رائے شماری سے اٹوٹ انگ تک حصہ اول
نہرو مسئلہ کشمیر خود اقوامِ متحدہ کے روبرو لے گئے تھے
نومبر دو ہزار دس میں کشمیر کے بارے میں دلی ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن کی بنیاد پر عدالت نے دلی پولیس کو معروف مصنفہ ارون دھتی رائے اور معمر کشمیری رہنما سیّد علی شاہ گیلانی کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیا۔ ارون دھتی رائے نے یہ موقف اختیار کیا کہ میرے علاوہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے خلاف بھی مقدمہِ غداری درج کیا جائے کیونکہ جو میں آج کہہ رہی ہوں دراصل وہ نہرو جی کے ہی بار بار دہرائے گئے الفاظ ہیں۔
نہرو مسئلہ کشمیر خود اقوامِ متحدہ کے روبرو لے گئے تھے۔ اس کے بعد نہرو اور ان کی حکومت کے کشمیر کے بارے میں اگلی ایک دہائی تک کیا خیالات تھے اور وہ کس طرح عالمی برادری کو رائے شماری کے دھوکے میں رکھ کے کشمیر پر اپنا سیاسی و اسٹرٹیجک قبضہ مضبوط کرتے چلے گئے۔ یہ جاننا تاریخ کے طلبا کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اور یہ جاننے کا سب سے بہتر آئینہ خود پنڈت جواہر لعل نہرو اور ان کے نمایندوں کے سینتالیس تا ستاون تک کے بیانات ہیں۔
ایک ) حکومتِ کشمیر کی جانب سے ہنگامی مدد کی درخواست کا ہم نے مثبت جواب دیا۔ مگر میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ہنگامی امداد بھارت سے الحاق کے لیے دباؤ ڈالنے کے مقصد سے نہیں بھیجی گئی۔ ہمارا موقف متواتر یہ ہے کہ کسی بھی متنازعہ علاقے یا ریاست کا الحاق وہاں کے لوگوں کی مرضی سے ہونا چاہیے (یہ ٹیلی گرام وزیرِ اعظم نہرو کی جانب سے چھبیس اکتوبر انیس سو سینتالیس کو برطانوی وزیرِ اعظم ایٹلی اور ستائیس اکتوبر کو پاکستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو بھیجا گیا)۔
دو) ہم نے مہاراجہ اور کشمیری مسلمانوں کی سب سے نمایندہ جماعت (شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس) کی درخواست پر کشمیر کے الحاق کا فیصلہ اس شرط کے ساتھ قبول کیا ہے کہ کشمیری عوام طے کریں کہ وہ دونوں ڈومینینز (بھارت و پاکستان) میں سے کس کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ امن و امان بحال ہوتے ہی فوجوں کے انخلا اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں چھوڑنے کی بابت ہمارا وعدہ نہ صرف آپ کی حکومت بلکہ کشمیریوں اور عالمی برادری سے ہے (یہ ٹیلی گرام اکتیس اکتوبر انیس سو سینتالیس کو وزیرِ اعظم نہرو کی جانب سے وزیرِ اعظم پاکستان کو بھیجا گیا)۔
تین) ہم نے الحاق قبول کرتے ہوئے بذریعہ طیارہ فوج بھیجی مگر اس شرط کے ساتھ کہ کشمیری عوام الحاق سے متعلق فیصلے میں شامل ہوں گے۔ ہم اس بابت محتاط ہیں کہ کشمیری عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا مکمل موقع ملے بغیر عجلت میں کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو۔ ہمارا وعدہ جسے مہاراجہ کی حمایت بھی حاصل ہے نہ صرف کشمیری عوام بلکہ دنیا سے ہے۔ ہم اس سے نہ مکر سکتے ہیں نہ مکریں گے۔ امن و امان معمول پر آتے ہی اقوامِ متحدہ جیسی تنظیم کی بین الاقوامی نگرانی میں ریفرنڈم کرانے کو تیار ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ مرحلہ صاف و شفاف ہو۔ لوگوں کی جو رائے ہو گی ہم قبول کر لیں گے (دو نومبر انیس سو سینتالیس کو وزیرِ اعظم نہرو کا قوم سے نشریاتی خطاب)۔
چار) میں آپ کی توجہ کل شام کو کشمیر کی بابت ریڈیو پر اپنے خطاب کی جانب دلانا چاہتا ہوں۔ اس میں بطور سرکاری پالیسی واضح کیا گیا کہ ہمیں کشمیر پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوئی خواہش نہیں۔ اس بارے میں آخری فیصلہ کشمیری عوام کا ہو گا۔ ہم اس پر راضی ہیں کہ اقوامِ متحدہ جیسا کوئی غیرجانبدار ادارہ ریفرنڈم کی نگرانی کرے (تین نومبر انیس سو سینتالیس کو وزیرِاعظم نہرو کا وزیرِاعظم پاکستان کو ٹیلی گرام)۔
پانچ) ریاست کے الحاق کا فیصلہ عوام سے رجوع کے بعد ہونا چاہیے۔ ہم نے اپنی خوش نیتی کے اظہار کے لیے تجویز دی ہے کہ عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ اقوامِ متحدہ جیسے کسی غیرجانبدار ادارے کی نگرانی میں کریں (پچیس نومبر انیس سو سینتالیس کو وزیرِ اعظم نہرو کا بھارتی مجلسِ آئین ساز میں بیان)۔
چھ) یہ تاثر زائل کرنے کے لیے کہ بھارت ریاستی بحران سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، حکومت واضح الفاظ میں کہنا چاہتی ہے کہ بین الاقوامی نگرانی میں منعقد ہونے والے غیر جانبدار ریفرنڈم یا رائے شماری کے جمہوری طریقے کے ذریعے لوگ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے (اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام حکومتِ بھارت کا خط مورخہ اکتیس دسمبر انیس سو سینتالیس)۔
سات) مستقبل میں ہمسایہ ممالک اور باقی دنیا کے سامنے کشمیر کی سیاسی حیثیت کیا ہو گی اور یہ کہ ریاست بھارت سے الحاق ختم کر کے پاکستان سے الحاق کرے گی یا بطور آزاد ریاست اقوامِ متحدہ کی رکن بننا چاہے گی۔ ان سوالات کے فیصلے کا حتمی حق روزمرہ زندگی کی بحالی کے بعد صرف کشمیری عوام کو حاصل ہے (پندرہ جنوری انیس سو اڑتالیس کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھارتی مندوب گوپال سوامی آئینگر کا خطاب)۔
آٹھ) جیسا کہ سلامتی کونسل کے علم میں ہے۔ حکومتِ بھارت کا عہد ہے کہ امن کی بحالی اور تمام مہاجرین کی ریاست میں واپسی کے بعد ایک آزاد رائے شماری میں فیصلہ ہو کہ ریاست کے لوگ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، پاکستان میں شمولیت چاہتے ہیں یا آزاد شناخت اختیار کرنا چاہتے ہیں (تئیس فروری انیس سو اڑتالیس کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھارتی مندوب گوپال سوامی آئینگر کا خطاب)
نو) حتی کہ الحاق کے موقع پر ہم نے آگے بڑھ کے ازخود کہا کہ ہم ریفرنڈم یا رائے شماری کے نتیجے میں کشمیری عوام کے فیصلے کی پابندی کریں گے۔ ہم نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ حکومتِ کشمیر فوری طور پر ایک مقبول عوامی حکومت ہونی چاہیے۔ ہم متواتر اپنے موقف پر جمے ہوئے ہیں کہ شفاف ووٹنگ کے ماحول میں رائے شماری اور اس کے نتائج قبول کرنے کو تیار ہیں (بھارتی مجلسِ آئین ساز سے وزیرِ اعظم نہرو کا خطاب مورخہ پانچ مارچ انیس سو اڑتالیس)۔
دس ) اگر آپ ثالثی مسترد کرتے ہیں تو یا تعطل پیدا ہو گا یا جنگ ہو گی۔ ہمارا تواتر سے کہنا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ چنانچہ اقوامِ متحدہ کے تحت ثالثی واحد راستہ ہے۔ ثالثی کی نوعیت کیا ہو گی۔ یہ بعد میں طے ہو سکتا ہے (نئی دلی میں وزیرِ اعظم نہرو کی پریس کانفرنس مورخہ سولہ نومبر انیس سو انچاس)۔
گیارہ) بھارت کا یہ مسلسل موقف ہے کہ ہم کشمیری عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع دینے کے لیے اقوامِ متحدہ کے تحت انتظامات کے لیے تعاون کریں گے۔ درحقیقت یہ بات ہم اقوامِ متحدہ کے اس قضئیے میں آنے سے بھی پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ فیصلے کا پہلا حق کشمیری عوام کا ہے اور پھر بھارت اور پاکستان کا ہے۔ اس بابت دونوں ممالک (بھارت اور پاکستان) نے بہت حد تک بنیادی خد و خال طے کر لیے ہیں۔ دونوں متفق ہیں کہ کشمیریوں کو اپنی داخلہ و خارجہ حیثیت کا فیصلہ خود کرنا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ سمجھوتہ نہ بھی ہو تب بھی کوئی ملک کشمیریوں کی مرضی کے خلاف کشمیر پر قابض نہیں رہ سکتا (وزیرِ اعظم نہرو کی لندن میں پریس کانفرنس مورخہ سولہ جنوری انیس سو اکیاون جو اٹھارہ جنوری کو اخبار اسٹیٹس مین میں شایع ہوئی)
وزیرِاغظم نہرو اور حکومتِ بھارت کے مزید بیانات بدھ کو ملاحظہ فرمائیے گا۔