈن، چارلس برکلے، پیٹرک ایونگ اور دیگر کئی نام شامل تھے۔ ڈریم ٹیم نے سمر اولمپکس میں شان دار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حریف ٹیموں کو اوسطاً44پوائنٹس سے شکست دی۔ امریکی ذرایع ابلاغ کے مطابق ڈریم ٹیم کو آج بھی کھیلوں کی دنیا کی بہترین ٹیم قرار دیا جاتا ہے۔
٭ اولمپکس کی سینچری اور محمد علی کا نیا گولڈ میڈل
1996میں امریکی ریاست اٹلانٹا میں اولمپکس مقابلوں کی صد سالہ تقریبات کا آغاز عظیم باکسر محمد علی نے اولمپکس مشعل جلاکر کیا۔ رعشے کی بیماری سے نبرد آزما محمد علی نے افتتاحی تقریب میں اولمپکس مشعل روشن کرکے اٹلانٹا اولمپکس کو تاریخ کا سنہرا حصہ بنادیا۔ صرف امریکا میں ہی تین کروڑ ستانوے لاکھ سے زاید ناظرین نے اس تقریب کو براہ راست اپنی ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھا۔ اٹلانٹا اولمپکس کی دوسری خاص بات یہ تھی کہ اولمپکس کی تاریخ میں پہلی بار کسی کھلاڑی کو اس کا متبادل سونے کا تمغہ دیا گیا۔ محمد علی نے 1960میں روم میں ہونے والے اولمپکس میں جیتنے والے اپنے گولڈ میڈل کو نسلی تعصب برتنے پر احتجاجاً دریا میں پھینک دیا تھا۔
٭سڈنی اولمپکس اور دو دشمن ممالک کا اتحاد
مشہور محاورہ ہے کہ 'ایک نیام میں دو تلواریں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں' لیکن 2000 کے سڈنی اولمپکس میں دنیا بھر کے ناظرین نے اس محاورے کے برعکس ایک انوکھا مظاہرہ دیکھا۔ اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں پہلی بار ایک دوسرے کے جانی دشمن سمجھے جانے والے شمالی اور جنوبی کوریا کے کھلاڑیوں نے ایک ساتھ مارچ کیا۔ اپنے اپنے ملک کا قومی پرچم تھامے ان کھلاڑیوں نے نے نہ صرف ایک ساتھ مارچ کیا بل کہ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک مشترکہ پرچم لہرایا جس پر کوریا کا نیلا نقشہ بنا ہوا تھا۔
٭ میڈل کے ڈیزائن میں 76سال بعد تصحیح
یونان کو نہ صرف اولمپکس مقابلوں کے آغاز کا اعزاز حاصل ہے بلکہ اسی ملک میں اولمپکس مقابلوں میں دیے جانے والے تمغوں میں 76(1928میں تمغے دینے کا سلسلہ شروع ہوا تھا) سال سے مسلسل ہونے والی ایک غلطی درست کی گئی۔ پرانے میڈلز میں اطالوی مجسمہ سازGiuseppe Cassioli نے یونان میں واقع دنیا کے قدیم ترین ایمفی تھیٹر کی عمارت کو نقش کردیا تھا۔ ایتھنز اولمپکس کے فاتحین میں نئے ڈیزائن کردہ تمغے تقسیم کیے گئے جن میں ایتھنز کے Panathinaiko اسٹیڈیم کو نقش کیا گیا ہے۔Panathinaiko اسٹیڈیم دنیا کے قدیم ترین کھیل کے میدانوں میں سے ایک ہے اور 1896میں جدید اولمپکس کے پہلے کھیل بھی اسی میدان میں ہوئے تھے۔
دنیائے کھیل میں نہایت اہمیت کے حامل اولمپکس مقابلوں میں شرکت ہر کھلاڑی کی خواہش ہوتی ہے۔ اولمپکس کی تاریخ بہت سے یادگار لمحات اور بہت سے تنازعات سے بھری ہوئی ہے، لیکن کچھ تنازعات اور واقعات ایسے ہیں جن کی وجہ سے ایک طرف اولمپکس کے قواعد میں تبدیلیاں ہوئیں تو دوسری طرف کیمرے کی آنکھ نے کچھ ایسے لمحات کو بھی مقید کرلیا جن کا حقیقت میں تصور بھی محال ہے۔ جہاں اس کھیل میں دنیا کی دو بڑی طاقتیں آمنے سامنے آئیں تو دوسری طرف دو ممالک کے کھلاڑیوں نے ایک ساتھ مارچ کر کے دنیا کو فرط حیرت میں مبتلا کردیا۔ زیر نظر مضمون میں اولمپکس کے ایسے ہی کچھ تاریخی لمحات کو احاطۂ تحریر میں لایا گیا ہے۔
٭اولمپکس میں پہلی بار خاتون کھلاڑی کی شرکت
قدیم اور جدید اولمپکس کے آغاز میں خواتین کو ان مقابلوں میں شرکت کی اجات نہیں تھی، لیکن 1900میں فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں پہلی بار خواتین تو تجرباتی بنیادوں پر صرف دو کھیلوں ٹینس اور گالف میں شرکت کا موقع دیا گیا۔ ان کھیلوں میں خواتین کھلاڑیوں کی شان دار کارکردگی اور پوزیشنز نے اولمپکس میں خواتین کی نمائندگی کو مستقل کردیا۔ اولمپکس مقابلوں میں خواتین کی فتوحات کو دیکھتے ہوئے 2012میں لندن میں ہونے والے سمر اولمپکس میں اولمپکس کی تاریخ میں پہلی بار وومینز باکسنگ (خواتین کی مُکے بازی) کو متعارف کروایا گیا۔ اسی سال یہ اولمپکس کی تاریخ کا پہلا کھیل بن گیا جس میں مقابلہ لینے والے ہر ملک کی خواتین کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔
٭ہٹلر کے نظریے کو شکست
1936میں جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والے سمر اولمپکس میں امریکی کھلاڑی Jesse Owens نے سو میٹر، چار سو میٹر، اسپرنٹ ریلے اور لانگ جمپ میں گولڈ میڈل جیت کر تین عالمی ریکارڈ قائم کیے، جنہیں آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ جیسی نے لانگ جمپ میں اپنے جرمن حریف Luz Lon کو ہرا کر ہٹلر کے نظریے 'آریان ازم'(ہٹلر کے نسلی بنیادوں پر قائم کیے گئے اس نظریے کے تحت جرمنی کے لوگ نسل میں سب سے برتر ہیں اور انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا) کو شکست دے دی تھی۔ 1936کے اولمپکس مقابلوں میں امریکا نے نہ صرف کھیل کے میدان میں بل کہ نظریاتی طور پر بھی ہٹلر کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔
٭ پہلی بار معذور کھلاڑیوں کی شرکت
1948میں لندن میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں پہلی بار معذور کھلاڑیوں کو بھی شرکت کا موقع دیا گیا۔ معذور کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو سامنے لانے کا سہرا جرمن نژاد برطانوی ڈاکٹر لُڈوگ گٹمین کو جاتا ہے، جنہوں نے انٹرنیشنل وہیل چیئر گیمز کی بنیاد رکھی۔ لُڈوگ کا مقصد اسپورٹس تھیراپی کے ذریعے دوسری جنگ عظیم میں معذور ہونے والے فوجیوں کی ذہنی اور جسمانی صحت بحال کرنا تھا۔ انہوں نے وہیل چیئر کے سہارے چلنے والے کھلاڑیوں کو 1948 کو لندن میں ہونے والے سمر اولمپکس میں شرکت کی دعوت دی۔ اس اولمپک میں مصنوعی ہاتھ والے ہنگری کے Karoly Takacsنے 1948 اور 1952کے سمر اولمپکس میں 25میٹر ریپڈ فائر پستول کے مقابلے میں سونے کے میڈل جیتے تھے۔ ڈاکٹر لُڈ وگ کی اس حوصلہ افزائی نے جدید پیرا اولمپکس (معذوروں کا اولمپکس) کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
٭اولمپکس میں ٹیلی ویژن براڈ کاسٹ، اسکینڈلز اور کمرشلائزیشن کا آغاز
1960میں روم میں ہونے والے اولمپکس کمرشلائزیشن (تجارت کاری) کے لحاظ سے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اولمپکس کے ان مقابلوں میں نہ صرف پہلی بار پورے اولمپکس مقابلوں کو ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا بل کہ کھلاڑیوں کے ذریعے مشہور برانڈز کی تشہیر بھی کی گئی۔ روم کے اولمپکس مقابلوں نے کمرشلائزیشن کے ایک نئے دور کو جنم دیا اور اولمپیئنز کے بارے میں دنیا کے نظریات کو بھی تبدیل کردیا۔ انہی اولمپکس میں قوت بخش ممنوعہ ادویہ کے استعمال کا اسکینڈل بھی منظر عام پر آیا، جس سے انکشاف ہوا کہ مقابلے میں شریک کھلاڑی گولڈ میڈل کے حصول کے لیے کیسے طریقے استعمال کرتے ہیں۔
٭اولمپکس اور نسلی تعصب
سیاست اور کھیل کا بہ ظاہر کوئی ربط نظر نہیں آتا، لیکن 1968میں میکسیکو میں ہونے والے اولمپکس گیمز نے امریکا میں نسلی امتیاز کے خلاف چلنے والی سول رائٹ تحریک کو بین الاقوامی سطح پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ افریقی نژاد سیاہ فام امریکی کھلاڑیوں ٹومی اسمتھ (سونے کا تمغہ) اور جان کارلوس (کانسی کا تمغہ) نے دنیا کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے انوکھا اور پُر امن طریقہ اختیار کیا۔ کھیل کے اختتام پر اول اور دوئم آنے والے ان دونوں کھلاڑیوں نے پوڈیم (وہ چبوترا جس پر رنر اپ رہنے والے کھلاڑی اپنے نمبرز کے لحاظ سے کھڑے ہوتے ہیں) پر امریکا کا قومی ترانہ شروع ہوتے ہی اپنے سیاہ دستانے والے ہاتھ مٹھی بناکر ہوا میں بلند کردیے۔ امریکی میڈیا نے اس انداز کو 'بلیک پاور سیلیوٹ' کا نام دیا۔ امریکا کی اولمپکس کمیٹی نے ان دونوں کھلاڑیوں کو فوری طور پر اولمپکس مقابلوں سے خارج کردیا۔ تاہم ٹومی اسمتھ اور جان کارلوس کے اس پُرامن اور خاموش احتجاج نے سول رائٹس تحریک کو بین الاقوامی سطح پر اجُاگر کیا۔
٭ 22افریقی ممالک کا بائیکاٹ
1976میں کینیڈا کے شہر مانٹریال میں پہلی بار منعقد ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں انسانی حقوق کا معاملہ سرفہرست رہا اور22 افریقی ممالک کے بائیکاٹ نے ان اولمپکس کو دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ کی شہہ سرخی بنادیا۔ ان ممالک کے بائیکاٹ کی وجہ اولمپکس میں نیوزی لینڈ کی شرکت تھی۔ اس تنازعے کا پس منظر کچھ یوں ہے: اس سال (1976) کے آغاز میں نیوزی لینڈ کی رگبی ٹیم نے اپنے دورہ افریقا کے دوران نسلی عصبیت کا مظاہرہ کیا اور ان کی اس حرکت نے افریقی ممالک میں غم و غصے کی لہر پیدا کردی تھی۔ اولمپکس کی تاریخ پہلی بار سیاسی محرکات کی وجہ سے ہونے والا یہ پہلا بائیکاٹ تھا۔
٭افغانستان پر روسی جارحیت کے خلاف امریکا کا بائیکاٹ
1976 کے اولمپکس مقابلوں میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والے بائیکاٹ کو 1980میں ماسکو میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں دہرایا گیا۔ لیکن اس بار بائیکاٹ امریکا اور اُس کے اتحادی ممالک نے کیا تھا۔ سردجنگ کے زمانے میں امریکی صدر جمی کارٹر نے افغانستان پر روسی جارحیت کیخلاف احتجاجاً اولمپکس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے اتحادیوں سے بھی ان مقابلوں کے بائیکاٹ کی درخواست کی۔ امریکا نے نہ صرف اولمپکس کا بائیکاٹ کیا بل کہ ریاست فلاڈیلفیا میں 'لبرٹی بیل کلاسک' کے نام سے اولمپکس کے متبادل مقابلے منعقد کرائے، جن میں اولمپکس کا بائیکاٹ کرنے والے امریکا کے اتحادی ممالک کے درمیان کھیلوں کے مقابلے ہوئے۔
٭ پہلی بار پیشہ ورکھلاڑیوں کی شرکت
1992میں بارسلونا میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں ایک نئی تاریخ رقم کی گئی، امریکا کی باسکٹ بال ٹیم جسے 'ڈریم ٹیم' بھی کہا جاتا ہے، میں اولمپکس کی تاریخ میں پہلی بار NBA(نیشنل باسکٹ بال ایسو سی ایشن) کے بہترین کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا، جن میں اُس وقت کے مشہور کھلاڑی مائیکل جارڈن، چارلس برکلے، پیٹرک ایونگ اور دیگر کئی نام شامل تھے۔ ڈریم ٹیم نے سمر اولمپکس میں شان دار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حریف ٹیموں کو اوسطاً44پوائنٹس سے شکست دی۔ امریکی ذرایع ابلاغ کے مطابق ڈریم ٹیم کو آج بھی کھیلوں کی دنیا کی بہترین ٹیم قرار دیا جاتا ہے۔
٭ اولمپکس کی سینچری اور محمد علی کا نیا گولڈ میڈل
1996میں امریکی ریاست اٹلانٹا میں اولمپکس مقابلوں کی صد سالہ تقریبات کا آغاز عظیم باکسر محمد علی نے اولمپکس مشعل جلاکر کیا۔ رعشے کی بیماری سے نبرد آزما محمد علی نے افتتاحی تقریب میں اولمپکس مشعل روشن کرکے اٹلانٹا اولمپکس کو تاریخ کا سنہرا حصہ بنادیا۔ صرف امریکا میں ہی تین کروڑ ستانوے لاکھ سے زاید ناظرین نے اس تقریب کو براہ راست اپنی ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھا۔ اٹلانٹا اولمپکس کی دوسری خاص بات یہ تھی کہ اولمپکس کی تاریخ میں پہلی بار کسی کھلاڑی کو اس کا متبادل سونے کا تمغہ دیا گیا۔ محمد علی نے 1960میں روم میں ہونے والے اولمپکس میں جیتنے والے اپنے گولڈ میڈل کو نسلی تعصب برتنے پر احتجاجاً دریا میں پھینک دیا تھا۔
٭سڈنی اولمپکس اور دو دشمن ممالک کا اتحاد
مشہور محاورہ ہے کہ 'ایک نیام میں دو تلواریں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں' لیکن 2000 کے سڈنی اولمپکس میں دنیا بھر کے ناظرین نے اس محاورے کے برعکس ایک انوکھا مظاہرہ دیکھا۔ اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں پہلی بار ایک دوسرے کے جانی دشمن سمجھے جانے والے شمالی اور جنوبی کوریا کے کھلاڑیوں نے ایک ساتھ مارچ کیا۔ اپنے اپنے ملک کا قومی پرچم تھامے ان کھلاڑیوں نے نے نہ صرف ایک ساتھ مارچ کیا بل کہ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک مشترکہ پرچم لہرایا جس پر کوریا کا نیلا نقشہ بنا ہوا تھا۔
٭ میڈل کے ڈیزائن میں 76سال بعد تصحیح
یونان کو نہ صرف اولمپکس مقابلوں کے آغاز کا اعزاز حاصل ہے بلکہ اسی ملک میں اولمپکس مقابلوں میں دیے جانے والے تمغوں میں 76(1928میں تمغے دینے کا سلسلہ شروع ہوا تھا) سال سے مسلسل ہونے والی ایک غلطی درست کی گئی۔ پرانے میڈلز میں اطالوی مجسمہ سازGiuseppe Cassioli نے یونان میں واقع دنیا کے قدیم ترین ایمفی تھیٹر کی عمارت کو نقش کردیا تھا۔ ایتھنز اولمپکس کے فاتحین میں نئے ڈیزائن کردہ تمغے تقسیم کیے گئے جن میں ایتھنز کے Panathinaiko اسٹیڈیم کو نقش کیا گیا ہے۔Panathinaiko اسٹیڈیم دنیا کے قدیم ترین کھیل کے میدانوں میں سے ایک ہے اور 1896میں جدید اولمپکس کے پہلے کھیل بھی اسی میدان میں ہوئے تھے۔