بھارتی مہیلا
امیتابھ بچن نے کہا کہ ’’ہمیں بھارت کو خواتین کے ساتھ زیادتی سے پاک ملک بنانا ہوگا‘‘
امیتابھ بچن نے کہا کہ ''ہمیں بھارت کو خواتین کے ساتھ زیادتی سے پاک ملک بنانا ہوگا''۔ ہندوستان میں صنف نازک کے ساتھ مسلسل ایسے واقعات پر معاشرہ کرب کا شکار ہے، انڈیا میں سیاحت کے لیے جانے والی غیر ملکی خواتین کو بھی محتاط رہنے کا کہا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ٹی وی چینلز پر تو گفتگو میں بھارتی مرد بڑے باادب اور مہذب دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستانی سماج کے اندر یہ کیسا ہیجان پیدا ہوگیا ہے؟ بدمعاش۔
انڈینز کسی بھی مہیلا کو دیکھ کر بے قابو کیوں ہوجاتے ہیں؟ ان کے اندر شیطانیت کا لاوا کیوں ابلنے لگتا ہے؟ ہر معاشرے میں چھیڑ چھاڑ اور آوازیں کسنے کے ہلکے پھلکے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ بھارتی دانشوروں کو اس قدر خوفناک صورتحال دکھائی دے رہی ہے کہ امیتابھ بچن جیسے شخص کو اس پر تیسری مرتبہ کچھ کہنا پڑا ہے۔ وہ مسئلہ بتارہے ہیں لیکن حل بیان نہیں کررہے۔ کیا اس معاملے میں بگ بی اور بھارتی فلم انڈسٹری بھی شریک جرم ہیں؟ بالی وڈ کی عریاں اور فحش فلمیں اس کی کس حد تک ذمے دار ہیں؟ مسٹر بچن کی آنے والی فلم ''پنک'' بھارتی خواتین سے زیادتی کے موضوع پر ہے۔ سینئر وکیل کا کردار ادا کرنے والے سینئر اداکار کی رائے پر ہمارے آج کے کالم کی بنیاد ہے۔
مرد اور عورت کی نفسیات کو سمجھے بغیر ان نازک سوالوں کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرد کی جارحانہ فطرت پر کس طرح قابو پایا جائے؟ کیا کوئی ایسی ترکیب ہے کہ یہ، یہ اور یہ کام کرکے عورت کی نازک فطرت کو طاقتور مرد کی زیادتی سے محفوظ رکھا جاسکے؟ بگ بی کی شدید تمنا ہے کہ بھارت Rape سے آزاد ملک بن جائے؟ ایسی ہی خواہش کا اظہار بے جی پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی بھی کرچکے ہیں۔ صرف بچن کی تمنا سے بھارتی مہیلائیں اپنے سماج کے ظالم مردوں کی زیادتی سے بچ جائیں گی؟ صرف ایڈوانی کی خواہش سے شیطان صفت انڈین مرد سدھر جائیں گے؟ ان سوالوں کا جواب ایک بڑے سے ''نو'' میں ہے۔ کیوں؟ آیئے دیکھتے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے؟
ماڈرن دنیا پہلے مرد اور عورت میں ہیجان پیدا کرتی ہے۔ مخلوط تعلیم اور غیر مہذب لباس کے علاوہ نوجوان لڑکوں اور نوجوان لڑکیوں کو ڈیٹنگ کے نام پر قریب اور پھر قریب تر آنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت اسے فیشن اور تقاضوں کا نام دیتی ہے۔ پہلے یہ چنگاری ہوتی ہے، جیسے فحش ڈرامے اور عریاں فلمیں مشغلہ بنادیتی ہیں۔ ایسے میں اگر ضبط کا بندھن پچانوے فیصد لوگ نہ ٹوٹنے دیں تو پانچ فیصد مردوں کو کون روکے؟ ظالم مردوں کے ہاتھوں کام پر نکلی عورت کو چھیڑ چھاڑ، دھکم پیل، دست درازی اور آوازیں کسنے سے کون روکے؟ قانون۔ جی نہیں۔ اس لیے کہ کمزور قانون مظلوم عورت کے بجائے ظالم مرد کی حمایت پر آمادہ رہتا ہے۔ آیئے پہلے پاکستان کے دو مناظر پر بحث کرتے ہیں اور پھر واپس بھارت کا رخ کریں گے۔
چند روز قبل انٹر کے داخلوں کے لیے فارم جمع کروانے والی طالبات کی تصویر اخبار میں شایع ہوئی۔ بیس میں سے پندرہ طالبات برقعہ میں دکھائی دیتی ہیں، باقی تین کے سر پر بھی دوپٹہ ہے، گویا پچہتر فیصد طالبات مکمل حجاب میں تھیں۔ اگر بھارت کے کسی کالج میں داخلہ لینے والی طالبات کی تصویر ہوتی تو نوے فیصد لڑکیاں جینز اور ٹی شرٹ میں دکھائی دیتیں۔ اسکول کی طالبات کے لباس میں نیکر شامل ہوتی ہے۔ مسلم گھرانوں اور قدامت پسند ہندو سماج کی لڑکیاں گھر سے شلوار پہن کر جاتی ہیں۔ پاکستان کی نسبتاً پرسکون اور بہتر صورتحال کا سبب لڑکیوں کا برقعہ اور مہذب لباس ہے۔
پوزیشن ہولڈر طالبات کی بڑی تعداد حجاب میں ہوتی ہے۔ یہ خواتین کا گھر سے باہر تحفظ ہے۔ غیرت کے نام پر قتل بالکل مختلف معاملہ ہے، جو بھارت کا نہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ ہے۔ اب ہم دوسرے منظر کی جانب آتے ہیں۔ ایک مرد بھاگتے ہوئے بس میں چڑھ گیا۔ وہ خواتین کا کمپارٹمنٹ تھا، جس پر انھوں نے احتجاج کیا۔ مرد نے کہا کہ وہ ہندوستان سے آیا ہے اور اگلے اسٹاپ پر مردوں کے حصے میں چلا جائے گا۔
انڈیا سے آنے والے پاکستان کے اس انداز کو پسند کرتے ہیں۔ ہندوستانی بخوبی جانتے ہیں کہ ایک ہی بس میں اگر مرد اور خواتین کا ایک ہی کمپارٹمنٹ ہو اور رش بھی ہو تو کیا ہوسکتا ہے۔ چھیڑ چھاڑ اور جملے بازی کے واقعات کا اندازہ انڈین ڈراموں اور فلموں سے ہوتا ہے۔ اب بھارتی مہیلاؤں کو بدمعاش ہندوستانی مردوں کی دست درازی سے بچنے کے لیے جوڈو کراٹے کے انداز میں بچاؤ کی ترکیبیں سکھائی جارہی ہیں۔ اچھی بات ہے کہ مریض معاشرے کو دوائی سے کچھ آرام آجائے کہ ضرورت تو آپریشن کی ہے۔ اچھے سماج کی پہلے حفاظتی تدابیر اور پھر علاج کے لیے کوششیں کیا ہوتی ہیں؟ آیئے دیکھتے ہیں:
دلہا دلہن کا تصور بظاہر رومانوی ہوتا ہے۔ شادی کے بندھن میں مرد و عورت کو جکڑنے کے لیے معاشرے نے اسے کچھ گلیمر بھی عطا کیا ہے۔ دونوں سے محبت اور وفا کی امید رکھی جاتی ہے۔ تمام مذاہب اور سماج مختلف انداز میں اس جانب قدم بڑھاتے ہیں۔ گھر معاشرے کا ایک چھوٹا یونٹ ہوتا ہے، یہیں سے خاندان کی تعمیر کے لیے کچھ قانون سازی طے کرتی ہے کہ معاشرہ پرسکون ہوگا یا ہیجان انگیز۔ یہیں سے طے ہوتا ہے کہ کس سماج میں عورت کس قدر محفوظ ہوگی اور کس سوسائٹی میں کس قدر غیر محفوظ۔ خواتین این جی اوز کی طبع نازک پر گراں نہ گزرنے کی خاطر ہم نے پہلے دو مثالیں پاکستانی معاشرے کی دیں، خاندان اور قانون کے حوالے سے اسلام کی پیش بندی پر گفتگو کو بعد میں رکھا ہے۔
رشتوں میں محرم و نامحرم کا تصور خاندانی نظام کو بچانے کی پہلی تدبیر ہے۔ ایک گھر میں قریبی تعلقات کی بنیاد پر رہنے والے مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے لیے حرام قرار دیا گیا، مثلاً ماں بیٹا، باپ بیٹی، بھائی بہن، خسر بہو وغیرہ۔ اس کے بعد حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیتے ہوئے نگاہ، زبان، آواز اور خوشبو کے فتنوں کی نشاندہی کی گئی۔
مناسب لباس کی سفارش کے علاوہ تنہائی میں ملنے کے بارے میں ہدایات دی گئیں، خوامخواہ کنوارا رہنے کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ ان باتوں کو ہم نے ابتدا میں خاندان کے حوالے سے ترغیبات قرار دیا تھا۔ مردوں اور عورتوں کے لیے ممکنہ حد تک الگ الگ ادارے قائم کرنے کو پسندیدہ قرار دیا گیا۔ پہلے مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا اور بعد میں خواتین کو شائستہ رویے رکھنے کی ہدایت دی گئی۔ ان تمام حد بندیوں کے باوجود بھی اگر کوئی نالائق مرد اپنا ہاتھ کسی معصوم خاتون کے دوپٹے تک لے جاتا ہے تو اس کے لیے سزا تجویز کی گئی۔ زنا پر موت کی سزا کی تجویز دینے پر ایل کے ایڈوانی کو ڈاکٹر ذاکر نائیک نے یاد دلایا کہ اسلام نے زانی مرد کو یہ سزا دینے کا حکم ڈیڑھ ہزار سال قبل دیا تھا۔
لبرل پاکستانی مرد اور ماڈرن خواتین نفی میں سر ہلاکر ان دلائل کو ماننے سے انکاری ہوںگے۔ ہیجان انگیزی پیدا کرکے عورت کو ظالم مردوں کے پنجے میں دینے کے بعد سوائے آنسو بہانے کے ان کے پاس کوئی علاج نہیں۔ جب ظالم مرد کی چمڑی ادھیڑنے اور کوڑوں کی سزا کی بات ہو تو یہ اسے بے رحمانہ قرار دیتے ہیں۔ یوں ان کی حمایت مظلومہ کے بجائے ظالم کے حق میں جاتی ہے یہ ہے جدید دنیا کا المیہ۔ یہ ہے بھارت کا المیہ۔
بالی وڈ اپنی اداکاراؤں کے ذریعے ہندوستانی لڑکیوں کو کم سے کم اور چست سے چست تر لباس پہننے پر آمادہ کرتا ہے جب وہ غریب نادان بہکاوے میں آکر امیر اداکارہ کی نقل کرتی ہے تو ظلم کا شکار ہوجاتی ہے، بھارتی دانشور مانتے ہیں کہ خواتین سے بد سلوکی میں بھارتی فلم انڈسٹری کا بھی اہم کردار ہے۔ اہل مغرب کی نقل کرتے ہوئے بھارت میں پہلے حسن کی جلوہ ریزیاں بکھیری جاتی ہیں۔ جب فتنہ خیز اداؤں کو دیکھ کر عشق کا شوق تیز ہوجاتا ہے تو پھر مگر مچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں۔ یوں گوروں سے لی گئی تہذیب جب گاندھی کے دیس میں ہیجان انگیز ہوجاتی ہے تو المیہ کا شکار ہوجاتی ہے ہندوستانی مہیلا۔