اقلیت
ہمارے ہاں ابھی تک بعض الفاظ کے حقیقی معنی مروج نہیں ۔
ہمارے ہاں ابھی تک بعض الفاظ کے حقیقی معنی مروج نہیں ۔ ہم نے لفظ سیکولرکو لادینیت کا جبہ پہنا دیا جب کہ انگریزی میں اس کے لیے Atheism کا لفظ مروج ہے، لیکن لفظ سیکولر ہماری اردو لغت میں انگریزی کے بہت سے الفاظ کی طرح اب حصہ بن چکا ہے، لیکن بہت حد تک غلط معنی کے ساتھ، کوئی اورکیوں، یہ تو ہمارے بابائے اردو نے ترتیب دی ہوئی ڈکشنری میں کہا ہے۔ سقراط کہتے تھے الفاظ کی غلط تشریح روح میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ ہم نے بہت سی حقیقتوں کو مسخ کرکے اپنا بنایا ، جبہ پہنا دیا۔ تاریخ سے لے کر قانون تک، الفاظ سے لے کر افکار تک اور اب ان بھول بھلیوں میں ایک گم شدہ بچے کی مانند اپنے گھرکا پتا ڈھونڈتے ہیں۔ اپنی تاریخ، شجرہ ونسب ڈھونڈتے ہیں، سرکوئے ناشناساں دن سے رات کرتے ہیں،کبھی اس سے بات کرتے ہیں کبھی اس سے بات کرتے ہیں۔
خیرسیکولر لفظ کے ساتھ ہوا جو ہوا سو ہوا لیکن لفظ اقلیت کے ساتھ بھی کم برا نہیں ہوا۔ یوں کہیے کہ اس کے معنی اب یہ ہیں کہ کسی کو اچھوت دکھاؤ۔ بڑے بڑے آئینی تونگر دولائی یہ کہتے سنے گئے کہ آئین سے لفظ ''اقلیت'' نکال دو، مشکل تو یہ ہے کہ اس ملک میں خود آئین کے ماہر اپنی آنکھ میں یرقان رکھتے تھے۔ اے کے بروہی کو لے لیجیے آپ آمروں کو قانونی وآئینی نسخے بتاتے تھے، تو خود ہمارے محترم شریف الدین پیرزادہ کہا کرتے تھے یا خود مرحوم عبدالحفیظ پیرزادہ بھی تو جنرل مشرف کو مشورے وغیرہ فراہم کرتے تھے۔ بدنصیبی سے یہاں نہ کوئی نانی پالکیوالا، سیروائی و باسو جیسے آئینی ماہر پیدا ہوئے نہ ایسا کوئی نام ججوں میں شمار ہوگا (اگر جان کی امان پاؤں) دراب پٹیل جیسے جج تھے جو اپنی سچائی سے قانون کو پڑھتے تھے مگر تدریس وریسرچ کے اعتبار سے اتنا بڑا کام نہ ہوا جو ہندوستان میں ہوا۔
لفظ اقلیت کے معنی کا تعلق اس روح سے ہے کہ آئین کی نظر میں سب شہری برابر کے حقوق رکھتے ہیں بلاتفریق رنگ ونسل و مذہب و زبان کے۔ مگر کیا یہ سماج میں ایسا ہے؟ تو پھر اس طرح آئین ان پسماندہ گروہ ومذاہب کے لوگوں کو ریکارڈ پر لاتا ہے تاکہ ان کو اور بھی زیادہ تحفظ دے کر دوسروں کے برابر کیا جائے۔ ہمارے آئین میں لفظ اقلیت صرف مذہب کے حوالے سے اس پسماندہ مذاہب کے لوگوں کے لیے ہے، وہ جو زیادہ خطرات کی طرف کھلے ہوئے ہیں اور پھر اس طرح ایسے مذاہب کے لوگوں کو (مثال کے طور پر) دو طریقوں سے ایوانوں تک رسائی کا حق دیا جاتا ہے۔ ایک براہ راست چناؤ تو دوسرا ان کے لیے مخصوص نشستیں وغیرہ وغیرہ۔ سرکاری نوکریوں میں بھی ان کے لیے کوٹہ مقرر کیا جاتا ہے۔
اور اگر اقلیت کرکے ان کو رقم نہیں کیا جائے گا تو خود آئین کے آرٹیکل 25 میں خود آرٹیکل 20 کی نفی ہوگی۔ کچھ اس طرح سے ہوگا کہ تگڑے جسم کی ساخت کے شخص اور ایک کمزور جسم والے کو ایک ساتھ دوڑ میں کھڑا کردیا جائے۔ ہم نے اکثر یہ لفظ سنا ہوگا، Endangered Species یعنی ایسے پرندے وجانور جن کی نسل ختم ہو رہی ہو، تو ان کے تحفظ کے لیے ریاست قانون لاتی ہے اور ان کے شکار پر پابندی عائد کرتی ہے۔
اقلیت اپنی روح میں دراصل برابری کو یقینی بناتا ہے اور یہ اصطلاح بنیادی طور پر آئینی ہے۔ ہاں اس بات میں کوئی غلط بیانی نہ ہوگی کہ سیکولر لفظ آئینی طور پر مبہم نہیں ہے۔ عام مروجہ معنی میں سیاسی و سماجی اعتبار سے مبہم ہے، جب کہ لفظ اقلیت آئینی اعتبار سے بھی جب کہ سیاسی سماجی اعتبار سے بھی اپنے اصل معنی سے بہت دور ہے۔
مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اس ملک خداداد میں جو رسم روا ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،کبھی یہاں گودھرا بھسم ہوتا ہے توکبھی مندر توڑے جاتے ہیں تو کبھی دلت لوگوں کی مسلمان قبرستانوں سے لاشیں نکال کر باہر پھینکی جاتی ہیں۔ اب تو یہ عالم ہے خود مسلمانوں میں بھی اقلیتیں پیدا ہو رہی ہیں اور ان کا بھی قتل روا ہے۔ عورتوں کے ساتھ جو ہوتا ہے وہ بھی آپ پر عیاں ہے۔
بگاڑ یہاں صرف سیکولر لفظ کا نہیں، اقلیت سے لے کر خود کو مسلمان بھی مخمصے میں ہے۔
لفظ اقلیت اور لفظ سیکولر کا چولی اور دامن کا تعلق ہے۔ جب ریاست اورمذہب الگ نہیں تو بے چارہ لفظ اقلیت بھی اجنبی ہے۔ ہندوستان میں جو مسلمان اقلیت یا کوئی اور اقلیت کے ساتھ ظلم ہے وہ ہم سے بھی بدتر ہوگا، مگر ان کے پاس لفظ اقلیت میں کوئی بگاڑ نہیں اور نہ وہاں کے آئینی ماہر ہمارے آئینی ماہرین کی طرح اس پر کنفیوز ہیں اور نہ ان کی فعال و بیدار عدالتیں۔
ان کے یہاں آئین کے بنیادی ڈھانچے میں بھی سیکولر لفظ ایک ستون کی طرح موجود ہے جب کہ ہم اس منزل تک پہنچنے سے کوسوں دور ہیں۔ اقلیت دراصل برابری کے مفہوم کا ایک زاویہ ہے ۔ برابری یہ نہیں جو دکھائی دے کہ سب ایک صف میں کھڑے ہیں۔ برابری کے معنی نسبتاً برابری کمزور کو مضبوط کے ساتھ ایک صف میں کھڑا نہ کرنا دراصل حقیقی برابری کو جنم دیتا ہے ، اسے دگنا تحفظ دے کر صف میں مضبوطی کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا، تاکہ ان پسماندہ لوگوں کو معاشی، تعلیمی، پسماندگی سے نکالا جاسکے۔
یہ ہے وہ روح جس کے لیے لفظ اقلیت آئین کا حصہ بنا۔
اس ملک میں جو عیسائی و ہندو وغیرہ کے ساتھ ہوتا ہے اس کا تعلق لفظ اقلیت سے نہیں یا اس کا آئین کے اندر موجود مفہوم سے نہیں بلکہ سماج کے اندر رواداری کم ہونے سے ہے یا ریاست و مذہب کا ایک ہونے سے ہے۔
ضروری نہیں جس دن آئین بنے اسی دن اس پر عمل بھی ہونا شروع ہوجائے۔ ٹھیک ہے آئین سب کی رضامندی سے بنتا ہے، لیکن وہ خود اپنے راستے متعین کرتا ہے، اس کا ارتقائی عمل ہوتا ہے۔
ہندوستان کے آئین میں کہیں بھی لفظ سیکولر موجود نہیں تھا تا وقت کی 42 ویں امینڈمنٹ جو 1972 میں ہوئی۔ اور وہ بھی اس کی تمہید Preamble میں ترمیم کر کے ڈالا گیا۔ یاد رہے کہ آئین کا Preamble آئین کا حصہ کچھ اس طرح نہیں ہوتا کہ اس کو ذریعہ بنا کے کورٹ سے فیصلہ نہیں لیا جاسکتا۔ مگر ہندوستان کی کورٹ نے اپنے آرٹیکل 25 (جو ہمارے آئین کے آرٹیکل 20 سے مماثلت رکھتا ہے) سے سیکولرزم کو یقینی بنایا یہاں تک کہ اس کو بنیادی ڈھانچے کا اہم ستون بھی بنایا۔
ہمارے ہاں لفظ اقلیت میں مبہمیت ہے اس کا تعلق خود لفظ سیکیولز کی مبہمیت سے جڑا ہوا ہے۔ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کو سہارا بھی دیتے ہیں تو ایک کا کمزور ہونا خود دوسرے کو کمزور بھی کرتا ہے۔
آئیے ہم اس ملک خداداد میں ان الفاظ کے پیچھے پڑے حقیقی رموز سے لوگوں کو آشنا کریں۔ اور ان لفظوںکا تقدس بحال کروائیں۔