ازدواجی رشتے کی حقیقت اور وقعت
دنیا میں شاید سب سے زیادہ ناپائیدار رشتہ میاں بیوی کا ہی ہوتا ہے جس کے تجربے اور جغرافیے تک پہنچنا ناممکن ہے
دنیا میں شاید سب سے زیادہ ناپائیدار رشتہ میاں بیوی کا ہی ہوتا ہے جس کے تجربے اور جغرافیے تک پہنچنا ناممکن ہے۔ یہ رشتہ اللہ نے کیا خوب بنایا ہے، مضبوط اتنا کے فولاد سے بھی زیادہ اور کمزور اتنا جیسے مکڑی کا جالا۔ نہ جان، نہ پہچان، نہ رشتے داری، نہ ہمسائیگی، دو اجنبی بسا اوقات نکاح کے بعد ایک ایسے رشتے میں بندھ جاتے ہیں کہ زندگی بھر ایک دوسرے کے لیے جیتے ہیں۔
بہن بھائی، ماں باپ، رشتے دار سب سے بڑھ کر یہ رشتہ اہم ہوجاتا ہے، سب ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں بس میاں بیوی رہ جاتے ہیں اور مرتے دم تک یہ بندھن قائم رہتا ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے علیحدگی اور طلاق ہوجائے تو یوں لگتا ہے جیسے کبھی ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں۔ پچھتاوے ہی پچھتاوے!
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ یا بندھن دنیا کا وہ واحد بندھن ہے جس میں ایک ہی انسان سے کئی بار نفرت اور بار بار محبت ہوسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے، ہماری سوسائٹی میں اکیلی عورت رہ نہیں سکتی، بہت سے کتے بھونکتے ہیں ۔ بیشتر میاں بیوی ایسے گھر میں رہتے ہیں جیسے دو راستہ بھولے مسافر ایک کو کہیں اور جانا ہے اور دوسرے کو کہیں اور مگر پھر بھی ساتھ ساتھ بیٹھے رہتے ہیں زندگی کی طویل سڑک پر اپنے اپنے دکھوں کی گٹھڑی لیے۔
کتنی عجیب بات ہوتی ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ بس نہیں آنے والی پھر بھی وہ بس کے انتظار میں رہتے ہیں۔ بعض اوقات پوری زندگی دو وجود میاں بیوی کے نام پر ایک چھت تلے اجنبیوں کی طرح گزار دیتے ہیں۔ میاں بیوی کا تعلق آدھے دوست اور آدھے دشمن کی طرح کا ہوتا ہے۔ دشمن بھی ایسے کہ جان لینے پر تل جائیں اور دوست بھی ایسے کہ جان دینے سے کم پر راضی نہ ہوں۔
عورت کے حوالے سے ایک تلخ بات یہ ہے کہ اس کا اپنا کوئی گھر ہوتا ہی نہیں ہے، جس گھر کو اپنا سمجھ کر بیٹھتی ہے اس گھر کا اصل مالک کوئی اور ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ عورت کی سب سے بڑی کمزوری سونا ہوتی ہے لیکن ہماری دانست میں گھر عورت کی سب سے بڑی خواہش اور کمزوری ہوتی ہے۔ عورت چاہے جس طبقے سے ہو کتنی ہی تعلیم یافتہ ہو کتنی ہی مضبوط ہو مگر شادی کے بعد اس کے شوہر کا رشتہ ہی اس کو معاشرے میں معتبر بناتا ہے۔ عورت جب کسی کے نکاح میں آجائے تو اس کا مرتبہ بڑھ جاتا ہے اور اسے عزت بھی ملتی ہے یہی حقیقت ہے۔ شوہر عورت کو صرف محبت ہی نہیں بلکہ تحفظ اور سائبان بھی دیتا ہے، لہٰذا اسے اس گھر کی قدر کرنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں اب یہ واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں کہ بعض شوہر بیویوں کو مار دیتے ہیں کسی عورت کے لیے اور بیشتر عورتیں اپنے شوہر مروا دیتی ہیں کسی مرد کی خاطر۔ طلاق کی وجہ کوئی بھی ہو نقصان سب سے زیادہ بہرطور عورت کی ذات کو ہی پہنچتا ہے، کیونکہ بیوہ کے لیے ہمارے معاشرے میں ہمدردی ہوتی ہے لیکن طلاق یافتہ کے لیے شک اور بے اعتباری۔ اسی طرح ملازمت پیشہ خواتین کو بھی ہمارے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، اس کی کمائی پر پلنے والے لوگ تک اس پر شک و شبہ کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جن عورتوں کے پاؤں سڑک کو چھو لیتے ہیں وہ نہ بیوی بن کر رہ سکتی ہے نہ گھر کو ٹائم دے سکتی ہے، اسی لیے عام طور پر ہر عورت کو بیاہ دینے پر سارا زور صرف کیا جاتا ہے۔ عورت کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ عورت کی زبان اس کی تلوار ہوتی ہے جس کو وہ کبھی زنگ آلود نہیں ہونے دیتی اور یہ زبان درازی شوہروں کو پسند نہیں آتی لہٰذا میاں بیوی دونوں کو مفاہمت، برداشت اور درگزر سے کام لینا چاہیے، کیونکہ میاں بیوی کا بندھن ہوتا ہی ایسا ہے کہ اسے بار بار گرہ لگانی پڑتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عورت کو ہی اس کی رفوگیری کرنی پڑتی ہے۔
قدرت نے عورت کو بہترین دل اور مرد کو بہترین دماغ سے نوازا ہے، مگر دونوں کا طرز عمل اس کے متضاد ہے۔ عورت ہمیشہ دماغ اور مرد دل استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ دونوں ہی اکثر اپنی کوششوں میں ناکام رہتے ہیں۔ انا، ضد، بحث مباحثہ، عورت یا مرد کسی ایک یا دونوں کی ایک دوسرے سے عدم دلچسپی، یہ سب کے سب ہنستے بستے گھر کو بارود کا ڈھیر بناکر تباہ کردیتے ہیں۔ بعض حالات میں مرد گھر کو بچانے کی سعی کرتے ہیں لیکن ضد اور انا صرف عورت ہی کو نہیں اس کے گھر کو بھی توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ جو عورت اپنا گھر اپنی جگہ خالی چھوڑ کر چلی جاتی ہے وہ خسارے میں رہتی ہے، کیونکہ اس خالی جگہ کو پر کرنے میں مرد کو زیادہ دیر نہیں لگتی۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہر عورت مستحق ہوتی ہے ایک ایسے مرد کی جو اس کی دل سے عزت کرے، اسے محبت و احترام دے اور ہر مرد مستحق ہے ایک ایسی عورت کا جو اس کی تمام تر محنتوں، محبتوں کی قدر کرے، اس کی خوبیوں، اس کی صلاحیتوں کو باقاعدہ سراہے۔ ہر عورت محبت، پیار، وفا اور چاہت کی بھوکی ہوتی ہے لیکن یہ ساری چیزیں سب عورتوں کو نہیں مل پاتیں اور وہ ان سے کوسوں دور رہتی ہیں حتیٰ کہ وہ موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، اور بیشتر عورتیں اتنی بدنصیب ہوتی ہیں کہ اپنے بدن سے اپنی خوشبو تک کھرچ کر پھینک دیتی ہیں اور ساری زندگی پچھتاوے کی بدبو میں سانس لیتی رہتی ہیں۔
اسی طرح بعض مرد بھی مخلص، جاں نثار یا چاہنے والیوں کو جسم پر بدلے جانے والے لباس کی طرح بدلتے اور اتار کر پھینکتے رہتے ہیں اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ اس اتار چڑھاؤ میں خود بے لباس ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ایسے مردوں کو کیا کہا جائے؟ خوش نصیب، ہرجائی یا بدنصیب؟ دراصل مردوں کی اکثریت عورتوں کے دل کے اندر پیدا ہونے والے ننھے منے جذبوں کو کبھی سن نہیں سکتے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ٹیلی فون کے تاروں پر بیٹھے ہوئے پرندے ان کے اندر دوڑتی آوازوں کو نہیں سن پاتے۔
ازدواجی رشتے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ شادی زندگی بھر کا ادھار ہوتی ہے جسے پیار محبت اور خلوص جمع کرکے چکانا پڑتا ہے اور یہ کہ مرد کو غلطی کرنے کے لیے دوسری عورت چاہیے ہوتی ہے اور عورتوں کو دوسرے مرد کا بھروسہ درکار ہوتا ہے، بس یہی طلاق اور دوسری شادی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے کی برہنہ سچائی یہی ہے کہ عورت مرد سے بے وفائی کرے تو عورت ہی رہتی ہے لیکن اگر شوہر سے بے وفائی کرلے تو گالی بن جاتی ہے اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ محبت مرد کی زندگی کا محض ایک واقعہ لیکن عورت کی پوری زندگی کی داستان ہوتی ہے۔ کون نہیں جانتا، کسے نہیں معلوم کہ عورت کا دوسرا نام قربانی ہے، تاہم نفیس مرد ہمیشہ عورت کو محبت سے زیادہ عزت دیا کرتے ہیں کیونکہ محبت کا اظہار ہر وقت نہیں کیا جاسکتا جب کہ عزت ہر وقت مدنظر رکھی جاتی ہے اور عورت محبت کے بغیر ادھوری ضرور ہوتی ہے لیکن عزت کے بغیر عورت، عورت ہی نہیں رہتی۔