ہم کفران نعمت کے متحمل نہیں
کون ہے جو بینظیر صاحبہ کے اُن قاتلوں کے نام نہ جاننا چاہتا ہو جو ابھی تک بے نقاب نہیں ہوئے.
رحمن ملک نے اعلان کیا ہے کہ وہ محترمہ بینظیر کے قاتلوں کے نام 27 دسمبر کو ان کی برسی پر بے نقاب کریں گے۔
کون ہے جو بینظیر صاحبہ کے اُن قاتلوں کے نام نہ جاننا چاہتا ہو جو ابھی تک بے نقاب نہیں ہوئے، بہت سے قاتلوں کے نام حکومت پہلے ہی بتاچکی ہے اور یہ خبر بھی دے چکی ہے کہ وہ سارے کے سارے مارے جاچکے ہیں، لیکن عوام کو اب بھی اُن قاتلوں کے نام جاننے کی خواہش ہے جن کے چہرے نقابوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔
خیر یہ انتظار اب رنگ لانے کو ہے اور 27 دسمبر کو ہمیشہ کے لیے نہ سہی ایک آدھ دن کے لیے ختم ہو جائے گا۔ بس یہ دعا کرنے کی ضرورت ہے کہ فضا یونہی رہے اور ایسا کچھ نہ ہوجائے جس کے نتیجے میں سیاسی بساط لپٹ جائے اور احتساب کا وہ جال بچھ جائے جو دو تین بار جمہوری حکومتوں کو ہٹانے کا بہانہ بنایا جاچکا ہے۔ درمیانی عرصے میں سیاسی بساط الٹ گئی تو قاتلوں کے نام بے نقاب ہونے کی خواہش ایک بار پھر ملتوی کرنی ہوگی۔
کیونکہ ہر طرف احتساب کی پکڑ دھکڑ ہوگی، اس لیے کسی کے پاس نام پیش کرنے کی فرصت ہی نہیں ہوگی اور اگر فرصت ہوگی تب احتساب میلے کی کشش لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے گی اور کسی کو یاد ہی نہیں رہے گا کہ محترمہ بے نظیر کے قاتلوں کے نام رحمان ملک کی پٹاری میں بند پڑے ہیں۔ اس موقع پر رحمان ملک کی کامیابی کی دُعا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ دن بدن خدشات بڑھ رہے ہیں اور لگ رہا ہے کہ سبک رفتاری سے دوڑتی ہوئی انتخاب ایکسپریس کا نام اچانک نام تبدیل ہو کر احتساب ایکسپریس ہو جائے گا اور پھر بحالی جمہوریت کا ایک اور دور بھگتنا پڑے گا ۔ ہمارے ملک میں یہ روایت بالکل ویسی ہی ہے جیسے کسی زمانے میں راولپنڈی سے چلنے والی کراچی ایکسپریس کا نام روہڑی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوتے ہی اچانک سندھ ایکسپریس ہو جاتا تھا۔
سپریم کورٹ نے ریکوڈک کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کی انتہا ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کی انتہا تو ہر روز ہوتی ہے اور جناب رحمن ملک کے اس اعلان کے باوجود ہوتی ہے کہ ہر بار وہ سچ مچ دہشت گردی کی کمر توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران دہشت گردی نہ صرف بڑھی ہے بلکہ اس کے خلاف واویلا بھی بڑھ گیا ہے۔ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ایک اخبار کے مطابق پچھلے ماہ کی نسبت کچھ کم ہوئی ہے۔ لیکن کتنی ؟ مصدقہ رپورٹ تو دستیاب نہیں لیکن کسی نے بتایا ہے کہ پچھلے ماہ 76 آدمی مارے گئے تھے، اس ماہ صرف 75 ، پتہ کرنا چاہیے کہ وہ ایک شخص کون تھا جس نے زندہ بچ کر دہشت گردی کی ایک نفری کی کمی کرا دی اور یہ خوشخبری سنانے کا موقع فراہم کیاکہ ابھی دہشت گردی کی انتہا نہیں ہوئی۔ خیر یہ تو بلوچستان کی '' حوصلہ افزا'' صورتحال ہے۔
کراچی کی صورتحال کہیں زیادہ بدتر ہے۔ جہاں ایک ماہ میں دو سے تین سو کے قریب لاشیں گر جاتی ہیں،ہر روز دس گیارہ لاشیں تو گرتی ہیں ،کسی روز چودہ پندرہ تک نوبت جاپہنچتی ہے۔ حالیہ مہینے گزشتہ چار پانچ برس میں سب سے زیادہ خونریز بتائے جاتے ہیں، کچھ برسوں سے کراچی کی خونریزی میں لسانی مار دھاڑ کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ قتل کا جو اضافہ ہوا ہے، وہ دن بدن ترقی پذیر ہے۔گزشتہ روز کراچی میں ایک اور بڑے عالم دین کا قتل ہوا جس کے بعد شہر میں ہنگائی آرائی ہوگئی۔ اس ہنگامہ آرائی کے تیور بتا رہے تھے کہ ایسا کوئی اور واقعہ ہوا تو فساد زیادہ بڑے پیمانے پر پھیلے گا ۔کراچی ہی میں ایک نیا آتش فشاں جنم لے رہا ہے۔
نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر متحدہ ایک طرف ہے اور باقی سیاسی جماعتیں ایک طرف۔ متحدہ نے نئی حلقہ بندیوں کے معاملے میں جارحانہ انداز اپنا لیا ہے اور عام لوگ سہمے ہوئے ہیں کہ اس معاملے پر بھی سیاسی تشدد بھڑک اٹھا تو نہ جانے کیا ہوگا۔ امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ کراچی اور حیدر آباد میں بلوچستان کا اضافہ بھی کرنا پڑے گا۔ صرف بلوچستان کیوں ، صوبہ خیبر پختون خوا کے بعض علاقے بھی خاصے حساس ہیں ، الیکشن ہوں گے تو سارے ملک میں ہوں گے۔ ایک دو حلقوں کا الیکشن ملتوی کیا جاسکتا ہے لیکن اتنے بڑے علاقوں کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جاسکتا۔
اس لیے ہوسکتا ہے کہ سارے ملک میں بیک وقت انتخابات کرانے کا آئیڈیاحاصل کرنے کی خاطر الیکشن اس وقت تک ملتوی کر ہی دیے جائیں جب تک سارے علاقے '' پرامن'' نہیں ہو جاتے اور اگر یہ کام مشکل ہے تو متحدہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے نئی حلقہ بندیاں سارے ملک میں ہونی چاہئیں اور اس سے پہلے نئی مردم شماری بھی کی جائے۔ اس صورت میں انتخابات کا صرف تین چار سال کیلیے عارضی التوا کوئی زیادہ تعجب خیز نہیں ہوگا۔ ہر روز خبر آ رہی ہے کہ فلاں شخص اتنی کرپشن کر کے باہر بھاگ گیا اور فلاں اتنے ارب لوٹ کر روپوش ہوگیا۔ قومی خزانے کی یہ کھوئی ہوئی امانتیں واپس لانے کا خیال عام آدمی کے لیے اتنا خوش کن ثابت ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر، انتخابات کو تین چار سال کیلیے ملتوی کرانے میں کوئی ہرج نہیں سمجھے گا۔
اُسے کھوئی ہوئی امانتیں واپس چاہیں۔ اُسے یہ حقیقت بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہاں کھوئی ہوئی امانتیں واپس نہیں آتیںاور اگر بالفرض آ بھی جائیں تو کسی اور خاص آدمی کے لاکر میں چلی جاتی ہیں۔ عام آدمی کو اس سے دھیلے کا بھی فائدہ نہیں ہوتا لیکن اس بحث کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ قومی مفاد میں کیے جانے والے فیصلے عام آدمی کی بیٹھک میں نہیں ہوتے۔ یہ وہاں ہوتے ہیں جہاں امن و امان ، دہشت گردی، لوٹ مار، احتساب وغیرہ کے ماڈل کھڑے اور موجود ہوتے ہیں۔ بس ان کی رونمائی کے لیے مناسب فضا کا انتظار کیا جاتا ہے اور یہ مناسب فضا اب وافر ہوتی جا رہی ہے۔ یعنی پرفضا ماحول اور پر فضا ماحول میں کچھ نہ کرنا کفران نعمت ہوگا ۔ ہم ہر گناہ کے مرتکب ہوسکتے ہیں ، کفران نعمت کے نہیں۔
کون ہے جو بینظیر صاحبہ کے اُن قاتلوں کے نام نہ جاننا چاہتا ہو جو ابھی تک بے نقاب نہیں ہوئے، بہت سے قاتلوں کے نام حکومت پہلے ہی بتاچکی ہے اور یہ خبر بھی دے چکی ہے کہ وہ سارے کے سارے مارے جاچکے ہیں، لیکن عوام کو اب بھی اُن قاتلوں کے نام جاننے کی خواہش ہے جن کے چہرے نقابوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔
خیر یہ انتظار اب رنگ لانے کو ہے اور 27 دسمبر کو ہمیشہ کے لیے نہ سہی ایک آدھ دن کے لیے ختم ہو جائے گا۔ بس یہ دعا کرنے کی ضرورت ہے کہ فضا یونہی رہے اور ایسا کچھ نہ ہوجائے جس کے نتیجے میں سیاسی بساط لپٹ جائے اور احتساب کا وہ جال بچھ جائے جو دو تین بار جمہوری حکومتوں کو ہٹانے کا بہانہ بنایا جاچکا ہے۔ درمیانی عرصے میں سیاسی بساط الٹ گئی تو قاتلوں کے نام بے نقاب ہونے کی خواہش ایک بار پھر ملتوی کرنی ہوگی۔
کیونکہ ہر طرف احتساب کی پکڑ دھکڑ ہوگی، اس لیے کسی کے پاس نام پیش کرنے کی فرصت ہی نہیں ہوگی اور اگر فرصت ہوگی تب احتساب میلے کی کشش لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے گی اور کسی کو یاد ہی نہیں رہے گا کہ محترمہ بے نظیر کے قاتلوں کے نام رحمان ملک کی پٹاری میں بند پڑے ہیں۔ اس موقع پر رحمان ملک کی کامیابی کی دُعا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ دن بدن خدشات بڑھ رہے ہیں اور لگ رہا ہے کہ سبک رفتاری سے دوڑتی ہوئی انتخاب ایکسپریس کا نام اچانک نام تبدیل ہو کر احتساب ایکسپریس ہو جائے گا اور پھر بحالی جمہوریت کا ایک اور دور بھگتنا پڑے گا ۔ ہمارے ملک میں یہ روایت بالکل ویسی ہی ہے جیسے کسی زمانے میں راولپنڈی سے چلنے والی کراچی ایکسپریس کا نام روہڑی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوتے ہی اچانک سندھ ایکسپریس ہو جاتا تھا۔
سپریم کورٹ نے ریکوڈک کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کی انتہا ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کی انتہا تو ہر روز ہوتی ہے اور جناب رحمن ملک کے اس اعلان کے باوجود ہوتی ہے کہ ہر بار وہ سچ مچ دہشت گردی کی کمر توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران دہشت گردی نہ صرف بڑھی ہے بلکہ اس کے خلاف واویلا بھی بڑھ گیا ہے۔ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ایک اخبار کے مطابق پچھلے ماہ کی نسبت کچھ کم ہوئی ہے۔ لیکن کتنی ؟ مصدقہ رپورٹ تو دستیاب نہیں لیکن کسی نے بتایا ہے کہ پچھلے ماہ 76 آدمی مارے گئے تھے، اس ماہ صرف 75 ، پتہ کرنا چاہیے کہ وہ ایک شخص کون تھا جس نے زندہ بچ کر دہشت گردی کی ایک نفری کی کمی کرا دی اور یہ خوشخبری سنانے کا موقع فراہم کیاکہ ابھی دہشت گردی کی انتہا نہیں ہوئی۔ خیر یہ تو بلوچستان کی '' حوصلہ افزا'' صورتحال ہے۔
کراچی کی صورتحال کہیں زیادہ بدتر ہے۔ جہاں ایک ماہ میں دو سے تین سو کے قریب لاشیں گر جاتی ہیں،ہر روز دس گیارہ لاشیں تو گرتی ہیں ،کسی روز چودہ پندرہ تک نوبت جاپہنچتی ہے۔ حالیہ مہینے گزشتہ چار پانچ برس میں سب سے زیادہ خونریز بتائے جاتے ہیں، کچھ برسوں سے کراچی کی خونریزی میں لسانی مار دھاڑ کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ قتل کا جو اضافہ ہوا ہے، وہ دن بدن ترقی پذیر ہے۔گزشتہ روز کراچی میں ایک اور بڑے عالم دین کا قتل ہوا جس کے بعد شہر میں ہنگائی آرائی ہوگئی۔ اس ہنگامہ آرائی کے تیور بتا رہے تھے کہ ایسا کوئی اور واقعہ ہوا تو فساد زیادہ بڑے پیمانے پر پھیلے گا ۔کراچی ہی میں ایک نیا آتش فشاں جنم لے رہا ہے۔
نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر متحدہ ایک طرف ہے اور باقی سیاسی جماعتیں ایک طرف۔ متحدہ نے نئی حلقہ بندیوں کے معاملے میں جارحانہ انداز اپنا لیا ہے اور عام لوگ سہمے ہوئے ہیں کہ اس معاملے پر بھی سیاسی تشدد بھڑک اٹھا تو نہ جانے کیا ہوگا۔ امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ کراچی اور حیدر آباد میں بلوچستان کا اضافہ بھی کرنا پڑے گا۔ صرف بلوچستان کیوں ، صوبہ خیبر پختون خوا کے بعض علاقے بھی خاصے حساس ہیں ، الیکشن ہوں گے تو سارے ملک میں ہوں گے۔ ایک دو حلقوں کا الیکشن ملتوی کیا جاسکتا ہے لیکن اتنے بڑے علاقوں کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جاسکتا۔
اس لیے ہوسکتا ہے کہ سارے ملک میں بیک وقت انتخابات کرانے کا آئیڈیاحاصل کرنے کی خاطر الیکشن اس وقت تک ملتوی کر ہی دیے جائیں جب تک سارے علاقے '' پرامن'' نہیں ہو جاتے اور اگر یہ کام مشکل ہے تو متحدہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے نئی حلقہ بندیاں سارے ملک میں ہونی چاہئیں اور اس سے پہلے نئی مردم شماری بھی کی جائے۔ اس صورت میں انتخابات کا صرف تین چار سال کیلیے عارضی التوا کوئی زیادہ تعجب خیز نہیں ہوگا۔ ہر روز خبر آ رہی ہے کہ فلاں شخص اتنی کرپشن کر کے باہر بھاگ گیا اور فلاں اتنے ارب لوٹ کر روپوش ہوگیا۔ قومی خزانے کی یہ کھوئی ہوئی امانتیں واپس لانے کا خیال عام آدمی کے لیے اتنا خوش کن ثابت ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر، انتخابات کو تین چار سال کیلیے ملتوی کرانے میں کوئی ہرج نہیں سمجھے گا۔
اُسے کھوئی ہوئی امانتیں واپس چاہیں۔ اُسے یہ حقیقت بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہاں کھوئی ہوئی امانتیں واپس نہیں آتیںاور اگر بالفرض آ بھی جائیں تو کسی اور خاص آدمی کے لاکر میں چلی جاتی ہیں۔ عام آدمی کو اس سے دھیلے کا بھی فائدہ نہیں ہوتا لیکن اس بحث کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ قومی مفاد میں کیے جانے والے فیصلے عام آدمی کی بیٹھک میں نہیں ہوتے۔ یہ وہاں ہوتے ہیں جہاں امن و امان ، دہشت گردی، لوٹ مار، احتساب وغیرہ کے ماڈل کھڑے اور موجود ہوتے ہیں۔ بس ان کی رونمائی کے لیے مناسب فضا کا انتظار کیا جاتا ہے اور یہ مناسب فضا اب وافر ہوتی جا رہی ہے۔ یعنی پرفضا ماحول اور پر فضا ماحول میں کچھ نہ کرنا کفران نعمت ہوگا ۔ ہم ہر گناہ کے مرتکب ہوسکتے ہیں ، کفران نعمت کے نہیں۔