صدر حمید کاشمیری اور کتابوں کی دکان

اہل اقتدار نے کراچی سے حاصل تو بہت کچھ کیا ہے مگر کراچی کا سینہ جگہ جگہ سے زخمی کردیا ہے


یونس ہمدم August 20, 2016
[email protected]

میں امریکا کی ریاست نیو جرسی سے جب بھی کراچی آتا ہوں تو یہاں کے ماحول میں آکر یہ بھول جاتا ہوں کہ میں گزشتہ چودہ سال سے امریکا میں رہ رہا ہوں۔ کراچی پہنچتے ہی مجھے یہاں کی فضائیں بڑے پیار سے اپنالیتی ہیں، کراچی کا دامن مجھے بیتے لمحوں اور گزرے دنوں کا شدت کے ساتھ احساس دلاتا ہے اور کراچی سے میری محبت کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اب کراچی کا وہ حسن نہیں رہا جو پہلے کبھی دیدنی تھا اور اس کے ذمے دار اہل اقتدار ہیں، جن کی رگوں میں بے حسی سرائیت کرچکی ہے۔

اہل اقتدار نے کراچی سے حاصل تو بہت کچھ کیا ہے مگر کراچی کا سینہ جگہ جگہ سے زخمی کردیا ہے۔ مجھے کراچی کے علاقے صدر سے آج بھی بے پناہ پیار ہے۔ یہ علاقہ میرے لیے کوئے جاناں کا سا درجہ رکھتا ہے، اسی صدر کے خوبصورت علاقے میں کبھی کیفے ٹیریا ہوا کرتا تھا، زیلنس کافی ہائوس ہوا کرتا تھا، جہاں کی شامیں خوشگوار اور راتیں حسین ہواکرتی تھیں۔ ان جگہوں سے میری بے شمار خوشگوار یادیں وابستہ ہیں، ادبی محفلیں جڑی ہوئی ہیں، اسی صدر کی الفنٹن اسٹریٹ ہی پر کبھی مشہور ادیب، کالم نگار اور ٹی وی کے ڈرامہ نگار حمید کاشمیری کی ایک کتابوں کی دکان ہوا کرتی تھی اور اس چھوٹی سی کتابوں کی دکان پر بڑے بڑے رائٹرز اور نامور ادبی شخصیتیں آیا کرتی تھیں۔

حمید کاشمیری اپنی کتابوں کی دکان پر رات دس بجے تک وقفے وقفے سے رہا کرتے تھے، کیوںکہ دکان کے قریب ہی ایک بلڈنگ میں ان کا فلیٹ تھا اور اس چھوٹی سی دکان میں ساری دنیا کے مشہور ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں بڑے سلیقے سے رکھی ہوتی تھیں۔ میں بھی حمید کاشمیری کی دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس دکان پر کھڑے کھڑے گھنٹوں مفت کتابیں پڑھا کرتا تھا اور حمید کاشمیری مجھے کن انکھیوں سے دیکھتے تھے اور مسکراتے رہتے تھے۔ ان کی دکان کی دائیں طرف، ایرانی کا ایک ہوٹل تھا اور بائیں طرف جوتوں کی ایک شاندار دکان ہوتی تھی اور اس دکان کے شوکیس میں بڑی شان سے جوتے سجائے ہوئے رکھے ہوتے تھے، جب کہ اسی صدر ہی کے فٹ پاتھ پر کئی جگہ قیمتی کتابیں بکھری ہوتی تھیں اور اپنی بے وقعتی پر نوحہ کناں رہتی تھیں۔

ان کتابوں میں دنیا کے عظیم ادیبوں کی ناولیں، افسانوں کی کتابیں، ڈائجسٹ اور نامورشاعروں کے مجموعہ کلام بھی اپنی بے بسی کی داستان سناتے ہوئے نظر آتے تھے۔
اب میں پھر حمید کاشمیری کی کتابوں کی دکان کی طرف آتا ہوں، جب میں ان کی دکان کو اپنی آنکھوں پر سجاتا ہوں تو مجھے اس دکان پر آنے والے نامور ادیبوں اور شاعروں کے چہرے بھی صاف نظر آنے لگتے ہیں۔ اسی دکان پر فیض احمد فیض، احمد فراز، شوکت صدیقی ، منیر نیازی اور قتیل شفائی کی آمد ہوا کرتی تھی، جو صدر کے علاقے کا چکر لگاتے اور حمید کاشمیری کی کتابوں کی دکان کا طواف کیا کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اسلامیہ کالج میں پڑھا کرتا تھا اور پارٹ ٹائم نگار ویکلی میں بھی کام کرتا تھا۔ حمید کاشمیری صاحب سے میری پہلی ملاقات نگار ویکلی ہی کے دفتر میں ہوئی تھی، وہ ان دنوں ''نگارشات'' کے عنوان سے ہر ہفتے نگار میں پابندی سے کالم لکھا کرتے تھے۔ حمید کاشمیری کے کالم کی بھی ان دنوں بڑی دھوم رہتی تھی، پھر حمید کاشمیری کے ٹی وی ڈراموں کی بھی بڑی شہرت تھی۔
حمید کاشمیری سے میری ملاقات کبھی کبھی ٹیلی ویژن پر بھی ہوجاتی تھی، وہ ان دنوں کئی ٹی وی پروڈیوسروں کی گڈ بک میں شامل تھے۔ کبھی کبھی کسی شام میں صدر کا چکر لگاتے ہوئے شام کی چائے پینے کی غرض سے جاتا تھا تو یوں بھی ہوتا تھا کہ کسی دن ہوٹل کے بجائے حمید کاشمیری کی کتابوں کی دکان پر پہنچ جاتا تھا، وہ بھی جب بھولے سے پوچھ لیتے تھے ہاں بھئی یونس ہمدم چائے چلے گی تو میں بھی بے ساختہ کہتا تھا حمید بھائی چلے گی نہیں دوڑے گی۔ تو حمید کاشمیری بھی ہنستے ہوئے کہتے تھے اس کا مطلب ہے کہ تم چائے پیے بغیر نہیں جائوگے۔ پھر وہ مسکراتے ہوئے اپنا پرانے طرز کا بلیک ٹیلی فون اٹھا کر برابر والے ایرانی ہوٹل کے کائونٹر پر ایک کپ اسپیشل چائے کا آرڈر دے دیا کرتے تھے۔

پھر کچھ دیر کے بعد ہی ایک کیتلی میں چائے آجاتی تھی۔ حمید کاشمیری ایک کپ کی اسپیشل سے، دو کپ اسپیشل بناتے تھے، ان کے پاس ایک خالی کپ رکھا رہتا تھا، وہ پھر اس طرح کسی مہمان کے لیے وہی کام آتا تھا۔ ایک کپ میں وہ خود پیتے اور دوسرا کپ میری طرف بڑھا دیتے۔ میں خلوص بھری وہ چائے مزے لے لے کر پیتا تھا۔ اکثر حمید کاشمیری مجھے کہتے تھے، یونس ہمدم اس کپ سے بڑے بڑے نامور ادیبوں اور شاعروں نے اس دکان پر اسپیشل چائے پی ہے اور یہ کپ بڑا اسپیشل کپ بن گیا ہے، میری چائے کا یہ کپ کیا پتہ تمہاری بھی کسی دن قسمت بدل دے اور تم بھی شہرت کے راستے کے ہم سفر بن جائوگے۔ شاید وہ قبولیت کا وقت ہوگا اور حمید کاشمیری کی محبت بھری دعا کام کرگئی اور ایک دن میں کراچی سے لاہور کی فلم انڈسٹری میں چلا گیا اور وہاں میں بھی نغمہ نگار اور مکالمہ نگار بن کر فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگیا۔ میں نے وہاں بیس پچیس فلمیں لکھیں اور اپنے حصے کی خوب شہرت حاصل کی۔
جب میں بارہ سال کے بعد واپس کراچی آیا تو مجھے پتہ چلا کہ حمید کاشمیری کی کتابوں کی دکان ختم ہوچکی تھی۔ حمید کاشمیری کچھ بیمار رہنے لگے تھے۔ میں نے کراچی آکر اپنے فلمی گیتوں، ٹی وی، ریڈیو اور EMI گرامو فون کے لیے لکھے گئے گیتوں پر مشتمل ایک کتاب ''پیاسے گلاب'' کے نام سے شایع کرنے کا پروگرام بنایا اور اس کتاب کے لیے حمید کاشمیری کی رائے لینے کے لیے ان کے فلیٹ پر گیا۔ وہ مجھے مل کر بہت خوش ہوئے، پھر بولے آج میری طبیعت کچھ بہتر ہوئی ہے، تم ایک ہفتے کے بعد میری رائے لے جانا۔ پھر ایک ایک کپ چائے کا ہوا، کچھ پرانی یادیں تازہ کیں۔ ایک ہفتے کے بعد جب میں گیا تو میری کتاب کے لیے ان کی رائے میرے ہاتھوں میں تھی۔ وہ رائے حمید کاشمیری نے بڑی محبت سے لکھی تھی۔ اس رائے کا کچھ اقتباس قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
''نامور شاعر ساحر لدھیانوی نے پہلی بار تجربہ کیا تھا اور اپنے فلمی گیتوں کو یکجا کرکے ''گاتا جائے بنجارا'' کے نام سے کتابی شکل دی تھی اور بقول ابراہیم جلیس ساحر لدھیانوی کی خواہش تھی کہ وہ لوگوں کے منہ سے بے تکے گیت نکال کر ادب کی چاشنی میں گھلے ہوئے گیت دے اور پھر لوگ اس کے گیت گنگنائیں، اس طرح ساحر لدھیانوی اپنی جدوجہد میں کامیاب رہا اور پھر سارے برصغیر میں ساحر لدھیانوی کے گیتوں کی دھوم مچ گئی تھی۔ ''گاتا جائے بنجارا'' نہ صرف فلمی گیتوں پر مشتمل ہے، بلکہ ایک مستند شاعری کی کتاب ہے۔

میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ شوبز کے اندر یا شوبز کے باہر لکھنے والا کچھ بھی اگر اعتماد کے ساتھ لکھے تو اسے کتابی صورت میں پیش کردے اور پھر خود پیچھے ہٹ جائے اور سارا معاملہ قارئین پر چھوڑدینا چاہیے۔ یونس ہمدم نے اپنے پیش روئوں کی تقلید میں اپنے گیتوں کو یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے، جو ایک خوبصورت کوشش ہے۔ یونس ہمدم کی شاعری میں ملاحت اور بے ساختہ پن ہے، یونس ہمدم صحیح معنوں میں ایک سیلف میڈ شاعر ہے، میں دعا گو ہوں کہ کتاب ''پیاسے گلاب'' شعری دنیا کے چمن میں شبنم سے بھرپور تروتازہ چمکتے دمکتے گلابوں کی طرح مہکے۔ ... حمید کاشمیری''۔
افسوس آج حمید کاشمیری اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ حمید کاشمیری کے درجات بلند کرے۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔