کچھ قصے کچھ کہانیاں ریواولمپکس کے دل چسپ واقعات

نائجیریا اولمپکس میں فٹبال کا طلائی تمغہ جیتنے والا پہلا افریقی ملک تھا۔


ندیم سبحان میو August 21, 2016
نائجیریا اولمپکس میں فٹبال کا طلائی تمغہ جیتنے والا پہلا افریقی ملک تھا۔ : فوٹو : فائل

PESHAWAR: کھیلوں کے اس عالمی میلے میں جسے اولمپکس کہا جاتا ہے ہر بار ریکارڈز بننے کے ساتھ کچھ دل چسپ واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ ریو اولمپکس میں بھی ایسے کئی واقعات ہوئے، جن کی تفصیل قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کی جارہی ہے:

٭آفیشلز نے چابی گُم کردی
بُدھ دس اگست کو سویڈن اور جنوبی افریقا کی خواتین فٹبال ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا جانا تھا۔ میچ سے ایک روز قبل انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے انتظامیہ کے افسران ماراکانا اسٹیڈیم پہنچے۔ جس دروازے سے انھیں داخل ہونا تھا اس پر تالا لگا ہوا تھا جس کی چابی انھی کے ایک ساتھی کے پاس ہوتی تھی۔ انتظامیہ کے افراد دروازے پر کھڑے اس کا انتظار کررہے تھے۔ نصف گھنٹے کی تاخیر سے پہنچنے کے بعد متعلقہ اہل کار نے اطلاع دی کہ وہ چابی کہیں رکھ کر بُھول گیا ہے۔ چناں چہ فائرمینوں کو بُلا کر کٹر سے تالا کٹوایا گیا، تب کہیں جاکر گراؤنڈ میں داخلہ ممکن ہوا۔ اس تمام واقعے کی برطانوی نشریاتی ادارے سے منسلک صحافی نے ویڈیو بنالی تھی جس کا منظرعام پر آنا اولمپک گیمز کے منتظمین کے لیے مزید شرمندگی کا باعث بنا۔

٭ انٹرویو کے دوران مضحکہ خیز انداز چینی تیراک کو شہرت بخش گیا
ریو اولمپکس کے دوران بہترین کارکردگی دکھاکر کئی گُم نام کھلاڑی عالم گیر شہرت پاگئے مگر ایک چینی تیراک کو انٹرویو کے دوران اختیار کردہ انداز نے انٹرنیٹ اسٹار بنادیا ہے۔ سات اگست کو تیراکی کے مقابلے میں بیس سالہ فو یوآن ہوئی بھی حصہ لے رہی تھی۔ مقابلے کے اختتام پر وہ جیسے ہی سوئمنگ پول سے باہر نکلی اسے چین کے سرکاری ٹیلی ویژن کی رپورٹر اور کیمرامین نے گھیر لیا۔ جب رپورٹر نے اسے بتایا کہ اس نے 58.95 سیکنڈ میں یہ فاصلہ طے کیا ہے تو فو ششدر رہ گئی۔ اس کا منہ کھلا کا کُھلا رہ گیا۔

بے یقینی کی کیفیت اس کی آنکھوں سے بھی مترشح تھی۔ شاک کی سی کیفیت اور نگاہوں سے جھانکتی بے یقینی کے تأثرات نے ان لمحات میں اس کے چہرے کو انتہائی مضحکہ خیز بنادیا تھا۔ بے یقینی کے عالم میں اس نے رپورٹر سے تصدیق بھی چاہی کہ کیا واقعی وہ اتنی تیز ہے؟ ہم وطن کی جوابی ہاں پر بھی اس کے تأثرات کافی دیر تک برقرار رہے۔ فو کا انٹرویو جب سرکاری ٹی وی پر نشر ہوا تو منٹوں میں اس کے چرچے انٹرنیٹ ورلڈ میں ہونے لگے۔ اس انٹرویو کی ویڈیو اب تک پچاس لاکھ سے زاید بارہ دیکھی جاچکی ہے۔

٭فتح کا جشن منانے کی سزا۔۔۔اولمپکس سے اخراج
ہالینڈ کے جمناسٹ یوری وان گیلڈر کو فتح کا جشن منانا منہگا پڑگیا کیوں کہ اسے اولمپکس سے نکال باہر کیا گیا ہے۔ اپنے ابتدائی مقابلے میں حریفوں کو شکست دیتے ہوئے اس نے 'رنگز' کے فائنل مقابلے کے لیے کوالیفائی کرلیا تھا۔ جیت کا جشن اس نے خود کو شراب میں ڈبو کر منایا۔ رات بھر وہ اسی شغل میں مصروف رہا اور ٹیم مینیجر اسے تلاش کرتے رہے۔ اگلے روز صبح اس کی واپسی ہوئی تو انتظامیہ نے اسے وطن واپسی کا پروانہ تھمادیا کہ اس نے ڈسپلن کی دھجیاں بکھیردی تھیں۔ یوری وان نے بہتیری وضاحتیں دیں کہ وہ محض اپنی فتح کا جشن منارہا تھا مگر انتظامیہ نے ڈسپلن پر سمجھوتا نہ کرتے ہوئے اسے وطن واپس جانے کی ہدایت کردی، حالاں کہ تینتیس سالہ یوری وان ہالینڈ کی جمناسٹک ٹیم کا سب سے اہم رُکن تھا۔ ماضی میں وہ تین بار رنگز کے مقابلوں کا چیمپیئن رہ چکا ہے۔

٭بہترین پرفارمینس کی خوشی برداشت نہ ہوئی
اولمپکس جیسے اہم ترین ایونٹ کے لیے کھلاڑی بہترین تیاری کرتے ہیں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں اور جسمانی و ذہنی مضبوطی سے کام لیتے ہوئے سو فی صد سے بھی زیادہ پرفارمینس دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ فن لینڈ کا مایۂ ناز ویٹ لفٹر ملکو اولاوی ٹوکولا 175 کلوگرام کی کیٹیگری کے کھلاڑیوں میں شامل تھا۔ بڑی کام یابی اس نے کئی سیکنڈ تک آہنی سلاخ کو سَر سے بلند کیے رکھا جس کے دونوں سروں پر مجموعی طور پر ساڑھے چار من سے زاید وزن جُھول رہا تھا۔ کچھ دیر تک وزن اٹھائے رکھنے کے بعد ملکو نے آہنی سلاخ نیچے رکھ دی۔

یہ اس کی بہترین پرفارمینس تھی۔ غالباً ملکو کو خود بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ اس نے اتنا وزن کام یابی سے اٹھا لیا ہے۔ سرشاری کے عالم میں اس نے بازو اٹھا دیے مگر اگلے ہی لمحے وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر اسٹیج سے نیچے گرگیا۔ انتظامیہ اور طبی عملہ یہ دیکھ کر دوڑتا ہوا اس کے پاس پہنچا۔ ڈاکٹروں کی کوشش سے وہ کچھ دیر کے بعد ہوش میں آگیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ وزن اٹھانے اور پھر انتہائی خوشی کے جذبات کے باعث جسم اور دماغ پر پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔

٭جب مقابلے کے دوران اسمارٹ فون جیب سے نکل کر گرگیا
اسمارٹ فون انسانی زندگی کا جزولازم بن گیا ہے۔ بالخصوص نوجوان نسل اسمارٹ فون کے بغیر خود کو ادھورا تصور کرتی ہے، مگر اینزو جیسا اسمارٹ فون کا دیوانہ شاید ہی کوئی ہو۔ اینزو فرانسیسی دستے میں شامل تلوار باز ہے۔ آٹھ اگست کو اس کا مقابلہ جرمنی کے پیٹر جوپخ سے تھا۔ مقابلہ شروع ہوا تو پیٹر نے بڑھ بڑھ کر اپنے حریف پر حملے کیے، جب کہ اینزو میں وہ پُھرتی دکھائی نہیں دی جو تلوارباز کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اینزو کی سستی پر فرانسیسی تماشائی حیران تھے۔ ان کے حیرت زدہ چہروں کو کیمرے دنیا بھر میں نشر کررہے تھے۔

کچھ دیر کے بعد انھیں اینزو کی سستی کی وجہ سمجھ بل کہ نظر آگئی۔ دراصل ہوا یہ کہ پیٹر کے جارحانہ حملوں کا دفاع کرتے ہوئے اینزو کے مخصوص لباس کی پچھلی جیب سے اچانک کوئی شے نکل گرگئی۔ کیمرے زوم ہوئے تو پتا چلا کہ وہ اسمارٹ فون تھا۔ یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اولمپکس جیسے ایونٹ میں ایک کھلاڑی جیب میں اسمارٹ فون رکھ کر شریک ہو۔ پیٹر نے فوراً فون اٹھا کر تماشائیوں میں بیٹھے ہوئے کسی شخص کو تھما دیا۔ غالباً وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ اس پر کوئی توجہ نہیں دے گا، مگر یہ اس کی خام خیالی تھی۔ پیٹر نے اپنے حریف کو مقابلے میں واضح فرق سے شکست دی۔ اینزو کی شکست پر ہم وطنوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ فرانسیسیوں نے سوشل میڈیا پر جی کھول کر تبصرے کیے۔ کچھ نے کہا کہ پیٹر کو اپنی دوست کے فون کا انتظار تھا اسی لیے وہ اسمارٹ فون لے کر مقابلے کے لیے گیا تھا۔ کئی نے یہ طعنہ دیا کہ اسے اسمارٹ فون ملکی وقار سے زیادہ عزیز تھا۔

٭شکست کا صدمہ...جرمن کشتی راں بے ہوش!
بے انتہا خوشی کے مانند انسان مایوسی اور صدمے کی وجہ سے بھی بے ہوش ہوسکتا ہے! اولمپکس کے دوران اس کی مثال مارسل ہیکر کی صورت میں سامنے آئی۔ انتالیس سالہ مارسل کا تعلق جرمنی سے ہے۔ مارسل اور اس کا ساتھی اسٹیفن کروگر مینز ڈبل کے کشتی رانی مقابلوں میں شریک تھے۔ لاگو اسٹیڈیم میں ہونے والے مقابلے میں جرمنی کی ٹیم چوتھے نمبر پر رہی۔ شکست کا یقین ہوجانے کے بعد مارسل غالباً صدمے کی شدت سے بے ہوش ہوگیا۔ اسے اٹھاکر کشتی سے باہر لانا پڑا تھا۔ اس شکست کو دل پر لینے کی وجہ یہ تھی کہ مارسل آخری بار اولمپکس میں شریک تھا۔ برازیل کی جانب پرواز کرنے سے پہلے اس نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اپنے کیریئر کا اختتام فتح کے ساتھ کرنا چاہتا ہے۔ تمام تر کوشش کے باوجود جب اس کی کشتی حریفوں سے آگے نہ نکل پائی تو مایوسی نے اسے گھیرے میں لے لیا تھا۔ اختتامی لائن سے پہلے ہی اس نے چپو چلانا چھوڑ دیے تھے۔ کچھ دیر کے بعد وہ کشتی میں بے حس و حرکت پڑا تھا۔ کشتی سے باہر لاکر اسے ابتدائی طبی امداد دی گئی تو ہوش آیا۔

٭ '' بڑے طیارے میں جائیں گے'' نائجیریا کے کھلاڑیوں کا مطالبہ
نائجیریا اولمپکس میں فٹبال کا طلائی تمغہ جیتنے والا پہلا افریقی ملک تھا۔ نائجیریا نے 1996ء میں ارجنٹائن کو ہرا کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ رواں اولمپکس میں نائجیریائی ٹیم جاپان کے ساتھ اپنے میچ سے محض چند گھنٹے قبل ہی برازیل کی سرزمین پر اتری۔ نائجیریا کی وزارت کھیل نے قومی ٹیم کو چارٹرڈ طیارے کے ذریعے ریوڈی جینیرو پہنچانے کا فیصلہ کیا تھا۔

مقررہ دن جب ٹیم ایئرپورٹ پر پہنچی تو کھلاڑی طیارہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہ چھوٹا سا فوکر کی قسم کا طیارہ تھا۔ کھلاڑیوں نے متفقہ طور پر اس جہاز میں جانے سے انکاری ہوتے ہوئے بڑے طیارے کے انتظام کا مطالبہ کردیا۔ دو روز کے بعد بڑے طیارے کا انتظام ہوا تو پھر اٹلانٹا میں ان کی فلائٹ پھنس گئی۔ وجہ یہ ہوئی کہ نائجیریا کی وزارت کھیل کی جانب سے جس کمپنی کا طیارہ حاصل کیا گیا تھا، اسے بروقت ادائیگی نہیں کی گئی۔ چناں چہ کمپنی نے جہاز اٹلانٹا میں اتار دیا، اور اس وقت تک پائلٹ کو ٹیک آف کا حکم نہیں دیا جب تک ادائیگی کی رقم کمپنی کے اکاؤنٹ میں نہیں پہنچ گئی۔ یوں چار اگست کو اپنے پہلے میچ سے محض چند گھنٹے پہلے نائجیریا کے کھلاڑی اولمپک پارک میں پہنچے، تاہم تھکن کے باوجود انھوں نے جاپانی ٹیم کو چار کے مقابلے میں پانچ گول سے ہرادیا۔

٭ٹانگ ٹوٹ گئی!
فرانسیسی جمناسٹ سمیر آیت سعید بلند ارادوں کے ساتھ قومی دستے کے ساتھ ریو ڈی جینیرو پہنچا تھا۔ تاہم اسے معلوم نہیں تھا کہ پہلی ہی پرفارمینس کے دوران اس کے سارے خواب چکنا چُور ہوجائیں گے۔ سات اگست کو اپنی جسمانی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ والٹ پر سے ہوا میں اچھلا اور پھر زمین کی جانب آیا۔ بدقسمتی سے اس کا بایاں پاؤں صحیح طریقے سے نہ جم سکا اور وزن کے باعث پنڈلی کی ہڈی درمیان سے ٹوٹ گئی۔ اس حادثے کے ساتھ ہی اس کی اولمپکس میں کچھ کر دکھانے کی خواہشیں بھی تشنہ رہ گئیں۔

سمیر درد کی شدت سے پڑا کراہ رہا تھا۔ اسی اثنا میں پیرامیڈکس اسٹریچر لیے دوڑتے ہوئے آئے۔ انھوں نے درد سے کراہتے کھلاڑی کو اٹھاکر اسٹریچر پر ڈالا اور ایمبولینس کی طرف لے چلے۔ ایمبولینس کے کُھلے دروازے سے اندر جانے کی کوشش کرتے ہوئے طبی عملے میں شامل ایک شخص کے ہاتھ سے اسٹریچر چُھوٹ گیا۔ اسٹریچر کے زمین پر گرتے ہی گویا سمیر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ درد کی شدت سے اس کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ گرنے کے باعث مضروب ٹانگ پر چوٹ آئی تھی۔ اسی اثنا میں تماشائی بھی طبی عملے کی غفلت پر شور مچانے لگے تھے۔ گھبرائے ہوئے پیرامیڈکس نے زخمی کھلاڑی کا اسٹریچر فوراً اٹھا کر ایمبولینس میں رکھا اور نودوگیارہ ہوگئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں