خاموش آوازیں

امن کاعالمی انڈکس(Global Peace Index) ایک مستنددستاویزہے


راؤ منظر حیات August 22, 2016
[email protected]

KARACHI: امن کاعالمی انڈکس(Global Peace Index) ایک مستنددستاویزہے۔اس میں163ممالک کی امن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔آخری ممالک میں نو مسلمانوں کے ہیں۔ان میں شام، عراق، یمن، افغانستان، لیبیااورپاکستان بھی شامل ہیں۔یہ مقام فکر ہے۔ جذباتیت سے باہرنکل کرغورکیاجائے تووجوہات کو جانچنا مشکل نہیں۔ ہمیں اندورنی دہشتگردی کوسختی سے کچلنا چاہیے بعدازاں ایک پُرامن ملک کی حیثیت سے تمام مسائل کومکالمہ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اقتصادی ترقی کوسامنے رکھ کردنیاسے قدم ملا کر چلناچاہیے۔ایک مضبوط اورتواناپاکستان ہمارے اپنے حق میں ہے مگرجس ذہنیت کے ساتھ ہمیں تشددپسندی کی طرف لے جایاجارہاہے اس کے نتائج ہولناک ہوسکتے ہیں۔

شام پرنظرڈالیے۔اندازہ ہوجائیگاکہ جنگ میں کمزور ترین فریق یعنی بچوں کے حالات کیاہوتے ہیں۔سچ یہ بھی ہے کہ تمام ننھے منے پھول مسلمان ہیں اورانکومسلنے والے بھی مسلمان ہیں۔امن کے عالمی انڈکس میں شام سب سے آخرمیں ہے یعنی163نمبرپر۔پاکستان اسی سیڑھی پر 153نمبرپرہے۔ہم کسی بھی وقت اپنے غیردانشمندانہ رویہ سے آخری نمبرپرجاسکتے ہیں۔ ہماری سوچ میں عدم برداشت اس درجہ کی ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے خودکشی کی استطاعت رکھتے ہیں۔بات امن،جنگ اورعالمی درجہ بندی کی ہورہی تھی۔

شام میں جوکچھ ہورہاہے،اس میں بچوں کے تحفظ کی ایک بین الاقوامی تنظیم(Save Our Children)نے ہزاروںمتاثربچوں کاانٹرویوکیاہے۔ان میںسے اکثر انٹرویوشایع ہوچکے ہیں۔وائل کی عمرچودہ برس ہے۔ایک مہاجرکیمپ میں زندگی گزارنے پرمجبورہے۔وہ تین بھائی تھے۔شام میں خانہ جنگی سے پہلے اچھی زندگی گزاررہے تھے۔پھرایک دم انکاقصبہ جنگ کی زدمیں آگیا۔بچوں کو جنگ کی سنگینی کاکوئی اندازہ نہیں تھا۔سرکاری افواج اورباغی قصبے پرگولہ باری میں مصروف رہتے تھے۔والدہ نے گھرکے صحن میں ایک گڑھاکھودرکھاتھا۔ لمبائی اورچوڑائی اتنی تھی کہ تینوں بچے سکڑکربیٹھ سکتے تھے۔ جیسے ہی خطرہ محسوس ہوتاتھا،والدہ تینوں بچوں کوگڑھے میں اُتارکر اوپر سے بندکردیتی تھی۔

ایک آہنی چادراوراس پرریت۔بچے گھنٹوں اس میں بیٹھنے پرمجبورتھے۔ایک دن تینوں بچے گرفتار کرلیے گئے۔اس بدقسمت دن وہ صبح سات بجے سے لے کرشام پانچ بجے تک چھپے رہے مگرجیسے ہی باہر آئے، انکو پکڑلیاگیا۔جمعرات کادن تھاکیونکہ جمعہ کادن گردن زنی اورسزائیں دینے کے لیے مختص کیاجاچکاتھا۔وائل کے ساتھ چالیس کے قریب اوربھی ایسے بچے قیدتھے۔انھیں ایک پنجرے میں مقیدکیاگیاتھا۔سب سے بدقسمت پھول وہ تھے،جنکے والدیاگھرکے افرادسرکاری یاباغی فوج کومطلوب تھے۔وائل کے مطابق انھی بدقسمت بچوں کاایک تین سال کابچہ بھی تھا۔والدکسی بھی وجہ سے فرارہوچکاتھا۔اب اس کی جبراًواپسی مقصودتھی۔تین سال کے بچے کوعلیحدہ کرکے ایک دائرے میں بندکردیاگیا۔ایک آدمی چھڑی سے وقتاً فوقتاً پیٹتا تھا۔بچے کوتین دن کھانے پینے سے محروم رکھاگیا۔اس معصوم کوکچھ علم نہیں تھاکہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے۔

شروع شروع میں زار و قطار روتا تھا۔ ایک دن کے بعد معصوم بچے میں اتنی قوت تک نہیں تھی کہ آنسو بہا سکے۔ نحیف ہونے کی وجہ سے وقفہ وقفہ سے بے ہوش ہوجاتا تھا۔نازک حالت کے باوجودکسی نے بھی کھانے پینے کی کوئی چیزفراہم نہیں کی۔بچہ آہستہ آہستہ سسکتا رہا اور تیسرے دن مکمل طورپرخاموش ہوگیا۔اس کی لاش جانوروں کے کے لیے باہرپھینک دی گئی۔باپ کے جرم کی سزا اس کے معصوم بچے کوکیوںدی گئی۔ذہن میں کوئی جواب نہیں آتا۔وائل خوش قسمتی سے زندہ بچ گیااورآج اپنے ماں باپ اوربھائیوں کے بغیرایک خیمہ میں زندگی گزاررہاہے۔یہ کیمپ راتاری میں قائم کیاگیاہے۔وہ کہتاہے کہ وہ اندر سے مرچکاہے ایک زندہ لاش ہے۔

ذہنی طورپرکبھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔رذن ایک چالیس سالہ خاتون ہے۔کرک میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہی ہے۔ایک دن سامان خریدنے کے لیے باہرنکلی تواسکاآٹھ سالہ بچہ گلی میں کھیل رہاتھا۔رذن نے لخت جگرکوکھیلتے دیکھاتواکیلی سوداسلف لینے نکل گئی۔ واپسی پر گھرجارہی تھی تواس کے آگے دومسلح لوگ آرام سے چل رہے تھے۔آپس میں بندوق سے نشانہ پکاکرنے کی شرطیں لگارہے تھے۔مذاق میں مصروف یہ بھیڑیے دراصل کسی انسان کی تلاش میں تھے۔جس پرنشانہ لگاکرشرط جیت سکیں۔رذن سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کے معصوم بچے پرنشانہ بازی ہوگی۔معصوم بچہ اپنے انجام سے بے خبرگلی میں کھیل رہاتھا۔رذن نے اسے گھرکے اندرلے جانے کی کوشش کی مگراسے زبردستی روک دیاگیا۔ بچہ خوف سے رونے لگا۔پہلے ایک شخص نے پستول سے فائرکیا۔نشانہ چوک گیا۔

دوسرے نے گولی چلائی جوبچے کی آنکھ میںلگ کردماغ میں گھس گئی۔بچہ تڑپنے لگا۔مسلح اشخاص تالیاں بجانے لگے کیونکہ ان میں سے ایک شرط جیت چکاتھا۔ماں کھڑکی سے سب کچھ دیکھ رہی تھی مگر باہرآنے سے روک دیا گیاتھا۔بچہ لمحوں میں زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھا۔گلی میں اتناخوف تھاکہ معصوم کی لاش اُٹھانے کی ہمت کسی نے نہیں کی۔رذن دوگھنٹے بعدگھرسے باہرآئی اوراپنے لخت جگرکو ہاتھوں سے تھام کربے ہوش ہوگئی۔ہوش آیاتو اکیلی گلی میں اپنے مردہ بچے کے ساتھ پڑی تھی۔پتہ نہیں وہ اسکوتدفین بھی کرپائی یا نہیں مگرآج وہ ایک مہاجرکیمپ میں زندگی گزاررہی ہے۔اسے پاگل پن کے شدیددورے پڑتے ہیں۔کوئی دوائی اوربے ہوشی کاکوئی ٹیکہ مددنہیں کرتا۔رذن ذہنی توازن کھوبیٹھی ہے۔

فرح کی عمرتقریباًسترہ سال ہے۔گھرپرحملہ ہوا اور اسے گرفتارکرلیاگیا۔اسکابھائی باغیوں کے ساتھ مل چکا ہے۔فرح کوقطعاًعلم نہیں تھاکہ بھائی کہاں ہے اورکس حال میں ہے۔فرح کوگرفتاری کے بعدلکڑی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیاگیا۔ ہاتھ اوپرکی طرف باندھ گئے تاکہ تکلیف زیادہ ہو۔اسے بندوق کے بٹ سے خوب پیٹا گیا۔ گھوڑے کی چابک سے پیٹاگیا۔چندگھنٹے کے بعدفرح کو تکلیف ہوناختم ہوگئی۔بے ہوش ہوچکی تھی۔جیسے ہی ہوش میں آتی تھی،اس کے اوپرخوفناک تشددکیاجاتاتھا۔دوبارہ بے ہوش ہوجاتی تھی۔مارنے والوں کوایسے لگاکہ مرچکی ہے۔

فرح کوڈیڑھ دن کے بعدہوش آیاتواس وقت بھی وہ ستون کے ساتھ جانورکی طرح بندھی ہوئی تھی۔قسمت سے اس وقت اس کے نزدیک کوئی نہیں تھا۔فرح کی والدہ اپنی بچی کو واپس لے کرآئی اورپھرپوراخاندان ہجرت پرمجبورہوگیا۔فرح رات کوسوتے ہوئے چلناشروع کردیتی ہے۔اس کے ساتھ موجودلڑکیاں بتاتی ہیں کہ سوتے ہوئے چیخ چیخ کرروتی ہے اورباربارکہتی ہے کہ مجھے مت مارو،مجھے مت مارو۔مجھے میری والدہ کے پاس لے جاؤ۔فرح نے ایک سال سے کسی سے بات نہیں کی۔وہ مکمل طورپرخاموش سی ہوچکی ہے۔ شائدجسم کے گھاؤتوبھرگئے مگرروح کے زخم ابھی تازہ ہیں اوران سے غم رس رہاہے۔

موسیٰ کی عمربارہ سال ہے۔جب ان کے قصبہ پرحملہ ہواتواسکول کے بچوں نے امن کے قیام کے لیے ایک مظاہرہ کیا۔سرکاری یاباغی افواج میں سے کسی نے اس حرکت کودشمنی کے زمرے میں شمار کیا۔مسلح اشخاص اسکول گئے۔ پچاس بچوں کومنتخب کیاگیاان بچوں کوبازارمیں لایاگیا۔ایک آلہ سے ان کے ہاتھوں کے ناخن نکال دیے گئے۔بچے چیخیں مارتے رہے مگرکسی نے رحم نہیں کیا۔پچاس بچوں کے ناخن نکالنے کے بعدانکی انگلیاں توڑدی گئیں۔اس میں ایک دوسال کی بچی بھی شامل تھی۔موسیٰ کے مطابق باغی گھروں پر حملہ کرکے،کھانے کی اشیاء میں ریت ملادیتے تھے اور پھر زبردستی سب کومٹی سے آلودہ کھاناکھانے پرمجبورکرتے تھے۔

نہ کھانے کی سزاموت تھی۔مسلح لوگ ہنس کرایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ اب کس کوقتل کریں۔ذبح نہیں کرتے تھے کیونکہ ذبح کرنے میں وقت ضایع ہوتاتھا۔ سر میں ایک گولی کافی تھی۔سستی اورفوری موت۔موسیٰ کے بقول کئی لوگوں کوقتل کرنے کے لیے چھت سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔چند کوبجلی کے جھٹکوں سے ماراجاتاہے دیگرلوگوں پرسیمنٹ کردیاجاتاہے اوروہ سانس گھٹنے سے مرجاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مارنے والے بھی راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اورقتل ہونے والے بھی۔ شام سے فرارہونے والے ہرگھرکی ایک سی کہانی ہے۔ظلم اوربربریت سے بھرپور،اندوہناک قصے،جنھیں لکھتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے۔

امن کے بین الاقوامی درجہ بندی میں مسلمان ممالک اس درجہ بربریت کے مظاہرمیںکیوں مصروف ہیں۔ اس کا کوئی جواب نہیں۔شائدیہ عقیدہ میں فرق کی لڑائی ہے مگر پھر بھی ان مظالم کاکوئی جوازنہیں۔وہ آوازیں جوجبرسے خاموش کردی گئی ہیں،انکاخون کیارائیگاں چلا گیا! مگر ہمارے لیے صرف ایک سبق ہے اوروہ یہ کہ امن اور تشدد کے بغیرزندہ رہناسیکھیں۔ہمارے ہاں بھی دلیل کی آوازیں نحیف ہوتی جارہی ہیں۔جذبہ جہادعروج پر ہے۔ اس سے پہلے کہ امن کی آوازیں مکمل طورپرخاموش کردی جائیں، اپنے بیرونی اوراندورنی معاملات کودرست کرلینا چاہے۔ ورنہ ہمارے ملک کوشام بننے میں زیادہ دیرنہیں لگے گی!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں