یادگار لمحات اولمپیائی کھیلوں کی تاریخ سے کچھ اچھوتی کہانیاں

2009 میں کھیلوں کی ثالثی کرنے والی عدالت نے انھیں عام مردوں کے مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی

2009 میں کھیلوں کی ثالثی کرنے والی عدالت نے انھیں عام مردوں کے مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی : فوٹو : فائل

RAWALPINDI:
اولمپک لمحات کی کہانی، درحقیقت یادگار لمحات کی کہانی ہے۔ ایسی کہانی، جس میں فتح کی خوشی ہے، جیت کا جشن، تازگی ہے، انوکھا پن ہے۔

اولمپک کے یادگار لمحات کی فہرست طویل۔ اسے ذیلی شاخوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس تحریر میں ان واقعات کا جائزہ لیا جارہا ہے، جنھوں نے اولمپکس کی تازگی کو کچھ اور مہکا دیا۔

٭ جب پہلی بار اولمپک پرچم لہرایا گیا!
اولمپکس کی تاریخ تو پرانی ہے۔ ان کھیلوں کا انعقاد 776 قبل از مسیح سے لے کر 393 بعد از مسیح تک، قدیم یونان میں ہوتا رہا۔ یعنی ایک ہزار سے زاید عرصے تک یہ مقابلے جاری رہے۔ پھر بادشاہ تھیوڈوسس نے اسے ''ملحدوں کی تہذیب'' قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کر دی۔ ان کھیلوں کا دوبارہ آغاز 1896 میں ایتھنز میں ہوا۔ اس تقریب کا افتتاح یونان کے بادشاہ جارج اول نے کیا تھا۔

شروع شروع میں اولمپک پرچم لہرانے کا رواج نہیں تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جدت آتی گئی۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب 1920 میں اولمپکس کا انعقاد بیلجیئم کے ساحلی شہر، اینٹ ویرپ میں ہوا، تب 1913 میں ڈیزائن کردہ اولمپک پرچم پہلی مرتبہ فضا میں لہرایا گیا۔ اس پرچم میں چھے رنگ تھے۔ اسی برس پہلی مرتبہ کھلاڑیوں سے حلف لینے کی روایت متعارف کروائی گئی۔

ویسے اس جھنڈے سے ایک کہانی اور جڑی ہے۔ اس مقابلوں میں اولمپک کا یہ پرچم چوری ہوگیا تھا۔ پولیس 77 سال تک چور کو تلاش نہیں کرسکی۔ پھر ایک ضعیف العمر، امریکی ایتھلیٹ Hal Haig Prieste نے انکشاف کیا کہ یہ جھنڈا اس نے مقابلوں کی ایک رات چرا لیا تھا، اور پولیس کو چکما دے کر بیلیجیئم سے فرار ہوگیا تھا۔ جھنڈا حکام کے حوالے کرتے ہوئے 101 سالہ ایتھلیٹ نے یہ درخواست کی کہ جس طرح اس نے جھنڈے کا خوب خیال رکھا، مستقل میں بھی اُسے اسی توجہ سے سنبھالا جائے۔

٭ خلا میں روشنی
اولمپکس کی مشعل کے سفر کو اس کھیل اور اس سے جُڑے تجسس میں نمایاں حیثیت حاصل ہے، مگر نومبر 2013 میں اس سفر میں ایک ایسا سنگ میل آیا، جس کی بابت شاید ماضی میں کسی نے سوچا بھی نہ ہو۔

ہوا یوں کہ دو روسی خلابازوں نے 2014 کے سرمائی اولمپکس کی مشعل کو تھامے خلا میں چہل قدمی کی۔ اور یوں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ مشعل خلا میں تقریباً چھے گھنٹے رہی۔ یہ کارنامہ اولگ کوتوو اور سرگئی ریزنسکی نے انجام دیا تھا۔ روس کے شہر، سوچی میں فروری 2014 کو اولمپک مقابلوں کے شروع ہونے سے پہلے مشعل نے 123 دنوں کے سفر کے دوران 65 ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ قازقستان کے بیکانور خلائی مرکز سے مشعل کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن روانہ کیا گیا، جہاں روسی خلا بازوں نے اس کی خلا میں نمایش کی۔ لاکھوں افراد نے اس واقعے کو اپنی ٹی وی اسکرینوں پر دیکھا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے سال 1996 اور سال 2000 میں اولمپک مشعل کو خلا میں لے جایا گیا تھا، لیکن اس دوران مشعل کو اٹھا کر چہل قدمی نہیں کی گئی۔

اولمپک مشعل کے سفر کا تذکرہ آیا، تو 1936کا ذکر ضروری ہے کہ یہ سلسلہ تب ہی شروع ہوا تھا۔ پہلی مرتبہ اولمپک مشعل ایتھنز سے برلن لائی گئی، اور الائو روشن کرکے کھیلوں کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔ تب سے یہ روایت اولمپک کھیلوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

٭جب ایک خاتون سربراہ نے کھیلوں کا افتتاح کیا
گو خواتین کے حقوق کی جدوجہد پرانی، بالخصوص مغرب میں اس ضمن میں خاصا کام ہوا، عورتوں کا مساوی حق تسلیم کیا گیا، مگر 1896 میں شروع ہونے والے جدید اولمپکس کو ایک خاتون سربراہ مملکت سے افتتاح کے لیے 2012 تک انتظار کرنا پڑا۔ آخر کار دنیا کی اہم سلطنت کی طاقت وَر ترین عورت، برطانیہ کی ملکہ الزبتھ نے لندن میں ہونے والے عالمی مقابلوں کا افتتاح کیا۔ اُن کی انٹری بھی خوب تھی۔ ایک اسٹنٹ خاتون نے ملکہ کے روپ میں، معروف کردار جیمز بانڈ کے انداز میں جہاز سے چھلانگ لگائی، اور اس تاریخی لمحے کو یادگار بنا دیا۔

٭ ایشیا، اولمپکس اور ہیروشیما

1964 میں ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس کئی حوالوں سے اہم تھے۔ ایک تو یہ پہلا موقع تھا، جب ایشیا میں یہ عالمی کھیل منعقد ہورہے تھے، پھر یہ وہی ملک تھا، جہاں فقط دو عشروں قبل امریکا نے ایٹم بم گرائے تھے، اور انسانیت کو کچل ڈالا تھا۔

ٹوکیو میں مقابلے ہوئے، تو ایک یادگار لمحہ ہماری گرفت میں آیا، جب یوشی نوری ساکی نے۔۔۔ جسے ہیروشیما بے بی کے نام سے جانا جاتا تھا کہ اُس کی پیدائش چھے اگست 1945 کو اسی دن ہوئی تھی، جب امریکا نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا تھا۔۔۔ اولمپک مشعل اٹھائی۔ یوشی نوری ساکی کی عمر اس وقت فقط انیس برس تھی۔ وہ جاپان سمیت پوری دنیا کے لیے ایک جذباتی لمحہ تھا۔

٭ برے کھلاڑی کی اچھی قسمت
اگر آپ اولمپکس کے کسی کھیل میں گولڈ میڈل جیتتے ہیں، تو اس کے معنی یہی سمجھے جاتے ہیں کہ آپ ایک باصلاحیت کھلاڑی ہیں۔ مستقبل میں آپ کو گولڈ میڈل حاصل کرنے والے کھلاڑی کے طور پر یاد کیا جائے گا، مگر کچھ کھلاڑیوں کے معاملے میں یہ صلاحیت سے زیادہ قسمت تھی، جس نے انھیں گولڈ میڈل جیتا دیا۔ 2002 میں آسٹریلیا کے نوجوان کھلاڑی Steven Bradbury نے Short track speed skating کے مقابلے میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ حقیقتاً وہ ایک عام سا کھلاڑی تھا۔ آٹھ برس پہلے کے مقابلوں میں اس نے کانسی کا تمغہ ضرور جیتا تھا، مگر پھر اس کی کارکردگی بتدریج گرتی گئی۔ البتہ 2002 میں قسمت کی دیوی اس پر مہربان تھی۔ مقابلے میں وہ خاصا پیچھے تھا، اچانک کھلاڑی آپس میں ٹکرا گئے، اور ایک ایک کر کے گرتے گئے۔ اپنے آگے گرے ہوئے کھلاڑیوں سے خود کو بچانا اور ان کے پہلو سے نکل جانا، یہی اس کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ اور یوں وہ اختتامی لائن پار کرنے والا پہلا کھلاڑی بن گیا، اور گولڈ میڈل کا حق دار ٹھہرا۔

٭ آٹھ ماہ کی حاملہ ایتھلیٹ
2012 کے لندن اولمپکس میں ملائیشیا کی نور سوریانی محمد طیبی نے بھی حصہ لیا، جو آٹھ ماہ کے حمل سے تھیں۔ ان کی آنکھوں میں اولمپکس میں پہلی مرتبہ ہونے والے خواتین کے دس میٹر ایئر رائفل مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتنے کا خواب تھا۔ گو وہ کوالیفیکیشن رائونڈز سے آگے نہ جاسکیں، مگر انھوں نے دنیا بھر کی توجہ ضرور حاصل کرلی۔گو کچھ حلقوں کی جانب سے اُن کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، مگر اس تیس سالہ بحریہ کی سابق افسر نے یہ ثابت کردیا کہ انسان میں جذبہ ہو، تو کچھ ناممکن نہیں۔ دنیا بھر کی خواتین کی جانب سے انھیں قابل تقلید ٹھہرایا گیا۔

٭ ماسکو جانے سے انکار
یوں تو سیاست اور کھیلوں دو علیحدہ شعبے ہیں، مگر جب مقابلے عالمی سطح کے ہوں، تو سیاست کے کھیلوں پر براہ راست اثرانداز ہونے کے امکانات خاصے بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی سرد جنگ کے زمانے میں ہوا، جب دنیا روسی اور امریکی بلاکس میں منقسم تھی۔

1980 کے اولمپکس ماسکو میں منعقد ہوئے، تو ان میں دیگر ممالک کے شرکت کے معاملے نے کئی تنازعات کو جنم دیا۔ 1979 میں سوویت یونین پر حملے کو جواز بناتے ہوئے امریکا نے دیگر ممالک سے ان مقابلوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی، جس پر جاپان، آسٹریلیا، فرانس اور مغربی جرمنی نے عمل کیا، اور اپنے ایتھلیٹس نہیں بھیجے۔ مجموعی طور پر 66 ممالک نے بائیکاٹ اور مختلف وجوہات کو جواز بناتے ہوئے ان مقابلوں میں شرکت نہیں کی، جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔ برطانیہ نے بائیکاٹ کی حمایت کی تھی، مگر بعد میں اس کے ایتھلیٹس نے شرکت کی۔

٭ اولمپکس کا پہلا ٹانگوں سے معذور ایتھلیٹ
اگست 2012 میں لندن میں ہونے والے اولمپکس میں جب جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے پچیس سالہ آسکر پسٹوریس نے مردوں کے چار سو میٹر کے سیمی فائنل مقابلوں میں شرکت کی، تو شکست کے باوجود وہ ایک کارنامہ انجام دینے میں کام یاب رہے۔ آسکر پسٹوریس کی کہانی عز و ہمت کی داستان ہے۔ وہ پیدائشی طور پر دونوں ٹانگوں میں گھٹنوں اور پنڈیلیوں کے درمیان کی ہڈی سے محروم تھے۔ چلنے کی عمر سے پہلے ہی ان کی دونوں ٹانگوں کو گھٹنوں سے نیچے کاٹ دیا گیا۔ پسٹوریس نے مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ چلنا سیکھا۔ انھوں نے اپنے زخموں کو ستارے بنالیا۔ بچپن میں وہ انتہائی پھرتیلے تھے۔ سولہ برس کی عمر میں وہ ایک ایتھیلٹ کے طور پر اپنا نام بنا چکے تھے۔ انھوں نے سنہ 2004 کے ایتھنز پیرا اولمپکس میں دو سو میٹر میں طلائی اور سو میٹر میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔

2009 میں کھیلوں کی ثالثی کرنے والی عدالت نے انھیں عام مردوں کے مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔ یوں وہ2012 کے اولمپکس میں شریک ہوئے۔ 5 اگست کو سیمی فائنل مقابلوں میں آٹھویں پوزیشن حاصل کی، اور یوں وہ فائنل میں پہنچنے میں کام یاب نہ ہو سکے۔ البتہ وہاں موجود ستر ہزار لوگوں نے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ میڈیا نے خصوصی کوریج دی۔

وہ بعد میں بھی خبروں کی زینت بنے رہے۔ 2013 میں انھوں نے گولی مار کر اپنی گرل فرینڈ کو قتل کر دیا۔ اس خبر نے عالمی توجہ حاصل کی۔ انھیں پانچ برس کی سزا ہوئی۔

٭ کرکٹ کے گولڈ میڈل؟
کرکٹ جنوبی کا مقبول ترین کھیل۔ جنوبی افریقا اور غرب الہند میں بھی اس کے کروڑوں مداح۔ آسٹریلیا اور برطانیہ جیسے ممالک میں بھی اس کے بے شمار چاہنے والے، الغرض پوری دنیا میں یہ کھیل مقبول، مگر اولمپک مقابلوں میں یہ کہیں نظر نہیں آتا۔ ایسا نہیں ہے کہ اولمپک مقابلوں نے کبھی اسے درخوراعتنا نہیں جانا۔ جدید اولمپکس کی 120 سالہ تاریخ میں یک بار ایسا ضرور ہوا، جب کرکٹ کو عزت بخشی گئی۔ 1900 میں پیرس میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان ایک میچ کھیلا گیا تھا، تمغے کا فیصلہ اسی بنیاد پر ہوا۔ برطانیہ فاتح ٹھہرا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ میچ کھیلنے والی ٹیموں کو علم نہیں تھا کہ یہ اولمپک کا مقابلہ ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں بیلجیئم اور نیدرلینڈز کو اپنی ٹیمیں بھیجنی تھیں، مگر یہ ممکن نہیں ہوا۔ اس اولمپکس کے بعد کرکٹ کو بھلا دیا گیا۔ شاید وجہ یہ ہو کہ کرکٹ ایک عالمی کھیل نہیں بن سکا۔ پھر یہ تیکنیکی طور پر پیچیدہ ہے۔ وقت بھی بہت لیتا ہے۔ شاید آئی سی سی بھی اس میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ ویسے خبر ہے کہ مستقبل قریب میں کرکٹ کو اولمپکس میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ خبروں کے مطابق 2024 اولمپکس کے لیے پیرس، لاس اینجلس اور بڈاپسٹ کے ساتھ ساتھ روم بھی بولی لگائے گا، اور اگر روم اولمپکس کی میزبانی کرتا ہے، تو کرکٹ کی شمولیت کا واضح امکان ہے۔
Load Next Story