دکھ درد انسانوں کا پیچھا کرتے ہیں
سقراط کہتا ہے ’’اسمبلی احمقوں، معذوروں، ترکھانوں، لوہاروں، دکانداروں اور منافع خوروں پر مشتمل ہے
سقراط سیاست اور سیاسی قیادت کے بارے میں کہتا ہے ''جب اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے اور اس میں تعمیر اور جہاز رانی کے مسائل کے حل کے لیے انھیں طلب کیا جاتا ہے جو تعمیر اور جہاز رانی کے بارے میں علم رکھتے ہیں، لیکن جب حکومت چلانے کا مرحلہ آتا ہے تو ہر اس شخص کو بلا لیا جاتا ہے جو اہل نہیں ہوتا، حکومت کا کام اسے سونپ دیا جاتا ہے جو حکومتی اور ریاستی امور کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور پھر ریاست کا زوال شروع ہوجاتا ہے''۔ یہ ہی بات آگے چل کر سقراط نے ایتھنز کے اسمبلی ممبران کے بارے میں بھی کہی۔
سقراط کہتا ہے ''اسمبلی احمقوں، معذوروں، ترکھانوں، لوہاروں، دکانداروں اور منافع خوروں پر مشتمل ہے، جو ہر وقت یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیسے سستی چیز مہنگے داموں بیچ کر منافع کمایا جاسکے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام کے مسائل کے بارے میں ایک دفعہ بھی نہیں سوچا ہوگا''۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ سقراط کے زمانے میں ایتھنز شہر کے دکاندار، تاجر اور مختلف کاریگر ہی اسمبلی کے ممبر ہوتے تھے اور جب اسمبلی کا اجلاس ہوتا تھا تو تمام شہر کی دکانیں اور بازار بند ہوتے۔ کہتے ہیں دکھ درد بھی انسانوں کا پیچھا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قبل از مسیح کے ایتھنز کے لوگوں کے دکھ درد پیچھا کرتے کرتے آج ہمارے پیچھے لگ گئے ہیں۔
افلاطون اپنی تصنیف Republic میں ایتھنز کی جمہوریت کے بارے میں لکھتا ہے ''جمہور پسند اعتدال اور ضبط نفس کو غیر انسانی قرار دے کر مسترد کرتے ہیں، انھوں نے گستاخی کو تہذیب قرار دے دیا ہے اور بدنظمی کو آزادی، ضیاع کو شان و شکوہ اور بے حیائی کو دلیری کہتے ہیں۔ انھیں اپنے والدین کا نہ تو خوف ہے، نہ کوئی شرم۔ استاد اپنے شاگردوں سے ڈرتے اور ان کی خوشامد کرتے ہیں۔ انھوں نے ہر قسم کی تحریری یا غیر تحریری قانون کی پرواہ کرنا چھوڑ دی ہے''۔ افلاطون کی وفات (347 ق م) تک ایتھنز کی جمہوریت کے بارے میں اس کے مخاصمانہ تجزیے پر تاریخ نے اپنی تصدیق ثبت کردی تھی۔
ایتھنز معاشی طورپر دوبارہ خوشحال ہوگیا تھا لیکن یہ خوشحالی زرعی آمدنی کے بجائے تجارتی دولت کے باعث تھی اور اب صنعت کاروں، سوداگروں اور بینکاروں کی حکمرانی تھی۔ اس تبدیلی سے دولت کے حصول کی مجنونانہ جدوجہد کا آغاز ہوا۔ نو دولتیوں نے پرتعیش محلات تعمیر کرلیے، اپنی خواتین کو مہنگے ملبوسات اور زیورات سے لاد دیا اور ان کی خدمت گاری کے لیے درجنوں ملازمین رکھ کر ان کا دماغ خراب کردیا۔ وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مہمانوں کی خاطر مدارت اور ضیافتیں کرتے۔ غریب اور امیر کے درمیان فرق وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
ایتھنز دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، دو شہر، ایک غربا کا شہر اور دوسرا امرا کا، اور دونوں ایک دوسرے سے برسر پیکار۔ امرا قانون سازی، ٹیکسوں اور انقلاب کے ذریعے امیروں کو لوٹنے کے منصوبے بناتے۔ امرا غریبوں سے اپنے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو منظم کیے رکھتے۔ ارسطو کا کہنا ہے کہ طبقہ امرا کے افراد کی ایک تنظیم کے اراکین یہ حلف اٹھایا کرتے تھے ''میں عوام کا دشمن رہوں گا اور کونسل میں ان کی مخالفت میں جو کچھ بھی کرسکا، کروں گا''۔ آئسو کریٹس نے 366 قبل مسیح میں یہ لکھا ہے ''امرا کا رویہ اس قدر غیر انسانی ہوگیا ہے کہ وہ اپنی اشیا ضرورت مندوں کو بطور قرض یا امداد دینے کے بجائے انھیں سمندر میں پھینک دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور غربا کا یہ حال ہے کہ انھیں کوئی خزانہ مل جانے کی اس قدر خوشی نہیں ہوگی جتنی کہ کسی امیر کے مال و اسباب پر قبضہ کرنے سے ہوگی''۔
اب آپ ہی بتائیں کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جو کچھ قبل مسیح میں ایتھنز میں ہورہا تھا وہ ہی جوں کا توں آج سب کچھ پاکستان میں ہورہا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں دو پاکستان بن چکے ہیں، ایک غریبوں کا پاکستان، دوسرا امیروں کا پاکستان۔ اور دونوں ایک دوسرے سے برسر پیکار۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ دکھ درد انسانوں کا پیچھا کرتے ہیں۔ آپ اور کچھ نہ کریں، صرف پانچ سال کی قومی اسمبلی کی کارروائی پڑھ کر دیکھ لیں۔
ممبران کی اکثریت کی کارکردگی، ان کی ترجیحات، ان کی خواہشات کا بغور مطالعہ کرلیں، ان کے رویوں کو ایک بار نہیں بلکہ باربار پڑھ کر دیکھ لیں، ان کی دلی خواہشات، آرزوؤں کا اچھی طرح سے معائنہ کرلیں، ان سب کی زندگی کے شب وروز کی اچھی طرح سے جاسوسی کرکے دیکھ لیں، ان کے کہنے اور کرنے کے فرق کو محسوس کرلیں، ان کے ماضی اور حال کو اچھی طرح سے ٹٹول لیں اور جب آپ یہ سب کچھ کر چکے ہوں گے تو آپ اس بات پر ایمان لاچکے ہوں گے کہ دکھ درد انسانوں کا پیچھا کرتے ہیں۔ قبل از مسیح میں بھی عوام کے نام پر کاروبار ہوتا تھا اور آج بعد از مسیح بھی خوب کاروبار ہورہا ہے۔ عوام کے نمایندوں کی اکثریت نے سارا کا سارا زور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے پر لگا رکھا ہے۔ نفع کمانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کرشن چندر نے کہا تھا ''حیرت ہے کہ ہم لوگ ہر چیز کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں اس میں فائدہ ہے، کتنا فائدہ ہے، کیونکر فائدہ ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس فائدے کے چکر میں خوشی گنوا بیٹھے ہیں، اس لیے کہ آخر خوش رہنے میں فائدہ ہی کیا ہے''۔
آج پاکستان میں عام انسان چیزیں بن چکے ہیں، روز ان کی خریدو فروخت ہورہی ہے، کوئی انھیں خرید رہا ہے تو کوئی انھیں بیچ رہا ہے، بازار میں کھڑے بے لباس، زرد چہرے والے، ننگے پاؤں والے، خاک سے آلودہ جسموں والے، انسان نما چیزوں کی بڑھ چڑھ کر بولیاں لگائی جارہی ہیں، موٹی موٹی توندوں والے عالیشان سوٹوں میں ملبوس، خوشبوؤں میں ڈوبے، نئے نئے کرارے نوٹوں سے لدے امرا ہاتھ لگا لگا کر چیزوں کا بغور معائنہ کررہے ہیں۔
یاد رکھو، جس جگہ صرف کاروبار ہونے لگ جائے تو پھر احساس، جذبات جسموں میں ایک کونے میں پڑے کراہتے رہتے ہیں اور اگر یہ صورتحال زیادہ دیر تک اسی طرح سے جاری رہے تو پھر سوداگر انسان نہیں بلکہ ریزگاری بن جاتے ہیں، نفع اور نقصان کی ریزگاری۔ پھر وہاں تمام رشتے، تعلق، جذبات و احساسات مرجاتے ہیں اور صرف ریزگاری زندہ رہتی ہے۔ اس صورتحال میں جہاں عام انسانوں کی زندگیاں خسارے میں، خوف میں اور بکنے اور خریدنے میں گزر رہی ہوتی ہیں، صرف وہ ہی بتاسکتے ہیں کہ ان حالات میں زندگی گھسیٹنا کیسا ہوتا ہے۔ کیا جرمن فلسفی صحیح کہتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ یادیں کبھی نہ ختم ہونے والی اذیت کی خدمت گزاری کرتی ہیں۔ کیا دن اور رات کے بعد کوئی راستہ نہیں۔