بچوں کے اغوا کی بڑھتی وارداتیں والدین نے بچوں کو پارک اورشاپنگ سینٹرزلے جانا کم کردیا
والدین سمیت بچے ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں،لڑکیاں بھی باہر تنہا نکلنے میں خوف کا شکار ہیں، ایکسپریس سروے
کراچی اور پنجاب میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے واقعات نے شہریوں میں خوف کی نئی فضا پیدا کر دی، شہری ابھی دہشت گردی کے خوف سے باہر نہیں نکلے تھے کہ اچانک کراچی میں بچوں کے اغوا کی خبریں پھیلنے سے والدین شدید خوف میں مبتلا ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے واقعات کے طرز کی گونج شہر قائد میں بھی سنائی دینے لگی،جس سے والدین سمیت بچے شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں، شہر میں ہر گھر پربچوں کی گمشدگی کا عنوان ہی زیر بحث رہتا ہے، ہم عمر بچے بھی آپس میں اغوا کار گینگ گروپ کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں جس سے بچوں کے ذہن میں منفی اثر پڑ رہا ہے، جس سے ان کی تدریسی و تفریح سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔
تدریسی میدان میں نمایاں کرکردگی کے لیے کھیل کود بھی لازم و ملزوم ہے جس سے بچوں کی ذہنی نشوونما کے ساتھ جسمانی نشوونما بھی پروان چڑھتی ہیں، خواتین بھی آپس میں گفت وشنید کے دوران ایک دوسرے کو بچوں کے دیکھ بھال کے لیے مشورے دیتی ہیں، بچوں کے والد دفتری اوقات میں گھر پر بچوں کی خبر گیری رکھنے کے لیے متعدد بار فون کرتے ہیں،اس کے علاوہ دیگر اہل و اعیال کی جانب سے بھی بچوں کی خیریت کے لیے فون کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
شہر بھر میں شہر قائد میںمعصوم بچے گھروں تک ہی محصور ہوچکے ہیں، شام کے اوقات میں شہر کے پارک اورگلی کوچوں پر بچوں کی تفریح سرگرمیاں ماند پڑگئی ہیں، شہر بھر کی مارکیٹوں سمیت پبلک مقامات پر بڑوں کے ہمراہ بچے کم ہی نظر آرہے ہیں، اگر گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو تو مجبوراً والدین اپنے ہمراہ بچوں کو باہر لے جاتے ہیں۔ بچے تو بچے لڑکیاں بھی گھر سے باہر تنہا نکلنے میں خوف کا شکار ہیں، گھر والے بالغ لڑکیوں کو بھی تعلیمی اداروں اور دیگر پبلک مقامات پر اکیلے جانے سے منع کرتے ہیں۔
بچوں کے اغوا کے واقعات نے پنجاب حکومت کو بے چینی میں مبتلا کردیا ہے لیکن تاحال سندھ میں اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں اور محکمہ سماجی بہبود کے تحت سندھ بھر میں 12فعال چائلڈ پروٹیکشن یونٹ تو موجود ہیںلیکن ان کی جانب سے پہلے سے گمشدہ بچوں کی بازیابی اور بے گھر بچوں کی بحالی کے حوالے سے کوئی اقدامات نظر نہ آئے، اس کے علاوہ شہر بھر میں مختلف غیر سرکاری تنظیمیں بھی موجود ہیںجو بچوں کے حقوق اور گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لیے بھاری فنڈنگ تو لیتی ہیں لیکن صرف کاغذی کاروائی اور کیمرے کی آنکھ تک ان کی کارروائی محدود ہے،سندھ میں ابھی تک چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی نافذ العمل نہ ہوسکی۔
چند سماجی رہنماؤں کے علاوہ حقوق اطفال کی تمام این جی اوز خاموش ہیں چونکہ محکمہ سماجی بہبود کے تحت رجسڑڈ شدہ این جی اوز کی رجسٹریشن کی منسوخی کا خدشہ ہے، عوام میں خوف اس قدر سوار ہوچکا ہے کہ اگر کوئی شخص بچے سے بات چیت بھی کرتا ہے تو اس کو اغوا کار سمجھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی کراچی میں بچوں کی گمشدگی کی خبریں سرگرم ہیں، جس سے شہریوں میں مزید خوف وہراس پایا جارہا ہے لیکن والدین کو بچوں کی احتیاط لازمی کرنی چاہیے چونکہ بیشتر پولیس تھانوں میں بچوں کے اغوا کی کوشش ناکام بنانے کے کیسز درج ہو چکے ہیں۔
والدین اور تعلیمی اداروں میںپہلے سے ہی سانحہ پشاور طرزکاخوف تھاکہ پنجاب سمیت کراچی میں بچوں کے اغوا کاری کی خبروں کی گردش نے ہیجانی کیفیت طاری کردی ہے، بیشتر والدین بچوں کو اسکول سے خود پک اینڈ ڈراپ کررہے ہیں اور اگر اسکول وین لگائی ہیں تو وین ڈرائیور کو فون میں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے تاکید کرتے ہیں اور اسکول انتظامیہ سے بھی باقاعدہ میٹنگ میں چھٹی کے اوقات میںبچوں کو متعقلہ وین ڈرائیور یا والدین کے ہمراہ روانگی کی ہدایت کی ہے،تعلیمی اداروں میں اساتذہ میں بھی بچوں کی گمشدگی کے حوالے سے گہری تشویش پائی جاتی ہیں وہ بھی بچوں کو جماعت میں اپنا خیال رکھنے کا درس دیتی ہیں،شہر میں ٹیوشن کلچر کا بھی راج ہے شام کے اوقات میں والدین بچوں کو ٹیوشن بھی خود لیکر جاتے اور واپس لاتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے واقعات کے طرز کی گونج شہر قائد میں بھی سنائی دینے لگی،جس سے والدین سمیت بچے شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں، شہر میں ہر گھر پربچوں کی گمشدگی کا عنوان ہی زیر بحث رہتا ہے، ہم عمر بچے بھی آپس میں اغوا کار گینگ گروپ کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں جس سے بچوں کے ذہن میں منفی اثر پڑ رہا ہے، جس سے ان کی تدریسی و تفریح سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔
تدریسی میدان میں نمایاں کرکردگی کے لیے کھیل کود بھی لازم و ملزوم ہے جس سے بچوں کی ذہنی نشوونما کے ساتھ جسمانی نشوونما بھی پروان چڑھتی ہیں، خواتین بھی آپس میں گفت وشنید کے دوران ایک دوسرے کو بچوں کے دیکھ بھال کے لیے مشورے دیتی ہیں، بچوں کے والد دفتری اوقات میں گھر پر بچوں کی خبر گیری رکھنے کے لیے متعدد بار فون کرتے ہیں،اس کے علاوہ دیگر اہل و اعیال کی جانب سے بھی بچوں کی خیریت کے لیے فون کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
شہر بھر میں شہر قائد میںمعصوم بچے گھروں تک ہی محصور ہوچکے ہیں، شام کے اوقات میں شہر کے پارک اورگلی کوچوں پر بچوں کی تفریح سرگرمیاں ماند پڑگئی ہیں، شہر بھر کی مارکیٹوں سمیت پبلک مقامات پر بڑوں کے ہمراہ بچے کم ہی نظر آرہے ہیں، اگر گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو تو مجبوراً والدین اپنے ہمراہ بچوں کو باہر لے جاتے ہیں۔ بچے تو بچے لڑکیاں بھی گھر سے باہر تنہا نکلنے میں خوف کا شکار ہیں، گھر والے بالغ لڑکیوں کو بھی تعلیمی اداروں اور دیگر پبلک مقامات پر اکیلے جانے سے منع کرتے ہیں۔
بچوں کے اغوا کے واقعات نے پنجاب حکومت کو بے چینی میں مبتلا کردیا ہے لیکن تاحال سندھ میں اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں اور محکمہ سماجی بہبود کے تحت سندھ بھر میں 12فعال چائلڈ پروٹیکشن یونٹ تو موجود ہیںلیکن ان کی جانب سے پہلے سے گمشدہ بچوں کی بازیابی اور بے گھر بچوں کی بحالی کے حوالے سے کوئی اقدامات نظر نہ آئے، اس کے علاوہ شہر بھر میں مختلف غیر سرکاری تنظیمیں بھی موجود ہیںجو بچوں کے حقوق اور گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لیے بھاری فنڈنگ تو لیتی ہیں لیکن صرف کاغذی کاروائی اور کیمرے کی آنکھ تک ان کی کارروائی محدود ہے،سندھ میں ابھی تک چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی نافذ العمل نہ ہوسکی۔
چند سماجی رہنماؤں کے علاوہ حقوق اطفال کی تمام این جی اوز خاموش ہیں چونکہ محکمہ سماجی بہبود کے تحت رجسڑڈ شدہ این جی اوز کی رجسٹریشن کی منسوخی کا خدشہ ہے، عوام میں خوف اس قدر سوار ہوچکا ہے کہ اگر کوئی شخص بچے سے بات چیت بھی کرتا ہے تو اس کو اغوا کار سمجھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی کراچی میں بچوں کی گمشدگی کی خبریں سرگرم ہیں، جس سے شہریوں میں مزید خوف وہراس پایا جارہا ہے لیکن والدین کو بچوں کی احتیاط لازمی کرنی چاہیے چونکہ بیشتر پولیس تھانوں میں بچوں کے اغوا کی کوشش ناکام بنانے کے کیسز درج ہو چکے ہیں۔
والدین اور تعلیمی اداروں میںپہلے سے ہی سانحہ پشاور طرزکاخوف تھاکہ پنجاب سمیت کراچی میں بچوں کے اغوا کاری کی خبروں کی گردش نے ہیجانی کیفیت طاری کردی ہے، بیشتر والدین بچوں کو اسکول سے خود پک اینڈ ڈراپ کررہے ہیں اور اگر اسکول وین لگائی ہیں تو وین ڈرائیور کو فون میں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے تاکید کرتے ہیں اور اسکول انتظامیہ سے بھی باقاعدہ میٹنگ میں چھٹی کے اوقات میںبچوں کو متعقلہ وین ڈرائیور یا والدین کے ہمراہ روانگی کی ہدایت کی ہے،تعلیمی اداروں میں اساتذہ میں بھی بچوں کی گمشدگی کے حوالے سے گہری تشویش پائی جاتی ہیں وہ بھی بچوں کو جماعت میں اپنا خیال رکھنے کا درس دیتی ہیں،شہر میں ٹیوشن کلچر کا بھی راج ہے شام کے اوقات میں والدین بچوں کو ٹیوشن بھی خود لیکر جاتے اور واپس لاتے ہیں۔