یہ پاکستان سب کا سانجھا

انسان سب مخلوقات میں اعلیٰ ہے، اتنا اعلیٰ، اتنا اعلیٰ کہ اﷲ نے اسے اپنا نائب قرار دیا ہے

انسان سب مخلوقات میں اعلیٰ ہے، اتنا اعلیٰ، اتنا اعلیٰ کہ اﷲ نے اسے اپنا نائب قرار دیا ہے۔ دنیا کو بنانے والا، پھر اس کا نظام چلانے والا، اﷲ انسان کو اپنا نائب کہہ رہا ہے تو اندازہ لگالیں کہ انسان کا مقام کس قدر بلند ہے، اعلیٰ و ارفع ہے۔

اﷲ تمام جہانوں کا خالق ہے اور مالک ہے۔ یعنی ایک جہان تو یہ ہے، جس میں ہم آپ رہتے ہیں اور پتا نہیں ایسے ہی کتنے جہان اور ہیں، جن کا خالق و مالک اﷲ ہے۔ وہ جہان کیسے ہیں، ہمیں معلوم نہیں۔ کیا وہاں بھی سمندر اور اونچے اونچے پہاڑ ہیں، دریا ہیں، باغات ہیں، وہاں بھی ہمارے جیسے انسان ہیں یا کچھ اور طرح کے انسان ہیں، یہ ہم نہیں جانتے۔ یہ اﷲ جانے، تو جانے کہ جس نے سارے جہان پیدا کیے ہیں یا پھر اﷲ کے نائبین میں سے وہ بندہ جانے کہ جو عبادت و ارادت کی منزلیں طے کرتا ہوا اس مقام و مرتبے کو پالیتا ہے کہ پھر اسے سارے جہان صاف نظر آنے لگتے ہیں۔

یہ اﷲ کے ولی ہوتے ہیں، یعنی اﷲ کے دوست۔ اﷲ کے یہ دوست فنا فی اﷲ ہوجاتے ہیں، اﷲ کے لیے مٹ جاتے ہیں، فنا ہوجاتے ہیں۔

ایسے اﷲ کے ولی دنیا دار نہیں رہتے۔ سچ ان پر کھل جاتا ہے۔ یہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے، یہ بات ان کی سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہ جان جاتے ہیں کہ ''پل دو پل کے عیش کی خاطر کیا جھکنا کیا دبنا'' آخر سب کو ہے مرجانا، بس سچ کا ساتھ نبھانا۔

مگر یہ ''پل دو پل'' کی زندگی کو ہم بہت طوالت دے لیتے ہیں اور اس طوالت میں بڑے بڑے منصوبے شامل کرلیتے ہیں اور پھر وہ منصوبے ہمیں برباد کردیتے ہیں، تباہ کردیتے ہیں۔ قدم قدم پر ہمیں جھوٹ، مکر، فریب کا سہارا لینا پڑتا ہے اور پھر نتیجہ خرابی ہی خرابی۔

ایک اور بات، کہ دنیا بنانے والے اﷲ نے اپنے نائب یعنی انسان کو رحمانیت اور شیطانیت دونوں صفات سے مکمل آگاہ رکھا ہے اور ایک اور واقعہ بھی بہت ابتدا ہی میں رونما ہوگیا تھا کہ جب خاک کے پتلے کو آگ سے بنے شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا، اﷲ کی حکم عدولی پر شیطان کو نکال دیا گیا مگر جاتے جاتے شیطان نے اﷲ سے کہا کہ میں تیرے مٹی کے پتلوں کو قدم قدم پر بہکاؤں گا، اﷲ نے شیطان سے کہا ''منظور ہے'' اور پھر یہ بھی کہا کہ ''جو میرے بندے ہوں گے وہ ہرگز ہرگز تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔''

بس وہ دن اور آج کا دن! شیطان اپنے کام پر لگا ہوا ہے اور ہم سب اپنے آپ کو ٹٹولیں، گریبانوں میں جھانکیں، سب کچھ ہم پر کھل جائے گا۔ مگر ہم نہ خود کو ٹٹولنے اور نہ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کو تیار ہیں۔ روشن اور اندھیر کی جنگ صدیوں سے جاری ہے اور جاری رہے گی ۔ اسی جاری جنگ میں ''روشنی کے ساتھی'' اور ''اندھیروں کے پجاری'' چل رہے ہیں، روشنی کے راہ رو سچائی کو پالیتے ہیں، سرخرو رہتے ہیں اور اندھیروں کے مسافر اندھیروں ہی میں لتھڑے بھٹکتے رہتے ہیں اور مر کھپ جاتے ہیں ''نہ نام لیوا، نہ پانی دیوا''۔ اور روشنی کے ساتھی مرنے کے بعد بھی روشنی کے قطب مینار بن کر زندہ رہتے ہیں اور حق کی تلاش میں نکلنے والے ان روشنی کے قطب میناروں سے روشنی حاصل کرکے اپنے راستے اجالتے ہیں۔

ہم سب نے اپنے پاکستان ہی میں بڑے بڑے طرم خانوں کو دیکھا ہے۔ کیسا کیسا جاہ و جلال تھا، کیا کیا ان کے خوشامدی تھے، جو دن رات ان کی تعریف و توصیف میں لگے رہتے تھے، کیسے کیسے قصیدے ان کی شان میں لکھے گئے، کس کس طرح کے ان کے مشیر ہوتے تھے جو ان کو غلط عوام دشمن مشورے دے کر بہلاتے رہتے تھے۔


مگر ہم سب نے دیکھا، نہ ان حکمرانوں کا کوئی نام و نشان ہے، نہ ان کے خوشامدیوں کا کچھ اتا پتا ہے، نہ وہ قصیدہ گو شاعر کسی کو یاد ہیں اور نہ ان کے مشیروں کا کہیں ذکر ہے۔ البتہ یہ حکمران اور ان کے کاسہ لیس، تاریخ میں بدنما داغوں کی صورت ضرور موجود ہیں۔ ان کے برعکس، جو لوگ سچ کی تلاش میں محو سفر رہے، وہ سب آج زمانے گزرنے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں بھی زندہ ہیں، تاریخ میں روشن باب کی طرح موجود ہیں اور زمین پر بھی ان کے آخری نشان چمک رہے ہیں۔ لوگ آتے ہیں اور عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔

یہ لوگ یہ حکمران (سابق، موجودہ یا متوقع) یہ خوشامدی، یہ قصیدہ گو، یہ مشیران کرام، آج بھی اپنے ''کام دھندے'' کے ساتھ موجود ہیں۔ وہی ان کی حرکتیں ہیں، اپنے اپنے پارٹی رہنماؤں کے حق میں ''ناحق'' بولے جا رہے ہیں۔ یہ حکمران (سابق، موجودہ یا آس لگائے) اربوں کی جائیدادوں کے مالک ہیں اور ان کے سامنے خلق خدا بھوکوں ترس رہی ہے ۔ بنا دوا اور علاج مر رہی ہے، بچے اسکولوں میں نہیں، گلیوں میں رل رہے ہیں، ان کے غریب ماں باپ کے پاس کھانے کو نہیں، وہ بچوں کو اسکول کیسے بھیجیں۔

یہ ''حالات'' برسوں سے ہیں اور ہمارے سابق حکمران اور ان کے ہمنواؤں کو صرف اپنی سیاست چمکانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔ بالکل یہی صورتحال موجودہ حکمرانوں اور ان کے ہمنواؤں کی ہے، وہ بھی صرف اپنی سیاست کے چکر میں لگے ہوئے ہیں اور حکمرانی کے حصول کے لیے ہمہ وقت سرگرداں ارب پتی رہنما اور ان کے ہمنوا بھی بس اپنی سیاست ہی میں مست ہیں۔

ایسے ہی انسانیت دشمنوں کے لیے بنگالی زبان کے عظیم انقلابی عوامی شاعر قاضی نذرالاسلام نے کہا تھا ''مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ مستقبل مجھے یاد رکھے گا یا نہیں، میری فقط یہ تمنا ہے کہ جو ''لوگ'' خلق خدا کو بھوکوں ترسا رہے ہیں، میرا کلام ان کے لیے پیام موت ثابت ہو۔''

دیکھتے ہو! یہ قصیدہ گو اپنے وجود کے ساتھ ہی غرق ہوجاتے ہیں اور خلق سے پیار کرنے والا قاضی نذرالاسلام یاد رہ جاتا ہے۔ حالانکہ اسے یاد رہ جانے کی پرواہ نہیں تھی، مگر ایسے ''ہیرے موتی'' لوگ ہر زمانے کو ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ باقی یہ اربوں پتی حکمران بھی اپنے پیشروؤں کی صورت ہی گزر جائیں گے، جالب کا شعر ہے:

نشاں تمہارا نہ ہوگا ذرا مرو تو سہی

فرازِ جاہ سے نیچے قدم دھرو تو سہی

یہ ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران، اربوں کھربوں کے مالک اور ان کے ہمنوا بھی ارب پتی، کروڑ پتی۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب جائز ذرایع سے حاصل شدہ سرمائے سے بنائی گئی جائیدادیں ہیں۔ یہ بات ہے، تب بھی اتنی زیادہ جائیداد رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے جہاں اردگرد غریب عوام انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوں، صاف پینے کا پانی، صاف ستھرے گھر، تعلیم، علاج کی سہولتیں نہ ہوں، وہاں یہ دیوہیکل جائیدادیں کیوں؟ انھیں غریب انسانیت کے لیے دے دو، ورنہ یاد رکھو یہ جائیدادیں چھن جائیں گی۔ وقت کی بات سنو اور اسے مانو، یوں تم بھی رہو گے، اور سکھی رہو گے۔ یہاں بھی اور وہاں بھی۔
Load Next Story