دادو شوگر مل مشکوک فروخت کی تحقیقات کیلیے کمیٹی بنانے کی سفارش

مل ساڑھے چار سال قبل9کروڑ میں فروخت ہوئی جبکہ تخمینہ ساڑھے 46کروڑ روپے لگایا گیا تھا


Staff Reporter December 05, 2012
مل ساڑھے چار سال قبل9کروڑ میں فروخت ہوئی جبکہ تخمینہ ساڑھے 46کروڑ روپے لگایا گیا تھا

ساڑھے چار سال قبل دادو شوگر مل کوڑیوں کے مول فروخت کرنے کے معاملے کی تحقیقات کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بالآخر اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دینے حکومت کو سفارش کردی ہے۔

کیونکہ حکومت سندھ اس حوالے سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکی ہے ۔حکومت سندھ کے حسابات برائے 2011-12کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے حکومت سندھ کی کی زیر ملکیت دادو شوگر مل کی فروخت میں سرکاری خزانے کو ساڑھے 37کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا ۔سندھ پرائیویٹایزشن کمیشن (ایس پی سی) نے مل کی مالیت 46کروڑ 52لاکھ روپے مقرر کی تھی، لیکن یہ مل صرف 9کروڑ روپے میں میسرز نوڈیرو شوگر ملز لمیٹڈ کو بیچ دی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ شوگر کارپوریشن (ایس ایس سی ایل) نے 1978میں دادو شوگر مل قائم کی تھی، جس میں 100فیصد سرمایہ کاری حکومت سندھ کی تھی۔

اس مل میں روزانہ 2800ٹن گنا کی کرشنگ کی صلاحیت تھی ، مل کی تنصیب تو ہوگئی لیکن اسے چلایا نہیں جاسکاجس سے حکومت سندھ کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ اس صورتحال میں محکمہ صنعت نے 2002ء میں فیصلہ کیا کہ دادو شوگر مل کو سندھ نجکاری کمیشن (ایس بی سی) کے ذریعے فروخت کردیا جائے ۔ایس بی سی نے مل کی مالیت کا تخمینہ 46کروڑ 52لاکھ 73ہزار روپے لگایا تھا۔ کمیشن نے پریس کے ذریعے 26اگست اور 28ستمبر 2002ء کو پیشکشیں طلب کیں جن کے جواب میں 15کروڑ 60لاکھ کی سب سے زیادہ بولی موصول ہوئی۔

16

کمیشن کی کوششوں کے باوجود مل مطلوبہ قیمت پر فروخت نہیں ہوسکی ، لہٰذا 14جولائی 2005کو کابینہ کی نجکاری کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے ذریعے مل کو نیلام کرایا جائے ۔8ستمبر 2006ء کو عدالت کے حکم پر آفیشل اسائنی مقرر کیا گیا جنہوں نے 10جنوری 2007سے 18اکتوبر 2007تک پیشکشیں طلب کیں ۔ دوبارہ اخبارات کے ذریعے پیشکشیں طلب کیں تو ایک بار پھر 40کروڑ کی سب سے زیادہ بولی موصول ہوئی۔ لیکن دادو شوگر مل میسرز نوڈیرو شوگر ملز لمیٹڈ کی انتظامیہ کو صرف 9کروڑ روپے میں فروخت کردی گئی جو مل کی تشخیص شدہ قیمت 46کروڑ 52لاکھ سے 37کروڑ 52لاکھ روپے کم تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں